نا قدری
اس قوم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ جو اس قوم کے لیے اپنی توانائیاں، مشکلات کو برداشت کرنے کا عزم ہمت حوصلہ دکھاتا ہے
ہم بحیثیت قوم ایک ناقدری قوم ہیں کیونکہ نہ تو ہم اپنے عظیم قائد کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح جو کہ ہماری مادر ملت بھی تھیں ان کی قدر کرسکے، انھیں قائداعظم کی وفات کے بعد کن کن کٹھن حالات سے گزرنا پڑا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں نہ ہی ہم اپنے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے قاتلوں کو تلاش کرسکے، نہ ہی وہ محرکات تلاش کرسکے جس کی وجہ سے وطن عزیز اور اس میں بسنے والوں کو اتنے بڑے سانحے سے گزرنا پڑا۔
دور حاضر کے بعض ایسے بے قدرے لوگ تھے جنھوں نے باقاعدہ اپنے تبصروں میں قائداعظم کے بارے میں اپنے منفی خیالات کا اظہار انتہائی بدترین زبان میں کیا۔ اچھائی کبھی کسی کی رائیگاں نہیں جاتی وہ طلوع آفتاب کی طرح چمکتی ہے اور صرف ان لوگوں کو نظر آتی ہے جنھیں خدا نے بصیرت عطا کی ہو۔
ہمارے جذباتی اختلافات کتنے ہی کیوں نہ ہوں وہاں ہم اختلاف کی حامل شخصیات، عوامل کو بھی سراہنے اور ان کی اچھائی کی کھلے دل سے پذیرائی کا ہنر بھی بخوبی جانتے ہیں۔ حال ہی میں ہمارے پڑوسی ملک میں ایک غریب گھرانے کی مصائب میں گھری ، انسانیت کا درد رکھنے والی خاتون صدر کا تقرر ہوا۔ یہ سنتھال قبیلہ کی ایک خانہ بدوش عورت ہیں ، یہ قبیلہ ہندوستانی ریاست جھاڑ کھنڈ اور مغربی بنگال میں بڑی تعداد میں آباد ہے۔ اس قبیلے کی شہرت کی ایک وجہ یہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہونا ہے، اس قبیلے کی عورتیں لال کناروں کی ساڑھیاں پہنتی ہیں۔ اس کے رہنے والے درخت کے پتوں اور چھالوں سے دریاں ، باسکٹ اور آلات موسیقی بناتے ہیں جو ان کا ذریعہ معاش بھی ہے۔
صدر دروپدی مورمو کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے وہ 20جون 1958 کو اوڑیسا میں پیدا ہوئیں ، انتہائی غربت کے عالم میں انھوں نے اپنا بچپن گذارا۔ پرائمری تک تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی اور پھر آگے تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنا قبیلہ چھوڑ کر ایک ہاسٹل میں قیام کرنے لگیں ، دوران رہائش انھوں نے میٹرک پاس کیا پھر راما دیوی ویمن کالج سے گریجویشن مکمل کی اور جلد ہی انھیں روزگار مل گیا ، لیکن ان کی تشنگی یہاں پوری نہ ہوسکی اور انھوں نے جاب چھوڑ کر بلا معاوضہ ایک اسکول میں تدریس شروع کردی۔ ان کی تدریس سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی طالبعلم کسی مضمون میں کمزور ہوتا تو وہ شام کو اس سے اپنے گھر بلا لیتیں اور گھنٹوں اس کی اس کمزوری کو دور کرنے میں صرف کرتیں اپنی انھی خصوصیات کی وجہ سے وہ جلد ہی ایک معزز استانی کا رتبہ پا گئیں ، آپ کے دل میں خدمت انسانی کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا اور یوں آپ نے فلاحی کاموں کا آغاز بھی کردیا۔
