توقیت سرسید احمد خان تحقیقی تناظر
’’توقیت سرسید احمد خان تحقیقی تناظر‘‘ اس کتاب کی مولفہ ڈاکٹر ذکیہ رانی ہیں
''توقیت سرسید احمد خان تحقیقی تناظر'' اس کتاب کی مولفہ ڈاکٹر ذکیہ رانی ہیں، مصنفہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مذکورہ کتاب کا تیسرا ایڈیشن لکھنو سے شایع ہو چکا ہے۔ تحقیق و تالیف کے حوالے سے یہ ان کا اہم کارنامہ ہے، انھوں نے سرسید احمد خان کے حوالے سے مکمل معلومات ادب کے قاری کے لیے بہم پہنچائی ہیں۔
اسے انسائیکلوپیڈیا سرسید احمد خان کہا جاسکتا ہے چونکہ اس قدر عرق ریزی اور تحقیق کے بعد سرسید احمد خان کی زندگی کے حالات ، ان کی تصانیف اور فکر و فن پر مختلف اکابرین کے مضامین کو یکجا کرکے کتابی شکل میں شایع کیا گیا ہے ، یقینا یہ کام آسان نہیں بلکہ کافی دقت طلب اور مشکل تھا۔
علم و ادب کی اہم شخصیات کی آرا سے '' توقیت سرسید احمد خان '' مرصع ہے۔ انتساب پروفیسر ڈاکٹر ذوالقرنین احمد شاداب احسانی کے نام ہے جوکہ ذکیہ رانی کے استاد محترم ہیں اور ان کی رہنمائی میں انھوں نے فکر و آگہی کے چراغ روشن کیے ہیں اور اس بات کی وہ معترف بھی ہیں کہ اللہ نے انھیں پروفیسر ڈاکٹر ذوالقرنین احمد شاداب احسانی جیسے استاد کا شاگرد کیا۔ وگرنہ من دانم کیستم؟ چیستم؟ استاد محترم کی تاعمر سپاس گزار ہوں۔ بے شک اپنے محسن کا شکریہ ادا کرنا اور اس کا تذکرہ اعلیٰ ظرفی کی نشانی ہے، جو ذکیہ رانی کی تحریروں سے عیاں ہے۔ فارسی کا ایک خوبصورت شعر بھی درج ہے۔ ان کی سوچ کا عکاس ہے:
کار سازِ ما بہ فکر کارِ ما
فکر مادر کارِ ما آزار ما
ڈاکٹر شاداب احسانی نے اپنے مضمون جس کا عنوان ہے ''حق بہ حق دار رسید'' میں لکھا ہے بلکہ اہم نکتے کی طرف نشان دہی کی ہے جو بہت اہم اور قابل غور ہے کہ سند یافتہ لوگوں کے درمیان تعلیم یافتہ لوگوں کو ڈھونڈنا اب سہل نہیں رہا ہے۔ اکثر سند یافتہ ہیں تعلیم یافتہ خال خال نظر آتے ہیں کتاب کے بارے میں ان کی رائے کچھ اس طرح ہے ''توقیت سرسید احمد خان تحقیقی تناظر'' میرے سامنے ہے۔
اس کتاب میں سرسید سے متعلق جملہ ماخذات اور اہم کتب کا اس جامعیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کہ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ توقیت تحقیق سرسید کے لیے ماخذات کی جستجو اور ان کے ثقہ ہونے میں نہایت وقیع ماخذ ثابت ہوگا۔'' پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے بجا فرمایا کہ ''توقیت سرسید احمد خان تحقیقی تناظر حیات اور عہد سرسید کا اجمال پیش کرتی ہے، یہ ایک حوالہ جاتی کام ہے۔''
