حکومت کو درپیش چیلنجز

ملک میں رونما ہونے والے مختلف واقعات کے باعث حکومت کو درپیش چیلنجز نیا رخ اختیار کر رہے ہیں

طالبان کو یہ امر مدنظر رکھنا ہو گا کہ حکومت پاکستان آئین کی پابند اور جمہوریت کی علمبردار ہے۔ فوٹو : این این آئی/فائل

ملک میں رونما ہونے والے مختلف واقعات کے باعث حکومت کو درپیش چیلنجز نیا رخ اختیار کر رہے ہیں' اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرتی اور انھیں حل کرنے میں کس حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔ لاپتہ قیدیوں کا کیس بدستور موجودہ حکومت کے لیے بھی درد سر بنتا دکھائی پڑ رہا ہے۔ ملا کنڈ حراستی مرکز سے اٹھائے گئے35 قیدیوں کے کیس میں وزیراعظم' وزیراعلیٰ اور گورنر خیبر پختونخوا کو توہین عدالت نوٹس جاری ہونے کا خطرہ ٹل گیا تاہم وفاقی حکومت کو ان عدالتی معاملات کو حل کرنے کی طرف توجہ دینا ہو گی۔حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لیے لائحہ عمل کی تیاری میں بھی پیش رفت ہو رہی ہے۔ اخباری خبر کے مطابق حکومت اور طالبان نے براہ راست مذاکرات کے لیے دو مقامات شارٹ لسٹ کر لیے ہیں۔ حکام کے مطابق یہ مقامات جنوبی وزیرستان کا علاقہ شکتو اور فرنٹیئر ریجن بنوں ہیں۔ ذرایع کے مطابق حکومت نے ایف آر بنوں جب کہ طالبان نے شکتو کا مقام تجویز کیا۔ طالبان نے ایف آر بنوں پر تحفظات ظاہر کیے ہیں اس لیے امکان ہے کہ فریقین میں پہلی ملاقات شکتو جنوبی وزیرستان میں ہو گی۔ حکومت اور طالبان کے درمیان متوقع براہ راست مذاکرات فیصلہ کن مرحلہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ہر دو فریقین پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک میں بدامنی کے خاتمے اور قیام امن کو یقینی بنانے کے لیے اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور کوئی ایسی شرط عائد نہ کریں جس سے مذاکرات کا عمل آگے نہ بڑھے اور ڈیڈ لاک پیدا ہو جائے۔


طالبان کو یہ امر مدنظر رکھنا ہو گا کہ حکومت پاکستان آئین کی پابند اور جمہوریت کی علمبردار ہے اس لیے مذاکرات آئین پاکستان کی طے کردہ حدود کے اندر ہی ہوں گے اور حکومت پاکستان آئین و قانون سے بالادست کوئی بھی شرط یا مطالبہ ماننے کے لیے تیار نہ ہو گی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف بھی اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران آئین و قانون سے ماورا کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ حکومت اور طالبان کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات کے دوران ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے مگر خوش آیند امر یہ ہے کہ ایسے مواقع پر بھی حکومت نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے مذاکرات کے عمل کو مستقل تعطل کا شکار ہونے سے بچا لیا اور ان ناخوشگوار واقعات کے پیچھے کارفرما مذموم عزائم کو یہ کہہ کر ناکام بنا دیا کہ صرف ان گروہوں کے خلاف کارروائی ہو گی جو مذاکرات کے حامی نہیں اور سیکیورٹی اداروں پر حملے کر رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے بھی حملے میں ملوث گروہوں سے لاتعلقی کا اعلان کرکے مذاکرات کو جاری رکھنے کا پیغام دیا۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ حکومت اور طالبان مذاکرات کے ذریعے ہی معاملات کو حل کرنے کے خواہاں ہیں اور سازشی عناصر کے کسی جھانسے میں نہیں آ رہے۔امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے ایبٹ آباد میں اسامہ کی موجودگی کے گڑے مردے کو اکھاڑتے ہوئے پاکستانی حکومت کے لیے نت نئے مسائل پیدا کرنے کی سازش کی ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے سازش کا جو جال بنا ہے اس کے پیچھے غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بحرین کے فرمانروا شاہ حمد بن عیسی بن سلمان الخلیفہ نے بدھ کو اپنے وفد کے ہمراہ جوائنٹ اسٹاف ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دونوں اطراف نے پاکستان اور بحرین کے درمیان برادرانہ تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے عسکری تعاون مزید بڑھانے کا عزم ظاہر کیا۔ بحرین کے شاہ کے اس دورے میں سرمایہ کاری بڑھانے پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔

حکومت پاکستان ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ ملک میں امن و امان قائم کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو سکے۔ وزیراعظم ہاؤس میں شاہ بحرین سے ملاقات میں میاں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان توانائی' ڈاؤن اسٹریم آئل انڈسٹری' پورٹ ڈویلپمنٹ' معدنیات' بنکاری اور مالیاتی شعبوں میں بحرینی سرمایہ کاروں کا خیر مقدم کرے گا۔ موجودہ حکومت کی کوششوں سے غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کر رہے ہیں۔ چین بھی پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے تیار ہو چکا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ چین کی قیادت نے پاکستان کے لیے جس 32 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری پیکیج کا اعلان کیا ہے اس کے تحت ملک بھر میں توانائی' انفراسٹرکچر اور دیگر ترقیاتی منصوبے مکمل کیے جائیں گے۔ پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے جہاں چین اور دیگر عرب ملک سرمایہ کاری کے لیے آمادہ ہیں وہاں امریکا کی جانب سے بھی مثبت پیغام ملنا خوش آیند ہے۔ امریکی سفارت خانے کے نائب ترجمان سندیپ کے پال نے کہا ہے کہ پاکستان کو سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی کے معاملے پر ماہرین کی سطح پر بات چیت جاری ہے' مستقبل میں ایسے کسی معاہدے کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں جس انداز میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے معاہدے ہو رہے اور پیغامات مل رہے ہیں اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جاتا ہے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں توانائی کا بحران ختم ہو جائے گا اور ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ امید ہے حکومت ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
Load Next Story