شنگھائی تعاون تنظیم اور پاکستان

پاکستان جن حالات کا شکار ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کے اندر سیاسی استحکام پیدا کیا جائے

پاکستان جن حالات کا شکار ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کے اندر سیاسی استحکام پیدا کیا جائے۔ فوٹو: اے پی

شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا ہے کہ دنیا میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں تباہ کن ہیں اور پاکستان حالیہ سیلاب کی صورت میں ان اثرات کا خمیازہ پاکستان بھگت رہا ہے،اس آفت سے سب کو مل کرلڑنا ہوگا۔

وزیراعظم پاکستان نے سنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں جو کچھ کہا ہے کہ اس کی تصدیق گزشتہ دنوں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیوگوتریس بھی کر چکے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صنعتی آلودگی کی قیمت دنیا بھر کے غریب ملک ادا کررہے ہیں اور اس کی حالیہ مثال پاکستان میں آنے والا سیلاب ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مزید کہا پاکستان میں حالیہ سیلاب سے ایک ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جب کہ لاکھوں لوگ بے گھر اورمتعدد لاپتہ ہوئے ہیں، مویشی، فصلیں، بستیاں اور شہر متاثر ہوئے ہیں۔ کسی بھی ملک میں سیلاب سے اتنی تباہی نہیں آئی جتنی پاکستان میں حالیہ سیلاب کے نتیجے میں آئی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ آفت اور تباہی پاکستان کے لیے آخری ہوگی یا دیگر ممالک کو بھی ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔پاکستان میں اس وقت سیلاب اور بارش کا پانی جگہ جگہ موجود ہے جس کے باعث ملیریا، ڈینگی اور دیگر بیماریاں جنم لے رہی ہیں، سیلاب متاثرین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، دنیا کو ہماری مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا ہمارے درمیان موجود کچھ ممالک نے سیلاب متاثرین کی بہت مدد کی ہے جس پر میں ان کا شکرگزار ہوں لیکن ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کرنے ہوں گے، شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس علاقائی مسائل کے حل کے لیے بہترین فورم ہے۔

اس میں کوئی شک کہیں ہے کہ عالمی برادری کو موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان کی بھرپور مدد کرنی چاہیے۔ حالیہ سیلاب میں بھی عالمی برادری نے پاکستان کی مدد کی ہے تاہم نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ پاکستان کو مزید مالی امداد کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کی معیشت پہلے ہی بحران کا شکار ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیراعظم پاکستان نے علاقائی صورت حال کے حوالے سے بھی گفتگو کی۔ خاص طو رپر افغانستان کے تناظر میں انھوں نے کہا پاکستان کا امن افغانستان میں امن سے جڑا ہے، خوشحال، ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ افغانستان خطے کے تمام ممالک کے لیے اہم ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغانستان کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، اس موقع پر افغانستان کو نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہوگی۔

انھوں نے کہا اگر ہم خطے میں پائیدار امن چاہتے ہیں تو ہمیں افغانستان کے عوام کی بہتری کے لیے وہاں تعلیم، صحت، کاروبار، زراعت سمیت تمام شعبوں میں ہونے والے تمام مثبت اقدامات کی حمایت کرنی چاہیے۔وزیراعظم نے افغان حکومت پر بھی زور دیا کہ وہ اپنے ملک میں عوام ،اقلیتوں اور خواتین کے بنیادی حقوق کا احترام کرے۔ افغانستان میں قیام امن پاکستان کی نہیں بلکہ وسطی ایشیا کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے وہاں کے اقتدار پر قابض حکومت کو بھی اپنے عمل سے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ واقعی اقوام عالم کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو ابھی تک کسی نے تسلیم نہیں کیا، اس کی بھی بنیادی وجہ یہی ہے کہ طالبان تاحال دنیا کو یہ پیغام نہیں دے سکے کہ وہ افغانستان میں شخصی آزادیوں کے قائل ہیں۔

وزیر اعظم نے شنگھائی تعاون تنظیم کے نئے اسٹرٹیجک پارٹنرز بشمول سعودی عرب، ترکی، بحرین، قطر، میانمار اور دیگر کو تنظیم میں خوش آمدید کہا اور اس توقع کا اظہار کیا کہ یہ تنظیم مزید مضبوط ہوگی۔ ازبکستان کے تاریخی شہر سمرقند میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں رکن ممالک نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے پیرس معاہدے پر عملدرآمد پرزوردیا ہے۔


اعلامیے میں رکن ممالک نے مقامی کرنسیوں میں باہمی تجارت بڑھانے پربھی اتفاق کیا ہے۔تنظیم کے رکن ممالک نے توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے اورباہمی انفرا اسٹرکچر بہتر بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔رکن ممالک نے گلوبل انرجی کی نگرانی کا شفاف نظام بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اعلامیہ میں تجارت اورسرمایہ کاری محدود کرنے کے لیے موسمیاتی ایجنڈے کا استعمال ناقابل قبول قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے زبردستی کے اقدامات تعاون کونقصان پہنچاتے ہیں اور موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت کو کمزورکرتے ہیں۔ماحولیاتی تبدیلی کے منفی نتائج کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو حالیہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک ملک بھر میں اموات کی مجموعی تعداد 1545 تک پہنچ گئی ہے۔ ادھر یہ اطلاع بھی اطمینان بخش ہے کہ سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں پانی کی سطح میں کمی ہونا شروع ہو گئی ہے۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق جمعے کو صوبہ سندھ کے کچھ حصوں میں زندگی معمول پر آنے کے آثار نظر آئے ہیں کیونکہ پانی کی سطح ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔ محکمہ موسمیات پاکستان اور9 ممالک کی مشترکہ تحقیقی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جس کے مطابق مستقبل میں مون سون کی بارشیں مزید شدت اختیار کریں گی اور پاکستان میں آیندہ مون سون زیادہ خطرناک ہونے کا خطرہ ہے۔

