لیجنڈ اداکار نور محمد لاشاری

جب وہ گاؤں میں تھے تو سائیکل چلاتے تھے کیوں کہ اس زمانے میں بس کی سواری کم تھی اور سائیکل کا استعمال زیادہ تھا

میں جب ایک انگریزی اخبار میں شوبز رپورٹر کے طور پر کام کرتا تھا تو اکثر نور محمد لاشاری سے پی ٹی وی میں کسی نہ کسی ڈرامے کے سیٹ پر ملاقات ہو جاتی تھی۔ مگر مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں ایک ایسی شخصیت سے مل رہا ہوں جس کے خون میں سندھ کا کلچر بسا ہوا ہے اور ان کا انداز گفتگو اور لہجہ محبت کی چاشنی سے رچا ہوا ہے۔ وہ کردار کو اپنے آپ میں سمونے کے لیے حقیقت کے قریب لاتے تھے۔ ایک دن ایک فقیر ان سے کچھ خیرات مانگنے آیا تو وہ اس فقیر کے انداز کو بڑی گہرائی سے نوٹ کر رہے تھے۔

نور محمد لاشاری سے میری ایک ملاقات ان کے گزر جانے سے پہلے ہوئی تھی جب پی ٹی وی کے کچھ فنکاروں نے اپنے معاوضے بڑھانے کے لیے احتجاج شروع کیا ہوا تھا۔ ان میں مجھے جو ذاتی طور پر بات پسند تھی وہ تھا ان کا منہ پر بات کرنا۔ دل میں بات نہیں رکھتے تھے۔ مجھے ان کا ایک سندھی ڈرامہ بڑا پسند آیا جسے مرحوم رزاق مہر نے لکھا تھا جس میں لاشاری نے ٹیچر کا رول ادا کیا تھا اور اس کی بیوی کا کردار روشن عطا نے پرفارم کیا تھا۔ لا شاری جب جنگل شاہی میں ٹیچر تھے تو ایک ٹھیکیدار کے پاس منشی کا کام بھی کرتے تھے ۔ مچھلی کے اس ٹھیکیدار کے پاس کام کرنے سے انھیں مچھیروں سے ملنا پڑتا تھا اور پھر سیہون کے قریب منچھر جھیل وہاں بھی جا کر مچھیروں سے ملتے تھے اور ان کے مچھلی کا شکار، رہن سہن، اٹھنا بیٹھنا، ان کے طور طریقے، ان کے رسم و رواج سب دیکھ چکے تھے جو اسے مچھیرے کے کردار ادا کرنے میں بڑے کام آئے۔لاشاری 1960ء میں ریڈیو پاکستان میں اور پھر بعد میں پی ٹی وی میں Copiest کا کام کرتے تھے کیوں کہ ان کی Hand Writing بڑی اچھی اور صاف ستھری تھی۔ اب انھیں ریڈیو پر ڈراموں میں بھی کام ملنے لگا اور انھوں نے پہلی مرتبہ گلدستہ سندھی پروگرام سے کام کا آغاز کیا۔ ریڈیو پر ان کی زیادہ تر دوستی نیوز کاسٹر کامران بھٹی اور رشید صابر مرحوم سے تھی جس کا گھر ریڈیو پاکستان کراچی کے قریب واقع تھا جس سے ملنے کے لیے لاشاری اکثر جاتے تھے اور سب سے پہلے وہ فلیٹ کے نیچے ففٹی سی سی موٹر سائیکل کھڑی کر کے صابر کو آواز دیتے تھے اور اگر وہ ہوتا تو پھر وہ جا کر ان سے ملتے تھے اور پھر چائے پینے کی فرمائش کرتے تھے۔


ایک مرتبہ لاشاری ایک کلو جلیبی لے آئے اور اسے پلیٹ میں رکھ کر کھا گئے اور پھر کہا کہ انھیں چائے کی پیالی دی جائے جو چینی کے بغیر ہو کیوں کہ اسے شوگر ہے۔ وہ میٹھے کا بڑا شوقین تھے اور شوگر کے مریض بن گئے۔یہ بات بھی کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ لاشاری آرمی میں بھی گئے تھے جہاں سے بھاگ کر آنے پر اسے Deserter بھگوڑا قرار دیا گیا تھا اور تھوڑی سزا پانے کے بعد معاف کر دیے گئے تھے۔ ان کی دو شادیاں تھیں ایک گاؤں میں کی تھی جس سے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئی تھیں۔ دوسری انھوں نے اپنی پسند سے کی تھی جس کا بھی انتقال ہو چکا ہے اس کے بیٹوں میں صرف ایک بیٹا گل محمد جو ڈراموں میں کام کر چکے ہیں اور بڑے ہو کر فن کی دنیا سے الگ ہو گئے۔ لاشاری کی والدہ مکرانی تھیں اور انور اقبال جو فنکار ہیں وہ ان کے بھانجے ہیں۔ اس لیے نور محمد کراچی میں جب آئے تو لیاری میں رہائش اختیار کی۔ وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا کراچی میں وہ ایک ٹیکسٹائل مل میں بھی ملازمت کر چکے تھے۔ان کی زندگی کا ایک سچا اور انوکھا واقعہ جو وہ خود بتاتے تھے کہ ایک مرتبہ ایک فلم کی شوٹنگ میں ایک سین جو حقیقت میں بدل رہا تھا اور وہ مرتے مرتے بچے، انھیں پھانسی دینی تھی اور جب سین ریکارڈ ہونے لگا تو پھندے کو روکنے والی رسی کھل گئی اور پھندا اس کے گلے میں آنا شروع ہوا۔ ان کی سانس رک رہی تھی اور ڈائریکٹر اور دوسرا عملہ تالیاں بجا رہا تھا کہ کیا پرفارمنس ہے۔ مگر جب ان کی حالت خراب دیکھی تو پھر بھاگ کر اسے اٹھایا اور وہ کافی دیر تک بے ہوش پڑے رہے۔

