قانون معاشرت سے ہم آہنگ کریں
پچھلے چار سو سال میں مغرب نے سائنس اور ٹیکنالوجی پر بہت توجہ دی۔ حیرت انگیز ایجادات کے نتیجے میں وہاں صنعتی انقلاب آیا۔شہروں میں کارخانے لگے، اچھے تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔گن پاؤڈر کی ایجاد نے ہزاروں سالوں سے جاری جنگی تدابیر کو بدل دیا۔کشتیوں پر مشتمل بحری بیڑوں کی جگہ اسٹیم انجن سے چلنے والے دیو ہیکل بحری جہازوں نے سمندروں پر راج کرنا شروع کر دیا۔صنعتی انقلاب کے نتیجے میںلگنے والے کارخانوں کو خام مال درکار تھا جو مغربی ممالک میں فراوانی سے دستیاب نہیں تھا۔
مغربی جہازرانوں نے دنیا کے ہر کونے میں پہنچ کر خام مال اکٹھا کیا اور ان کارخانوں کو سپلائی کیا۔مغربی جہازراں چار سُو نکلے تو تجارت کے لیے تھے لیکن جلد ہی انھوں نے مقامی باشندوں کو بھرتی کر کے اپنے مسلح دستے تشکیل دینے شروع کر دیے،افواج بنیں اور کئی ممالک پر قبضہ ہو گیا۔
اس طرح استحصالی سلطنتیں قائم ہوئیں اور نو آبادی دور شروع ہوا۔یہ نو آبادی استحصالی سلطنتیں تو اب ختم ہو چکی ہیں لیکن سیاسی اور معاشی استحصال ابھی تک جاری ہے۔مغرب ابھی بھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہے۔مغربی افواج خاص کر امریکی افواج کسی بھی وقت،کسی جگہ پہنچ کر مار دھاڑ کر تے ہوئے تباہی پھیلا سکتی ہیں، اس لیے طاقت کے بل بوتے پر مغرب اپنی تہذیب و تمدن کو ساری دنیا میں رائج دیکھنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے باقی دنیا کو اپنی مرضی کے قوانین بنانے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔
ایک لمبے عرصے سے پاکستان معاشی بدحالی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ہماری سیاسی قیادت میں سے جو بھی حکومت میں آئے اسے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف و ایف اے ٹی ایف سے ریلیف لینے کے لیے مغرب کی کاسہ لیسی کرنی پڑتی ہے، بہت صحیح کہا گیا ہے کہ There is no free lunch کچھ لینے کے لیے کچھ دینا پڑتا ہے۔ایسے میں جب حکومت کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، مغربی دنیا اپنی تہذیبی روایت کو ہمارے اوپر ٹھونسنے کی کوشش کرتی ہے اور ہماری حکومتیں بہت خوشی اور مستعدی سے مغرب کا حکم بجا لاتی ہیں۔
مغربی معاشرے میں اکثریت کے بل بوتے پر کوئی بھی قدم اُٹھایا جا سکتا ہے،کوئی بھی قانون بن سکتا ہے کیونکہ وہاں مذہب زندگیوں کے لیے رہنما نہیں رہا اور فحاشی،فحاشی نہیں رہی بلکہ عام سی بات ہے۔خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارا معاشرہ ابھی بھی مذہب سے رہنمائی چاہتا ہے اور اصلاً بے راہ روی سے مغلوب نہیں ہو گیا۔لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہماری حکومتیں قوانین بناتے وقت اس پر پوری طرح غور اور تیاری نہیں کرتیں، بلکہ جلدی جلدی پاس کرانے کی کوشش کی جاتی ہے، بعض اوقات مسودہ قوانین کو متعلقہ کمیٹی کے پاس بھی نہیں بھیجا جاتا۔ کمیٹی کو بائی پاس کرتے ہوئے براہِ راست اسمبلی اور سینیٹ سے بل پاس کروا لیا جاتا ہے۔
28مئی 2018کو بھی ایسا ہی بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہوا، اس کا مسودہ قانون دونوں ایوانوں کی متعلقہ کمیٹیوں کی طرف بھی نہیں بھیجا گیا۔بظاہر اس قانون کا مقصد ٹرانس جینڈر کے حقوق کا تحفظ قرار دیا گیا ہے لیکن اب اس پر مخالفانہ رائے آنا شروع ہوگئی ہے۔
