آفاتِ ارضی و سماوی میں ادب کا کردار
مختلف ادوار میں ارضی و سماوی آفات کے پسِ منظر میں لکھا گیا ادب ہمارے معاشرتی رویوں اور رجحانات کا عکاس ہے۔
کرۂ ارض کو ابتدا سے ہی تغیرات کا سامنا رہا ہے۔ بعض فطری عوامل ہیں جن کے نتیجہ میں تغیراتی عمل کا تسلسل جاری ہے۔
بحکمِ باریِ تعالیٰ جب یہ عوامل اثر پذیر ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ہول ناک آفات جنم لیتی ہیں مثلاً زلزلہ، طوفان، سیلاب، آتش فشاں کا پھٹنا، قحط و خشک سالی یا وبائی امراض کا پھوٹ پڑنا۔ ان تمام ارضی و سماوی آفات کے وقوع پذیر ہونے کو مختلف زاویوں سے دیکھا، پرکھا اور ان پر اپنا نقطہ نظر بیان کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ مذہبی و سائنسی نقطہ نظر سے۔
آفاتِ ارضی و سماوی کسی بھی نوعیت کی ہوں چاہے وہ سیلاب، زلزلہ، وسیع پیمانے پر انسانوں کی ہجرت و آباد کاری ہو یا ، ہیضہ طاعون و کرونا جیسے وبائی امراض، ادیبوں نے ہمیشہ ان کو اپنا موضوع تحریر بنایا۔ ان آفات کے نتیجے میں معاشرے کو درپیش مسائل اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے لکھی گئی تحاریر بصورتِ نظم و نثر، ناول، افسانہ ، تماثیل یا غیرافسانوی ادب مثلاً اخباری کالمز، مضامین، مقالہ جات، لیکچرز وغیرہ کی صورت میں موجود ہیں۔
مختلف ادوار میں ارضی و سماوی آفات کے پسِ منظر میں لکھا گیا ادب ہمارے معاشرتی رویوں اور رجحانات کا عکاس ہے۔ ادیب ان موضوعات کو زیرِقلم لا کر معاشرے کی راہ نمائی اُس سمت کی طرف کرتا ہے جس سمت پر چل کر معاشرہ بہتری کی طرف گام زن ہوسکے۔
ادیب ان موضوعات پر لکھی تحاریر کے ذریعے ایک طرف تو معاشرے کی موجودہ روش کو اپنا موضوعِ بحث بناتا ہے تو دوسری طرف اپنے مشاہدے، تخیل اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نئی جہتوں سے ہمیں روشناس کراتا ہے جن پر عمل پیرا ہو کر ہم ان آفات سے نبرد آزما ہونے میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ خصوصی ادب ہماری عامیانہ نظروں سے اوجھل پہلوؤں اور مسائل کو زیرِبحث لا کر انہیں معاشرے سے روشناس کراتا ہے۔
ان کے بارے میں آگاہی فراہم کرتا ہے اور ان آفات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے باعثِ تحریک ہوتا ہے۔ یہ خصوصی ادب معاشرے میں ان مسائل پر بات شروع کرنے کا نقطہ آغاز ہوتا ہے جو ایک خاص حلقہ تک محدود ہوتی ہے گویا اپنا موضوع بناکر جب ادیب اسے معاشرے کے سامنے پیش کرتا ہے تو وہ زبان زدِعام ہوجاتی ہے۔ ہر خاص و عام کا موضوعِ بحث ہوتی ہے اور نت نئے زاویوں اور جہتوں سے اسے پرکھا جاتا ہے اور اسے حل کرنے کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ایسی ارضی و سماوی آفات کے نتیجے میں کیسا ادب تخلیق ہوا اور وہ معاشرے پر کس طرح اثرانداز ہوا:
ڈپٹی نذیر احمد کا 1877ء میں لکھا گیا ناول توبۃ النصوح جو تربیتِ اولاد کے لیے مکالمے کی صورت میں لکھا گیا ایک ناول ہے لیکن اس میں دہلی میں پھیلنے والے جان لیوا وبائی مرض ہیضہ اور اس وبا کے خوف میں پیدا ہونے والی تبدیلی کو بھی زیرِبحث لا یا گیا ہے۔ اس ناول کے دیباچے سے ایک اقتباس آپ کے پیشِ خدمت ہے:
''اب سے دُور ایک سال دہلی میں ہیضے کا اتنا زور ہوا کہ ایک حکیم بقا کے کُوچے سے ہر روز تیس تیس چالیس چالیس آدمی چھیجنے لگے۔ ایک بازارِ موت تو البتہ گرم تھا، ورنہ جدھر جاؤسناٹا اور ویرانی، جس طرف نگاہ کرو وحشت و پریشانی، جن بازاروں میں آدھی آدھی رات تک کھوے سے کھوا چھلتا تھا ایسے اُجڑے پڑے تھے کہ دن دوپہر کو بھی جاتے ہوئے ڈر معلوم ہوتا تھا۔ کٹوروں کی جھنکار موقوف، سودے والوں کی پکار بند۔ ملنا جلنا، اختلاط و ملاقات، آمدو شد، بیمار پُرسی و عیادت، باز دیدوزیارت، مہمان داری و ضیافت کی کُل رسمیں لوگوں نے اٹھا دیں۔
