متبادل نظام کی تلاش ممکن ہوسکے گی
آج کے قومی ، ریاستی یا حکومتی بحران میں اہم سوال مسائل کے حل میں متبادل کی تلاش ہے ۔ بحرانوں کا پیدا ہونا فطری امر مگر بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم بحرانوں سے نمٹنے کی قومی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ کیونکہ اگر ہم بحرانوں سے نمٹنے میں قومی ناکامی کا شکار ہیں تو بحرانوں کی شدت اور زیادہ بڑھ بھی جائے گی ا ور حالات پہلے سے بھی بدتر ہوںگے ۔
ایک قومی سوچ اس دائرہ کے گرد گھومتی ہے کہ ہم جن حالات میں رہ رہے ہیں اس سے باہر نکل کر ہمیں اچھی زندگی کو تلاش کرنا ہوگا۔مجموعی طور پر لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ جیسے اس ریاستی یا حکومتی نظام میں حکمرانی کے نظام کو چلایا جارہا ہے وہ کوئی مثبت نتیجہ نہیں دے سکے گا۔
کیونکہ یہ نظام ایک طرف محرومی کی سیاست کو جنم دیتا ہے تو دوسری طرف اس کے نتیجے میں پہلے سے موجود کمزور طبقات کو مزید کئی طرح کے استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لوگوں کو دکھ اس بات کا ہے کہ دنیا ترقی کے عمل میں کہاں جارہی ہے جب کہ ہم دنیا کی ترقی کے معاملات سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ۔
یہ جو ہماری حادثاتی قسم کی حکمت عملی ہے یعنی کسی حادثے کے پیش نظر خود کو جنجھوڑنا شروع کردو یا ماتم کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا راستے کو تلاش کرنا درست حکمت عملی نہیں ۔ متبادل نظام یا حکمت عملی کافی سنجیدگی سے غور فکر کا تقاضہ کرتی ہے اور ایک بڑی مشاورت سمیت مختلف سطح پر مختلف پہلووں کو غور کرکے متبادل خاکہ سامنے لایا جاتا ہے ۔ لیکن اس کے لیے پہلی او ربنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ کے پاس مسائل کا درست نشاندہی اور اس کا غیر جانبدرانہ علمی و فکری صلاحیتوں یا تجربوں پر مبنی تجزیہ ہوتا ہے ۔
یہ ہی تجزیہ ہمیں پہلے سے موجود حالات پر ایک متبادل سوچ او ر فکر فراہم کرتا ہے ۔دنیا میں جہاں بھی مثبت تبدیلی آتی ہے اس میں متبادل نظام ہی کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔
عمومی طور پر یہ ہی منطق دی جاتی ہے کہ قومی مسائل کا حل یا متبادل نظام کی تلاش میں سیاسی محاذ پر پارلیمنٹ کا کردار کلیدی ہوتا ہے ۔ کیونکہ یہ لوگ عوام کے عملا منتخب نمایندے ہوتے ہیں اور یہ ہی متبادل خاکہ بھی پیش کرتے ہیں ۔لیکن پاکستان میں پارلیمنٹ سب کچھ کرتی ہے مگر جو کچھ نہیں کرتی اس میں سوچ اور فکر پر مبنی مسائل کے حل میں بیانیہ ہوتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں قومی سیاست کے تناظر میں پارلیمنٹ اپنی سیاسی اہمیت اور ساکھ کو قائم نہیں کرسکی ۔ عام لوگ سمیت اہل دانش پارلیمنٹ اور قومی بحران کے حل میں جو باہمی تعلق ہوتا ہے اس کو ہی سمجھ بھی نہیں سکے اور ان کو پارلیمنٹ کے عملی طرز عمل نے بھی مایوس کیا ہے ۔
