Oprichniki
ہمارے oprichniki ہر قانون سے بالاتر ہیں۔ حالیہ دنوں میں کرپشن کے کئی کیس عدالتوں نے واپس کر دیے ہیں
ایون چہارم (Ivan iv) روس کا پہلا زار تھا۔ حد درجہ سفاک ' بے رحم ' جنونی اور ذہنی عدم توازن میں مبتلا شخص۔ عوام کی خدمت' سیاست' ریاستی طاقت 'سزا و جزا اور قدرت کے متعلق اس کے ذاتی خیالات تھے جو کسی نظریہ ' مذہب سے کشید نہیں تھے۔ اس کی ہر معاملہ میں محیر العقول سوچ تھی۔ تاریخ دان اسے دیوانہ بھی کہتے ہیں۔
اسے Ivan The Terrible کا خطاب تاریخ نے ہی عطا کیا ہے۔ ایون کو یقین تھا کہ قدرت نے خصوصی طور پر اسے حکومت کرنے کے لیے منتخب کیا ہے۔ اور یہ خدا ہی ہے جس نے فیصلہ کیا ہے کہ عام انسان' اس کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ کہتا تھا کہ دنیا میں اسے لوگوں کو جنت اور دوزخ میں بھیجنے کا اختیار بھی ودیعت کیا گیا ہے۔ ایون اس مفروضہ پر بھرپور طور پر عمل کرتا تھا۔
جن لوگوں کو ناپسند کرتا تھا یا جو اس سے معمولی سا بھی اختلاف کرتے تھے۔ انھیں وہ اپنے طور پر دوزخ کی جھلکی دکھاتا تھا۔ پانی اور تیزاب کے ملغوبے کو تیز تر گرم کرواتا تھا۔ جب پانی ابلنا شروع ہو جاتا تھا تو لوگوں کو اس میں ڈال دیتا تھا۔ لوگوں کی جلد جسم سے علیحدہ ہو جاتی تھی ۔ مرنے سے پہلے وہ دردناک چیخیں مارتے تھے۔ ایون قہقہے لگا کر بتاتا تھا کہ درباریو' دیکھو اس نامعقول شخص کو میں نے دوزخ میں بھیج دیا ہے۔
دراصل یہ سزا صرف اسے دزوخ میں بھیجنے کے لیے تھی۔ ماسکو سے متصل دریا جب منفی سات آٹھ ڈگری پر منجمد ہو جاتا تھا۔ تو اپنے ناپسندیدہ افراد کو یخ ترین پانی میں ڈبو دیتا تھا۔ کہتا تھا اسے قدرت نے اختیار دیا ہے کہ نافرمان لوگوں کو دنیا میں ہی سزا کا مزا چھکائے۔کریمیا پر حملوں کے دوران ' ایون روزانہ چھ سو سے ایک ہزار شہریوں کو دریا کے یخ پانی میں مروا دیتا تھا۔
کہتا تھا کہ یہ سزائیں ان کا مقدر تھیں۔ وہ تو صرف خدائی احکامات پر عملدرآمد کرتا ہے۔ پاگل پن کی انتہا دیکھیے کہ روس میں بدترین قحط اور غربت کا دور دورہ تھا۔ اور ایون کے حکم سے کسانوں کو کسی بھی بہتر جگہ منتقل ہونے سے جبرن روک دیا گیا تھا۔ غلہ کی کمی' اس کا فطری نتیجہ تھا، مگر ایون کے مطابق بھوک سے مرنا صرف اس لیے تھا کہ عام لوگ حد درجہ گناہ کرتے تھے۔ ان پر قحط خدا کا عذاب بن کر آیا ہے۔
1560میں ایون نے ایک حددرجہ منفرد سیاسی حکم جاری کیا۔ اس پالیسی کا نام Oprichninaتھا۔ اس کے پیروکاروں کو oprichniki کہا جاتا تھا۔ یہ افراد بادشاہ کے ذاتی وفادار ہوتے تھے۔ اس کی سربراہی Malyutنام کا ایک خواجہ سرا کرتا تھا۔ بادشاہ نے ان کو بڑ ی بڑی جاگیریں عطا کی تھیں۔ یہ ہردنیاوی قانون سے بالا تر تھے۔ یہ کسی کو بھی قتل کر سکتے تھے ۔ زندہ دفن کرسکتے تھے۔