1997میں آپ کونسلر منتخب ہوئیں جہاں انھوں نے اپنے فرائض کو بہترین انداز سے نبھایا آپ اپنے ماتحت کی جانچ کو کافی نہیں سمجھتیں بلکہ ازخود اس کی تصدیق کرتیں ،آپ کے خدمت خلق کے جذبے کی تسکین بس یہاں مکمل نہیں ہوئی بلکہ کچھ عرصے بعد صوبائی الیکشن آئے تو وہ چناؤ کے لیے کھڑی ہوئیں اور ایک ناقابل یقین کامیابی سے ہمکنار ہوئیں ، اپنے اسی جذبے اور شوق خدمت انسانی کی وجہ سے۔ ممبر اسمبلی بنتے ہی ان کی اڑان میں پر لگ گئے اور یوں آپ نے بہت شاندار خدمات بھی انجام دیں اور بہت مختصر عرصے میں عوام الناس کے دلوں میں گھر کر لیا ۔
اس دوران ان کی ذاتی زندگی میں2009 میں ایک انتہائی درد ناک موڑ آیا کہ ان کا پچیس سالہ بیٹا فوت ہوگیا ایک ماں کے لیے اپنی اولاد کی موت کا صدمہ برداشت کرنا انتہائی ناممکن اور اذیت ناک ہوتا ہے جس نے ان کو بالکل توڑ کر رکھ دیا مگر اس عظیم خاتون نے کسی نہ کسی طرح خود کو سنبھالا مگر ابھی اس کے امتحان اور بھی باقی تھے۔ اس سانحہ کے تین سال بعد اس کا دوسرا بیٹا بھی مر گیا اور کچھ ہی دن گذرے کہ ان کی ماں بھی چل بسیں اور پھر ایک بھائی بھی گذرگیا۔ ایک کے بعد ایک سانحے نے ان کو ہلا کر رکھ دیا ، یہی نہیں کچھ دنوں بعد پے در پے صدمات کی وجہ سے ان کی زندگی کا واحد سہارا ان کا شوہر بھی فوت ہوگیا اور دروپدی انتہائی دکھ صدمے کی کیفیت میں آگئیں مگر اس نے اپنے آپ کو بکھرنے نہیں دیا بلکہ اپنے تمام غموں کو درد کو خدمت انسانی میں ڈھونڈ لیا اور ایک نئے جوش و ولولہ کے ساتھ انسانیت کی خدمت سے جڑ گئیںان کے صبر کو دیکھ کر قدرت بھی ان پر مہربان ہوگئی اور 2014 میں وہ جھاڑ کھنڈ کی گورنر منتخب ہوئیں۔
اس منصب پر فائز ہوتے ہی انھوں نے عوام کی ایسی خدمت کی کہ اپنے گزشتہ تمام خدمت کے ریکارڈ توڑ دیے۔ آپ خواتین کی تعلیم و ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش میں لگی رہتیں، اس کے لیے ہر ممکن فنڈز جاری کرتیں اور ان کو زندگی میں آگے بڑھنے کی بھر پور تلقین کرتیں۔ آپ نے اپنے عزم ، ہمت ، حوصلے ، جرات ، صبر و استقامت اور جذبہ خدمت سے عوام الناس کے دلوں میں ایک مضبوط اور منفرد مقام بنایا اور اس طرح 21جولائی2022ء کو ہندوستانی عوام نے ایک بنجارن خاتون کو صدر کے عہدے پر منتخب کیا اور یوں زندہ قوموں کی ایک ہمیشہ یاد رکھنے والی حقیقی تاریخ رقم کی۔
اس قوم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ جو اس قوم کے لیے اپنی توانائیاں ، مشکلات کو برداشت کرنے کا عزم ہمت حوصلہ دکھاتا ہے ،یہ قوم اس کا صلہ اس کو ضرور دیتی ہے جس کی مثال صرف دروپدی مورمو ہی نہیں بلکہ ڈاکٹر اے پی جے ابوکلام بھی ہیں جو مسلمان تھے لیکن اس قوم نے ان کی خدمات کے سبب انھیں انتہائی اہم منصب پر فائز کیا اور یہی نہیں ان کی انتم یاترا میں اس قوم کا ہر بڑا عہدیدار شریک ہوا ان کی خدمات کو تحسین پیش کرنے کے لیے اور ہم اپنے محسنوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ ہمارے اعلیٰ عہدیدار ایک ہی شہر میں ہوتے ہوئے ان کی آخری رسومات میں پہنچ نہیں پاتے چہ جائیکہ اپنے کسی قول و فعل سے ان کی تحسین کر سکیں۔
