نظریے کی جنگ
جس نظریے کی ہم بات کررہے ہیں جس کے لیے یہ بیچارے پچھتر سال سے لڑ رہے ہیں اور بمقام اسلام آباد رہائش پذیرہے
اچھا تو یہ بات ہے ہم بھی حیران تھے، پریشان تھے، ناطقہ سربگریبان اورخامہ انگشت بدندان تھے کہ آخر ہمارے یہ لیڈرلوگوں، سیاسی پارٹیوں اوربڑے بڑوں کو کس ''بھڑ''نے کاٹا ہے کہ اپنا عیش وآرام تیاگ کر کے خواب چھوڑ کردن رات سرگردان رہتے ہیں ،کبھی جلسے، کبھی جلوسوں کبھی دھرنے کبھی ورنے میں خود کو ہلکان کر رہے ہیں ،ان کو یہ کونسا مرض لاحق ہے، اس سلسلے میں ہم نے کئی بار اپنا تحقیق کا ٹٹوبھی دوڑایا تھا لیکن پتہ نہیں چلا تھا۔
لیکن اس رازکو ایک لیڈرنے فاش کردیا ہے کہ ہم ''نظریے''کی جنگ لڑرہے ہیں، اب ہمیں صرف یہ پتہ لگاناہے کہ یہ ''نظریہ'' کون ہے، جس کے لیے یہ سارے بیچارے لڑ رہے ہیں ،نام سے تو ایسا لگتاہے جیسے یہ نظریہ کوئی ''شہزادی''قسم کی چیزہو یا پھر سنگ پارس یاگیدڑ سنگی جیسی کوئی چیزہوجس کے حصول کے لیے یہ لوگ لڑ رہے ہیں ۔
یہ نظریہ بالکل ہی نئی چیزہے یاکم ازکم ہمارے لیے نئی چیز ہے، شاید گل بکاؤلی یاکالاگلاب قسم کی چیزہو۔
چوں کہ نظریہ کی جنگ لڑنے والوں کارخ ہمیشہ اسلام آباد کی طرف رہتاہے، اس لیے بھی اسے اسلام آباد ہی میں ڈھونڈناہوگا۔ویسے بظاہرآسان نظرآنے والا یہ کام اتنا آسان ہے بھی نہیں ،یعنی نظریہ جس کے لیے پچھترسال سے ایک جنگ برپاہے، کوئی ایسی ویسی چیزہوتی تو اب تک کسی نہ کسی کو مل چکی ہوتی یہ بہت ہی کوئی خاص اورمنفرد قسم کی چیزہوسکتی ہے۔
سب سے پہلی مشکل تو یہ ہے کہ ہم نظریے کو پہچانیں گے کیسے؟ کیوںکہ اکثرایسا ہوتاہے کہ ''لوگ''ایسی ہی کسی چیزکی تلاش میں گم ہوتے ہیں اورجب اسے پاتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ وہ چیزتو ان کے پاس تھی لیکن وہ اسے پہچان نہیں پارہے تھے،اس سلسلے میں ہمارے پاس دو کہانیاں ہیں ایک دیسی اورایک ولایتی۔
دیسی کہانی تو ''شرف الدین عطار''کی منطق الطیرہے۔اس کے مطابق ایک مرتبہ پرندوں نے سوچا کہ ہمارا بھی ایک بادشاہ ہوناچاہیے ،چنانچہ بادشاہ ڈھونڈنے کے لیے پرندوں کاایک قافلہ چل پڑا کیوںکہ بتایاگیا کہ دوردرازکے پہاڑوں میں ایک سیمرغ نام کا پرندہ جو بادشاہت کے لائق ہے۔ ہد ہد کی سربراہی میں قافلہ چل پڑا جو سات دشوارگزار وادیوں سے گزرا، ہروادی میں پرندے مرتے رہے اورکم ہوتے رہے، یہ سات وادیاں اصل میں تصوف کے سات مقامات ہیں۔
یہ قافلہ آخری اورساتویں وادی میں پہنچا تو صرف تیس پرندے باقی رہ گئے تھے، باقی راستے میں تلف ہوگئے،اس ساتویں وادی میں پرندوں نے پکارا کہ اے سیمرغ تم کہاں ہو ہمارے ساتھ چلو اورہمارے اوپر بادشاہت کرو۔جواب میں وادی سے آوازآئی کہ یہاں کوئی سیمرغ نہیں ہے بلکہ تم خود ''سی مرغ'' یعنی تیس پرندے ہی سیمرغ ہو۔جاؤاور خود اپنے آپ پر حکومت کرو۔
