تائیوان کا حل کیا ہے
تائیوان کی اشیا چین کے مقابلے میں کہیں بہتر ہوتی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں تائیوان نے الیکٹرانکس مائیکرو چپس اورگاڑیوں کے پرزہ جات کی صنعت کے علاوہ دیگر اشیا کی پیدائش اور مہارت میں خاصی ترقی کرلی ہے۔ پاکستان میں ہی چائنا کے مال کو جس طرح کی حیثیت حاصل ہے ، اس کے مقابلے میں تائیوان ایک معتبر سمبل بن کر ابھرا ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے تائیوان اور چین کے درمیان معاملات کھینچا تانی سے ہوتے سنجیدہ کشیدگی کی صورت میں داخل ہو چکے ہیں ، یہاں تک کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہہ دیا ہے کہ چین کے تائیوان پر حملہ کرنے کی صورت میں امریکی افواج تائیوان کا دفاع کریں گی۔
چین اکتوبر 1949 میں آزاد مملکت کے تحت پہچانا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران چین جوکہ اتحادی افواج میں شامل تھا ، اس اتحاد کے صلے میں امریکا اور برطانیہ نے اسے تائیوان عطا کردیا تھا۔1895 میں تائیوان کا کنٹرول چین کے چنگ خاندان سے چھین لیا گیا تھا لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ کنٹرول جاپان کی شکست عظیم کے ساتھ ہی فنا ہو چکا تھا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تائیوان میں بسنے والے مقامیوں نے نہ تو جاپان اور نہ ہی چین کی عمل داری کو پسند کیا تھا، شروع سے ہی ایک سرد جنگ چلتی رہی تھی جسے 2000میں تائیوان کے صدر چن شوئی نے آزادی کا نعرہ لگا کر چین کی حکومت کو خبردار کر دیا کہ اب معاملہ خاصا بگڑ چکا ہے اور تائیوان ہانگ کانگ کی طرز پر چین کے الحاق سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تائیوان کے دوبارہ منتخب ہونے والے صدر چین سے معاشی طور پر رابطے استوار رکھنے میں بھی یقین رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ دنیا بھر میں چین کا برآمدات کے حوالے سے مضبوط مقام تائیوان جیسے چھوٹے اور اپنی علیحدہ شناخت پر مصر ملک فائدہ اٹھا سکتا ہے اور ایسا ہوا بھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں تائیوان کی مصنوعات نے اپنی ساکھ قائم کرنا شروع کردی جو بلاشبہ دھڑا دھڑ مال بنانے اور گویا پھینکنے والے چین کے مقابلے میں کہیں معیاری اور بہتر تھیں۔
یہ وہ دور تھا جب معاشی طور پر تائیوان نے اپنا آپ منوانا شروع کر دیا تھا۔ چین نے سمجھ داری سے علیحدگی کی کوشش کے سلسلے میں ایک قانون پاس کردیا تھا کہ اس صورتحال میں چین تائیوان کے خلاف غیر پرامن ذرایع استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔
اس غیر پرامن کے پیچھے کی کہانی یقیناً ہولناک ہو سکتی تھی لیکن اس کی ابتدا نہ ہو سکی۔چین ایک وسیع اقتصادی قوت رکھنے والا ملک کیا تائیوان کی بڑھتی مانگ اور شہرت سے خوف زدہ تھا؟ اگر ایسا تھا تو 2018 میں بین الاقوامی کمپنیوں کو اس دباؤ میں لایا گیا کہ وہ اپنی ویب سائٹس پر تائیوان کو چین کا حصہ بتائیں۔ دیگر صورت میں چین میں کاروبار کرنے سے بلاک کردیا جائے گا، تو دوسری جانب 2016 میں چین اور تائیوان کے درمیان تعلقات خراب نظر آتے ہیں جس کی وجہ صدر سوئی اینگ وین تھیں جن کا جھکاؤ چین کی جانب ہرگز نہ تھا اور ظاہر ہے کہ چین کے لیے یہ صورت ناقابل قبول تھی۔