اس بات سے شاید کسی کو بھی انکار نہیں ہوگا کہ مرد و عورت کی دونوں جنسوں کے علاوہ ایسے افراد جو پیدائشی طور پر ٹرانس جینڈر ہوتے ہیں، ان کو برِ صغیر پاک و ہند میں کئی ایک مشکلات درپیش ہیں۔ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں ہوتا۔ان کے لیے کاروبار اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں،ان میں سے اکثریت کی زندگی ایک ڈراؤنا خواب ہوتا ہے۔
ان کے والدین بھی فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جائے،انھیں کون سے اسکول میں داخل کرایا جائے۔والدین کنفیوژ اور سہمے سہمے رہتے ہیں۔ایسی فضا میں ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کو محفوظ بنانا بہت احسن قدم ہے لیکن اس حوالے سے قوانین بناتے ہوئے اس پر تفصیلی بحث ہونی چاہیے تاکہ قوانین میں کوئی ابہام نہ رہے اور نہ ہی کسی کو اعتراض ہو۔ اگر اس پر اسمبلی کے دونوں ایوانوں میں بحث ہوتی تو قوانین پاس بھی ہو جاتے اور کسی فریق خصوصاً مذہبی طبقے کو اعتراض نہ ہوتا بلکہ ان کے تحفظات دور کردیے جاتے۔
2018میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری دنوں میں خواجہ سرا کے حقوق کے حوالے سے پیپلز پارٹی نے ایک بل پیش کیا تھا۔مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف اور دوسری کئی پارٹیوں نے اپنے تمام سیاسی اختلافات بھلا کر اس بل کی حمایت کی اور یوں یہ بل آناً فاناً بل آف پارلیمنٹ بن گیا۔
پھر اس پر باتیں شروع ہوئیں، بعض حلقوں نے کہا کپ ایسا قانون تو بھارت میں بھی نہیں بن سکا، شاید دنیا کے صرف سات آٹھ ممالک میں اس قسم کا قانون رائج ہے۔اس قانون کے مطابق طبعی یعنی بائیولاجیکل ساخت کے اعتبار سے مکمل مرد اور مکمل عورت کو اپنے احساسات اور پسند کی بنیاد پر ٹرانس جینڈر قرار دیا جا سکتا ہے۔دوسرا ایسے افراد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ چاہیں تو مکمل مرد اور عورت ہونے کے باوجود اپنی جنس اپنی مرضی سے اپنے شناختی کاغذات میں اپنے احساسات کے مطابق تبدیل کرا سکتے ہیں۔
اس کے لیے قانون میںSelf Perceived Gender Identityکی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اس قانون میں لفظ جینڈر کی تین تعریفیں Definitions کی گئی ہیں ۔ پہلی تعریفمیں لفظ ٹرانس جینڈر ہے ، تاہم اس کے لیے زیادہ مناسب لفظ انٹر سیکس یا Hermophadite ہے دوسری تعریف میں مکمل مرد کسی حادثے کی وجہ سے مردانہ صلاحیت کھو دینے پر ٹرانس جینڈر کہلائے گا۔
اس تعریف پر بھی بعض لوگ متفق نہیں ہیں، تیسری تعریف کے مطابق ایسے افراد جو پیدائشی طور پر مکمل مرد یا مکمل عورت ہیںمگر کسی نفسیاتی الجھن یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اپنی جنس Gender سے خوش نہیں ہیں، ایسے افراد کو بھی ان کی بائیولاجیکل ساخت سے ہٹ کر ٹرانس جینڈر کہا گیا ہے۔ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ مبہم تعریفوں سے ہم جنسی پرستی کو قانونی تحفظ ملنے کے خدشات و امکانات ہیں۔