دروپدی مورمو کی قوم کی ترقی کا راز یہ بھی ہے کہ یہ اپنے محسنوں کی قدر کرتے ہیں اور دیکھیے یہ قوم تعلیم کو کس قدر اہمیت دیتی ہے اور ہم تعلیم کے ساتھ کیا کررہے ہیں جب کہ یہ پیمانہ تو عرصہ دراز سے ہمارے مشاہدے میں ہے کہ کسی قوم کی خوشحالی کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ہونے والی ترقی کو دیکھو ، پر افسوس صد افسوس ہمارے وطن عزیز میں موجودہ دور کے اکثر اساتذہ کے تلفظ تک تو ٹھیک نہیں تو وہ کیا خاک پڑھائیں گے اور کیا اس شعبے میں ترقی کا باعث بن سکیں گے۔
تعلیم ہمیشہ ترقی یافتہ ملکوں میں ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے اور ہمارے بے چارے حکمران اس سے نظریں چرانے کی کوشش کرتے ہوئے اس سے نجی سیکٹرز کے حوالے کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور اس میں اپنی بقا تلاش کرتے ہیں تو آیے دیکھیے تعلیم سے متعلق ایک شخصیت کی عظیم انسانی خدمت کے عوض اس کی قوم نے اس سے کیسے اپنے سر آنکھوں پر بٹھایا اور اپنے ملک کے سب سے بڑے عہدے کا تاج اس کے سر پر سجایا اس بات کی پرواہ کیے بغیر وہ کیا ہے کیا تھی صرف اور صرف یہ جانا یہ دیکھا کہ وہ کن حقیقی صدمات سے ابھری پر پھر بھی اپنے ہم وطنو کی بقا کی جنگ اور بھلائی کے کاموں میں اپنے مصائب کی پرواہ کیے بغیر ثابت قدمی سے جمی رہی۔ بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ:
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
دور حاضر کے بعض ایسے بے قدرے لوگ تھے جنھوں نے باقاعدہ اپنے تبصروں میں قائداعظم کے بارے میں اپنے منفی خیالات کا اظہار انتہائی بدترین زبان میں کیا۔ اچھائی کبھی کسی کی رائیگاں نہیں جاتی وہ طلوع آفتاب کی طرح چمکتی ہے اور صرف ان لوگوں کو نظر آتی ہے جنھیں خدا نے بصیرت عطا کی ہو۔
ہمارے جذباتی اختلافات کتنے ہی کیوں نہ ہوں وہاں ہم اختلاف کی حامل شخصیات، عوامل کو بھی سراہنے اور ان کی اچھائی کی کھلے دل سے پذیرائی کا ہنر بھی بخوبی جانتے ہیں۔ حال ہی میں ہمارے پڑوسی ملک میں ایک غریب گھرانے کی مصائب میں گھری ، انسانیت کا درد رکھنے والی خاتون صدر کا تقرر ہوا۔ یہ سنتھال قبیلہ کی ایک خانہ بدوش عورت ہیں ، یہ قبیلہ ہندوستانی ریاست جھاڑ کھنڈ اور مغربی بنگال میں بڑی تعداد میں آباد ہے۔ اس قبیلے کی شہرت کی ایک وجہ یہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہونا ہے، اس قبیلے کی عورتیں لال کناروں کی ساڑھیاں پہنتی ہیں۔ اس کے رہنے والے درخت کے پتوں اور چھالوں سے دریاں ، باسکٹ اور آلات موسیقی بناتے ہیں جو ان کا ذریعہ معاش بھی ہے۔