ہر شخص اپنی حالت میں مبتلا، مصیبت میں گرفتار، زندگی سے مایوس، کہنے کو زندہ پر مُردہ سے بد تر۔ دل میں ہمت نہ ہاتھ پاؤں میں سکت۔ یا تو گھر میں اٹوانٹی کھٹوانٹی لے کر پڑ رہا یا کسی بیمار کی تیمارداری کی یا کسی رمز آشنا کا مرنا یاد کر کے کچھ رو پیٹ لیا۔ مرگِ مفاجات حقیقت میں انہی دنوں کی موت تھی۔ نہ سان نہ گمان، اچھے خاصے چلتے پھرتے، یکا یک طبیعت نے مالش کی، پہلی ہی کلی میں حواسِ خمسہ مختل ہوگئے۔
الا ماشائاللہ کوئی جز بچ گیا تو بچ گیا، ورنہ جی متلانا اور قضائے مبرم کا آ جانا۔ پھر وصیت کرنے تک کی مہلت نہ تھی۔ ایک پاؤ گھنٹے میں تو بیماری، دوا، دُعا، جان کنی اور مرنا سب ہو چکتا تھا۔
غرض کچھ اس طرح کی عالم گیر وبا تھی کہ گھر گھر اس کا رونا پڑا تھا۔ دو پونے دو مہینے کے قریب وہ آفت شہر میں رہی مگر اتنے ہی دنوں میں شہر کچھ ادھیا سا گیا تھا۔ صد ہا عورتیں بیوہ ہوگئیں، ہزاروں بچے یتیم بن گئے۔
جس سے پوچھو شکایت، جس سے سنو فریاد۔ مگر ایک نصوح جس کا قصہ ہم اس کتاب میں لکھنے والے ہیں کہ عالم شاکی تھا، اور وہ اکیلا شکر گزار۔ دُنیا فریادی تھی اور وہ تنہا مداح۔ نہ اس سبب سے کہ اس کو اس آفت سے گزند نہیں پہنچا۔ خود اس کے گھر میں بھی اکھٹے تین آدمی اس وبا میں تلف ہوئے۔ اچھی خاصی طرح گھر بھر رات کو سو کر اٹھے۔ نصوح نمازِ صبح کی نیت باندھ چکا تھا۔ باپ بیٹے وضو کر رہے تھے۔
مسواک کرتے کرتے اُبکائی آئی۔ ابھی نصوح دوگانہ فرض ادا نہیں کر چکا تھا، سلام پھیر کر کیا دیکھتا ہے کہ باپ نے قضا کی۔ اُن کو مٹی دے کر آیا تو رشتے کی ایک خالہ تھی، اُن کو جاں بحق پایا۔ تیسرے دن گھر کی ماما رُخصت ہوئیں۔ مگر نصوح کی شکر گزاری کا کچھ اور ہی سبب تھا۔ اس کا مقولہ یہ تھا کہ ان دنوں لوگوں کی طبیعتیں کچھ درستی پر آ گئی تھیں۔ دلوں میں رقت و انکسار کی وہ کیفیت تھی کہ عمر بھر کی ریاضت سے پیدا ہونی دُشوار ہے۔
غفلت کو ایسا کاری تازیانہ لگا تھا کہ ہر شخص اپنے فرائضِ مذہبی ادا کرنے پر سرگرم تھا۔ جن لوگوں نے رمضان میں بھی نماز نہیں پڑھی تھی، وہ بھی پانچوں وقت سب سے پہلے مسجد میں آ موجود ہوتے تھے۔ جنہوں نے کبھی بھول کر بھی سجدہ نہیں کیا تھا، ان کا اشراق و تہجد تک بھی قضا نہیں ہونے پاتا تھا۔ دُنیا کی بے ثباتی، تعلقاتِ زندگی کی ناپائداری، سب کے دل پر منقش تھی۔ لوگوں کے سینے صلح کاری کے نُور سے معمور تھے۔ غرض ان دنوں کی زندگی اس پاکیزہ اور مقدس اور بے لوث زندگی کا نمونہ تھی جو مذہب تعلیم کرتا ہے۔''
اس کے بعد ہم کوئٹہ میں آنے والے 1935 ء کے زلزلے کو ادبی حوالے سے دیکھیں تو یقیناً بہت کچھ اس سانحے کے تناظر میں لکھا گیا ہے لیکن میرے سامنے اس وقت معروف سفر نامہ نگار بال کشن بترہ ابر ملتانی کی دو نظمیں ہیں جن میں کوئٹہ کی شام کے دو مناظر زلزلہ سے پہلے اور زلزلہ سے بعد کی عکاسی کی گئی ہے:
زلزلے سے پہلے
آنچ سینوں کی بہ اندازِ ملامت تیز ہے
شام کی دیوی فضاؤں میں تبسم ریز ہے
ہلکے ہلکے ابر میں کچھ روشنی مستور ہے
رات ہے تاروں بھری، سطحِ فلک پُر نُور ہے
یا پرندے اڑتے پھرتے ہیں ہوا میں ہر طرف
تیرتی ہیں بدلیاں روشن فضا میں ہر طرف
جانبِ مہتاب رُخ پھیرے ہوئے ہے آبِ جُو