پاکستان میں عملا کوئی ایسا سیاسی ،سماجی یا معاشی قحط نہیں یا ایسا بھی نہیں کہ مجموعی طور پر معاشرہ کسی فکری بانجھ پن کا شکار ہے ۔ اصل مسئلہ ایسے لوگوں کی معاشرے یا ریاستی و، حکومتی سمیت حکمرانی کے نظام عدم پزیرائی ہے۔ وہ لوگ جو مختلف علمی و فکری صلاحیتوں کی بنیاد پر ایک متبادل سطح کا بیانیہ پیش کرتے ہیں ان کا علم پس پشت ڈال دیا جاتا ہے ۔جب کہ ان کے مقابلے میں ایسے لوگوں کو پزیرائی دی جاتی ہے جو روائتی یا فرسودہ طور طریقوں یا عدم جددیت کے پہلوو ں کو نظرانداز کرکے وہ کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ریاستی یا حکومتی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے ۔یہ نظام غیر معمولی تبدیلیوں کے خلاف ہوتا ہے او رمحض ایسی تبدیلیوں پر زور دیتا ہے جو ان کے اپنے ذاتی مفادات کو فائدہ دے سکے ۔
کیونکہ غیرمعمولی تبدیلیوں کا عمل ان کی سیاست اور مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے ۔اس سے زیادہ کیا بدقسمتی ہوسکتی ہے کہ ہم آج تک ایک شفاف حکمرانی کا نظام بھی ترتیب نہیں دے سکے ہیں ۔ ایسا نظام جو عام لوگوں کی توقعات کے عین مطابق ہو او ران کے بنیادی حقوق کی ضمانت بنتا ہو۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکمرانی کے جاری نظام میں ایک طاقت ور طبقہ ہے اور دوسرا کمزور طبقہ ان دونوں کے درمیان جو ٹکراو یا خلیج ہے وہ کافی گہری بھی ہے او راس نے کمزور طبقوں میں ایک بداعتمادی کا ماحول پیدا کردیا ہے ۔
سیاسی جماعتیں اس حد تک کمزور ہیں کہ دور تک نظام کو پرکھنے کی صلاحیت ، متبادل نظام کی تلاش میں جستجو اور کوئی علمی و تحقیقی بنیاد پر مسائل کا بہتر تجزیہ اور حل پیش کرنے میں تمام سیاسی جماعتیں ناکام ہیں۔ سیاست اور جمہوریت کی بنیادی کنجی ہی سیاسی جماعتوں کی شفافیت سے ہی جڑی ہوتی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ موجودہ سیاسی نظام یا سیاسی جماعتوں پر مشتمل ان کا داخلی نظام کیسے ہمیںاصلاح کی طرف لے جانے میں مدد دے سکے گا ۔
جو اصلاحات ہمیں درکار ہیں ا س کے لیے طاقت ور طبقات کوئی کڑوی گولی ہضم کرنے کے لیے تیار نہیں ، البتہ کڑوی گولی انھوں نے معاشرے کے کمزور طبقوں کو دے دی ہے۔ ہمارا نظام واقعی غیر معمولی تبدیلیوں کے درمیان کھڑا ہے ۔ اگر ہم نے حال اور مستقبل میں بنیادی نوعیت کی سیاسی، سماجی ، آئینی ، قانونی ، انتظامی او رمعاشی تبدیلیوں کو بنیاد بنا کر کوئی بڑے اور غیر معمولی فیصلے نہ کیے تو اس کے نتیجہ میں مزید بگاڑ یا انتشار پیدا ہوگا ۔
ایک ایسا روڈ میپ جو ہمیں آگے بڑھنے کے لیے کوئی راستہ دے سکے او رجس پر سب فریقین کا کافی حد تک اتفاق بھی ہو کیسے ممکن ہوگا ۔ اس کے لیے پہلے سے موجود محاز آرائی ، ایک دوسرے کو قبول نہ کرنا ، غیر ضروری بنیادوں پر سیاسی گرما گرمی ، نان ایشوز کی سیاست ، الزام تراشی پر مبنی ماحول ، سیاسی محاذ پر بڑی گہری منفی تقسیم ، ادارہ جاتی سطح پر حد سے بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت ، اسٹیبلیشمنٹ اور سیاسی فریقین میں ٹکراو یا مافیا کی طرز پر حکمرانی کے نظام کو قائم کرنے جیسے عوامل کی موجودگی میں ہم کسی بھی صورت میں مثبت طور پر آگے نہیں بڑھ سکیں گے ۔ہمیں عملا ایک مضبوط سیاسی اور معاشی نظام درکار ہے ۔