نو وہ گراڈ کی فتح کے بعد ان oprichnikiافراد نے ساٹھ ہزار شہریوں کی آنکھیں نکال دی تھیں۔ پھر انھیں volkhovدریا میں ڈبو ڈالا تھا۔ بادشاہ کیونکہ ہر وقت شک کی کیفیت میں رہتا تھا اور اسے لگتا تھا کہ اہم ترین درباری اس کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ لہٰذا موت کے ان سوداگروں کو کسی کو بھی صرف اور صرف شک کی بنیاد پر مارنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ ایون کی یہ قبیح ترین ریاستی پالیسی کئی برس بغیر کسی مداخلت کے برقرار رہی۔ ایک بات کا ذکر کرنا حد درجہ ضروری ہے۔ ایون راسخ العقیدہ مسیحی تھا۔مگر اس نے عیسائیت کی ذاتی تشریح کی ہوئی تھی۔ جو اقتدار پر مسلسل قابض رہنے سے وابستہ تھی۔ اپنے آپ کو خدا کی طرف سے متعین شدہ برتر انسان سمجھتا تھا۔ اور گمان تھا کہ خدا نے اسے ہر برائی کو ختم کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
اس کے نزدیک سب سے بڑی برائی' بادشاہ کے خلاف سوچنا اور کسی قسم کی بغاوت کرنا تھا۔ یہ ناقابل معافی جرم تھا جس کی سزا یہ تھی کہ بادشاہ اس باغی کو جہنم بھیجنے کی طاقت رکھتا تھا۔ ایک دن لگا کہ اس کا بڑا بیٹا Ivanovichجو کہ ولی عہد بھی تھا۔ بغاوت کے متعلق سوچ رہا ہے ۔ ایون نے ولی عہد کو دربار میں بلایا ۔ ایک کلہاڑا منگوا کر اس کی کھوپڑی کے دو ٹکڑے کر ڈالے۔ تاریخ دان ایون کو ایک نفسیاتی مریض کے طور پر یاد رکھتے ہیں۔ کئی لوگ اسے پاگل بھی گردانتے ہیں۔ مگر ایک چیز یاد رکھیے ۔ اپنی دولت اور سلطنت کو محفوظ رکھنے میں ایون کو کسی بھی پاگل پن کا دورہ نہیں پڑتا تھا۔
اپنے ملک کے مقتدر طبقے اور اقتدار پر قابض یا منتظر سیاست دانوں پر نظر دوڑانا ہوں تو مجھے ایون جیسے متعدد لوگ نظر آتے ہیں۔ یہ رجحان صرف مقتدر سیاست دانوں کا خاصہ نہیں بلکہ ریاستی اداروں کے کلیدی افراد' بشمول مذہبی پیشواؤں میں بھی بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔ معاشرہ کو دو حصوں میں تقسیم کر لیں۔ یعنی محکوم طبقہ اور حکمران لوگ۔ تو آپ کو ایون چہارم کی جدید تصویر اور فلسفہ ہر کوچہ میں نظر آئے گا۔ شاید آپ تسلیم نہ کریں مگر سچ یہی ہے کہ چند سیاست دان اور ریاستی اداروں کے مخصوص سربراہان ' عام آدمیوں کی شریانوں سے خون کے آخری قطرے نکال کر اپنا دستر خوان رنگین کر رہے ہیں۔
ایون' کسانوں کو کم غلہ پیدا کرنے کی پاداش میں قتل کروا دیتا تھا۔آج بجلی کے بل عام لوگوں کے لیے بربادی کا باعث بن چکے ہیں۔ مگر سوچیے اس کا فائدہ کس کو ہے۔ آئی پی پیز کو ادا کی گئی رقومات بڑے آرام سے مقتدر طبقے کے بیرونی اکاؤنٹ میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ خیر اب تو حکومت ہی سیٹھ کے سیاسی مالکوں کی ہے۔
