کراچی ماسٹر پلان اور نئے کوریڈور
کراچی کے شہریوں کے لیے کہ ایک ایسا سرکاری سطح پر کاغذی نقشہ تیار کیا جا رہا ہے
23 ستمبر2019 اور 10دسمبر 2019 کو روزنامہ ایکسپریس کراچی میں میرے دو کالم پہلا جس کا عنوان تھا ( اختیارات کا دنگل اور کراچی ) اس میں کراچی کے ماسٹر پلان پر تفصیلی بات کی تھی اور ذاتی تجربہ کی بنیاد پر چند حقائق بھی بیان کیے تھے ، اب اس حوالے سے اردو میں شایع ہونے والے اخبار نے 23 ستمبر 2022 کو تین سال بعد یہ خبر دی ہے کہ کراچی ماسٹر پلان 2047 کی تیاری کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
بنیادی طور پر اس خبر میں چار باتیں ہیں نمبر (1)کراچی ماسٹر پلان نمبر (2) سینتالیس کے ہندسے کو آزادی کے سال 1947سے منسلک کیا ہے تا کہ آنے والی نسلیں تحریک حصول پاکستان کی قربانیوں کو یاد رکھنے کا صد سالہ سنگ میل قرار پائے گا نمبر (3) کلک (کمپیٹیوو لیویبل سٹی آف کراچی ) یہ ایک نیا ادارہ بنایا گیا ہے جو کراچی شہر کے ترقیاتی کاموں میں اب اہم کردار ادا کرے گا اور نمبر (4) ورلڈ بینک کی مالی مدد جس کا تخمینہ ایک ارب انہترکروڑ لگایا گیا ہے وہ بھی کلک کی زیر نگرانی میں یہ ایک اچھی نوید ہے۔
کراچی کے شہریوں کے لیے کہ ایک ایسا سرکاری سطح پر کاغذی نقشہ تیار کیا جا رہا ہے جس کی ایک قانونی حیثیت ہوگی اور مستقبل میں ترقیاتی کام ہوں یا نئے علاقوں میں آبادکاری کم از کم کسی دائرے میں تو ہونگے تاہم ان میں سے ایک اہم نکتے کی نشاندہی کرنا اس وقت ضروری سمجھتی ہوںکہ کراچی کے پرانے ماسٹر پلان میں ایسے گوٹھ اور کچی آبادیاں جو منظور نہیں تھیں اور اس طرح کے دیگر منصوبے جو اداروں میں جعلی رجسٹرڈ کیے گئے ہیں۔
ان کو کہیں اس ماسٹر پلان میں شامل تو نہیں کیا جا رہا ہے یا اس نئے ماسٹر پلان میں اندرون سندھ سے آنے والے غریب سیلاب متاثرین کی آڑ میں جرائم پیشہ عناصر کا کراچی میں آنا ایک لمحہ فکریہ ہے کہیں ان کو بھی اب کراچی کی آبادی ظاہر کر کے مقامی اور 1947 کی تقسیم ہند کے بعد جو لوگ پاکستان اور سندھ کے شہر کراچی میں آکر آباد ہوئے ان کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوئی مذموم کوشش تو نہیں؟ میرا سوال سیدھا ہے اگر ایسا ہے توکراچی والے ایسے ماسٹر پلان کو کسی قیمت منظور نہیں کریں گے۔
میرا دوسرا کالم جس کا عنوان تھا ''کراچی کی بڑھتی آبادی اور بے ہنگم ٹریفک '' شایع ہوا ، اس کالم میں کراچی شہر کے حوالے سے نشاندہی کی تھی کہ اگر مذکورہ شاہراہوں اور نئے راستوں پر توجہ مرکوز کی جا ئے تو کراچی کے شہریوں اور معیشت کے اس اکلوتے معاشی حب کی بدولت ملک کی عوام اور صنعتوں کو فائدہ پہنچے گا کیونکہ تیز تر ترسیل کے ذرایع نہ ہوں تو پیداواری صلاحیتیں ماند پڑجاتی ہیں۔
اسی مضمون میں ملیر ندی کے دونوں کناروں پر ایکسپریس وے بنانے کی بات کی تھی لہٰذا ایک اچھی خبر 18ستمبر 2020کو ایکسپریس کراچی میں شایع ہوئی کہ کراچی پیکیج کے تحت پہلے منصوبے میں ملیر ایکسپریس وے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت مکمل کیا جا ئے گا۔
یہ خبر کراچی کے شہریوں اور ملک کے صنعتی ادارے چلانیوالوں کے لیے مورخہ گیارہ دسمبر 2020 کو عملی طور پر اس وقت سامنے آئی جب منصوبے پر کام شروع ہوا۔ میری اسی گزشتہ تحریر میں لیاری ندی کے کوریڈور کا ذکر بھی موجود ہے جس میں سہراب گوٹھ زیرو پوائنٹ سے ندی کے دونوں کناروں پر روڈ کی تعمیرکرکے سرجانی ٹاؤن اور نادرن بائی پاس تک ٹریک بنانے کی بات لکھی ہے۔
اسی تناظر میں میری طرف سے ایک درخواست پلاننگ ڈویژن اسلام آباد کے آفس میں مورخہ 7جون 2021کو جمع ہوئی جو وہاں سے سندھ انفرا اسٹریکچر ڈویلپمنٹ (SIDCL) کو روانہ کی جا چکی ہے جو بنیادی طور پر شہری علاقوں کی منصوبہ بندی اور تعمیر ی کاموں کی ذمے دار ہے۔