مئی 2018میں پاس ہونے والے اس قانون نے پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر خاصی ہلچل مچائی ہوئی ہے۔ تمام متعلقہ فورمز سے درخواست ہے کہ اس قانون پر کھلے ذہن سے لیکن ہمارے معاشرتی اور مذہبی نظام کو مدِ نطر رکھتے ہوئے سیر حاصل بحث کریں،اس قانون کو اسلامی اور پاکستانی معاشرے کی اقدار سے ہم آہنگ کریں اور اس کے لیے اگر ترامیم کرنی پڑیں تو تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت سے یہ ترامیم کر کے اس میں موجود ابہام کو ختم کیا جائے۔
مغربی جہازرانوں نے دنیا کے ہر کونے میں پہنچ کر خام مال اکٹھا کیا اور ان کارخانوں کو سپلائی کیا۔مغربی جہازراں چار سُو نکلے تو تجارت کے لیے تھے لیکن جلد ہی انھوں نے مقامی باشندوں کو بھرتی کر کے اپنے مسلح دستے تشکیل دینے شروع کر دیے،افواج بنیں اور کئی ممالک پر قبضہ ہو گیا۔
اس طرح استحصالی سلطنتیں قائم ہوئیں اور نو آبادی دور شروع ہوا۔یہ نو آبادی استحصالی سلطنتیں تو اب ختم ہو چکی ہیں لیکن سیاسی اور معاشی استحصال ابھی تک جاری ہے۔مغرب ابھی بھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہے۔مغربی افواج خاص کر امریکی افواج کسی بھی وقت،کسی جگہ پہنچ کر مار دھاڑ کر تے ہوئے تباہی پھیلا سکتی ہیں، اس لیے طاقت کے بل بوتے پر مغرب اپنی تہذیب و تمدن کو ساری دنیا میں رائج دیکھنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے باقی دنیا کو اپنی مرضی کے قوانین بنانے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔
ایک لمبے عرصے سے پاکستان معاشی بدحالی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ہماری سیاسی قیادت میں سے جو بھی حکومت میں آئے اسے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف و ایف اے ٹی ایف سے ریلیف لینے کے لیے مغرب کی کاسہ لیسی کرنی پڑتی ہے، بہت صحیح کہا گیا ہے کہ There is no free lunch کچھ لینے کے لیے کچھ دینا پڑتا ہے۔ایسے میں جب حکومت کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، مغربی دنیا اپنی تہذیبی روایت کو ہمارے اوپر ٹھونسنے کی کوشش کرتی ہے اور ہماری حکومتیں بہت خوشی اور مستعدی سے مغرب کا حکم بجا لاتی ہیں۔
مغربی معاشرے میں اکثریت کے بل بوتے پر کوئی بھی قدم اُٹھایا جا سکتا ہے،کوئی بھی قانون بن سکتا ہے کیونکہ وہاں مذہب زندگیوں کے لیے رہنما نہیں رہا اور فحاشی،فحاشی نہیں رہی بلکہ عام سی بات ہے۔خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارا معاشرہ ابھی بھی مذہب سے رہنمائی چاہتا ہے اور اصلاً بے راہ روی سے مغلوب نہیں ہو گیا۔لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہماری حکومتیں قوانین بناتے وقت اس پر پوری طرح غور اور تیاری نہیں کرتیں، بلکہ جلدی جلدی پاس کرانے کی کوشش کی جاتی ہے، بعض اوقات مسودہ قوانین کو متعلقہ کمیٹی کے پاس بھی نہیں بھیجا جاتا۔ کمیٹی کو بائی پاس کرتے ہوئے براہِ راست اسمبلی اور سینیٹ سے بل پاس کروا لیا جاتا ہے۔
28مئی 2018کو بھی ایسا ہی بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہوا، اس کا مسودہ قانون دونوں ایوانوں کی متعلقہ کمیٹیوں کی طرف بھی نہیں بھیجا گیا۔بظاہر اس قانون کا مقصد ٹرانس جینڈر کے حقوق کا تحفظ قرار دیا گیا ہے لیکن اب اس پر مخالفانہ رائے آنا شروع ہوگئی ہے۔
اس بات سے شاید کسی کو بھی انکار نہیں ہوگا کہ مرد و عورت کی دونوں جنسوں کے علاوہ ایسے افراد جو پیدائشی طور پر ٹرانس جینڈر ہوتے ہیں، ان کو برِ صغیر پاک و ہند میں کئی ایک مشکلات درپیش ہیں۔ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں ہوتا۔ان کے لیے کاروبار اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں،ان میں سے اکثریت کی زندگی ایک ڈراؤنا خواب ہوتا ہے۔