دوسری کہانی ایک انگریز ''رائیڈرہیگرڈ''نے لکھی ہے کہ اس کہانی کا ہیروانگلینڈ میں رہتاتھا اسے کسی نجومی نے کہاتھا کہ تم ایک عورت کے ذریعے مالامال ہوگے۔ چنانچہ اس نے پتہ لگایا کہ افریقہ کی دشوارگزاروادیوں میں ایک مقام پر ایک عورت حکمران ہے اور بے پناہ لعل و جواہراورسونے چاندی کی مالک ہے چنانچہ یہ بھی چل پڑا،طرح طرح کی مشکلات سے گزرتاہواجب وہ اس عورت تک پہنچا تو سمجھا کہ یہی وہ عورت ہے جس کے ذریعے اسے مالامال ہوناہے لیکن وہ تو شہزادی ملکہ تھی اور ساتھ ہی سخت مزاج بھی ،یہ اسے کیاحاصل کرتا،خود ہی موت کے گرداب میں پھنس گیا۔
آخر کار یہ وہاں سے کسی نہ کسی طرح بھاگ آیا اورخستہ حال ہوکر اپنے وطن پہنچاتو اسے پتہ چلا کہ اس کے دورپار کے رشتے داروں میں ایک بہت ہی امیرعورت نے اپنی وصیت میں سب کچھ اس کے نام کیا ہوا ہے۔
یہ جس نظریے کی ہم بات کررہے ہیں جس کے لیے یہ بیچارے پچھتر سال سے لڑ رہے ہیں اور بمقام اسلام آباد رہائش پذیرہے، اس کاپتہ آخرکار ہمیں ایک دانائے رازنے بتادیا کہ اس کا''نک نیم'' کرسی ہے اور دونوں ناموں کو ملانے سے ''نظریہ کرسی'' بن جاتاہے اوراسی کے لیے سب لڑ رہے ہیں اگرچہ اس لڑائی میں صرف منہ اورزبان کے ہتھیارچلائے جاتے ہیں۔
لیکن اس کرسی یانظریے میں بہت بڑی قباحت یہ ہے کہ یہ بہت ہی ہرجائی ہے کسی کی بھی نہ کبھی ہوئی تھی نہ ہوئی ہے اورنہ ہوگی۔اگرکوئی لڑ جھگڑ کراس تک پہنچتا بھی ہے تو ابھی پوری طرح بیٹھا بھی نہیں ہوتا کہ یہ اسے اٹھا کر پھینک دیتی ہے ۔
لیکن اس رازکو ایک لیڈرنے فاش کردیا ہے کہ ہم ''نظریے''کی جنگ لڑرہے ہیں، اب ہمیں صرف یہ پتہ لگاناہے کہ یہ ''نظریہ'' کون ہے، جس کے لیے یہ سارے بیچارے لڑ رہے ہیں ،نام سے تو ایسا لگتاہے جیسے یہ نظریہ کوئی ''شہزادی''قسم کی چیزہو یا پھر سنگ پارس یاگیدڑ سنگی جیسی کوئی چیزہوجس کے حصول کے لیے یہ لوگ لڑ رہے ہیں ۔
یہ نظریہ بالکل ہی نئی چیزہے یاکم ازکم ہمارے لیے نئی چیز ہے، شاید گل بکاؤلی یاکالاگلاب قسم کی چیزہو۔
چوں کہ نظریہ کی جنگ لڑنے والوں کارخ ہمیشہ اسلام آباد کی طرف رہتاہے، اس لیے بھی اسے اسلام آباد ہی میں ڈھونڈناہوگا۔ویسے بظاہرآسان نظرآنے والا یہ کام اتنا آسان ہے بھی نہیں ،یعنی نظریہ جس کے لیے پچھترسال سے ایک جنگ برپاہے، کوئی ایسی ویسی چیزہوتی تو اب تک کسی نہ کسی کو مل چکی ہوتی یہ بہت ہی کوئی خاص اورمنفرد قسم کی چیزہوسکتی ہے۔
