آخر ہم ’’کہاں جارہے ہیں‘‘
آج کل ہمارے انصاف کا قانون اور اس کے دہرے معیار پر بحث عام سطح پر کی جارہی ہے
ایک معروف صحافی نے آئین و قانون کی رو سے ریاستی اہم تعیناتیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ قانون اور آئین کیا ہوتا ہے،طاقت کے سامنے قانون وہی ہوتا ہے جو وہ اپنے لاڈلے کے لیے منتخب کرے'چھوڑو یہاں ایسا ہی ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ جب یہ انداز فکر ہو تو اہل صحافت اپنے گرتے ہوئے معیار پر کہاں دہائی دیں۔ابھی اہل صحافت عمران حکومت کی فاشسٹ سوچ کے ''پیکا'' اور''پی ایم۔ڈی اے'' ایسے کالے قوانین لانے اور ان کے تحت تحریر و تقریر پر پابندی عائد کرنے کے خلاف جدوجہد کرنے کے مرحلوں سے گذر کر انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے تھے ۔
آج کل ہمارے انصاف کا قانون اور اس کے دہرے معیار پر بحث عام سطح پر کی جارہی ہے جو کہ عوامی سطح پر جہاں ایک آگہی کا مثبت اشارہ ہے وہیں یہ بات تشویشناک حیرانی ایسی ہے کہ انصاف اور قانون کی عدالتوں کے فیصلوں یا ریمارکس کو عام فرد انصاف کے بنیادی اصول پر نہ صرف نہیں دیکھ رہا بلکہ فکر مند اور خود کو بے دست و پا سمجھ رہا ہے،اس صورتحال میں سماج کا انصاف اور قانون کی بالادستی پر اعتبار کا اٹھنا انتہائی مہلک عمل ہے جس کی روک تھام ہماری معزز عدلیہ ہی کر سکتی ہے اور اسے ہی کرنا بھی چاہیے،کیونکہ سماج کی شیرازہ بندی کا پہلا سبب غیر قانونی عمل اور انصاف کا بروقت نہ ملنا ہی تصور کیا جاتا ہے،قانون و انصاف کے رویئے اور فیصلوں کے اس خطرناک رجحان کو اس لمحے نہ روکا گیا تو امکان ہے کہ اس سماج کی مزید شیرازہ بندی کو روکنا دشوار عمل ہو جائے گا،جو ملک کے ہر شعبہ زندگی کو متاثر کرے گا اور ملک کا سیاسی،معاشی معاشی،قانونی اور سماجی ڈھانچہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔
ہمارے ہاں کس قسم سے انصاف اور قانون کو اپنی خواہشات پر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کی جانب میرے محترم صحافی، مہربان مظہر عباس نے نشاندہی کی جو حالیہ اخباری رپورٹ کے مطابق انصاف اور قانون و آئین کا مذاق اڑانے کی ایک خطرناک اور مہلک کوشش ہے،رپورٹ کے مطابق چند روز قبل ایک مقدمہ داخل دفتر کیا گیا ہے،جس میں اپیل کی گئی ہے کہ عدلیہ اداروں کے بارے میں عام رائے دینے یا اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھانے کو''توہین آمیز'' قرار دینے کا فیصلہ یا حکم جاری کرے اور حکومت کو آئین پر عملدرآمد کرنے کے احکامات دے، تاکہ اداروں کے وقار کو بچایا جا سکے،خبر کے مطابق ملک کے چند ریٹائرڈ اور سول سوسائٹی کے وکلا نے وکیل حیدر وحید کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ سے استدعا کی ہے کہ وہ اداروں کے تقدس اور ان کی اہمیت کے پیش نظر مذکورہ اپیل کو سماعت کے لیے مقرر کرے۔مذکورہ پٹیشن ابن حسن،شیر دل،پروفیسر وقار،قوسین فیصل سمیت چھ افراد کی جانب سے دائر کی گئی ہے، پٹیشنر کے وکیل حیدر وحید نے اس مذکورہ اپیل میں کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 19 کو اس کی اصل ماہیت میں دیکھا جائے اور اس کو آئین کی روح کے مطابق عمل کرانے کے احکامات وفاقی حکومت کو دیے جائیں۔