ذکیہ رانی کی تحقیقی کتاب کی اشاعت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ذکیہ رانی نے سرسید احمد خان کے حوالے سے ایسا علمی کارنامہ انجام دیا ہے جس سے ادب کا طالبعلم بخوبی استفادہ کرسکتا ہے اور بہت سی ان معلومات کے در وا ہوتے ہیں جن سے ادب کے شایقین ناآشنا تھے ، اگر سرسید احمد خان کی کتب و رسائل کا تذکرہ ملتا ہے تو سن اور ماہ اشاعت کا پتا بھی چلتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی مختلف مواقعوں پر اہل علم نے مضامین قلم بند کیے جو جرائد میں وقتاً فوقتاً شایع ہوتے رہے ، سے مکمل تعارف ہو جاتا ہے۔ مولفہ نے سرسید احمد خان کی زندگی کے اہم پہلوؤں اور حوالوں کے ساتھ اجاگر کیا ہے اور ان کے اصلاحی کارناموں پر بھرپور طریقے سے روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کے مطالعے کے بعد قاری کو تشنگی کا احساس ذہنی اذیت میں مبتلا نہیں کرتا ہے ، ایک اچھی تحریر کی یہ ایسی خوبی ہے جو تادیر ذہن کے گوشوں کو روشن رکھتی ہے۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر دانش گاہ تہران کے ڈاکٹر وفا یزدان منش نے اپنے مضمون کو بے حد خوبصورت نام دیا ہے ''توقیت سرسید احمد خان تحقیق کے دروازے کی سنہری چابی'' اپنی تحریر میں ڈاکٹر صاحب نے سرسید احمد خان کے فکری رجحان، اصلاح معاشرہ، مسلمانوں کی بیداری اور مضمون نگاری کا تذکرہ نہایت استدلال اور منطقی نتیجے کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا ہے انھوں نے مولفہ کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ '' ڈاکٹر ذکیہ رانی کی کوشش توقیت سرسید احمد خان تحقیقی تناظر میں آسانیاں پیدا کر رہی ہے۔ سرسید احمد خان کے جن پہلوؤں کی ناتمامی یا فقدان کا احساس ہو، ان موضوعات پر مضامین لکھنے میں اس کتاب سے مدد ملتی ہے۔''
176 صفحات کا احاطہ کرنیوالی کتاب کئی ابواب پر مشتمل ہے، پہلا باب ''توقیت سرسید احمد خان تحقیقی تناظر، دوسرا سیدیات ہے۔ سرسید احمد خان کی تصانیف اور اہم تنقیدی کتب و رسائل کے ذکر کے ساتھ میں سرسید اور علی گڑھ تحریک سے متعلق کتب کی سنین کو ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
تیسرا باب رسائل کے لیے مختص کیا گیا ہے سرسید احمد خان کی علمیت، قابلیت، مسلمانوں کو تنزلی سے نکالنے کے لیے ترقی کی راہوں کا تعین انگریزوں کی مذہب اسلام پر الزام تراشی کا جواب تہذیب الاخلاق کی مختلف ماہ و سال میں اشاعتوں کا ذکر، پاک و ہند کے سرسید احمد خان نمبر میں تفصیل موجود ہے۔ یہ بڑا کٹھن مرحلہ تھا جسے ذکیہ رانی نے پایہ تکمیل کو پہنچایا اور سرسید احمد خان کی جہد مسلسل اور اپنی قوم کو منزل تک پہنچانے کے لیے انھوں نے صبح و شام کام کیا، ایسی مثالیں تاریخ میں کم کم نظر آتی ہیں۔
ذکیہ رانی کی مساعی نے سرسید احمد خان کی تحریر و تقریر کو از سرنو مرتب کرکے ان علم و ادب کے متوالوں پر احسان کیا جو اپنے وقت کے جید عالم سرسید احمد خان کی مکمل زندگی کا محاکمہ کرنے کے خواہش مند ہیں۔ باب اول میں سرسید احمد خان کی ذاتی زندگی کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ ہر گوشہ نمایاں ہو گیا ہے۔سرسید احمد خان کے آباؤ اجداد کا تعلق سرزمین عرب سے تھا۔ وہ اکبر اول کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے۔
