پیپلز پارٹی کو غور کرنا چاہیے

پیپلز پارٹی نے اپنے پہلے دور حکومت میں ایک بہترین لیبر پالیسی تیار کی

tauceeph@gmail.com

مزدور طبقہ کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ بجلی اور گیس کے نرخ ہر ماہ بڑھ جاتے ہیں۔ پٹرول اور اس سے ملحقہ مصنوعات کی قیمتوں کو بین الاقوامی منڈی سے منسلک کیا گیا ہے جس کی بناء پر ہر ماہ ڈیزل، مٹی کا تیل اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔

مہنگائی کا گراف آسمان تک پہنچ رہا ہے۔ حکومت کے بار بار کے اعلانات کے باوجود ادویات کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور بہت سی ادویات مارکٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔ اس ساری صورتحال کا اثر صنعتی اداروں پر پڑ رہا ہے۔ کراچی کے صنعتی اداروں میں حکومت کی تجویز کردہ کم از کم تنخواہ 25ہزار روپے ماہانہ پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے۔

اب صنعتی ادارے تھرڈ پارٹی کے ذریعہ ملازم رکھتے ہیں، یوں وہ صنعتی ادارے مزدوروں کو قانون کے مطابق تنخواہ اور مراعات دینے کے پابند نہیں ہوتے اور جن اداروں میں اب بھی براہِ راست کارکن ملازم رکھے جاتے ہیں انھیں مروجہ قوانین کے مطابق مستقل نہیں کیا جاتا بلکہ معاہداتی بنیادوں پر رکھا جاتا ہے۔ یہ صورتحال صرف صنعتی اداروں میں ہی نہیں ہے بلکہ سروس فراہم کرنے والے ادارے ، بینک اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ عام مزدور سے لے کر اعلیٰ سند یافتہ ایم بی بی ایس اور ایم بی اے ڈگری یافتہ نوجوانوں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

مزدور تحریک سے متعلق تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال چاروں صوبوں میں ہے۔ صنعتی قوانین پر عملدرآمد کے لیے صوبہ میں محنت کا محکمہ قائم ہے۔ محکمہ محنت کی ذمے داری ہے کہ تمام غیر سرکاری اداروں میں خواہ ان کے کام کی نوعیت کچھ بھی ہو قوانین پر عملدرآمد کرائے مگر مزدور کارکنوں کا کہنا ہے کہ محکمہ محنت سفارش اور رشوت کے زور پر چلتا ہے۔

 

اس کے انسپکٹر صنعتی اداروں کی انتظامیہ سے رابطہ کرتے ہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ ان اداروں کی انتظامیہ محکمہ محنت کے افسروں کا دل جیتنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتی ہے، یوں یہ لوگ حکومتی پالیسی پر عملدرآمد کے بجائے کچھ اور فرائض انجام دیتے ہیں۔ ملک بھر میں اور سندھ میں لیبر عدالتیں قائم ہیں مگر ان عدالتوں کی کارکردگی مایوسی کن ہے۔ عمومی طور پر ان عدالتوں کے ججوں کی آسامیاں مدتوں خالی رہتی ہیں۔ اشرف رضوی اپنی جوانی میں ترقی پسند نظریہ سے متاثر ہوئے۔

پہلے طلبہ کو منظم کرنے کے لیے بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں فعال ہوئے، پھر عملی زندگی میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ کمیونسٹ پارٹی چین نواز میں متحرک رہے، قومی مزدور محاذ میں کام کیا۔

انھیں مزدوروں کو منظم کرنے کے لیے ملتان اور سکھر وغیرہ بھیجا گیا۔ اشرف رضوی نے ملتان میں نیشنل عوامی پارٹی کے سابق رہنما اشفاق احمد خان جو بعد میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ویتنام کا پہلا سفیر مقرر کیا تھا کہ ساتھ مل کر ملتان میں ٹریڈ یونین کو منظم کرنے کی جدوجہد کی۔ 1970 میں اشرف رضوی کو اشفاق احمد خان اور پیپلز پارٹی کے رہنما محمود نواز بابر کے ہمراہ فوجی عدالت قیدوبند کی سزائیں دی تھیں۔