یہ کشیدگی بڑھتی گئی، یہاں تک کہ 2020 میں خاتون صدر سوئی اینگ وین کی کامیابی کے بعد چین کے لیے تشویش بڑھتی گئی۔ امریکا اور چین دو ایسی بڑی طاقتیں جو کاروباری حریف کے طور پر بھی اور سیاسی امور میں بھی اپنے اختلافات رکھتی ہیں، پہلے ہانگ کانگ میں چین کا بڑھتا گراف اور اب تائیوان میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سے خوف زدہ امریکا بارہا چین کو سمجھا چکا ہے کہ دوبارہ ایسی غلطی نہ کی جائے گو چین اپنے اندرونی مسائل میں کسی غیر طاقت کے عمل دخل کو برداشت نہیں کرسکتا لیکن امریکا کے حوالے سے اسے تحفظات ہیں۔
چین کیوں امریکا کی مداخلت سے خائف ہے اس کا جواب امریکا کی جانب سے تائیوان کی عسکری قوت کو بڑھانے کی وہ کوششیں ہیں جن کے اشارے کچھ اس طرح کے ہیں کہ چین کو سمجھ لینا چاہیے کہ تائیوان اکیلا نہیں ہے۔
صرف یہی نہیں وہ سرکاری فون جو 2016 میں تائیوان اور امریکا کے درمیان باضابطہ طور پر کھل کر وضاحت کردیتا ہے کہ امریکا تائیوان کو علیحدہ شناخت کے طور پر سمجھنا چاہتا ہے۔ 1979 کے بعد یہ پہلی سرکاری کال تھی جو ان دو ریاستوں کے درمیان ہوئی تھی۔جوبائیڈن کی حکومت بھی تائیوان کے معاملے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سی ہی سوچ رکھتی ہے گویا چین کے حوالے سے بڑی طاقت کو مسخر کرنے اور زک پہنچانے میں حکومت کوئی بھی ہو خیالات ایک جیسے ہی ہیں۔
تائیوان اس وقت دنیا کی سب سے بڑی کمپنی جو مائیکرو چپ کی پروڈکشن کرتی ہے اور چینی مصنوعات کے لیے بے شمار چپس یہیں سے جاتی ہیں۔ اس بڑی کمپنی ٹی ایس ایم سی کے ذریعے چین کو ایک معیشتی کھیل میں گھسیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔
1987 میں قائم ہونے والی اس بڑی کمپنی نے اپنے بہترین کام سے ثابت کردیا کہ وہ بلاشبہ دنیا کی نمبر ون بڑی کمپنی ہے۔ پچھلے مہینے ہی چین اور تائیوان کے بیچ امریکا کے بیانات اور خبریں سرگرم دیکھی گئیں ، جب کہ کمپنی کے ذرایع کیمطابق اس بات کو پریقین بنایا گیا ہے کہ اگر چین تائیوان کو اپنے تسلط میں لیتا ہے تو مائیکرو چپ بنانیوالی یہ کمپنی اپنا کام یعنی مائیکرو چپ بنانا بند کردے گی۔
دو بڑی طاقتیں دو بڑے کاروباری حریف اور بیچ میں ایک چھوٹی سی لیکن معیشت کے حوالے سے مضبوط ریاست تائیوان۔ ایک طویل عرصے سے کشمیر کی صورتحال عالمی رہنماؤں کے سامنے ہے۔ فلسطین کا مسئلہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن دونوں ریاستی طاقتوں کے بیچ بری طرح پس رہے ہیں اور امریکا سمیت ساری بڑے رہنما خاموش ہیں۔
اندر ہی اندر معاملات دیکھے جاتے ہیں سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے، ہاتھ بڑھائے جا رہے ہیں ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ نریندر مودی نے بھی چین کا دورہ کیا گو لداخ کے معاملے میں دونوں کے درمیان اختلافات موجود ہیں لیکن دونوں رہنماؤں کے درمیان کیا بات چیت ہوئی ، اس بارے میں کچھ بتایا نہیں جا رہا لیکن مسلمانوں کے ساتھ سوتیلے پن کا مظاہرہ کھل کر کیا جا رہا ہے۔ کیا مسلمان ریاستوں کو اس بات کی اہمیت کا احساس نہیں ہے کہ اتفاق میں برکت ہے؟