سب سے پہلی مشکل تو یہ ہے کہ ہم نظریے کو پہچانیں گے کیسے؟ کیوںکہ اکثرایسا ہوتاہے کہ ''لوگ''ایسی ہی کسی چیزکی تلاش میں گم ہوتے ہیں اورجب اسے پاتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ وہ چیزتو ان کے پاس تھی لیکن وہ اسے پہچان نہیں پارہے تھے،اس سلسلے میں ہمارے پاس دو کہانیاں ہیں ایک دیسی اورایک ولایتی۔
دیسی کہانی تو ''شرف الدین عطار''کی منطق الطیرہے۔اس کے مطابق ایک مرتبہ پرندوں نے سوچا کہ ہمارا بھی ایک بادشاہ ہوناچاہیے ،چنانچہ بادشاہ ڈھونڈنے کے لیے پرندوں کاایک قافلہ چل پڑا کیوںکہ بتایاگیا کہ دوردرازکے پہاڑوں میں ایک سیمرغ نام کا پرندہ جو بادشاہت کے لائق ہے۔ ہد ہد کی سربراہی میں قافلہ چل پڑا جو سات دشوارگزار وادیوں سے گزرا، ہروادی میں پرندے مرتے رہے اورکم ہوتے رہے، یہ سات وادیاں اصل میں تصوف کے سات مقامات ہیں۔
یہ قافلہ آخری اورساتویں وادی میں پہنچا تو صرف تیس پرندے باقی رہ گئے تھے، باقی راستے میں تلف ہوگئے،اس ساتویں وادی میں پرندوں نے پکارا کہ اے سیمرغ تم کہاں ہو ہمارے ساتھ چلو اورہمارے اوپر بادشاہت کرو۔جواب میں وادی سے آوازآئی کہ یہاں کوئی سیمرغ نہیں ہے بلکہ تم خود ''سی مرغ'' یعنی تیس پرندے ہی سیمرغ ہو۔جاؤاور خود اپنے آپ پر حکومت کرو۔
دوسری کہانی ایک انگریز ''رائیڈرہیگرڈ''نے لکھی ہے کہ اس کہانی کا ہیروانگلینڈ میں رہتاتھا اسے کسی نجومی نے کہاتھا کہ تم ایک عورت کے ذریعے مالامال ہوگے۔ چنانچہ اس نے پتہ لگایا کہ افریقہ کی دشوارگزاروادیوں میں ایک مقام پر ایک عورت حکمران ہے اور بے پناہ لعل و جواہراورسونے چاندی کی مالک ہے چنانچہ یہ بھی چل پڑا،طرح طرح کی مشکلات سے گزرتاہواجب وہ اس عورت تک پہنچا تو سمجھا کہ یہی وہ عورت ہے جس کے ذریعے اسے مالامال ہوناہے لیکن وہ تو شہزادی ملکہ تھی اور ساتھ ہی سخت مزاج بھی ،یہ اسے کیاحاصل کرتا،خود ہی موت کے گرداب میں پھنس گیا۔
آخر کار یہ وہاں سے کسی نہ کسی طرح بھاگ آیا اورخستہ حال ہوکر اپنے وطن پہنچاتو اسے پتہ چلا کہ اس کے دورپار کے رشتے داروں میں ایک بہت ہی امیرعورت نے اپنی وصیت میں سب کچھ اس کے نام کیا ہوا ہے۔
یہ جس نظریے کی ہم بات کررہے ہیں جس کے لیے یہ بیچارے پچھتر سال سے لڑ رہے ہیں اور بمقام اسلام آباد رہائش پذیرہے، اس کاپتہ آخرکار ہمیں ایک دانائے رازنے بتادیا کہ اس کا''نک نیم'' کرسی ہے اور دونوں ناموں کو ملانے سے ''نظریہ کرسی'' بن جاتاہے اوراسی کے لیے سب لڑ رہے ہیں اگرچہ اس لڑائی میں صرف منہ اورزبان کے ہتھیارچلائے جاتے ہیں۔
لیکن اس کرسی یانظریے میں بہت بڑی قباحت یہ ہے کہ یہ بہت ہی ہرجائی ہے کسی کی بھی نہ کبھی ہوئی تھی نہ ہوئی ہے اورنہ ہوگی۔اگرکوئی لڑ جھگڑ کراس تک پہنچتا بھی ہے تو ابھی پوری طرح بیٹھا بھی نہیں ہوتا کہ یہ اسے اٹھا کر پھینک دیتی ہے ۔