دامنِ کہسار کو گھیرے ہوئے ہے آبِ جُو
ہر بلند و پست سے فطرت کے گُن گاتی ہوئی
تیز رَو ندی چلی جاتی ہے بل کھاتی ہوئی
اُس کی طلعت ہو رہی ہے ذرے ذرے سے عیاں
بزمِ فطرت پہ ہیں طاری حُسن کی رنگینیاں
از زمین تا آسماں رنگینیِ قدرت ہے عام
روح افزا کس قدر ہے جلوہِ رنگین شام
فصلِ گُل ہے جوش پر بادہ کشوں کی عید ہے
طالبِ دیدارِ ساقی کو نویدِ دید ہے
کوہ بھی بن کر پری اُڑنے کو اب آمادہ ہیں
سبز پریاں ہیں کھڑی یا نخلِ گُل استادہ ہیں
روح کے بیدار کرنے کی ہیں یہ تیاریاں
دستِ قدرت کی سراسر ہیں مرصع کاریاں
ہر طرف موجِ ہوا پھرتی ہے اِترائی ہوئی
سبزہ زاروں پر شعاعِ زرد ہے چھائی ہوئی
دیکھتی رہتی ہے پہروں آنکھ اور تھکتی نہیں
الغرض ہیں اس قدر اس شام کے منظر حسیں
زلزلے کے بعد
کوئی جگنو بھی چمک کر راہ دکھلاتا نہیں
اُف وہ تاریکی نظر کچھ آنکھ کو آتا نہیں
اک بلا بیٹھی ہوکالے جل بکھرائے ہوئے
شام کیا آئی ہے غم کا جال پھیلائے ہوئے
کیوں کیا اس گُلستان کو تُو نے غارت زلزلے
کیا بھلا تُو نے دکھائی یہ قیامت زلزلے
آہ یہ کھنڈرات یہ حسرت نشاں لاشوں کے ڈھیر
یہ قیامت یہ تباہی یہ ستم اور یہ اندھیر
سو رہے ہیں گردشِ ایام کے مارے ہوئے
حسرتوں کے جستجوئے خام کے مارے ہوئے
دیکھ کر یہ منظر اندوہگین و دل فگار
زخمیوں کی شب لے سناٹے میں یہ چیخ و پکار
چل رہی ہے بادِ صرصر سسکیاں بھرتی ہوئی
دشت و صحرا میں برابر بین سا کرتی ہوئی
اشکِ شبنم ہیں فضا کے دیدہِ غمناک میں
حسرتیں مضطر نظر آتی ہیں ہر سُو خاک میں
ہوش کی دُنیا سے بیگانہ بنانے کو مُجھے
اُڑ رہی ہے خاک دیوانہ بنانے کو مُجھے
شہر ہے شہرِخموشاں اور ہر گھر ہے مزار
اب نہ وہ گلشن، نہ وہ رونق، نہ وہ رنگِ بہار
کچھ خبر ہے تجھ کو او نادان اس انجام کی
ہے جلو میں ہر سحر کے تیرگی اک شام کی
پیس دوںگا ایک گردش میں یہ جہاں کچھ بھی نہیں
کہہ رہا ہے آسماں یہ سب سماں کچھ بھی نہیں
حالیہ کرونا وبا کے پسِ منظر میں دُنیا بھر میں جو ادب نظم یا نثری شکل میں تحریر کیا گیا ہے مرحوم آصف فرخی صاحب نے اپنی اسے ایک جگہ جمع کیا اور دیگر زبانوں سے اردو میں ترجمہ بھی کروا یا۔ فرخی صاحب نے ادبی جریدے دُنیا زاد کے کرونا وبا سے متعلق خصوصی شمارہ کے لیے یہ تمام تحاریر جمع کیں۔
آپ نے نہ صرف بیرونِ پاکستان سے بلکہ پاکستانی ادیبوں اور قلم کاروں سے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس موضوع پر لکھی اپنی تحریریں اس خصوصی شمارے کے لیے بھیجیں۔ آپ کی اس تحریک و ترغیب کے نتیجے میں پاکستان بھر سے ادیبوں اور قلم کاورں نے اپنی تحریروں کے ذریعے حصہ ڈالا۔
دنیا زاد کے وبا نمبر کا اہم حصہ افسانوں اور تراجم کاہے، جس میں نورالہدیٰ شاہ کا ''المیہ''، محمدحمیدشاہد کی تین تحریریں ''وبا، بارش اور بندش''، ''وباکے دنوں میں اپنا مختیارا'' اور ''کورونا اور قرنطینہ'' ناصرعباس نیر کا ''مرگ عام نعمت ہے'' ذکیہ مشہدی کے ''آج کی امراؤ'' اور ''نورجہاں'' ڈاکٹرفاطمہ حسن کے ''مکر کرنے والے'' اور ''کہانی ایک سفر کی'' اور شہلانقوی کا ''ایک تنہا دن'' شامل ہیں۔
شاعری میں منیب الرحمٰن، کشور ناہید، ڈاکٹرفاطمہ حسن، تنویرانجم، سلمان ثروت کی تخلیقات اور مختلف زبانوں سے دانیال شیرازی، تنویرانجم، انعام ندیم اور آصف فرخی کے تراجم شامل ہیں۔ ندیم اقبال نے گونیکیلو ایم ٹیورس کے ''وباکے دنوں کا روزنامچہ''کا ترجمہ کیا ہے۔