گزشتہ چند برسوں سے تائیوان اور چین کے درمیان معاملات کھینچا تانی سے ہوتے سنجیدہ کشیدگی کی صورت میں داخل ہو چکے ہیں ، یہاں تک کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہہ دیا ہے کہ چین کے تائیوان پر حملہ کرنے کی صورت میں امریکی افواج تائیوان کا دفاع کریں گی۔
چین اکتوبر 1949 میں آزاد مملکت کے تحت پہچانا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران چین جوکہ اتحادی افواج میں شامل تھا ، اس اتحاد کے صلے میں امریکا اور برطانیہ نے اسے تائیوان عطا کردیا تھا۔1895 میں تائیوان کا کنٹرول چین کے چنگ خاندان سے چھین لیا گیا تھا لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ کنٹرول جاپان کی شکست عظیم کے ساتھ ہی فنا ہو چکا تھا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تائیوان میں بسنے والے مقامیوں نے نہ تو جاپان اور نہ ہی چین کی عمل داری کو پسند کیا تھا، شروع سے ہی ایک سرد جنگ چلتی رہی تھی جسے 2000میں تائیوان کے صدر چن شوئی نے آزادی کا نعرہ لگا کر چین کی حکومت کو خبردار کر دیا کہ اب معاملہ خاصا بگڑ چکا ہے اور تائیوان ہانگ کانگ کی طرز پر چین کے الحاق سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تائیوان کے دوبارہ منتخب ہونے والے صدر چین سے معاشی طور پر رابطے استوار رکھنے میں بھی یقین رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ دنیا بھر میں چین کا برآمدات کے حوالے سے مضبوط مقام تائیوان جیسے چھوٹے اور اپنی علیحدہ شناخت پر مصر ملک فائدہ اٹھا سکتا ہے اور ایسا ہوا بھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں تائیوان کی مصنوعات نے اپنی ساکھ قائم کرنا شروع کردی جو بلاشبہ دھڑا دھڑ مال بنانے اور گویا پھینکنے والے چین کے مقابلے میں کہیں معیاری اور بہتر تھیں۔
یہ وہ دور تھا جب معاشی طور پر تائیوان نے اپنا آپ منوانا شروع کر دیا تھا۔ چین نے سمجھ داری سے علیحدگی کی کوشش کے سلسلے میں ایک قانون پاس کردیا تھا کہ اس صورتحال میں چین تائیوان کے خلاف غیر پرامن ذرایع استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔
اس غیر پرامن کے پیچھے کی کہانی یقیناً ہولناک ہو سکتی تھی لیکن اس کی ابتدا نہ ہو سکی۔چین ایک وسیع اقتصادی قوت رکھنے والا ملک کیا تائیوان کی بڑھتی مانگ اور شہرت سے خوف زدہ تھا؟ اگر ایسا تھا تو 2018 میں بین الاقوامی کمپنیوں کو اس دباؤ میں لایا گیا کہ وہ اپنی ویب سائٹس پر تائیوان کو چین کا حصہ بتائیں۔ دیگر صورت میں چین میں کاروبار کرنے سے بلاک کردیا جائے گا، تو دوسری جانب 2016 میں چین اور تائیوان کے درمیان تعلقات خراب نظر آتے ہیں جس کی وجہ صدر سوئی اینگ وین تھیں جن کا جھکاؤ چین کی جانب ہرگز نہ تھا اور ظاہر ہے کہ چین کے لیے یہ صورت ناقابل قبول تھی۔