لہٰذا دھندا عروج پر چل رہاہے۔ ہمارے oprichniki ہر قانون سے بالاتر ہیں۔ حالیہ دنوں میں کرپشن کے کئی کیس عدالتوں نے واپس کر دیے ہیں۔ نیب قوانین کی تبدیلی سے اب ان مقدمات کو چلایا نہیں جا سکتا۔ لہٰذا یہ داخل دفتر ہوچکے ہیں۔ جنھیں جیلوں میں ہونا چاہیے' وہ اب سینہ تان کر اپنی بے گناہی کا تمغہ سینے پر سجا کر معاشرہ میں سرخرو ٹھہرے ہیں۔
یہ ایون کی ریاستی پالیسی oprichniki کی کاربن کاپی ہے۔ یعنی ہمارے حکمران اور ان کے مصاحبین احتساب اور قانون سے بالاتر ہیں۔ کوئی ان کی گرد تک کو نہیں چھو سکتا۔ سیلاب کی طرف آئیے۔ مقتدر طبقہ' غم سے نڈھال نظر آتے ہیں۔ لوگوں کی مشکلات دیکھ کر سینہ کوبی کر رہے ہیں۔ مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس سیلاب میں مقتدر طبقے کے کسی شخص کو رتی بھر نقصان نہیں پہنچا۔ امیر بالکل محفوظ ہیں۔ مگر غریب ہمیشہ کی طرح دربدر ہو چکاہے۔ بڑے شہروں کے امیر علاقے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ دراصل دیکھا جائے تو موجودہ حکمرانوں اور ایون میں رتی بھر بھی فرق نہیں ہے۔
شاید ایک فرق ہو۔ ایون بادشاہ تھا' بلکہ زار تھا۔ تسلیم کرتا تھا کہ وہ ہر قانون سے بالاتر ہے۔ موجودہ حکمران اور ریاستی سربراہان منافقت کی معراج پر فائز ہیں۔ بیانیہ ہے کہ جمہوری طریقے سے مسند شاہی پر بیٹھے ہیں۔ حکومت ان سفلی لوگوں نے میرٹ پر حاصل کی ہے۔ مگر بچہ بچہ جانتا ہے کہ موجودہ حکومتی نظام کا میرٹ اور جمہوریت سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ خوفناک سچ یہ ہے کہ عوام دشمنی میں ان لوگوں اور ایون کی پالیسیوں میںحیرت انگیز یکسانیت ہے۔
اس بدقسمت خطے میں خیر سچ بولنا تو گناہ کبیرہ ہے۔ بائیس کروڑ لوگوں کا ہر طریقے سے استحصال جاری ہے۔ کرم فرما اپنے خزانے بھر رہے ہیں۔ کرپشن کی ہوشربا داستانیں سامنے آ رہی ہیں۔ کرم فرما خزانوں سے بوریاں بھر بھر کر غیر ممالک میں منتقل کر رہے ہیں۔ اور پھر اعلان فرماتے ہیں کہ وہ ہر آلائش سے مبرا ہیں۔ نہیں صاحب۔ ابلاغ کے اس جدید دور میںاب کوئی بھی کسی بھی جعلی نعرے اور قربانیوں کی آڑ لے کر سچا ثابت نہیں ہو سکتا۔ سیاست دان ' کرم فرما' لالچی سوداگرآپس میں ہمیشہ کی طرح شیر و شکر ہو چکے ہیں۔
ملک میں قحط پڑ چکا ہے۔ آٹے کی دس کلو کی بوری اب چودہ سو سے سولہ سو تک جا پہنچی ہے۔ آٹے کی قلت اگر برقرار رہتی ہے تو یہ انارکی کی ابتدا ہو گی۔ شاید خانہ جنگی کی۔ جس شخص کے پاس اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے روٹی نہیں ہو گی' وہ امیر آدمی کا گلہ کاٹے گا۔ عوام میں حکمرانوں کے خلاف غصہ اور نفرت ہے۔
جو اختیار ایون نے اپنے درباریوں کو دے ڈالے تھے ۔ مجھے یہ اختیار جلد ہی عوام کے ہاتھ میں نظر آ رہے ہیں۔ عوام جلد ہی oprichniki بن جائیں گے۔ مختلف شہروں میں جرائم کی شرح میں حد درجہ اضافہ' لوٹ مار' اس قیامت کا ابتدائیہ ہے۔ اور ہاں ہمارے چند مذہبی پیشوا جو دنیا میں سیلاب کو عوام کے گناہ سے تعبیر کر رہے ہیں۔