دادا سید ہادی فارسی کے صاحب دیوان شاعر تھے اور سرسید اپنے والد سید محمد متقی کی نسبت سے حسینی سید کہلائے۔ شجرہ نسب امام محمد تقی موسیٰ رضا سے جا ملتا ہے۔ سرسید احمد خان کی جائے پیدائش دہلی اور سن 17 اکتوبر 1817، 5 ذی الحجہ 1232 ٹھہرا۔ سرسید احمد کی رسم بسم اللہ کے موقع پر شاہ غلام علی نے کئی آیات تلاوت کروائیں۔
اس کے بعد تعلیم کا سلسلہ چل نکلا۔ اپنی والدہ ماجدہ عزیز النساء بیگم سے گلستان کے چند اسباق پڑھنے کے بعد مولوی حمید الدین سے ابتدائی کتب پڑھیں۔ حدیث و تفسیر کی تکمیل میں نمایاں نام گرامی مولوی مخصوص اللہ ابن شاہ رفیع الدین کا ہے۔ تیراکی اور تیر اندازی میں اپنے والد سے مہارت حاصل کی۔ تصنیف و تالیف کی ابتدا ''سید الاخبار'' سے ہوئی۔ سیدالاخبار کا اجرا سرسرید احمد خان کے بڑے بھائی احتشام الدولہ میر سید محمد نے کیا تھا۔ 19 برس کی عمر میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ منکوحہ کا نام پارسا بیگم عرف مبارک بیگم تھا، سرسید احمد خان کی پہلی تالیف ''جام جم'' کے نام سے اکبر آباد سے شایع ہوئی۔''سیدیات'' کے عنوان سے جو باب تکمیلیت کے درجے پر پہنچا اس میں ان کتابوں کا تعارف کرایا گیا ہے جو ان پر لکھی گئی ہیں اور کچھ کتابوں کے مصنف سرسید احمد خان خود ہیں۔
حیات جاوید، مولانا الطاف حسین حالی، ازدواج مطہرات، سرسید احمد خان، اسباب بغاوت ہند، سرسید احمد خان حیات سرسید، سید نواز علی، سرسید کا اسلام، مولوی مشتاق احمد، سرسید کی ذہنی برکتیں، عبدالحلیم شرر۔ ہزار، پانچ سو سے کم کتب درج نہیں ہیں بلکہ زیادہ ہی ہیں۔ اتنی وقیع تحریروں پر مشتمل کتاب میں ابواب کی فہرست شامل نہیں ہے۔ لکھنے اور پڑھنے والے اس سہولت سے محروم ہیں۔ میری طرف سے ڈاکٹر ذکیہ رانی کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔
اسے انسائیکلوپیڈیا سرسید احمد خان کہا جاسکتا ہے چونکہ اس قدر عرق ریزی اور تحقیق کے بعد سرسید احمد خان کی زندگی کے حالات ، ان کی تصانیف اور فکر و فن پر مختلف اکابرین کے مضامین کو یکجا کرکے کتابی شکل میں شایع کیا گیا ہے ، یقینا یہ کام آسان نہیں بلکہ کافی دقت طلب اور مشکل تھا۔
علم و ادب کی اہم شخصیات کی آرا سے '' توقیت سرسید احمد خان '' مرصع ہے۔ انتساب پروفیسر ڈاکٹر ذوالقرنین احمد شاداب احسانی کے نام ہے جوکہ ذکیہ رانی کے استاد محترم ہیں اور ان کی رہنمائی میں انھوں نے فکر و آگہی کے چراغ روشن کیے ہیں اور اس بات کی وہ معترف بھی ہیں کہ اللہ نے انھیں پروفیسر ڈاکٹر ذوالقرنین احمد شاداب احسانی جیسے استاد کا شاگرد کیا۔ وگرنہ من دانم کیستم؟ چیستم؟ استاد محترم کی تاعمر سپاس گزار ہوں۔ بے شک اپنے محسن کا شکریہ ادا کرنا اور اس کا تذکرہ اعلیٰ ظرفی کی نشانی ہے، جو ذکیہ رانی کی تحریروں سے عیاں ہے۔ فارسی کا ایک خوبصورت شعر بھی درج ہے۔ ان کی سوچ کا عکاس ہے:
کار سازِ ما بہ فکر کارِ ما
فکر مادر کارِ ما آزار ما
