پاکستان موسمیاتی تبدیلی کی لپیٹ میں
سیلاب سے ہونے والے نقصانات پورے کرنا اکیلے پاکستان کے وسائل سے ممکن نہیں
جاپان کو اس وقت سمندری طوفان نانماڈول کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے ، اسی حوالے سے ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم شہباز شریف نے جاپان کے عوام اور حکومت سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ '' یہ تباہی اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کی ہولناکیوں سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل بھی وزیر اعظم محمد شہباز شریف اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والے ممالک پاکستان کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا ازالہ کریں ، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے حالیہ سیلاب میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے ، تاہم عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے ، عالمی برادری کو اپنی ذمے داری ادا کرنا ہوگی۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ عالمی ادارے 'جرمن واچ' نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے جائزے پر مبنی اپنی جو رپورٹ پیش کی ہے اس کے مطابق، پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جو ان تبدیلیوں کے باعث بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
اسی طرح، برطانیہ کے موسمیاتی ادارے کی تحقیق بتاتی ہے کہ موسموں کی شدت کے پاکستان بھارت میں ریکارڈ ٹوٹنے کے امکانات سو گنا سے بھی زیادہ ہوچکے ہیں۔ ان اداروں کی رپورٹوں اور جائزوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے کا سلسلہ رکنے والا نہیں اور مستقبل میں ہمیں مزید قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کے محل وقوع کی وجہ سے اسے دو موسمیاتی سسٹمز کے اثرات برداشت کرنا پڑتے ہیں، ایک سسٹم شدید گرمی اور خشک سالی پیدا کرتا ہے، جیسا کہ اس سال مارچ میں آنے والی گرمی کی لہر میں دیکھا گیا اور دوسرا سسٹم مون سون بارشیں لے کر آتا ہے۔
سائنسدانوں نے آنے والے برسوں میں مون سون بارشوں میں مزید شدت کی پیشگوئی کی ہے، پاکستان کے لیے یہ خاص طور پر تباہ کن ہوسکتا ہے کیونکہ قطبی علاقوں کے سوا، دنیا میں سب سے زیادہ گلیشیئر پاکستان میں پائے جاتے ہیں، گرمی بڑھنے سے گلیشیئر زیادہ تیزی سے پگھلتے ہیں، جیسا کہ اس سال دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پاکستان پہلے ہی پانی کی قلت والا ملک قرار دیا جاچکا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اگلے 10 سالوں میں زراعت کا رجحان تبدیل ہوجائے گا، اور ایسی فصلیں جس میں زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کی پیداوار محدود ہوجائے گی، جس کی وجہ سے غذائی عادات میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی، جو آسان نہیں ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا اثر اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر پڑے گا اور یہ مہنگی ہوجائیں گی، اسی طرح یورپ بھر کے جنگلات میں آگ لگنے سے عالمی سطح پر خوراک کی فراہمی متاثر ہوگی۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ خوراک کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے ترقی پذیر معیشتوں کی صورتحال زیادہ خطرناک اور پیچیدہ ہوسکتی ہے ، موسمیاتی تبدیلی طویل مدت میں نقل مکانی کے رجحان کو بھی تیزی سے تبدیل کرے گی۔
پنجاب کے کسان جو کہ اس امید پر تھے کہ اس سال گندم کی پیداوار اچھی ہوگی مگر فصل کی کٹائی سے پہلے بارش کی شدید کمی اور اچانک سے گرم ہوتے موسم نے کسانوں کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا ، حالیہ دنوں میں دریائے سندھ کے کنارے آبادیوں میں 8 فٹ تک پانی جمع ہوا ہے۔
اس طرح ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں، جب کہ اس چند ماہ قبل پنجاب کے مختلف علاقوں بالخصوص جنوبی پنجاب اور صوبہ سندھ میں غیر معمولی گرمی کی لہر کے نتیجے میں گندم کی پیداوار گزشتہ سال 50 من فی ایکڑ سے انتہائی کم ہو کر اس سال صرف 30 من فی ایکڑ رہ گئی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں اندریں حالات، ہماری معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور ہم بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان بھی سہنا ہوگا۔
ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی اور شدید مون سون کے درمیان براہِ راست تعلق ہے، عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے ہوا اور پانی مزید گرم ہوتے ہیں، جس سے پانی کی زیادہ مقدار بخارات میں تبدیل ہوتی ہے، گرم ہوا میں بخارات کو سمیٹنے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے تب ہی مون سون بارشیں شدت سے برستی ہیں۔ ہمیں زرعی اجناس کو ذخیرہ کرنے اور ترسیل کرنے کے لیے انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری سے اچھا منافع مل سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں اشیا کی رسد میں اتار چڑھاؤ کے اثرات سے بچانے کے لیے محفوظ ذخائر کے لیے بہتر گوداموں کی ضرورت ہوگی۔
سرمایہ کاری کے نقطہ نظر سے نجی کمپنیوں کو نئے شعبوں میں جارحانہ انداز میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلے زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کھاد اور ٹریکٹر تک محدود تھی، لیکن اب اسے جدید بنانے اور باضابطہ سرمائے تک رسائی دینے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پاکستانی معاشرے اور معیشت کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوگی جب کہ پانی کی قلت کے سبب مہنگائی بلُند سطح پر برقرار رہے گی، جس سے قلیل عرصے میں سیاسی عدم استحکام جاری رہے گا۔
سرمایہ کاری اور معاشی منصوبہ بندی کے عمل میں موسم کی وجہ سے ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں اور پالیسی سازوں نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟ اور بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے اس حوالے سے ہماری کتنی اور کیسے مدد کرسکتے ہیں؟ رواں برس 6 سے 18 نومبر تک مصر کے شہر شرم الشیخ میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سالانہ کانفرنس ہورہی ہے ، جسے 'کانفرنس آف دی پارٹیز' یا 'کوپ' بھی کہا جاتا ہے۔
یہ اس سلسلے کی ستائیسویں کانفرنس ہے، یوں یہ کوپ27 کہلائے گی۔ تیس سال پہلے جون 1992میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں وجود میں آنے والے اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج نامی معاہدے کے تحت ہونے والی ان کانفرنسوں کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے اثرات پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لینا ہے۔
مذکورہ معاہدے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے ''موسمیاتی نظام میں خطرناک انسانی مداخلت'' کا انسداد کیا جائے گا۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران یہ کام کس حد تک ممکن ہو پایا ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اپنے حالیہ دور پاکستان کے موقعے پر ملک کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گئے اور وہاں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا جائزہ لیا۔ اس موقعے پر انھوں نے کہا کہ '' پاکستان دوسرے ملکوں کی پیدا کردہ آلودگی سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔
سیلاب سے ہونے والے نقصانات پورے کرنا اکیلے پاکستان کے وسائل سے ممکن نہیں، دنیا کی ذمے داری ہے کہ اس مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دے۔'' انتونیو گوتریس کا یہ بیان کئی حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ذریعے جہاں انھوں نے ایک طرف پاکستان سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے وہیں انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کا موسمیاتی تبدیلیوں میں اتنا حصہ نہیں ہے جتنی قیمت انھیں ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک دنیا میں مختلف قسم کی آلودگیوں کے بڑھنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے ذمے دار ہیں لیکن وہ طاقتور ہیں اس لیے ان کا ہاتھ کوئی نہیں روک سکتا۔
سیلاب نے پاکستان کے بڑے حصے کو جس بری طرح متاثر کیا ہے اور اس سے جو نقصان ہوا ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ اس سے بحال ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں جو نقصان ہوا وہ اکتوبر 2005میں آنے والے زلزلے سے ہونے والے نقصان سے زیادہ ہے۔
یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان کی پارلیمان کے اندر اور باہر موجود تمام سیاسی قیادت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز اس حوالے سے متفق ہوں کہ پاکستان کو موسمیاتی آفات کے نقصانات سے بچانے کے لیے ہم نے جلد از جلد ایک جامع اور قابلِ عمل پالیسی وضع کرنی ہے تاکہ ملک کی معیشت کو ہر تھوڑے عرصے بعد لگنے والے بڑے دھچکے سے محفوظ رکھا جاسکے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کے بارے میں مسلسل بین الاقوامی سطح پر بات کرنا اور مذکورہ پالیسی کی تشکیل کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانا ہمارے مقتدر حلقوں کی پسند ناپسند کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ان کا فرض ہے جو انھیں چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے ادا کرنا ہی پڑے گا۔