ان سے بھی سوال ہے کہ عذاب صرف غریب آدمی کے لیے کیوں ہے۔ تکلیف امیر طبقہ سے کیوں خائف ہے۔ یہ پیشوا ہمیں روایتوں کا غلام بنا کر اپنی تجوری بھرنا چاہتے ہیں۔ مستقبل قریب میں عوام کے غصہ کو روکنا اب ناممکن نظر آ رہا ہے۔ قیامت توخیر اب آ ہی چکی ہے؟
اسے Ivan The Terrible کا خطاب تاریخ نے ہی عطا کیا ہے۔ ایون کو یقین تھا کہ قدرت نے خصوصی طور پر اسے حکومت کرنے کے لیے منتخب کیا ہے۔ اور یہ خدا ہی ہے جس نے فیصلہ کیا ہے کہ عام انسان' اس کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ کہتا تھا کہ دنیا میں اسے لوگوں کو جنت اور دوزخ میں بھیجنے کا اختیار بھی ودیعت کیا گیا ہے۔ ایون اس مفروضہ پر بھرپور طور پر عمل کرتا تھا۔
جن لوگوں کو ناپسند کرتا تھا یا جو اس سے معمولی سا بھی اختلاف کرتے تھے۔ انھیں وہ اپنے طور پر دوزخ کی جھلکی دکھاتا تھا۔ پانی اور تیزاب کے ملغوبے کو تیز تر گرم کرواتا تھا۔ جب پانی ابلنا شروع ہو جاتا تھا تو لوگوں کو اس میں ڈال دیتا تھا۔ لوگوں کی جلد جسم سے علیحدہ ہو جاتی تھی ۔ مرنے سے پہلے وہ دردناک چیخیں مارتے تھے۔ ایون قہقہے لگا کر بتاتا تھا کہ درباریو' دیکھو اس نامعقول شخص کو میں نے دوزخ میں بھیج دیا ہے۔
دراصل یہ سزا صرف اسے دزوخ میں بھیجنے کے لیے تھی۔ ماسکو سے متصل دریا جب منفی سات آٹھ ڈگری پر منجمد ہو جاتا تھا۔ تو اپنے ناپسندیدہ افراد کو یخ ترین پانی میں ڈبو دیتا تھا۔ کہتا تھا اسے قدرت نے اختیار دیا ہے کہ نافرمان لوگوں کو دنیا میں ہی سزا کا مزا چھکائے۔کریمیا پر حملوں کے دوران ' ایون روزانہ چھ سو سے ایک ہزار شہریوں کو دریا کے یخ پانی میں مروا دیتا تھا۔
کہتا تھا کہ یہ سزائیں ان کا مقدر تھیں۔ وہ تو صرف خدائی احکامات پر عملدرآمد کرتا ہے۔ پاگل پن کی انتہا دیکھیے کہ روس میں بدترین قحط اور غربت کا دور دورہ تھا۔ اور ایون کے حکم سے کسانوں کو کسی بھی بہتر جگہ منتقل ہونے سے جبرن روک دیا گیا تھا۔ غلہ کی کمی' اس کا فطری نتیجہ تھا، مگر ایون کے مطابق بھوک سے مرنا صرف اس لیے تھا کہ عام لوگ حد درجہ گناہ کرتے تھے۔ ان پر قحط خدا کا عذاب بن کر آیا ہے۔
1560میں ایون نے ایک حددرجہ منفرد سیاسی حکم جاری کیا۔ اس پالیسی کا نام Oprichninaتھا۔ اس کے پیروکاروں کو oprichniki کہا جاتا تھا۔ یہ افراد بادشاہ کے ذاتی وفادار ہوتے تھے۔ اس کی سربراہی Malyutنام کا ایک خواجہ سرا کرتا تھا۔ بادشاہ نے ان کو بڑ ی بڑی جاگیریں عطا کی تھیں۔ یہ ہردنیاوی قانون سے بالا تر تھے۔ یہ کسی کو بھی قتل کر سکتے تھے ۔ زندہ دفن کرسکتے تھے۔