عثمان قاضی ''کووڈ19ڈائری''، انیس ہارون ''ڈائری'' کے ساتھ موجود ہیں۔ کشور ناہید، فاطمہ حسن اور عشرت آفریں کی نظمیں بھی اس شمارے کا حصہ ہیں۔ کرونا وبا کو شعراء نے بھی اپنا موضوع سخن بنایا ہے۔ شعراء نے اپنی شاعری میں کہیں تو ان آفاتی موضوعات کو حقیقی اور کہیں ان موضوعات کو تشبیہ یا استعارے کے طو پر استعمال کیا ہے۔
نثر نگاری میں قدرتی آفات اور ماحولیاتی تحفظ کے ضمن میں لکھے گئے ناول جیسا کہ قرۃ العین حیدر کا ناول آخر شب کے ہمسفر؛ شوکت صدیقی کا جانگلوس؛ مستنصر حسین تارڑ کا بہاؤ؛ خالد فتح محمد کا ناول کوہِ گراں؛ آمنہ مفتی کا ناول پانی مر رہا ہے وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
آئیے آخر میں ان آفات سے متعلق چند اشعار ملاحظہ کریں:
زلزلہ
گرا گیا ہے جو شاداب سبز پیڑوں کو
وہ زلزلہ تھا کہ کوئی عذاب تھا، کیا تھا
محمد صدیق نقوی
زلزلہ آیا اور آ کر ہو گیا رخصت مگر
وقت کے رخ پر تباہی کی عبارت لکھ گیا
فراز حامدی
لوگ ملبوں میں دبے سائے بھی دفنانے لگے
زلزلہ اہل زمیں کو بد حواسی دے گیا
محسن نقوی
زندگی جس کی اجڑ جاتی ہے اس سے پوچھو
زلزلہ شہر میں آتا ہے چلا جاتا ہے
ہاشم رضا جلالپوری
سیلاب
سیلاب کی سماعتیں، آندھی کو رہن تھیں
کیا ڈوبتے ہَوؤں کی صدائیں سمیٹتیں
زر خیزیوں سے اپنی پریشان تھی زمیں
کائی کی طرح لاشیں چٹانوں پہ اُگ گئیں
پانی کی پیاس ایسی کہ بجھتی نہ تھی کہیں
پیڑوں کا ظرف وہ کہ جڑیں تک نکال دیں
دریا کی تشنگی میں بڑی وحشتیں رہیں
بچوں کے خواب پی کے بھی حلقوم خشک تھے
نیندیں ہوائے تُند کی موجوں کو بھا گئیں
بارش کے ہاتھ چُنتے رہے بستیوں سے خواب
آندھی کو تھامنے کی بڑی کوششیں ہوئیں
ملبے سے ہر مکان کے، نکلے ہوئے تھے ہاتھ
تہہ سے، دُعا لکھی ہُوئی پیشانیاں تھیں
تعویذ والے ہاتھ مگرمچھ کے پاس تھے
جنگل کی وحشتیں بھی سمندر سے مل گئیں
موجوں کے ساتھ سانپ بھی پھنکارنے لگے
دریا کو سب دھنیں تو ہَواؤں نے لکھ کے دیں
بس رقص پانیوں کا تھا وحشت کے راگ پر
پروین شاکر
ہے شور ساحلوں پر سیلاب آ رہا ہے
آنکھوں کو غرق کرنے پھر خواب آ رہا ہے
فرحت احساس
بستی کے گھروں کو کیا دیکھے، بنیاد کی حرمت کیا جانے
سیلاب کا شکوہ کون کرے، سیلاب تو اندھا پانی ہے
سلیم احمد
حسرت ہو؟ تمناؤں کا سیلاب ہو؟ کیا ہو؟
تم زندہ حقیقت ہو؟کوئی خواب ہو؟ کیا ہو؟
فاروق جائسی
اپنی تنہائی کے سیلاب میں بہتے رہنا
کتنا دشوار ہے اے دوست اکیلے رہنا
طارق شاہین
آنکھوں کا پورا شہر ہی سیلاب کر گیا
یہ کون مجھ میں نظم کی صورت اتر گیا
آلوک مشرا
روتا ہوں تو سیلاب سے کٹتی ہیں زمینیں
ہنستا ہوں تو ڈھے جاتے ہیں کہسار مری جاں
خورشید اکبر
قحط:
قحط نے سارے گھر اجاڑ دیے
ایک جو بچ گیا ہے خالی ہے
انعام کبیر
لوگ روئے لپٹ کے سایوں سے
قحط انساں کی یہ نشانی ہے
فلک شیر انجم رفائیلی
آدم زادوں کی دُنیا میں جینا ہوا محال
آدمی توہر سُو ہے پر ہے قحط الرجال
شہزاد نیاز
ہے قحط نہ طوفاں نہ کوئی خوف وبا کا
اس دیس پہ سایہ ہے کسی اور بلا کا
سعید احمد اختر
کرونا (وبا):
یہ جو ملاتے پھرتے ہو تم ہر کسی سے ہاتھ
ایسا نہ ہو کہ دھونا پڑے زندگی سے ہاتھ
جاوید صبا
غم کی راتیں ہیں، فنا کے دن ہیں گریہ و آہ و بکا کے دن ہیں
تم تو پہلے ہی نہیں ملتے تھے اور پھر اب تو وبا کے دن ہیں
سید قاسم جعفری
دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو
کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے
ایمان قیصرانی
بھوک سے یا وبا سے مرنا ہے
فیصلہ آدمی کو کرنا ہے
عشرت آفریں
شہر گم صم راستے سنسان گھر خاموش ہیں