ایسا نظام جو معاشرے میں لوگوں کے اعتماد میں اضافہ کرسکے اور پہلے سے موجود حالات میں نئے امکانات اور مواقعوں کی تلاش کو بنیاد بنا کر نئے راستوں کی تلاش کا سفر ہے ۔ یہ سفر مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ۔ جب کسی بھی سطح پر یہ اتفاق ہوجائے کہ ہم نے اپنے حالات واقعی بدلنے ہیں او ربدلنے میںطاقت ور طبقہ خود کو پہلے پیش کرے تو منزل اور زیادہ آسان ہوجاتی ہے ۔لیکن طاقت ور طبقہ اسی صورت میں بہتری کی طرف آتا ہے جب اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات کی جانب سے ان پر دباو بھی بڑھ رہا ہے اور یہ دباو ان کے خلاف کسی بڑی مزاحمت کو پیدا کرسکتا ہے ۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نظام سے نالاں تو بہت ہیں مگر اجتماعی طور پر ریاست یا حکومتی نظام یا اس کو چلانے والوں پردباو کی سیاست قائم نہیں کرسکے ہیں ۔ اگرچہ یہ کام سیاسی سطح پر سیاسی جماعتیں ، قیادت، میڈیا اور سول سوسائٹی سے جڑے ادارے کرتے ہیں مگر ان کی داخلی کمزوریوں کی وجہ سے عام آدمی کو اس ملک میں مسائل کی صورت میں ایک بھاری قیمت ادا کرنا پڑرہی ہے ۔اس لیے ریاستی ، حکومتی ، ادارہ جاتی یا بیوروکریسی ، عدلیہ سمیت سب فریقین کو اپنے اپنے بند خولوں سے باہر نکلنا ہوگا اور معاملات کو سلجھانے کے لیے کچھ نیا پن دکھانا ہوگا ۔
ایک قومی سوچ اس دائرہ کے گرد گھومتی ہے کہ ہم جن حالات میں رہ رہے ہیں اس سے باہر نکل کر ہمیں اچھی زندگی کو تلاش کرنا ہوگا۔مجموعی طور پر لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ جیسے اس ریاستی یا حکومتی نظام میں حکمرانی کے نظام کو چلایا جارہا ہے وہ کوئی مثبت نتیجہ نہیں دے سکے گا۔
کیونکہ یہ نظام ایک طرف محرومی کی سیاست کو جنم دیتا ہے تو دوسری طرف اس کے نتیجے میں پہلے سے موجود کمزور طبقات کو مزید کئی طرح کے استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لوگوں کو دکھ اس بات کا ہے کہ دنیا ترقی کے عمل میں کہاں جارہی ہے جب کہ ہم دنیا کی ترقی کے معاملات سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ۔
یہ جو ہماری حادثاتی قسم کی حکمت عملی ہے یعنی کسی حادثے کے پیش نظر خود کو جنجھوڑنا شروع کردو یا ماتم کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا راستے کو تلاش کرنا درست حکمت عملی نہیں ۔ متبادل نظام یا حکمت عملی کافی سنجیدگی سے غور فکر کا تقاضہ کرتی ہے اور ایک بڑی مشاورت سمیت مختلف سطح پر مختلف پہلووں کو غور کرکے متبادل خاکہ سامنے لایا جاتا ہے ۔ لیکن اس کے لیے پہلی او ربنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ کے پاس مسائل کا درست نشاندہی اور اس کا غیر جانبدرانہ علمی و فکری صلاحیتوں یا تجربوں پر مبنی تجزیہ ہوتا ہے ۔