نو وہ گراڈ کی فتح کے بعد ان oprichnikiافراد نے ساٹھ ہزار شہریوں کی آنکھیں نکال دی تھیں۔ پھر انھیں volkhovدریا میں ڈبو ڈالا تھا۔ بادشاہ کیونکہ ہر وقت شک کی کیفیت میں رہتا تھا اور اسے لگتا تھا کہ اہم ترین درباری اس کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ لہٰذا موت کے ان سوداگروں کو کسی کو بھی صرف اور صرف شک کی بنیاد پر مارنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ ایون کی یہ قبیح ترین ریاستی پالیسی کئی برس بغیر کسی مداخلت کے برقرار رہی۔ ایک بات کا ذکر کرنا حد درجہ ضروری ہے۔ ایون راسخ العقیدہ مسیحی تھا۔مگر اس نے عیسائیت کی ذاتی تشریح کی ہوئی تھی۔ جو اقتدار پر مسلسل قابض رہنے سے وابستہ تھی۔ اپنے آپ کو خدا کی طرف سے متعین شدہ برتر انسان سمجھتا تھا۔ اور گمان تھا کہ خدا نے اسے ہر برائی کو ختم کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
اس کے نزدیک سب سے بڑی برائی' بادشاہ کے خلاف سوچنا اور کسی قسم کی بغاوت کرنا تھا۔ یہ ناقابل معافی جرم تھا جس کی سزا یہ تھی کہ بادشاہ اس باغی کو جہنم بھیجنے کی طاقت رکھتا تھا۔ ایک دن لگا کہ اس کا بڑا بیٹا Ivanovichجو کہ ولی عہد بھی تھا۔ بغاوت کے متعلق سوچ رہا ہے ۔ ایون نے ولی عہد کو دربار میں بلایا ۔ ایک کلہاڑا منگوا کر اس کی کھوپڑی کے دو ٹکڑے کر ڈالے۔ تاریخ دان ایون کو ایک نفسیاتی مریض کے طور پر یاد رکھتے ہیں۔ کئی لوگ اسے پاگل بھی گردانتے ہیں۔ مگر ایک چیز یاد رکھیے ۔ اپنی دولت اور سلطنت کو محفوظ رکھنے میں ایون کو کسی بھی پاگل پن کا دورہ نہیں پڑتا تھا۔
اپنے ملک کے مقتدر طبقے اور اقتدار پر قابض یا منتظر سیاست دانوں پر نظر دوڑانا ہوں تو مجھے ایون جیسے متعدد لوگ نظر آتے ہیں۔ یہ رجحان صرف مقتدر سیاست دانوں کا خاصہ نہیں بلکہ ریاستی اداروں کے کلیدی افراد' بشمول مذہبی پیشواؤں میں بھی بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔ معاشرہ کو دو حصوں میں تقسیم کر لیں۔ یعنی محکوم طبقہ اور حکمران لوگ۔ تو آپ کو ایون چہارم کی جدید تصویر اور فلسفہ ہر کوچہ میں نظر آئے گا۔ شاید آپ تسلیم نہ کریں مگر سچ یہی ہے کہ چند سیاست دان اور ریاستی اداروں کے مخصوص سربراہان ' عام آدمیوں کی شریانوں سے خون کے آخری قطرے نکال کر اپنا دستر خوان رنگین کر رہے ہیں۔
ایون' کسانوں کو کم غلہ پیدا کرنے کی پاداش میں قتل کروا دیتا تھا۔آج بجلی کے بل عام لوگوں کے لیے بربادی کا باعث بن چکے ہیں۔ مگر سوچیے اس کا فائدہ کس کو ہے۔ آئی پی پیز کو ادا کی گئی رقومات بڑے آرام سے مقتدر طبقے کے بیرونی اکاؤنٹ میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ خیر اب تو حکومت ہی سیٹھ کے سیاسی مالکوں کی ہے۔
لہٰذا دھندا عروج پر چل رہاہے۔ ہمارے oprichniki ہر قانون سے بالاتر ہیں۔ حالیہ دنوں میں کرپشن کے کئی کیس عدالتوں نے واپس کر دیے ہیں۔ نیب قوانین کی تبدیلی سے اب ان مقدمات کو چلایا نہیں جا سکتا۔ لہٰذا یہ داخل دفتر ہوچکے ہیں۔ جنھیں جیلوں میں ہونا چاہیے' وہ اب سینہ تان کر اپنی بے گناہی کا تمغہ سینے پر سجا کر معاشرہ میں سرخرو ٹھہرے ہیں۔