کیا بلا اتری ہے کیوں دیوار و در خاموش ہیں
اظہرنقوی
میں وہ محروم عنایت ہوں کہ جس نے تجھ سے
ملنا چاہا تو بچھڑنے کی وبا پھوٹ پڑی
نعیم ضرار احمد
بحکمِ باریِ تعالیٰ جب یہ عوامل اثر پذیر ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ہول ناک آفات جنم لیتی ہیں مثلاً زلزلہ، طوفان، سیلاب، آتش فشاں کا پھٹنا، قحط و خشک سالی یا وبائی امراض کا پھوٹ پڑنا۔ ان تمام ارضی و سماوی آفات کے وقوع پذیر ہونے کو مختلف زاویوں سے دیکھا، پرکھا اور ان پر اپنا نقطہ نظر بیان کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ مذہبی و سائنسی نقطہ نظر سے۔
آفاتِ ارضی و سماوی کسی بھی نوعیت کی ہوں چاہے وہ سیلاب، زلزلہ، وسیع پیمانے پر انسانوں کی ہجرت و آباد کاری ہو یا ، ہیضہ طاعون و کرونا جیسے وبائی امراض، ادیبوں نے ہمیشہ ان کو اپنا موضوع تحریر بنایا۔ ان آفات کے نتیجے میں معاشرے کو درپیش مسائل اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے لکھی گئی تحاریر بصورتِ نظم و نثر، ناول، افسانہ ، تماثیل یا غیرافسانوی ادب مثلاً اخباری کالمز، مضامین، مقالہ جات، لیکچرز وغیرہ کی صورت میں موجود ہیں۔
مختلف ادوار میں ارضی و سماوی آفات کے پسِ منظر میں لکھا گیا ادب ہمارے معاشرتی رویوں اور رجحانات کا عکاس ہے۔ ادیب ان موضوعات کو زیرِقلم لا کر معاشرے کی راہ نمائی اُس سمت کی طرف کرتا ہے جس سمت پر چل کر معاشرہ بہتری کی طرف گام زن ہوسکے۔
ادیب ان موضوعات پر لکھی تحاریر کے ذریعے ایک طرف تو معاشرے کی موجودہ روش کو اپنا موضوعِ بحث بناتا ہے تو دوسری طرف اپنے مشاہدے، تخیل اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نئی جہتوں سے ہمیں روشناس کراتا ہے جن پر عمل پیرا ہو کر ہم ان آفات سے نبرد آزما ہونے میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ خصوصی ادب ہماری عامیانہ نظروں سے اوجھل پہلوؤں اور مسائل کو زیرِبحث لا کر انہیں معاشرے سے روشناس کراتا ہے۔
ان کے بارے میں آگاہی فراہم کرتا ہے اور ان آفات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے باعثِ تحریک ہوتا ہے۔ یہ خصوصی ادب معاشرے میں ان مسائل پر بات شروع کرنے کا نقطہ آغاز ہوتا ہے جو ایک خاص حلقہ تک محدود ہوتی ہے گویا اپنا موضوع بناکر جب ادیب اسے معاشرے کے سامنے پیش کرتا ہے تو وہ زبان زدِعام ہوجاتی ہے۔ ہر خاص و عام کا موضوعِ بحث ہوتی ہے اور نت نئے زاویوں اور جہتوں سے اسے پرکھا جاتا ہے اور اسے حل کرنے کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ایسی ارضی و سماوی آفات کے نتیجے میں کیسا ادب تخلیق ہوا اور وہ معاشرے پر کس طرح اثرانداز ہوا:
ڈپٹی نذیر احمد کا 1877ء میں لکھا گیا ناول توبۃ النصوح جو تربیتِ اولاد کے لیے مکالمے کی صورت میں لکھا گیا ایک ناول ہے لیکن اس میں دہلی میں پھیلنے والے جان لیوا وبائی مرض ہیضہ اور اس وبا کے خوف میں پیدا ہونے والی تبدیلی کو بھی زیرِبحث لا یا گیا ہے۔ اس ناول کے دیباچے سے ایک اقتباس آپ کے پیشِ خدمت ہے:
''اب سے دُور ایک سال دہلی میں ہیضے کا اتنا زور ہوا کہ ایک حکیم بقا کے کُوچے سے ہر روز تیس تیس چالیس چالیس آدمی چھیجنے لگے۔ ایک بازارِ موت تو البتہ گرم تھا، ورنہ جدھر جاؤسناٹا اور ویرانی، جس طرف نگاہ کرو وحشت و پریشانی، جن بازاروں میں آدھی آدھی رات تک کھوے سے کھوا چھلتا تھا ایسے اُجڑے پڑے تھے کہ دن دوپہر کو بھی جاتے ہوئے ڈر معلوم ہوتا تھا۔ کٹوروں کی جھنکار موقوف، سودے والوں کی پکار بند۔ ملنا جلنا، اختلاط و ملاقات، آمدو شد، بیمار پُرسی و عیادت، باز دیدوزیارت، مہمان داری و ضیافت کی کُل رسمیں لوگوں نے اٹھا دیں۔