پاکستان میں نقصانات کی وجوہات میں ناقص دریائی مینجمنٹ سسٹم، غیرقانونی آباد کاری اور معاشی عدم استحکام شامل ہے۔ درجہ حرارت 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھنے سے بارشیں 50 تا 75 فیصد زیادہ ہوئیں، مستقبل میں درجہ حرارت مزید بڑھنے پر بارشیں کئی گنا زیادہ شدید ہوسکتی ہیں اور آیندہ اگست کے 5 دن مون سون بارشوں کا بلند سطح تک رحجان جاسکتا ہے۔ عالمی ماہر موسمیات جیسن نکولس کا کہنا ہے کہ ستمبر کے آخر میں پاکستان میں موسلادھار بارش کے امکانات کم ہیں۔رواں سال پاکستان میں مون سون کے اختتام میں ایک یا دو ہفتے کی تاخیر متوقع ہے۔ پاکستان اور شمال مغربی بھارت میں مون سون کا اختتام 17ستمبر سے ہوتا ہے۔

پاکستان میں سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں مزید ایک کروڑ 54 لاکھ باشندے غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ یہ بات عالمی بینک نے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے ابتدائی جائزے میں کہی۔ ادھر عالمی بینک کے مطابق سیلاب کے نتیجے میں پاکستان کا بجٹ خسارہ بڑھ کر 2 اعشاریہ 8 فیصد تک ہوسکتا ہے جب کہ رواں مالی سال کے دوران معاشی نمو کی شرح 1 اشاریہ 4 اور 2 اعشاریہ 4 فیصد کے درمیان رہے گی اور پاکستان عالمی مالیاتی فنڈز کے طے کردہ پروگرام سے وابستہ رہتا ہے تو معیشت کا پہیہ رک بھی سکتا ہے۔ حکومتی ذرایع کے مطابق عالمی بینک نے یہ جائزہ رپورٹ وزارت منصوبہ بندی و ترقی اور وزارت معاشی امور کو پیش کی ہے۔

حکومت پاکستان کا دعوی تھا کہ سیلاب کے نتیجے میں معیشت کو 40 ارب ڈآلر کے مساوی نقصان ہوا ہے تاہم عالمی بینک نے اپنے ابتدائی جائزے میں نقصان اور تباہی کا مکمل تخمینہ پیش نہیں کیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیلاب کا لوگوں کی زندگیوں پر گہرا اثر پڑا ہے اور خدشہ ہے کہ ملک میں غربت کی شرح میں 4 اعشاریہ 5 فیصد سے 7 فیصد تک اضافہ ہوگا جس کے نتیجے میں مزید تقریبا ڈیڑھ کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جاسکتے ہیں۔

عالی بینک کا کہنا تھا کہ سیلاب کا معیشت کا کیسا اثر ہوگا اس کا انحصار حکومتی پالیسی ردعمل پر ہے اور لوگوں کی بحالی کے لیے بہتر اخراجات سے اس نقصان کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے تاہم اس سال معاشی ترقی کی رفتار ایک اعشاریہ 4 سے 2 اعشاریہ 4 فیصد کے درمیان رہے گی جو گزشتہ مالی سال کے دوران 6 فیصد تک تھی۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں زرعی شعبے زیادہ متاثر ہوگا اور سالانہ پیداواری شرح 1 سے 2 اعشاریہ 6 فیصد کے درمیان رہے گی جو گزشتہ مالی سال کے دوران 4 اعشاریہ 4 فیصد تھی۔

پاکستان جن حالات کا شکار ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کے اندر سیاسی استحکام پیدا کیا جائے، ملک کی سیاسی قیادت کو اس وقت انتہائی ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ باہمی لڑائی جھگڑے سے ملک کو مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ عالمی برادری بھی اسی وقت پاکستان کے ساتھ کھڑی ہو گی جب اسے معلوم ہوگا کہ پاکستان میں سیاسی استحکام موجود ہے۔ ایسے موقع پر جارحانہ سیاسی رویے ملک اور قوم کی خدمت نہیں ہیں، سیاسی قیادت کو اپنے گروہی مفادات سے نکل کر ملکی مفادات کے حوالے سے سوچ اپنانی چاہیے تاکہ پاکستان سیلاب کی حالیہ تباہ کاریوں سے عہدہ برآ ہو سکے اور پاکستان کے عوام ترقی کی دوڑ میں اقوام عالم کے ساتھ شانہ بشانہ چل سکیں۔
Load Next Story