ان کے والدین بھی فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جائے،انھیں کون سے اسکول میں داخل کرایا جائے۔والدین کنفیوژ اور سہمے سہمے رہتے ہیں۔ایسی فضا میں ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کو محفوظ بنانا بہت احسن قدم ہے لیکن اس حوالے سے قوانین بناتے ہوئے اس پر تفصیلی بحث ہونی چاہیے تاکہ قوانین میں کوئی ابہام نہ رہے اور نہ ہی کسی کو اعتراض ہو۔ اگر اس پر اسمبلی کے دونوں ایوانوں میں بحث ہوتی تو قوانین پاس بھی ہو جاتے اور کسی فریق خصوصاً مذہبی طبقے کو اعتراض نہ ہوتا بلکہ ان کے تحفظات دور کردیے جاتے۔
2018میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری دنوں میں خواجہ سرا کے حقوق کے حوالے سے پیپلز پارٹی نے ایک بل پیش کیا تھا۔مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف اور دوسری کئی پارٹیوں نے اپنے تمام سیاسی اختلافات بھلا کر اس بل کی حمایت کی اور یوں یہ بل آناً فاناً بل آف پارلیمنٹ بن گیا۔
پھر اس پر باتیں شروع ہوئیں، بعض حلقوں نے کہا کپ ایسا قانون تو بھارت میں بھی نہیں بن سکا، شاید دنیا کے صرف سات آٹھ ممالک میں اس قسم کا قانون رائج ہے۔اس قانون کے مطابق طبعی یعنی بائیولاجیکل ساخت کے اعتبار سے مکمل مرد اور مکمل عورت کو اپنے احساسات اور پسند کی بنیاد پر ٹرانس جینڈر قرار دیا جا سکتا ہے۔دوسرا ایسے افراد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ چاہیں تو مکمل مرد اور عورت ہونے کے باوجود اپنی جنس اپنی مرضی سے اپنے شناختی کاغذات میں اپنے احساسات کے مطابق تبدیل کرا سکتے ہیں۔
اس کے لیے قانون میںSelf Perceived Gender Identityکی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اس قانون میں لفظ جینڈر کی تین تعریفیں Definitions کی گئی ہیں ۔ پہلی تعریفمیں لفظ ٹرانس جینڈر ہے ، تاہم اس کے لیے زیادہ مناسب لفظ انٹر سیکس یا Hermophadite ہے دوسری تعریف میں مکمل مرد کسی حادثے کی وجہ سے مردانہ صلاحیت کھو دینے پر ٹرانس جینڈر کہلائے گا۔
اس تعریف پر بھی بعض لوگ متفق نہیں ہیں، تیسری تعریف کے مطابق ایسے افراد جو پیدائشی طور پر مکمل مرد یا مکمل عورت ہیںمگر کسی نفسیاتی الجھن یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اپنی جنس Gender سے خوش نہیں ہیں، ایسے افراد کو بھی ان کی بائیولاجیکل ساخت سے ہٹ کر ٹرانس جینڈر کہا گیا ہے۔ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ مبہم تعریفوں سے ہم جنسی پرستی کو قانونی تحفظ ملنے کے خدشات و امکانات ہیں۔
مئی 2018میں پاس ہونے والے اس قانون نے پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر خاصی ہلچل مچائی ہوئی ہے۔ تمام متعلقہ فورمز سے درخواست ہے کہ اس قانون پر کھلے ذہن سے لیکن ہمارے معاشرتی اور مذہبی نظام کو مدِ نطر رکھتے ہوئے سیر حاصل بحث کریں،اس قانون کو اسلامی اور پاکستانی معاشرے کی اقدار سے ہم آہنگ کریں اور اس کے لیے اگر ترامیم کرنی پڑیں تو تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت سے یہ ترامیم کر کے اس میں موجود ابہام کو ختم کیا جائے۔