ہر شخص اپنی حالت میں مبتلا، مصیبت میں گرفتار، زندگی سے مایوس، کہنے کو زندہ پر مُردہ سے بد تر۔ دل میں ہمت نہ ہاتھ پاؤں میں سکت۔ یا تو گھر میں اٹوانٹی کھٹوانٹی لے کر پڑ رہا یا کسی بیمار کی تیمارداری کی یا کسی رمز آشنا کا مرنا یاد کر کے کچھ رو پیٹ لیا۔ مرگِ مفاجات حقیقت میں انہی دنوں کی موت تھی۔ نہ سان نہ گمان، اچھے خاصے چلتے پھرتے، یکا یک طبیعت نے مالش کی، پہلی ہی کلی میں حواسِ خمسہ مختل ہوگئے۔
الا ماشائاللہ کوئی جز بچ گیا تو بچ گیا، ورنہ جی متلانا اور قضائے مبرم کا آ جانا۔ پھر وصیت کرنے تک کی مہلت نہ تھی۔ ایک پاؤ گھنٹے میں تو بیماری، دوا، دُعا، جان کنی اور مرنا سب ہو چکتا تھا۔
غرض کچھ اس طرح کی عالم گیر وبا تھی کہ گھر گھر اس کا رونا پڑا تھا۔ دو پونے دو مہینے کے قریب وہ آفت شہر میں رہی مگر اتنے ہی دنوں میں شہر کچھ ادھیا سا گیا تھا۔ صد ہا عورتیں بیوہ ہوگئیں، ہزاروں بچے یتیم بن گئے۔
جس سے پوچھو شکایت، جس سے سنو فریاد۔ مگر ایک نصوح جس کا قصہ ہم اس کتاب میں لکھنے والے ہیں کہ عالم شاکی تھا، اور وہ اکیلا شکر گزار۔ دُنیا فریادی تھی اور وہ تنہا مداح۔ نہ اس سبب سے کہ اس کو اس آفت سے گزند نہیں پہنچا۔ خود اس کے گھر میں بھی اکھٹے تین آدمی اس وبا میں تلف ہوئے۔ اچھی خاصی طرح گھر بھر رات کو سو کر اٹھے۔ نصوح نمازِ صبح کی نیت باندھ چکا تھا۔ باپ بیٹے وضو کر رہے تھے۔
مسواک کرتے کرتے اُبکائی آئی۔ ابھی نصوح دوگانہ فرض ادا نہیں کر چکا تھا، سلام پھیر کر کیا دیکھتا ہے کہ باپ نے قضا کی۔ اُن کو مٹی دے کر آیا تو رشتے کی ایک خالہ تھی، اُن کو جاں بحق پایا۔ تیسرے دن گھر کی ماما رُخصت ہوئیں۔ مگر نصوح کی شکر گزاری کا کچھ اور ہی سبب تھا۔ اس کا مقولہ یہ تھا کہ ان دنوں لوگوں کی طبیعتیں کچھ درستی پر آ گئی تھیں۔ دلوں میں رقت و انکسار کی وہ کیفیت تھی کہ عمر بھر کی ریاضت سے پیدا ہونی دُشوار ہے۔
غفلت کو ایسا کاری تازیانہ لگا تھا کہ ہر شخص اپنے فرائضِ مذہبی ادا کرنے پر سرگرم تھا۔ جن لوگوں نے رمضان میں بھی نماز نہیں پڑھی تھی، وہ بھی پانچوں وقت سب سے پہلے مسجد میں آ موجود ہوتے تھے۔ جنہوں نے کبھی بھول کر بھی سجدہ نہیں کیا تھا، ان کا اشراق و تہجد تک بھی قضا نہیں ہونے پاتا تھا۔ دُنیا کی بے ثباتی، تعلقاتِ زندگی کی ناپائداری، سب کے دل پر منقش تھی۔ لوگوں کے سینے صلح کاری کے نُور سے معمور تھے۔ غرض ان دنوں کی زندگی اس پاکیزہ اور مقدس اور بے لوث زندگی کا نمونہ تھی جو مذہب تعلیم کرتا ہے۔''
اس کے بعد ہم کوئٹہ میں آنے والے 1935 ء کے زلزلے کو ادبی حوالے سے دیکھیں تو یقیناً بہت کچھ اس سانحے کے تناظر میں لکھا گیا ہے لیکن میرے سامنے اس وقت معروف سفر نامہ نگار بال کشن بترہ ابر ملتانی کی دو نظمیں ہیں جن میں کوئٹہ کی شام کے دو مناظر زلزلہ سے پہلے اور زلزلہ سے بعد کی عکاسی کی گئی ہے:
زلزلے سے پہلے
آنچ سینوں کی بہ اندازِ ملامت تیز ہے
شام کی دیوی فضاؤں میں تبسم ریز ہے
ہلکے ہلکے ابر میں کچھ روشنی مستور ہے
رات ہے تاروں بھری، سطحِ فلک پُر نُور ہے
یا پرندے اڑتے پھرتے ہیں ہوا میں ہر طرف
تیرتی ہیں بدلیاں روشن فضا میں ہر طرف
جانبِ مہتاب رُخ پھیرے ہوئے ہے آبِ جُو
دامنِ کہسار کو گھیرے ہوئے ہے آبِ جُو
ہر بلند و پست سے فطرت کے گُن گاتی ہوئی
تیز رَو ندی چلی جاتی ہے بل کھاتی ہوئی