انھوں نے جنوبی پنجاب میں سخت گرمی میں پہلے ملتان جیل اور پھر بہاولپور جیل کی سختیاں برداشت کی تھیں۔ اشرف رضوی نے ایک ادارے کے تین مزدوروں سلطان اور اکبر وغیرہ کا مقدمہ لڑا۔ ان مزدوروں نے سندھ لیبر کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا کہ وہ ادارہ کے مستقل ملازم تھے۔ ان مزدوروں کا استدلال تھا کہ پہلے انھیں بنیادی قانونی حقوق سے محروم کیا گیا پھر ملازمت سے برطرف کیا گیا۔

کمپنی کے وکیل نے یہ جواب جمع کرایا کہ یہ لوگ کمپنی کے ملازم نہیں تھے بلکہ ٹھیکیدار کے ملازم تھے اور لیبر کورٹ کو اس مقدمہ کی سماعت کا اختیار نہیں ہے، یوں یہ مقدمہ این آئی آر سی میں منتقل ہوا۔ این آئی آر سی کے معزز جج مختار صاحب نے اپنے فیصلہ میں تحریر کیا کہ مزودر اس کمپنی کی مشینوں پر کام کرتے تھے اور خام مال بھی کمپنی ہی فراہم کرتی تھی اور کام کے معیار کو کمپنی کے افسران چیک کرتے تھے۔

این آئی آر سی نے سپریم کورٹ کے دیگر اداروں سے متعلق اسی طرح کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان مزدوروں کو بحال کیا۔ مزدوروں کے وکیل منان باچہ نے اس فیصلہ کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں نافذ قوانین کے تحت ہر ادارہ قانونی طور پر پابند ہے کہ جو کارکن تین ماہ تک مستقل کام کرے اس کو مستقل کیا جائے۔

90ء کی دہائی سے ان قوانین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے جس کی بناء پر نہ صرف مزدوروں بلکہ وائٹ کارلر پروفیشنل انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔ ملک میں افرادی قوت پر تحقیق کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ غیر سرکاری اداروں میں حالات کار خراب ہونے کی بناء پر ڈاکٹرز، بزنس ایڈمنسٹریشن اور کامرس کے شعبوں میں اعلیٰ ڈگریوں کے حامل ماہرین بیرون ملک ملازمت پر مجبور ہیں۔

پیپلز پارٹی مزدوروں کے حقوق کے نام پر وجود میں آئی ۔ پیپلز پارٹی نے اپنے پہلے دور حکومت میں ایک بہترین لیبر پالیسی تیار کی۔ ان کے دور میں ایمپلائی اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوٹ (E.O.B.I) اور سوشل سیکیورٹی جیسے ادارے وجود میں آئے ۔ حکومت سندھ کی نگرانی میں کام کرنے والے ایک ادارے نے 13 اکتوبر 2017 کو یونین کے سیکریٹری جنرل سعید بلوچ کو آفیسرز گریڈ میں ترقی دی۔30جنوری 2018کو اسے ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ اس کے بعد 335 ملازمین کو بھی ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔

سندھ اپیلٹ کورٹ نے سعید بلوچ سمیت 99 ملازمین کو ملازمت پر بحال کرنے کا حکم دیا مگر انتظامیہ نے عدالت کے اس فیصلہ پر عملدرآمد نہیں کیا۔ مزدور گزشتہ 25 دنوں سے انصاف کے لیے ادارے کے دفتر کے سامنے دھرنا دیے ہوئے بیٹھے ہیں۔

وزیر محنت سندھ سعید غنی جو خود ٹریڈ یونین تحریک کی پیداوار ہیں انھیں اس مسئلہ پر فوری توجہ دینی چاہیے، اگرچہ سندھ پہلا صوبہ ہے جہاں کم از کم اجرت 25 ہزار روپے مقرر کی گئی مگر حکومت نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ایک مزدور رہنما نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کی حکومت اپنے اداروں میں کارکنوں، ڈاکٹروں اور اساتذہ کو کنٹریکٹ پر رکھ رہی ہے اور کئی اداروں میں کم سے کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔

پیپلز پارٹی کو ایک بات پر غور کرنا چایے کہ عمران خان کی سونامی کا مقابلہ مزدور طبقہ کو قانونی مراعات دے کر کیا جاسکتا ہے۔ مزدور طبقہ ہی عمران خان کے بیانیہ کو شکست دے سکتا ہے مگر حالات ظاہر کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے پاس مزدوروں کے مسائل کے حل کے لیے وقت نہیں ہے۔
Load Next Story