صدر دروپدی مورمو کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے وہ 20جون 1958 کو اوڑیسا میں پیدا ہوئیں ، انتہائی غربت کے عالم میں انھوں نے اپنا بچپن گذارا۔ پرائمری تک تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی اور پھر آگے تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنا قبیلہ چھوڑ کر ایک ہاسٹل میں قیام کرنے لگیں ، دوران رہائش انھوں نے میٹرک پاس کیا پھر راما دیوی ویمن کالج سے گریجویشن مکمل کی اور جلد ہی انھیں روزگار مل گیا ، لیکن ان کی تشنگی یہاں پوری نہ ہوسکی اور انھوں نے جاب چھوڑ کر بلا معاوضہ ایک اسکول میں تدریس شروع کردی۔ ان کی تدریس سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی طالبعلم کسی مضمون میں کمزور ہوتا تو وہ شام کو اس سے اپنے گھر بلا لیتیں اور گھنٹوں اس کی اس کمزوری کو دور کرنے میں صرف کرتیں اپنی انھی خصوصیات کی وجہ سے وہ جلد ہی ایک معزز استانی کا رتبہ پا گئیں ، آپ کے دل میں خدمت انسانی کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا اور یوں آپ نے فلاحی کاموں کا آغاز بھی کردیا۔
1997میں آپ کونسلر منتخب ہوئیں جہاں انھوں نے اپنے فرائض کو بہترین انداز سے نبھایا آپ اپنے ماتحت کی جانچ کو کافی نہیں سمجھتیں بلکہ ازخود اس کی تصدیق کرتیں ،آپ کے خدمت خلق کے جذبے کی تسکین بس یہاں مکمل نہیں ہوئی بلکہ کچھ عرصے بعد صوبائی الیکشن آئے تو وہ چناؤ کے لیے کھڑی ہوئیں اور ایک ناقابل یقین کامیابی سے ہمکنار ہوئیں ، اپنے اسی جذبے اور شوق خدمت انسانی کی وجہ سے۔ ممبر اسمبلی بنتے ہی ان کی اڑان میں پر لگ گئے اور یوں آپ نے بہت شاندار خدمات بھی انجام دیں اور بہت مختصر عرصے میں عوام الناس کے دلوں میں گھر کر لیا ۔
اس دوران ان کی ذاتی زندگی میں2009 میں ایک انتہائی درد ناک موڑ آیا کہ ان کا پچیس سالہ بیٹا فوت ہوگیا ایک ماں کے لیے اپنی اولاد کی موت کا صدمہ برداشت کرنا انتہائی ناممکن اور اذیت ناک ہوتا ہے جس نے ان کو بالکل توڑ کر رکھ دیا مگر اس عظیم خاتون نے کسی نہ کسی طرح خود کو سنبھالا مگر ابھی اس کے امتحان اور بھی باقی تھے۔ اس سانحہ کے تین سال بعد اس کا دوسرا بیٹا بھی مر گیا اور کچھ ہی دن گذرے کہ ان کی ماں بھی چل بسیں اور پھر ایک بھائی بھی گذرگیا۔ ایک کے بعد ایک سانحے نے ان کو ہلا کر رکھ دیا ، یہی نہیں کچھ دنوں بعد پے در پے صدمات کی وجہ سے ان کی زندگی کا واحد سہارا ان کا شوہر بھی فوت ہوگیا اور دروپدی انتہائی دکھ صدمے کی کیفیت میں آگئیں مگر اس نے اپنے آپ کو بکھرنے نہیں دیا بلکہ اپنے تمام غموں کو درد کو خدمت انسانی میں ڈھونڈ لیا اور ایک نئے جوش و ولولہ کے ساتھ انسانیت کی خدمت سے جڑ گئیںان کے صبر کو دیکھ کر قدرت بھی ان پر مہربان ہوگئی اور 2014 میں وہ جھاڑ کھنڈ کی گورنر منتخب ہوئیں۔