اُس کی طلعت ہو رہی ہے ذرے ذرے سے عیاں
بزمِ فطرت پہ ہیں طاری حُسن کی رنگینیاں
از زمین تا آسماں رنگینیِ قدرت ہے عام
روح افزا کس قدر ہے جلوہِ رنگین شام
فصلِ گُل ہے جوش پر بادہ کشوں کی عید ہے
طالبِ دیدارِ ساقی کو نویدِ دید ہے
کوہ بھی بن کر پری اُڑنے کو اب آمادہ ہیں
سبز پریاں ہیں کھڑی یا نخلِ گُل استادہ ہیں
روح کے بیدار کرنے کی ہیں یہ تیاریاں
دستِ قدرت کی سراسر ہیں مرصع کاریاں
ہر طرف موجِ ہوا پھرتی ہے اِترائی ہوئی
سبزہ زاروں پر شعاعِ زرد ہے چھائی ہوئی
دیکھتی رہتی ہے پہروں آنکھ اور تھکتی نہیں
الغرض ہیں اس قدر اس شام کے منظر حسیں
زلزلے کے بعد
کوئی جگنو بھی چمک کر راہ دکھلاتا نہیں
اُف وہ تاریکی نظر کچھ آنکھ کو آتا نہیں
اک بلا بیٹھی ہوکالے جل بکھرائے ہوئے
شام کیا آئی ہے غم کا جال پھیلائے ہوئے
کیوں کیا اس گُلستان کو تُو نے غارت زلزلے
کیا بھلا تُو نے دکھائی یہ قیامت زلزلے
آہ یہ کھنڈرات یہ حسرت نشاں لاشوں کے ڈھیر
یہ قیامت یہ تباہی یہ ستم اور یہ اندھیر
سو رہے ہیں گردشِ ایام کے مارے ہوئے
حسرتوں کے جستجوئے خام کے مارے ہوئے
دیکھ کر یہ منظر اندوہگین و دل فگار
زخمیوں کی شب لے سناٹے میں یہ چیخ و پکار
چل رہی ہے بادِ صرصر سسکیاں بھرتی ہوئی
دشت و صحرا میں برابر بین سا کرتی ہوئی
اشکِ شبنم ہیں فضا کے دیدہِ غمناک میں
حسرتیں مضطر نظر آتی ہیں ہر سُو خاک میں
ہوش کی دُنیا سے بیگانہ بنانے کو مُجھے
اُڑ رہی ہے خاک دیوانہ بنانے کو مُجھے
شہر ہے شہرِخموشاں اور ہر گھر ہے مزار
اب نہ وہ گلشن، نہ وہ رونق، نہ وہ رنگِ بہار
کچھ خبر ہے تجھ کو او نادان اس انجام کی
ہے جلو میں ہر سحر کے تیرگی اک شام کی
پیس دوںگا ایک گردش میں یہ جہاں کچھ بھی نہیں
کہہ رہا ہے آسماں یہ سب سماں کچھ بھی نہیں
حالیہ کرونا وبا کے پسِ منظر میں دُنیا بھر میں جو ادب نظم یا نثری شکل میں تحریر کیا گیا ہے مرحوم آصف فرخی صاحب نے اپنی اسے ایک جگہ جمع کیا اور دیگر زبانوں سے اردو میں ترجمہ بھی کروا یا۔ فرخی صاحب نے ادبی جریدے دُنیا زاد کے کرونا وبا سے متعلق خصوصی شمارہ کے لیے یہ تمام تحاریر جمع کیں۔
آپ نے نہ صرف بیرونِ پاکستان سے بلکہ پاکستانی ادیبوں اور قلم کاروں سے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس موضوع پر لکھی اپنی تحریریں اس خصوصی شمارے کے لیے بھیجیں۔ آپ کی اس تحریک و ترغیب کے نتیجے میں پاکستان بھر سے ادیبوں اور قلم کاورں نے اپنی تحریروں کے ذریعے حصہ ڈالا۔
دنیا زاد کے وبا نمبر کا اہم حصہ افسانوں اور تراجم کاہے، جس میں نورالہدیٰ شاہ کا ''المیہ''، محمدحمیدشاہد کی تین تحریریں ''وبا، بارش اور بندش''، ''وباکے دنوں میں اپنا مختیارا'' اور ''کورونا اور قرنطینہ'' ناصرعباس نیر کا ''مرگ عام نعمت ہے'' ذکیہ مشہدی کے ''آج کی امراؤ'' اور ''نورجہاں'' ڈاکٹرفاطمہ حسن کے ''مکر کرنے والے'' اور ''کہانی ایک سفر کی'' اور شہلانقوی کا ''ایک تنہا دن'' شامل ہیں۔
شاعری میں منیب الرحمٰن، کشور ناہید، ڈاکٹرفاطمہ حسن، تنویرانجم، سلمان ثروت کی تخلیقات اور مختلف زبانوں سے دانیال شیرازی، تنویرانجم، انعام ندیم اور آصف فرخی کے تراجم شامل ہیں۔ ندیم اقبال نے گونیکیلو ایم ٹیورس کے ''وباکے دنوں کا روزنامچہ''کا ترجمہ کیا ہے۔
عثمان قاضی ''کووڈ19ڈائری''، انیس ہارون ''ڈائری'' کے ساتھ موجود ہیں۔ کشور ناہید، فاطمہ حسن اور عشرت آفریں کی نظمیں بھی اس شمارے کا حصہ ہیں۔ کرونا وبا کو شعراء نے بھی اپنا موضوع سخن بنایا ہے۔ شعراء نے اپنی شاعری میں کہیں تو ان آفاتی موضوعات کو حقیقی اور کہیں ان موضوعات کو تشبیہ یا استعارے کے طو پر استعمال کیا ہے۔