ڈاکٹر شاداب احسانی نے اپنے مضمون جس کا عنوان ہے ''حق بہ حق دار رسید'' میں لکھا ہے بلکہ اہم نکتے کی طرف نشان دہی کی ہے جو بہت اہم اور قابل غور ہے کہ سند یافتہ لوگوں کے درمیان تعلیم یافتہ لوگوں کو ڈھونڈنا اب سہل نہیں رہا ہے۔ اکثر سند یافتہ ہیں تعلیم یافتہ خال خال نظر آتے ہیں کتاب کے بارے میں ان کی رائے کچھ اس طرح ہے ''توقیت سرسید احمد خان تحقیقی تناظر'' میرے سامنے ہے۔
اس کتاب میں سرسید سے متعلق جملہ ماخذات اور اہم کتب کا اس جامعیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کہ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ توقیت تحقیق سرسید کے لیے ماخذات کی جستجو اور ان کے ثقہ ہونے میں نہایت وقیع ماخذ ثابت ہوگا۔'' پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے بجا فرمایا کہ ''توقیت سرسید احمد خان تحقیقی تناظر حیات اور عہد سرسید کا اجمال پیش کرتی ہے، یہ ایک حوالہ جاتی کام ہے۔''
ذکیہ رانی کی تحقیقی کتاب کی اشاعت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ذکیہ رانی نے سرسید احمد خان کے حوالے سے ایسا علمی کارنامہ انجام دیا ہے جس سے ادب کا طالبعلم بخوبی استفادہ کرسکتا ہے اور بہت سی ان معلومات کے در وا ہوتے ہیں جن سے ادب کے شایقین ناآشنا تھے ، اگر سرسید احمد خان کی کتب و رسائل کا تذکرہ ملتا ہے تو سن اور ماہ اشاعت کا پتا بھی چلتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی مختلف مواقعوں پر اہل علم نے مضامین قلم بند کیے جو جرائد میں وقتاً فوقتاً شایع ہوتے رہے ، سے مکمل تعارف ہو جاتا ہے۔ مولفہ نے سرسید احمد خان کی زندگی کے اہم پہلوؤں اور حوالوں کے ساتھ اجاگر کیا ہے اور ان کے اصلاحی کارناموں پر بھرپور طریقے سے روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کے مطالعے کے بعد قاری کو تشنگی کا احساس ذہنی اذیت میں مبتلا نہیں کرتا ہے ، ایک اچھی تحریر کی یہ ایسی خوبی ہے جو تادیر ذہن کے گوشوں کو روشن رکھتی ہے۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر دانش گاہ تہران کے ڈاکٹر وفا یزدان منش نے اپنے مضمون کو بے حد خوبصورت نام دیا ہے ''توقیت سرسید احمد خان تحقیق کے دروازے کی سنہری چابی'' اپنی تحریر میں ڈاکٹر صاحب نے سرسید احمد خان کے فکری رجحان، اصلاح معاشرہ، مسلمانوں کی بیداری اور مضمون نگاری کا تذکرہ نہایت استدلال اور منطقی نتیجے کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا ہے انھوں نے مولفہ کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ '' ڈاکٹر ذکیہ رانی کی کوشش توقیت سرسید احمد خان تحقیقی تناظر میں آسانیاں پیدا کر رہی ہے۔ سرسید احمد خان کے جن پہلوؤں کی ناتمامی یا فقدان کا احساس ہو، ان موضوعات پر مضامین لکھنے میں اس کتاب سے مدد ملتی ہے۔''
176 صفحات کا احاطہ کرنیوالی کتاب کئی ابواب پر مشتمل ہے، پہلا باب ''توقیت سرسید احمد خان تحقیقی تناظر، دوسرا سیدیات ہے۔ سرسید احمد خان کی تصانیف اور اہم تنقیدی کتب و رسائل کے ذکر کے ساتھ میں سرسید اور علی گڑھ تحریک سے متعلق کتب کی سنین کو ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
تیسرا باب رسائل کے لیے مختص کیا گیا ہے سرسید احمد خان کی علمیت، قابلیت، مسلمانوں کو تنزلی سے نکالنے کے لیے ترقی کی راہوں کا تعین انگریزوں کی مذہب اسلام پر الزام تراشی کا جواب تہذیب الاخلاق کی مختلف ماہ و سال میں اشاعتوں کا ذکر، پاک و ہند کے سرسید احمد خان نمبر میں تفصیل موجود ہے۔ یہ بڑا کٹھن مرحلہ تھا جسے ذکیہ رانی نے پایہ تکمیل کو پہنچایا اور سرسید احمد خان کی جہد مسلسل اور اپنی قوم کو منزل تک پہنچانے کے لیے انھوں نے صبح و شام کام کیا، ایسی مثالیں تاریخ میں کم کم نظر آتی ہیں۔
ذکیہ رانی کی مساعی نے سرسید احمد خان کی تحریر و تقریر کو از سرنو مرتب کرکے ان علم و ادب کے متوالوں پر احسان کیا جو اپنے وقت کے جید عالم سرسید احمد خان کی مکمل زندگی کا محاکمہ کرنے کے خواہش مند ہیں۔ باب اول میں سرسید احمد خان کی ذاتی زندگی کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ ہر گوشہ نمایاں ہو گیا ہے۔سرسید احمد خان کے آباؤ اجداد کا تعلق سرزمین عرب سے تھا۔ وہ اکبر اول کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے۔
دادا سید ہادی فارسی کے صاحب دیوان شاعر تھے اور سرسید اپنے والد سید محمد متقی کی نسبت سے حسینی سید کہلائے۔ شجرہ نسب امام محمد تقی موسیٰ رضا سے جا ملتا ہے۔ سرسید احمد خان کی جائے پیدائش دہلی اور سن 17 اکتوبر 1817، 5 ذی الحجہ 1232 ٹھہرا۔ سرسید احمد کی رسم بسم اللہ کے موقع پر شاہ غلام علی نے کئی آیات تلاوت کروائیں۔
اس کے بعد تعلیم کا سلسلہ چل نکلا۔ اپنی والدہ ماجدہ عزیز النساء بیگم سے گلستان کے چند اسباق پڑھنے کے بعد مولوی حمید الدین سے ابتدائی کتب پڑھیں۔ حدیث و تفسیر کی تکمیل میں نمایاں نام گرامی مولوی مخصوص اللہ ابن شاہ رفیع الدین کا ہے۔ تیراکی اور تیر اندازی میں اپنے والد سے مہارت حاصل کی۔ تصنیف و تالیف کی ابتدا ''سید الاخبار'' سے ہوئی۔ سیدالاخبار کا اجرا سرسرید احمد خان کے بڑے بھائی احتشام الدولہ میر سید محمد نے کیا تھا۔ 19 برس کی عمر میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ منکوحہ کا نام پارسا بیگم عرف مبارک بیگم تھا، سرسید احمد خان کی پہلی تالیف ''جام جم'' کے نام سے اکبر آباد سے شایع ہوئی۔''سیدیات'' کے عنوان سے جو باب تکمیلیت کے درجے پر پہنچا اس میں ان کتابوں کا تعارف کرایا گیا ہے جو ان پر لکھی گئی ہیں اور کچھ کتابوں کے مصنف سرسید احمد خان خود ہیں۔
حیات جاوید، مولانا الطاف حسین حالی، ازدواج مطہرات، سرسید احمد خان، اسباب بغاوت ہند، سرسید احمد خان حیات سرسید، سید نواز علی، سرسید کا اسلام، مولوی مشتاق احمد، سرسید کی ذہنی برکتیں، عبدالحلیم شرر۔ ہزار، پانچ سو سے کم کتب درج نہیں ہیں بلکہ زیادہ ہی ہیں۔ اتنی وقیع تحریروں پر مشتمل کتاب میں ابواب کی فہرست شامل نہیں ہے۔ لکھنے اور پڑھنے والے اس سہولت سے محروم ہیں۔ میری طرف سے ڈاکٹر ذکیہ رانی کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