یہ ہی تجزیہ ہمیں پہلے سے موجود حالات پر ایک متبادل سوچ او ر فکر فراہم کرتا ہے ۔دنیا میں جہاں بھی مثبت تبدیلی آتی ہے اس میں متبادل نظام ہی کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔
عمومی طور پر یہ ہی منطق دی جاتی ہے کہ قومی مسائل کا حل یا متبادل نظام کی تلاش میں سیاسی محاذ پر پارلیمنٹ کا کردار کلیدی ہوتا ہے ۔ کیونکہ یہ لوگ عوام کے عملا منتخب نمایندے ہوتے ہیں اور یہ ہی متبادل خاکہ بھی پیش کرتے ہیں ۔لیکن پاکستان میں پارلیمنٹ سب کچھ کرتی ہے مگر جو کچھ نہیں کرتی اس میں سوچ اور فکر پر مبنی مسائل کے حل میں بیانیہ ہوتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں قومی سیاست کے تناظر میں پارلیمنٹ اپنی سیاسی اہمیت اور ساکھ کو قائم نہیں کرسکی ۔ عام لوگ سمیت اہل دانش پارلیمنٹ اور قومی بحران کے حل میں جو باہمی تعلق ہوتا ہے اس کو ہی سمجھ بھی نہیں سکے اور ان کو پارلیمنٹ کے عملی طرز عمل نے بھی مایوس کیا ہے ۔
پاکستان میں عملا کوئی ایسا سیاسی ،سماجی یا معاشی قحط نہیں یا ایسا بھی نہیں کہ مجموعی طور پر معاشرہ کسی فکری بانجھ پن کا شکار ہے ۔ اصل مسئلہ ایسے لوگوں کی معاشرے یا ریاستی و، حکومتی سمیت حکمرانی کے نظام عدم پزیرائی ہے۔ وہ لوگ جو مختلف علمی و فکری صلاحیتوں کی بنیاد پر ایک متبادل سطح کا بیانیہ پیش کرتے ہیں ان کا علم پس پشت ڈال دیا جاتا ہے ۔جب کہ ان کے مقابلے میں ایسے لوگوں کو پزیرائی دی جاتی ہے جو روائتی یا فرسودہ طور طریقوں یا عدم جددیت کے پہلوو ں کو نظرانداز کرکے وہ کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ریاستی یا حکومتی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے ۔یہ نظام غیر معمولی تبدیلیوں کے خلاف ہوتا ہے او رمحض ایسی تبدیلیوں پر زور دیتا ہے جو ان کے اپنے ذاتی مفادات کو فائدہ دے سکے ۔
کیونکہ غیرمعمولی تبدیلیوں کا عمل ان کی سیاست اور مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے ۔اس سے زیادہ کیا بدقسمتی ہوسکتی ہے کہ ہم آج تک ایک شفاف حکمرانی کا نظام بھی ترتیب نہیں دے سکے ہیں ۔ ایسا نظام جو عام لوگوں کی توقعات کے عین مطابق ہو او ران کے بنیادی حقوق کی ضمانت بنتا ہو۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکمرانی کے جاری نظام میں ایک طاقت ور طبقہ ہے اور دوسرا کمزور طبقہ ان دونوں کے درمیان جو ٹکراو یا خلیج ہے وہ کافی گہری بھی ہے او راس نے کمزور طبقوں میں ایک بداعتمادی کا ماحول پیدا کردیا ہے ۔