اس منصب پر فائز ہوتے ہی انھوں نے عوام کی ایسی خدمت کی کہ اپنے گزشتہ تمام خدمت کے ریکارڈ توڑ دیے۔ آپ خواتین کی تعلیم و ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش میں لگی رہتیں، اس کے لیے ہر ممکن فنڈز جاری کرتیں اور ان کو زندگی میں آگے بڑھنے کی بھر پور تلقین کرتیں۔ آپ نے اپنے عزم ، ہمت ، حوصلے ، جرات ، صبر و استقامت اور جذبہ خدمت سے عوام الناس کے دلوں میں ایک مضبوط اور منفرد مقام بنایا اور اس طرح 21جولائی2022ء کو ہندوستانی عوام نے ایک بنجارن خاتون کو صدر کے عہدے پر منتخب کیا اور یوں زندہ قوموں کی ایک ہمیشہ یاد رکھنے والی حقیقی تاریخ رقم کی۔
اس قوم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ جو اس قوم کے لیے اپنی توانائیاں ، مشکلات کو برداشت کرنے کا عزم ہمت حوصلہ دکھاتا ہے ،یہ قوم اس کا صلہ اس کو ضرور دیتی ہے جس کی مثال صرف دروپدی مورمو ہی نہیں بلکہ ڈاکٹر اے پی جے ابوکلام بھی ہیں جو مسلمان تھے لیکن اس قوم نے ان کی خدمات کے سبب انھیں انتہائی اہم منصب پر فائز کیا اور یہی نہیں ان کی انتم یاترا میں اس قوم کا ہر بڑا عہدیدار شریک ہوا ان کی خدمات کو تحسین پیش کرنے کے لیے اور ہم اپنے محسنوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ ہمارے اعلیٰ عہدیدار ایک ہی شہر میں ہوتے ہوئے ان کی آخری رسومات میں پہنچ نہیں پاتے چہ جائیکہ اپنے کسی قول و فعل سے ان کی تحسین کر سکیں۔
دروپدی مورمو کی قوم کی ترقی کا راز یہ بھی ہے کہ یہ اپنے محسنوں کی قدر کرتے ہیں اور دیکھیے یہ قوم تعلیم کو کس قدر اہمیت دیتی ہے اور ہم تعلیم کے ساتھ کیا کررہے ہیں جب کہ یہ پیمانہ تو عرصہ دراز سے ہمارے مشاہدے میں ہے کہ کسی قوم کی خوشحالی کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ہونے والی ترقی کو دیکھو ، پر افسوس صد افسوس ہمارے وطن عزیز میں موجودہ دور کے اکثر اساتذہ کے تلفظ تک تو ٹھیک نہیں تو وہ کیا خاک پڑھائیں گے اور کیا اس شعبے میں ترقی کا باعث بن سکیں گے۔
تعلیم ہمیشہ ترقی یافتہ ملکوں میں ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے اور ہمارے بے چارے حکمران اس سے نظریں چرانے کی کوشش کرتے ہوئے اس سے نجی سیکٹرز کے حوالے کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور اس میں اپنی بقا تلاش کرتے ہیں تو آیے دیکھیے تعلیم سے متعلق ایک شخصیت کی عظیم انسانی خدمت کے عوض اس کی قوم نے اس سے کیسے اپنے سر آنکھوں پر بٹھایا اور اپنے ملک کے سب سے بڑے عہدے کا تاج اس کے سر پر سجایا اس بات کی پرواہ کیے بغیر وہ کیا ہے کیا تھی صرف اور صرف یہ جانا یہ دیکھا کہ وہ کن حقیقی صدمات سے ابھری پر پھر بھی اپنے ہم وطنو کی بقا کی جنگ اور بھلائی کے کاموں میں اپنے مصائب کی پرواہ کیے بغیر ثابت قدمی سے جمی رہی۔ بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ:
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے