سیاسی ’’ گیدڑ بھبھکیاں ‘‘

شہرت اور رعایت کے بل بوتے پر سیاست میں بہت دیر تک چلنا نہ صرف محال بلکہ نا ممکن ہو جاتا ہے

Warza10@hotmail.com

میں نہیں جانتا کہ عمران خان کے بہی خواہ و ہمدرد کارکنوں کو '' گیدڑ'' بننا کتنا اچھا لگا یا کہ انھیں اپنے مہان رہنما کا خود کو ''شیر'' کہنا کتنا بھایا ، البتہ اس ساری صورتحال کے بعد مجھے 5 آسکر ایوارڈ یافتہ ہالی ووڈ فلم The Silence of Lamb کے اہم کردار جوتھی فوسٹر اور انتھونی ہاپکن کی تھامس ہیرس کی کہانی پر مبنی 1991 کی شاہکار فلم ضرور نگاہوں میں گھوم گئی، جس میں ایک نہایت عیار جھوٹے اور مکار قاتل سے ایف بی آئی کی ٹرینی نے زبان کھلوا کر اس کے سفاکانہ کردار کو دنیا کے سامنے منظر عام پر لے آئی۔

اسی ضمن میں مجھے نوے کی دہائی کا یہ قصہ بھی یاد آ گیا ، جب ہمیں بالی ووڈ کے مہان بنگالی ہدایت کار ست جیت رے کی فلموں کا چسکا پڑا ہوا تھا ، اپھار سے لے کر یہاں سے شہر کو دیکھو تک بیشمار فلمیں ہمارا جنون تھا ، اسی جنون کو سکون دینے کی خاطر فیض احمد فیض ، سبط حسن اور کیفی اعظمی کی کتابوں کے ٹائٹل بنانے والے آرٹسٹ لیاقت حسین جو خود لکھنوی تہذیب میں رچے بسے سپوت تھے۔

ایک روز منشی پریم چند کی کہانی پر مبنی فلم''شطرنج کے کھلاڑی'' لے آئے جس کو ڈائریکٹ ست جیت رے نے کیا تھا جب کہ اس فلم میں مرکزی کردار سنجیو کمار اور امجد خان بطور واجد علی شاہ نے ادا کیا تھا۔ ڈھائی گھنٹے کی یہ تاریخی اور تفریح کے تمام لوازمات لیے فلم سب نے ایک ہی نشست میں دیکھ ڈالی۔

ان دونوں فلموں کا مرکزی عنوان یا خاکہ شکست و ریخت اور طاقت کے نشے میں سرشار افراد کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے، جہاں جنونی اور پاگل پن کی حد تک سفاک The Slience of Lamb کا انتھونی ہاپکن تھا جو یہ سمجھتا تھا کہ ایف بی آئی کی خوبرو ایجنٹ جوتھی فوسٹر کو بیوقوف بنا کر وہ اسے اپنے دھوکے میں جکڑ لے گا، وہیں '' شطرنج کے کھلاڑی'' کا واجد علی شاہ کا وہ کردار تھا جو خود کو ذہین اور دنیا کا کامیاب حکمران یا رہنما سمجھتا تھا اور اسے اپنی حماقتوں اور اقتداری بد انتظامی سے زیادہ اس بات کا زعم تھا کہ اس کے اقتدار سے خوش ہوکر '' اودھ '' کے عوام اسے برٹش سامراج کی لشکر کشی سے بچا لیں گے۔

ان دونوں فلموں کے اختتام پر نظر رکھی جائے تو دونوں فلموں میں مشترکہ نکتہ اقتدار اور طاقت کے زعم کی شکست و ناکامی دکھایا گیا جب کہ The Silence of Lamb کی کمزور سمجھی جانے والی ایف بی آئی کی ایجنٹ کے خاموش کردار کو دنبے کا لذیذ گوشت سمجھا گیا اور جب خاموش دنبے کے گوشت کی نرم محبت یا سلوک کا عادی سفاک اور جھوٹا انتھونی ہاپکن بن گیا تو اسی خاموش محبت نے اس کی سفاکی کو دنیا کے سامنے عیاں کر کے اس کے مکر و فریب کے کردار کو دنیا کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا۔


اسی طرح '' شطرنج کے کھلاڑی '' میں واجد علی شاہ کو بڑا زعم تھا کہ اس کے پائے کا کوئی شطرنج کا کھلاڑی نہیں جو اسے شکست دے سکے جب کہ اس کی شطرنج کی چالوں کو مات دینے میں آخر کار اس کا دوست سمجھے جانے والا سنجیو کمار ہی نکلا جو گاہے گاہے اسے کبھی رخ کی سیدھی چال کبھی فیلے کی ترچھی چال اور کبھی گھوڑے کی ڈھائی چال میں الجھا کر اور اس کو مصروف رکھتا اور واجد علی شاہ کو حکمرانی کے امور سے لاتعلق کیے رکھتا ، تاکہ وہ واجد علی شاہ کے تخت کا تختہ کرنے میں کامیاب ہو اور آخرکار وہ واجد علی شاہ کی حکمرانی پر گرفت کمزور کرنے میں کامیاب رہا ، جس کا انجام واجد علی شاہ کی بادشاہت کے خاتمے پر ہوا۔

پاکستان کی سیاسی صورتحال میں مذکورہ فلموں کا اختتام ایک ایسا سبق ہے جس پہ ہر صاحب نظر اور بطور خاص اہل سیاست کو ضرور سوچنا چاہیے،آج کل ملک کی سیاسی صورتحال میں خاص طور پر عمران خان کے رویے یا بیانیے کے تناظر میں تحریکی تجزیہ کاروں کو یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ سیاست اور حکمت عملی خواہش اور مرضی و منشا کی مرہون منت نہیں ہوتی بلکہ سیاست میں تاریخی خدوخال اور سیاسی مقاصد کی تکمیل دھیرج قدم اور انتہائی سنجیدگی کی متقاضی ہوتی ہے وگرنہ سیاست میں جلدی یا خواہش بہت جلد پانی کے اس ابال کا کردار اد کرتی ہے جو کچھ لمحے بعد ٹھنڈا ہوتے ہی بے اثر ہو جاتا ہے۔

اس بات سے انکار کیسے کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کی تبدیلی آئین کے تقاضوں کے تحت نہیں ہوئی،اس طریقے کار سے اختلاف بھی سیاسی سنجیدگی کا متقاضی ہے جو کہ عمران خان یا ان کے حمایتی ملک کی معروضی اور سیاسی صورتحال کے برعکس کرنے پر تلے بیٹھے ہیں ، جس کا انجام خالی ہاتھ کے سوا کچھ نہیں لگتا، عمران خان کے بیانیے کی طاقت افسوسناک سطح تک ان غیر سیاسی نوجوانوں یا افراد تک ہی محدود ہے جو کہ تعداد میں تو زیادہ ہو سکتے ہیں مگر تحریک انصاف کے لیے کارکنان کی یہی غیر سیاسی فوج مستقبل کی ایسی چھچھوندر بننے جا رہی ہے جو پی ٹی آئی کی سیاست کے تابوت میں اسی جذبے و جوش سے آخری کیل ٹھوکے گی جس جذبے سے وہ آج کل اپنے قائد عمران خان کی ہر بات پر لبیک کہہ رہی ہے،کیونکہ سیاست اور تاریخ میں اٹھایا جانے والا ہر جذباتی اور غیر سنجیدہ قدم فرد یا گروہ کو بالاخر شرمندگی اور پسپائی سے ہی سرخرو کرتا ہے۔

دنیا کی تاریخ کے تناظر میں سیاست کی سنجیدگی ہمیں بتاتی ہے کہ عوام نہ تو تماشبین ہوتے ہیں اور نہ ہر فرد سیاست کا کھلاڑی ہو سکتا ہے، سیاست تدبر غور و فکر اور مستقل سنجیدگی کا وہ عمل ہے جس کا غلط استعمال آپ کو شطرنج کے کھیل کی طرح مات سے دوچار کرسکتا ہے، شہرت اور رعایت کے بل بوتے پر سیاست میں بہت دیر تک چلنا نہ صرف محال بلکہ نا ممکن ہو جاتا ہے، جب کہ عمران خان ایسی سیاست کرنے والوں کی نسل بعد میں ہٹلر کی پوتی کی طرح یہ کہنے پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ '' یہ میرا قصور نہ تھا کہ میرا دادا ایک سفاک اور دنیا میں نفرت زدہ شخص تھا ، البتہ میں اپنے شعور کی بنا پر ہٹلرکو اپنا دادا کہنے پر آج شرمندہ ہوں۔''

ہمارے ملک میں عمران خان کی سیاست سے درگزر اورگفتگو کے مقابلے میں جو گالم گلوچ اور عقیدہ پرستی کا جنون پیدا ہوا ہے وہ کسی طرح بھی ملکی سیاست کے لیے نیک شگون نہیں ، عمران خان کے اشتعال پسند جذباتی بیانیے کے مقابلے میں دوسری جانب سے سیاسی یا اداراتی خاموشی کو بزدلی یا بیانیے کا متبادل نہ دینے کا عمل ہرگز قرار نہ دیا جائے کیونکہ دنبے کے گوشت کو چٹخاروں کے ساتھ کھایا تو جا سکتا ہے مگر اس کی '' خاموش '' رہنے والی صفت سے پیٹ میں آنے والے بھونچال سے نمٹنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، پھر ایسے کھیل میں فلم The Silence of Lamb اپنی آخری فتح ایف بی آئی کی ٹرینر جوتھی فوسٹر کے نام کرتی ہے کہ جس کے سامنے شہرت کا مارا جھوٹا اور سفاک انتھونی ہاپکن بے سدھ و لاچار پڑا ہوتا ہے۔
Load Next Story