اس سے قبل بھی وزیر اعظم محمد شہباز شریف اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والے ممالک پاکستان کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا ازالہ کریں ، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے حالیہ سیلاب میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے ، تاہم عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے ، عالمی برادری کو اپنی ذمے داری ادا کرنا ہوگی۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ عالمی ادارے 'جرمن واچ' نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے جائزے پر مبنی اپنی جو رپورٹ پیش کی ہے اس کے مطابق، پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جو ان تبدیلیوں کے باعث بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
اسی طرح، برطانیہ کے موسمیاتی ادارے کی تحقیق بتاتی ہے کہ موسموں کی شدت کے پاکستان بھارت میں ریکارڈ ٹوٹنے کے امکانات سو گنا سے بھی زیادہ ہوچکے ہیں۔ ان اداروں کی رپورٹوں اور جائزوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے کا سلسلہ رکنے والا نہیں اور مستقبل میں ہمیں مزید قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کے محل وقوع کی وجہ سے اسے دو موسمیاتی سسٹمز کے اثرات برداشت کرنا پڑتے ہیں، ایک سسٹم شدید گرمی اور خشک سالی پیدا کرتا ہے، جیسا کہ اس سال مارچ میں آنے والی گرمی کی لہر میں دیکھا گیا اور دوسرا سسٹم مون سون بارشیں لے کر آتا ہے۔
سائنسدانوں نے آنے والے برسوں میں مون سون بارشوں میں مزید شدت کی پیشگوئی کی ہے، پاکستان کے لیے یہ خاص طور پر تباہ کن ہوسکتا ہے کیونکہ قطبی علاقوں کے سوا، دنیا میں سب سے زیادہ گلیشیئر پاکستان میں پائے جاتے ہیں، گرمی بڑھنے سے گلیشیئر زیادہ تیزی سے پگھلتے ہیں، جیسا کہ اس سال دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پاکستان پہلے ہی پانی کی قلت والا ملک قرار دیا جاچکا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اگلے 10 سالوں میں زراعت کا رجحان تبدیل ہوجائے گا، اور ایسی فصلیں جس میں زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کی پیداوار محدود ہوجائے گی، جس کی وجہ سے غذائی عادات میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی، جو آسان نہیں ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا اثر اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر پڑے گا اور یہ مہنگی ہوجائیں گی، اسی طرح یورپ بھر کے جنگلات میں آگ لگنے سے عالمی سطح پر خوراک کی فراہمی متاثر ہوگی۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ خوراک کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے ترقی پذیر معیشتوں کی صورتحال زیادہ خطرناک اور پیچیدہ ہوسکتی ہے ، موسمیاتی تبدیلی طویل مدت میں نقل مکانی کے رجحان کو بھی تیزی سے تبدیل کرے گی۔
پنجاب کے کسان جو کہ اس امید پر تھے کہ اس سال گندم کی پیداوار اچھی ہوگی مگر فصل کی کٹائی سے پہلے بارش کی شدید کمی اور اچانک سے گرم ہوتے موسم نے کسانوں کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا ، حالیہ دنوں میں دریائے سندھ کے کنارے آبادیوں میں 8 فٹ تک پانی جمع ہوا ہے۔
اس طرح ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں، جب کہ اس چند ماہ قبل پنجاب کے مختلف علاقوں بالخصوص جنوبی پنجاب اور صوبہ سندھ میں غیر معمولی گرمی کی لہر کے نتیجے میں گندم کی پیداوار گزشتہ سال 50 من فی ایکڑ سے انتہائی کم ہو کر اس سال صرف 30 من فی ایکڑ رہ گئی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں اندریں حالات، ہماری معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور ہم بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان بھی سہنا ہوگا۔
ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی اور شدید مون سون کے درمیان براہِ راست تعلق ہے، عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے ہوا اور پانی مزید گرم ہوتے ہیں، جس سے پانی کی زیادہ مقدار بخارات میں تبدیل ہوتی ہے، گرم ہوا میں بخارات کو سمیٹنے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے تب ہی مون سون بارشیں شدت سے برستی ہیں۔ ہمیں زرعی اجناس کو ذخیرہ کرنے اور ترسیل کرنے کے لیے انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری سے اچھا منافع مل سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں اشیا کی رسد میں اتار چڑھاؤ کے اثرات سے بچانے کے لیے محفوظ ذخائر کے لیے بہتر گوداموں کی ضرورت ہوگی۔