اس اپیل کو دیکھنے اور اس کے مندرجات سے بادی النظر میں اقتدار کے آمرانہ سوچ اور مطلق العنانیت کا وہ دور یاد آگیا،جب جنرل ضیا غیر آئینی طور سے اس ملک کی ایک منتخب حکومت کو زندانوں میں ڈال کر اقتدار پر قابض ہوئے تھے اور انھوں نے صحافت کی زبان بندی کرنے کی اپنی سی مذموم کوشش کی تھی اور اخبارات و صحافت کا گلہ گھوٹ کر ظالمانہ سنسر شپ کے ماحول میں ملک کو مبتلا کر دیا تھا۔ جنرل ضیا کے اس دور میں صحافیوں کی تاریخی جدوجہد میں کوڑے قید اور تشدد صحافیوں کا مقدر بنا دیے گئے تھے مگر اہل صحافت نے تحریر و تقریر کی آزادی پر سمجھوتا نہ کیا اور جمہوری روایات کے تحت اپنے آئینی حق سے دستبردار نہ ہوئے اور زندانوں کے تشدد خانوں سے سرخرو نکلے،گو اس دور میں بھی طاقتوروں کے پے رول پر وکلا بنا بنا کر عدالتوں میں اپیلوں کے ذریعے آئین کے آرٹیکلز کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی جو صحافی تنظیم کی تاریخی جدوجہد کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔
عجب اتفاق ہے کہ یہی کچھ آمر جنرل مشرف نے اپنے غیر آئینی و غیر قانونی اقتدار کو قائم کرنے کے لے کیا اور عدالتوں میں پٹیشن داخل کرانے کا کھیل کھیلا گیا اور اسی دور کی پیداوار بعض وکیل اس قسم کی اپیلوں کو داخل عدلیہ میں پیش پیش کر کے وکیل کے مقدس پیشے کی دھجیاں بکھیرتے رہے، سوال یہ ہے کہ اب کون اور کس لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے اور کس کے اشارے پر یہ جمہوریت دشمن طاقتیں عدلیہ کا سہارا لینے پر مجبور کی جارہی ہیں اور وہ کونسی طاقتور قوتیں ہیں جو پس پردہ جمہوری اداروں کو کمزور کرنے پر تلی بیٹھی ہیں،اس معاملے کی تہہ تک جانا ان جمہوری سیاسی جماعتوں کا فرض ہے جو اس ملک میں آئین قانون اور اظہار کی آزادی کی دعویدار ہیں۔
اسی کے ساتھ معزز عدلیہ کا یہ فرض ہے کہ جمہوریت کے نقاب میں ان سیاسی افراد یا متحرک وکلا کی سرزنش کا کوئی طریقہ وضع کرے جو مذکورہ قسم کی اپیلوں کے ذریعے قوم اور عدلیہ کا وقت ضایع کرکے جمہوریت پر عوام کا اعتماد اور عدلیہ کے وقار کو شکستہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔قانون اور آئین کی بالادستی ہر طور لازم ہے،اس معاملے میں عدلیہ اور پارلیمنٹ بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں اور جو اس راہ میں رکاوٹ بنے یا رکاوٹ بننے والوں کی کسی طور معاونت کرے انھیں بے نقاب کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔قانون اور آئین کی بالادستی جمہوریت کا حسن ہے اور جو اسے گہنانے کے لیے کوئی بھی سہارے ڈھونڈے اسے ناکام بنا دیا جائے۔
آج کل ہمارے انصاف کا قانون اور اس کے دہرے معیار پر بحث عام سطح پر کی جارہی ہے جو کہ عوامی سطح پر جہاں ایک آگہی کا مثبت اشارہ ہے وہیں یہ بات تشویشناک حیرانی ایسی ہے کہ انصاف اور قانون کی عدالتوں کے فیصلوں یا ریمارکس کو عام فرد انصاف کے بنیادی اصول پر نہ صرف نہیں دیکھ رہا بلکہ فکر مند اور خود کو بے دست و پا سمجھ رہا ہے،اس صورتحال میں سماج کا انصاف اور قانون کی بالادستی پر اعتبار کا اٹھنا انتہائی مہلک عمل ہے جس کی روک تھام ہماری معزز عدلیہ ہی کر سکتی ہے اور اسے ہی کرنا بھی چاہیے،کیونکہ سماج کی شیرازہ بندی کا پہلا سبب غیر قانونی عمل اور انصاف کا بروقت نہ ملنا ہی تصور کیا جاتا ہے،قانون و انصاف کے رویئے اور فیصلوں کے اس خطرناک رجحان کو اس لمحے نہ روکا گیا تو امکان ہے کہ اس سماج کی مزید شیرازہ بندی کو روکنا دشوار عمل ہو جائے گا،جو ملک کے ہر شعبہ زندگی کو متاثر کرے گا اور ملک کا سیاسی،معاشی معاشی،قانونی اور سماجی ڈھانچہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔
ہمارے ہاں کس قسم سے انصاف اور قانون کو اپنی خواہشات پر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کی جانب میرے محترم صحافی، مہربان مظہر عباس نے نشاندہی کی جو حالیہ اخباری رپورٹ کے مطابق انصاف اور قانون و آئین کا مذاق اڑانے کی ایک خطرناک اور مہلک کوشش ہے،رپورٹ کے مطابق چند روز قبل ایک مقدمہ داخل دفتر کیا گیا ہے،جس میں اپیل کی گئی ہے کہ عدلیہ اداروں کے بارے میں عام رائے دینے یا اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھانے کو''توہین آمیز'' قرار دینے کا فیصلہ یا حکم جاری کرے اور حکومت کو آئین پر عملدرآمد کرنے کے احکامات دے، تاکہ اداروں کے وقار کو بچایا جا سکے،خبر کے مطابق ملک کے چند ریٹائرڈ اور سول سوسائٹی کے وکلا نے وکیل حیدر وحید کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ سے استدعا کی ہے کہ وہ اداروں کے تقدس اور ان کی اہمیت کے پیش نظر مذکورہ اپیل کو سماعت کے لیے مقرر کرے۔مذکورہ پٹیشن ابن حسن،شیر دل،پروفیسر وقار،قوسین فیصل سمیت چھ افراد کی جانب سے دائر کی گئی ہے، پٹیشنر کے وکیل حیدر وحید نے اس مذکورہ اپیل میں کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 19 کو اس کی اصل ماہیت میں دیکھا جائے اور اس کو آئین کی روح کے مطابق عمل کرانے کے احکامات وفاقی حکومت کو دیے جائیں۔
اس اپیل کو دیکھنے اور اس کے مندرجات سے بادی النظر میں اقتدار کے آمرانہ سوچ اور مطلق العنانیت کا وہ دور یاد آگیا،جب جنرل ضیا غیر آئینی طور سے اس ملک کی ایک منتخب حکومت کو زندانوں میں ڈال کر اقتدار پر قابض ہوئے تھے اور انھوں نے صحافت کی زبان بندی کرنے کی اپنی سی مذموم کوشش کی تھی اور اخبارات و صحافت کا گلہ گھوٹ کر ظالمانہ سنسر شپ کے ماحول میں ملک کو مبتلا کر دیا تھا۔ جنرل ضیا کے اس دور میں صحافیوں کی تاریخی جدوجہد میں کوڑے قید اور تشدد صحافیوں کا مقدر بنا دیے گئے تھے مگر اہل صحافت نے تحریر و تقریر کی آزادی پر سمجھوتا نہ کیا اور جمہوری روایات کے تحت اپنے آئینی حق سے دستبردار نہ ہوئے اور زندانوں کے تشدد خانوں سے سرخرو نکلے،گو اس دور میں بھی طاقتوروں کے پے رول پر وکلا بنا بنا کر عدالتوں میں اپیلوں کے ذریعے آئین کے آرٹیکلز کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی جو صحافی تنظیم کی تاریخی جدوجہد کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔
عجب اتفاق ہے کہ یہی کچھ آمر جنرل مشرف نے اپنے غیر آئینی و غیر قانونی اقتدار کو قائم کرنے کے لے کیا اور عدالتوں میں پٹیشن داخل کرانے کا کھیل کھیلا گیا اور اسی دور کی پیداوار بعض وکیل اس قسم کی اپیلوں کو داخل عدلیہ میں پیش پیش کر کے وکیل کے مقدس پیشے کی دھجیاں بکھیرتے رہے، سوال یہ ہے کہ اب کون اور کس لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے اور کس کے اشارے پر یہ جمہوریت دشمن طاقتیں عدلیہ کا سہارا لینے پر مجبور کی جارہی ہیں اور وہ کونسی طاقتور قوتیں ہیں جو پس پردہ جمہوری اداروں کو کمزور کرنے پر تلی بیٹھی ہیں،اس معاملے کی تہہ تک جانا ان جمہوری سیاسی جماعتوں کا فرض ہے جو اس ملک میں آئین قانون اور اظہار کی آزادی کی دعویدار ہیں۔
اسی کے ساتھ معزز عدلیہ کا یہ فرض ہے کہ جمہوریت کے نقاب میں ان سیاسی افراد یا متحرک وکلا کی سرزنش کا کوئی طریقہ وضع کرے جو مذکورہ قسم کی اپیلوں کے ذریعے قوم اور عدلیہ کا وقت ضایع کرکے جمہوریت پر عوام کا اعتماد اور عدلیہ کے وقار کو شکستہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔قانون اور آئین کی بالادستی ہر طور لازم ہے،اس معاملے میں عدلیہ اور پارلیمنٹ بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں اور جو اس راہ میں رکاوٹ بنے یا رکاوٹ بننے والوں کی کسی طور معاونت کرے انھیں بے نقاب کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔قانون اور آئین کی بالادستی جمہوریت کا حسن ہے اور جو اسے گہنانے کے لیے کوئی بھی سہارے ڈھونڈے اسے ناکام بنا دیا جائے۔