انھوں نے دو درجن سے زیادہ سندھی اور اردو فلموں میں کام کیا ہے، سندھی اور اردو ٹی وی ڈراموں میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔ انھیں 1993ء میں صدر پاکستان محمد اسحاق خان نے صدارتی ایوارڈ سے نوازا تھا۔ جب پی ٹی وی دستاویزی فلم ''دنگی منجھ دریا'' کو بین الاقوامی ایوارڈ سے نوازا گیا تو لاشاری کو بھی وہاں جانا تھا مگر ان کا ایکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے ٹانگ میں فریکچر ہو گیا تھا اور وہ نہیں جا سکے۔ لاشاری نے ٹی وی اسٹار انور اقبال کی بنائی ہوئی پہلی بلوچی فلم '' حمل و ماہ گنج'' میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ فلم بوجوہ سینماؤں کی زینت نہیں بن سکی۔لاشاری بڑے ہنس مکھ تھے اور لطیفے سننے اور سنانے کے بڑے شوقین تھے۔ اس کی طبیعت میں ایک مزاح تھا مگر اس نے اکثر Sad کردار ادا کیے ہیں۔ انھیں کتابیں پڑھنے کا بڑا شوق تھا اور خاص طور پر ڈائجسٹ بڑے شوق سے پڑھتا تھا جسے وہ لائبریری سے کرائے پر لاتے تھے اور جب تک اسے ختم نہیں کرتے سوتے نہیں تھے۔ اس کی اداکاری سے سیاست دان، بیوروکریٹس بھی متاثر تھے اور جب بھی وہ کسی کام سے کسی کے پاس جاتے تو اس کی بڑی عزت کی جاتی تھی۔ اس عزت اور احترام کے تحت اس کے گاؤں کو بجلی جلد فراہم کی گئی۔ اس کے علاوہ جب برصغیر کے بڑے اداکار دلیپ کمار پاکستان آئے تو اس سے ملنے والوں میں لاشاری بھی شامل تھے۔ اس کو فن سے اتنی محبت تھی کہ وہ ہر کردار میں ڈوب جاتے تھے اور اس شوق کی خاطر انھوں نے تدریس سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس کے علاوہ وقت پر ریکارڈنگ پر پہنچنے کے لیے ایک موٹر سائیکل بھی خرید لی۔

جب وہ گاؤں میں تھے تو سائیکل چلاتے تھے کیوں کہ اس زمانے میں بس کی سواری کم تھی اور سائیکل کا استعمال زیادہ تھا۔ اس کو مچھلی کھانے میں پسند تھی اور وہ کوکنگ کے بڑے شوقین تھے میٹھے کا استعمال ان کے لیے ناگزیر تھا۔نور محمد لاشاری 24 اکتوبر 1931ء میں کوٹ لعل گاؤں میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام فیض محمد لاشاری تھا۔ انھوں نے پرائمری تعلیم قریبی گاؤں سے حاصل کی اور پھر سندھی فائنل کا امتحان پاس کرنے کے بعد ٹیچر بن گئے۔ اس دوران انھوں نے ادیب فاضل کا امتحان بھی پاس کیا۔ عشق میں دوسری شادی کرنے کے بعد دشمنی ہو جانے سے وہ کراچی چلے آئے۔ مسلسل کام کرنے سے اور کھانے پینے میں احتیاط نہ برتنے سے انھیں شوگر اور ہیپا ٹائٹس ہو گئی۔ ان بیماریوں سے پھر بھی لڑتے رہے، مگر آخر کار 1997ء میں وہ اس دنیا سے چل بسے، ان کی آخری آرام گاہ منگھو پیر قبرستان میں ہے۔ ان کے ساتھ زیادہ تر کام کرنے والوں میں مشتاق جسکانی، انور سولنگی، شہزادی، روشن عطا، قربان جیلانی، غزالہ رفیق وغیرہ شامل رہے ہیں۔ اسے پی ٹی وی میں لانے والے عبدالکریم بلوچ تھے۔
Load Next Story