یہ کشیدگی بڑھتی گئی، یہاں تک کہ 2020 میں خاتون صدر سوئی اینگ وین کی کامیابی کے بعد چین کے لیے تشویش بڑھتی گئی۔ امریکا اور چین دو ایسی بڑی طاقتیں جو کاروباری حریف کے طور پر بھی اور سیاسی امور میں بھی اپنے اختلافات رکھتی ہیں، پہلے ہانگ کانگ میں چین کا بڑھتا گراف اور اب تائیوان میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سے خوف زدہ امریکا بارہا چین کو سمجھا چکا ہے کہ دوبارہ ایسی غلطی نہ کی جائے گو چین اپنے اندرونی مسائل میں کسی غیر طاقت کے عمل دخل کو برداشت نہیں کرسکتا لیکن امریکا کے حوالے سے اسے تحفظات ہیں۔
چین کیوں امریکا کی مداخلت سے خائف ہے اس کا جواب امریکا کی جانب سے تائیوان کی عسکری قوت کو بڑھانے کی وہ کوششیں ہیں جن کے اشارے کچھ اس طرح کے ہیں کہ چین کو سمجھ لینا چاہیے کہ تائیوان اکیلا نہیں ہے۔
صرف یہی نہیں وہ سرکاری فون جو 2016 میں تائیوان اور امریکا کے درمیان باضابطہ طور پر کھل کر وضاحت کردیتا ہے کہ امریکا تائیوان کو علیحدہ شناخت کے طور پر سمجھنا چاہتا ہے۔ 1979 کے بعد یہ پہلی سرکاری کال تھی جو ان دو ریاستوں کے درمیان ہوئی تھی۔جوبائیڈن کی حکومت بھی تائیوان کے معاملے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سی ہی سوچ رکھتی ہے گویا چین کے حوالے سے بڑی طاقت کو مسخر کرنے اور زک پہنچانے میں حکومت کوئی بھی ہو خیالات ایک جیسے ہی ہیں۔
تائیوان اس وقت دنیا کی سب سے بڑی کمپنی جو مائیکرو چپ کی پروڈکشن کرتی ہے اور چینی مصنوعات کے لیے بے شمار چپس یہیں سے جاتی ہیں۔ اس بڑی کمپنی ٹی ایس ایم سی کے ذریعے چین کو ایک معیشتی کھیل میں گھسیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔
1987 میں قائم ہونے والی اس بڑی کمپنی نے اپنے بہترین کام سے ثابت کردیا کہ وہ بلاشبہ دنیا کی نمبر ون بڑی کمپنی ہے۔ پچھلے مہینے ہی چین اور تائیوان کے بیچ امریکا کے بیانات اور خبریں سرگرم دیکھی گئیں ، جب کہ کمپنی کے ذرایع کیمطابق اس بات کو پریقین بنایا گیا ہے کہ اگر چین تائیوان کو اپنے تسلط میں لیتا ہے تو مائیکرو چپ بنانیوالی یہ کمپنی اپنا کام یعنی مائیکرو چپ بنانا بند کردے گی۔
دو بڑی طاقتیں دو بڑے کاروباری حریف اور بیچ میں ایک چھوٹی سی لیکن معیشت کے حوالے سے مضبوط ریاست تائیوان۔ ایک طویل عرصے سے کشمیر کی صورتحال عالمی رہنماؤں کے سامنے ہے۔ فلسطین کا مسئلہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن دونوں ریاستی طاقتوں کے بیچ بری طرح پس رہے ہیں اور امریکا سمیت ساری بڑے رہنما خاموش ہیں۔
اندر ہی اندر معاملات دیکھے جاتے ہیں سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے، ہاتھ بڑھائے جا رہے ہیں ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ نریندر مودی نے بھی چین کا دورہ کیا گو لداخ کے معاملے میں دونوں کے درمیان اختلافات موجود ہیں لیکن دونوں رہنماؤں کے درمیان کیا بات چیت ہوئی ، اس بارے میں کچھ بتایا نہیں جا رہا لیکن مسلمانوں کے ساتھ سوتیلے پن کا مظاہرہ کھل کر کیا جا رہا ہے۔ کیا مسلمان ریاستوں کو اس بات کی اہمیت کا احساس نہیں ہے کہ اتفاق میں برکت ہے؟