سیاسی جماعتیں اس حد تک کمزور ہیں کہ دور تک نظام کو پرکھنے کی صلاحیت ، متبادل نظام کی تلاش میں جستجو اور کوئی علمی و تحقیقی بنیاد پر مسائل کا بہتر تجزیہ اور حل پیش کرنے میں تمام سیاسی جماعتیں ناکام ہیں۔ سیاست اور جمہوریت کی بنیادی کنجی ہی سیاسی جماعتوں کی شفافیت سے ہی جڑی ہوتی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ موجودہ سیاسی نظام یا سیاسی جماعتوں پر مشتمل ان کا داخلی نظام کیسے ہمیںاصلاح کی طرف لے جانے میں مدد دے سکے گا ۔
جو اصلاحات ہمیں درکار ہیں ا س کے لیے طاقت ور طبقات کوئی کڑوی گولی ہضم کرنے کے لیے تیار نہیں ، البتہ کڑوی گولی انھوں نے معاشرے کے کمزور طبقوں کو دے دی ہے۔ ہمارا نظام واقعی غیر معمولی تبدیلیوں کے درمیان کھڑا ہے ۔ اگر ہم نے حال اور مستقبل میں بنیادی نوعیت کی سیاسی، سماجی ، آئینی ، قانونی ، انتظامی او رمعاشی تبدیلیوں کو بنیاد بنا کر کوئی بڑے اور غیر معمولی فیصلے نہ کیے تو اس کے نتیجہ میں مزید بگاڑ یا انتشار پیدا ہوگا ۔
ایک ایسا روڈ میپ جو ہمیں آگے بڑھنے کے لیے کوئی راستہ دے سکے او رجس پر سب فریقین کا کافی حد تک اتفاق بھی ہو کیسے ممکن ہوگا ۔ اس کے لیے پہلے سے موجود محاز آرائی ، ایک دوسرے کو قبول نہ کرنا ، غیر ضروری بنیادوں پر سیاسی گرما گرمی ، نان ایشوز کی سیاست ، الزام تراشی پر مبنی ماحول ، سیاسی محاذ پر بڑی گہری منفی تقسیم ، ادارہ جاتی سطح پر حد سے بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت ، اسٹیبلیشمنٹ اور سیاسی فریقین میں ٹکراو یا مافیا کی طرز پر حکمرانی کے نظام کو قائم کرنے جیسے عوامل کی موجودگی میں ہم کسی بھی صورت میں مثبت طور پر آگے نہیں بڑھ سکیں گے ۔ہمیں عملا ایک مضبوط سیاسی اور معاشی نظام درکار ہے ۔
ایسا نظام جو معاشرے میں لوگوں کے اعتماد میں اضافہ کرسکے اور پہلے سے موجود حالات میں نئے امکانات اور مواقعوں کی تلاش کو بنیاد بنا کر نئے راستوں کی تلاش کا سفر ہے ۔ یہ سفر مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ۔ جب کسی بھی سطح پر یہ اتفاق ہوجائے کہ ہم نے اپنے حالات واقعی بدلنے ہیں او ربدلنے میںطاقت ور طبقہ خود کو پہلے پیش کرے تو منزل اور زیادہ آسان ہوجاتی ہے ۔لیکن طاقت ور طبقہ اسی صورت میں بہتری کی طرف آتا ہے جب اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات کی جانب سے ان پر دباو بھی بڑھ رہا ہے اور یہ دباو ان کے خلاف کسی بڑی مزاحمت کو پیدا کرسکتا ہے ۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نظام سے نالاں تو بہت ہیں مگر اجتماعی طور پر ریاست یا حکومتی نظام یا اس کو چلانے والوں پردباو کی سیاست قائم نہیں کرسکے ہیں ۔ اگرچہ یہ کام سیاسی سطح پر سیاسی جماعتیں ، قیادت، میڈیا اور سول سوسائٹی سے جڑے ادارے کرتے ہیں مگر ان کی داخلی کمزوریوں کی وجہ سے عام آدمی کو اس ملک میں مسائل کی صورت میں ایک بھاری قیمت ادا کرنا پڑرہی ہے ۔اس لیے ریاستی ، حکومتی ، ادارہ جاتی یا بیوروکریسی ، عدلیہ سمیت سب فریقین کو اپنے اپنے بند خولوں سے باہر نکلنا ہوگا اور معاملات کو سلجھانے کے لیے کچھ نیا پن دکھانا ہوگا ۔