سرمایہ کاری کے نقطہ نظر سے نجی کمپنیوں کو نئے شعبوں میں جارحانہ انداز میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلے زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کھاد اور ٹریکٹر تک محدود تھی، لیکن اب اسے جدید بنانے اور باضابطہ سرمائے تک رسائی دینے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پاکستانی معاشرے اور معیشت کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوگی جب کہ پانی کی قلت کے سبب مہنگائی بلُند سطح پر برقرار رہے گی، جس سے قلیل عرصے میں سیاسی عدم استحکام جاری رہے گا۔
سرمایہ کاری اور معاشی منصوبہ بندی کے عمل میں موسم کی وجہ سے ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں اور پالیسی سازوں نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟ اور بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے اس حوالے سے ہماری کتنی اور کیسے مدد کرسکتے ہیں؟ رواں برس 6 سے 18 نومبر تک مصر کے شہر شرم الشیخ میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سالانہ کانفرنس ہورہی ہے ، جسے 'کانفرنس آف دی پارٹیز' یا 'کوپ' بھی کہا جاتا ہے۔
یہ اس سلسلے کی ستائیسویں کانفرنس ہے، یوں یہ کوپ27 کہلائے گی۔ تیس سال پہلے جون 1992میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں وجود میں آنے والے اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج نامی معاہدے کے تحت ہونے والی ان کانفرنسوں کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے اثرات پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لینا ہے۔
مذکورہ معاہدے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے ''موسمیاتی نظام میں خطرناک انسانی مداخلت'' کا انسداد کیا جائے گا۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران یہ کام کس حد تک ممکن ہو پایا ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اپنے حالیہ دور پاکستان کے موقعے پر ملک کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گئے اور وہاں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا جائزہ لیا۔ اس موقعے پر انھوں نے کہا کہ '' پاکستان دوسرے ملکوں کی پیدا کردہ آلودگی سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔
سیلاب سے ہونے والے نقصانات پورے کرنا اکیلے پاکستان کے وسائل سے ممکن نہیں، دنیا کی ذمے داری ہے کہ اس مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دے۔'' انتونیو گوتریس کا یہ بیان کئی حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ذریعے جہاں انھوں نے ایک طرف پاکستان سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے وہیں انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کا موسمیاتی تبدیلیوں میں اتنا حصہ نہیں ہے جتنی قیمت انھیں ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک دنیا میں مختلف قسم کی آلودگیوں کے بڑھنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے ذمے دار ہیں لیکن وہ طاقتور ہیں اس لیے ان کا ہاتھ کوئی نہیں روک سکتا۔
سیلاب نے پاکستان کے بڑے حصے کو جس بری طرح متاثر کیا ہے اور اس سے جو نقصان ہوا ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ اس سے بحال ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں جو نقصان ہوا وہ اکتوبر 2005میں آنے والے زلزلے سے ہونے والے نقصان سے زیادہ ہے۔
یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان کی پارلیمان کے اندر اور باہر موجود تمام سیاسی قیادت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز اس حوالے سے متفق ہوں کہ پاکستان کو موسمیاتی آفات کے نقصانات سے بچانے کے لیے ہم نے جلد از جلد ایک جامع اور قابلِ عمل پالیسی وضع کرنی ہے تاکہ ملک کی معیشت کو ہر تھوڑے عرصے بعد لگنے والے بڑے دھچکے سے محفوظ رکھا جاسکے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کے بارے میں مسلسل بین الاقوامی سطح پر بات کرنا اور مذکورہ پالیسی کی تشکیل کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانا ہمارے مقتدر حلقوں کی پسند ناپسند کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ان کا فرض ہے جو انھیں چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے ادا کرنا ہی پڑے گا۔