یہ ایون کی ریاستی پالیسی oprichniki کی کاربن کاپی ہے۔ یعنی ہمارے حکمران اور ان کے مصاحبین احتساب اور قانون سے بالاتر ہیں۔ کوئی ان کی گرد تک کو نہیں چھو سکتا۔ سیلاب کی طرف آئیے۔ مقتدر طبقہ' غم سے نڈھال نظر آتے ہیں۔ لوگوں کی مشکلات دیکھ کر سینہ کوبی کر رہے ہیں۔ مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس سیلاب میں مقتدر طبقے کے کسی شخص کو رتی بھر نقصان نہیں پہنچا۔ امیر بالکل محفوظ ہیں۔ مگر غریب ہمیشہ کی طرح دربدر ہو چکاہے۔ بڑے شہروں کے امیر علاقے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ دراصل دیکھا جائے تو موجودہ حکمرانوں اور ایون میں رتی بھر بھی فرق نہیں ہے۔
شاید ایک فرق ہو۔ ایون بادشاہ تھا' بلکہ زار تھا۔ تسلیم کرتا تھا کہ وہ ہر قانون سے بالاتر ہے۔ موجودہ حکمران اور ریاستی سربراہان منافقت کی معراج پر فائز ہیں۔ بیانیہ ہے کہ جمہوری طریقے سے مسند شاہی پر بیٹھے ہیں۔ حکومت ان سفلی لوگوں نے میرٹ پر حاصل کی ہے۔ مگر بچہ بچہ جانتا ہے کہ موجودہ حکومتی نظام کا میرٹ اور جمہوریت سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ خوفناک سچ یہ ہے کہ عوام دشمنی میں ان لوگوں اور ایون کی پالیسیوں میںحیرت انگیز یکسانیت ہے۔
اس بدقسمت خطے میں خیر سچ بولنا تو گناہ کبیرہ ہے۔ بائیس کروڑ لوگوں کا ہر طریقے سے استحصال جاری ہے۔ کرم فرما اپنے خزانے بھر رہے ہیں۔ کرپشن کی ہوشربا داستانیں سامنے آ رہی ہیں۔ کرم فرما خزانوں سے بوریاں بھر بھر کر غیر ممالک میں منتقل کر رہے ہیں۔ اور پھر اعلان فرماتے ہیں کہ وہ ہر آلائش سے مبرا ہیں۔ نہیں صاحب۔ ابلاغ کے اس جدید دور میںاب کوئی بھی کسی بھی جعلی نعرے اور قربانیوں کی آڑ لے کر سچا ثابت نہیں ہو سکتا۔ سیاست دان ' کرم فرما' لالچی سوداگرآپس میں ہمیشہ کی طرح شیر و شکر ہو چکے ہیں۔
ملک میں قحط پڑ چکا ہے۔ آٹے کی دس کلو کی بوری اب چودہ سو سے سولہ سو تک جا پہنچی ہے۔ آٹے کی قلت اگر برقرار رہتی ہے تو یہ انارکی کی ابتدا ہو گی۔ شاید خانہ جنگی کی۔ جس شخص کے پاس اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے روٹی نہیں ہو گی' وہ امیر آدمی کا گلہ کاٹے گا۔ عوام میں حکمرانوں کے خلاف غصہ اور نفرت ہے۔
جو اختیار ایون نے اپنے درباریوں کو دے ڈالے تھے ۔ مجھے یہ اختیار جلد ہی عوام کے ہاتھ میں نظر آ رہے ہیں۔ عوام جلد ہی oprichniki بن جائیں گے۔ مختلف شہروں میں جرائم کی شرح میں حد درجہ اضافہ' لوٹ مار' اس قیامت کا ابتدائیہ ہے۔ اور ہاں ہمارے چند مذہبی پیشوا جو دنیا میں سیلاب کو عوام کے گناہ سے تعبیر کر رہے ہیں۔
ان سے بھی سوال ہے کہ عذاب صرف غریب آدمی کے لیے کیوں ہے۔ تکلیف امیر طبقہ سے کیوں خائف ہے۔ یہ پیشوا ہمیں روایتوں کا غلام بنا کر اپنی تجوری بھرنا چاہتے ہیں۔ مستقبل قریب میں عوام کے غصہ کو روکنا اب ناممکن نظر آ رہا ہے۔ قیامت توخیر اب آ ہی چکی ہے؟