نثر نگاری میں قدرتی آفات اور ماحولیاتی تحفظ کے ضمن میں لکھے گئے ناول جیسا کہ قرۃ العین حیدر کا ناول آخر شب کے ہمسفر؛ شوکت صدیقی کا جانگلوس؛ مستنصر حسین تارڑ کا بہاؤ؛ خالد فتح محمد کا ناول کوہِ گراں؛ آمنہ مفتی کا ناول پانی مر رہا ہے وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
آئیے آخر میں ان آفات سے متعلق چند اشعار ملاحظہ کریں:
زلزلہ
گرا گیا ہے جو شاداب سبز پیڑوں کو
وہ زلزلہ تھا کہ کوئی عذاب تھا، کیا تھا
محمد صدیق نقوی
زلزلہ آیا اور آ کر ہو گیا رخصت مگر
وقت کے رخ پر تباہی کی عبارت لکھ گیا
فراز حامدی
لوگ ملبوں میں دبے سائے بھی دفنانے لگے
زلزلہ اہل زمیں کو بد حواسی دے گیا
محسن نقوی
زندگی جس کی اجڑ جاتی ہے اس سے پوچھو
زلزلہ شہر میں آتا ہے چلا جاتا ہے
ہاشم رضا جلالپوری
سیلاب
سیلاب کی سماعتیں، آندھی کو رہن تھیں
کیا ڈوبتے ہَوؤں کی صدائیں سمیٹتیں
زر خیزیوں سے اپنی پریشان تھی زمیں
کائی کی طرح لاشیں چٹانوں پہ اُگ گئیں
پانی کی پیاس ایسی کہ بجھتی نہ تھی کہیں
پیڑوں کا ظرف وہ کہ جڑیں تک نکال دیں
دریا کی تشنگی میں بڑی وحشتیں رہیں
بچوں کے خواب پی کے بھی حلقوم خشک تھے
نیندیں ہوائے تُند کی موجوں کو بھا گئیں
بارش کے ہاتھ چُنتے رہے بستیوں سے خواب
آندھی کو تھامنے کی بڑی کوششیں ہوئیں
ملبے سے ہر مکان کے، نکلے ہوئے تھے ہاتھ
تہہ سے، دُعا لکھی ہُوئی پیشانیاں تھیں
تعویذ والے ہاتھ مگرمچھ کے پاس تھے
جنگل کی وحشتیں بھی سمندر سے مل گئیں
موجوں کے ساتھ سانپ بھی پھنکارنے لگے
دریا کو سب دھنیں تو ہَواؤں نے لکھ کے دیں
بس رقص پانیوں کا تھا وحشت کے راگ پر
پروین شاکر
ہے شور ساحلوں پر سیلاب آ رہا ہے
آنکھوں کو غرق کرنے پھر خواب آ رہا ہے
فرحت احساس
بستی کے گھروں کو کیا دیکھے، بنیاد کی حرمت کیا جانے
سیلاب کا شکوہ کون کرے، سیلاب تو اندھا پانی ہے
سلیم احمد
حسرت ہو؟ تمناؤں کا سیلاب ہو؟ کیا ہو؟
تم زندہ حقیقت ہو؟کوئی خواب ہو؟ کیا ہو؟
فاروق جائسی
اپنی تنہائی کے سیلاب میں بہتے رہنا
کتنا دشوار ہے اے دوست اکیلے رہنا
طارق شاہین
آنکھوں کا پورا شہر ہی سیلاب کر گیا
یہ کون مجھ میں نظم کی صورت اتر گیا
آلوک مشرا
روتا ہوں تو سیلاب سے کٹتی ہیں زمینیں
ہنستا ہوں تو ڈھے جاتے ہیں کہسار مری جاں
خورشید اکبر
قحط:
قحط نے سارے گھر اجاڑ دیے
ایک جو بچ گیا ہے خالی ہے
انعام کبیر
لوگ روئے لپٹ کے سایوں سے
قحط انساں کی یہ نشانی ہے
فلک شیر انجم رفائیلی
آدم زادوں کی دُنیا میں جینا ہوا محال
آدمی توہر سُو ہے پر ہے قحط الرجال
شہزاد نیاز
ہے قحط نہ طوفاں نہ کوئی خوف وبا کا
اس دیس پہ سایہ ہے کسی اور بلا کا
سعید احمد اختر
کرونا (وبا):
یہ جو ملاتے پھرتے ہو تم ہر کسی سے ہاتھ
ایسا نہ ہو کہ دھونا پڑے زندگی سے ہاتھ
جاوید صبا
غم کی راتیں ہیں، فنا کے دن ہیں گریہ و آہ و بکا کے دن ہیں
تم تو پہلے ہی نہیں ملتے تھے اور پھر اب تو وبا کے دن ہیں
سید قاسم جعفری
دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو
کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے
ایمان قیصرانی
بھوک سے یا وبا سے مرنا ہے
فیصلہ آدمی کو کرنا ہے
عشرت آفریں
شہر گم صم راستے سنسان گھر خاموش ہیں
کیا بلا اتری ہے کیوں دیوار و در خاموش ہیں
اظہرنقوی
میں وہ محروم عنایت ہوں کہ جس نے تجھ سے
ملنا چاہا تو بچھڑنے کی وبا پھوٹ پڑی
نعیم ضرار احمد