کراچی کی سڑکوں ، انڈرپاسسز اور پلوں پرکیے جانے والے مختلف سروے رپورٹ اور اخبارات ، میگزین و الیکٹرونکس میڈیا کی خبریں آگہی دیتی رہتی ہیں کہ مذکورہ شہر جو ملک کا معاشی حب ہے ٹریفک کا جام ہونا یا سست روی سے چلنا اب ایک معمول بنتا جا رہا ہے چھوٹے کاروباری حضرات اور بڑی صنعتوں کو چلانے والوں کے علاوہ ماہر تعمیرات و دیگر شبعہ جات سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی ایک متفقہ رائے ہے کہ کراچی میں متبادل راستے بنائے جائیں ٹریفک کے نظام کو کنٹرول کرنیوالے بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔
انجینئرنگ سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ روایتی پرانے راستے اب مزید ٹریفک کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں جس کی ایک اہم وجہ شہر کا پھیلاؤ اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا ایک بنیادی سبب ہے جب کہ نیا بس سسٹم گرین لائن ، اورنج لائن وغیرہ مخصوص علاقوں تک محدود ہے اور عوام کو اپنے گھر سے کام اور کام سے گھر یا ایک کاروباری مرکز سے دوسرے مقام تک جانا یا اپنے مال کی ترسیل کے سلسلے میں ٹریفک کے دباؤ کی وجہ سے متبادل راستے اختیارکرنا پڑتے ہیں جس سے قیمتی وقت اور ایندھن کا ضیاع ہونا، اب ہمارے سماجی نظام کا حصہ ہوتا جا رہا ہے۔
لہٰذا اس کا تدارک ضروری ہے۔ ان عوامل کو مدنظر رکھ کرکراچی کے ضلع سینٹرل ، ضلع ایسٹ ، ضلع ملیر اور ضلع ویسٹ سے ایک ہی راستے کے ذریعے منسلک کرنے کے لیے لیاری ندی کے دونوں کناروں سے ملحق ایک نیا کوریڈور یعنی ایکسپریس وے تعمیرکیا جا ئے یہ راستہ کراچی میں ایک منفرد حیثیت کا حامل ہوگا، جو چاروں اضلاع کو ملانے کا سبب بنے گا۔ گنجان وسطی علاقوں میں رہنے والے لمبی مسافت کی وجہ سے اندرون شہر رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں جو کراچی میں رہائشی آبادی میں کثافتی ماحول کا سبب بنا ہوا ہے۔
لہٰذا اس کی تعمیر سے کاٹیج انڈسٹریز کو بھی تقویت ملے گی عوام کو روزگار کے نئے ذرایع حاصل ہونگے اور شہریوں کو نئے علاقے آباد کرنے میں درپیش مشکلات میں کمی آنے سے شہر کے مختلف ترقیاتی اداروں کو اپنی پلاننگ کرنیکی پالیسی بنانے میں بھی آسانیاں آسکتی ہیں۔ تاہم اس میں ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کسی منصوبے کی طوالت معاشی اور سماجی نقصانات کا سبب ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ریاست کے اداروں کے کاموں میں غیر متفرق عناصر (کام کو روکنے کے لیے درخواستیں دینے والے ) ان کے داخل ہونے سے اچھے عوامی منصوبے بھی اپنی افادیت کم کر دیتے ہیں ، ہذا ماہرین کو ابتدائی سطح پر ہی ڈیٹیل اسٹڈی کر لینی ضروری ہے ، یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہی ہوں کہ شہری ترقیاتی اسکیموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں حکومتوں کے فیصلوں نے خود میری اسکیموں کو التواء میں ڈال رکھا ہے جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے ہمارے سامنے سی پیک اور کراچی واٹر بورڈ کےK فور کی مثالیں موجود ہیں۔
بنیادی طور پر اس خبر میں چار باتیں ہیں نمبر (1)کراچی ماسٹر پلان نمبر (2) سینتالیس کے ہندسے کو آزادی کے سال 1947سے منسلک کیا ہے تا کہ آنے والی نسلیں تحریک حصول پاکستان کی قربانیوں کو یاد رکھنے کا صد سالہ سنگ میل قرار پائے گا نمبر (3) کلک (کمپیٹیوو لیویبل سٹی آف کراچی ) یہ ایک نیا ادارہ بنایا گیا ہے جو کراچی شہر کے ترقیاتی کاموں میں اب اہم کردار ادا کرے گا اور نمبر (4) ورلڈ بینک کی مالی مدد جس کا تخمینہ ایک ارب انہترکروڑ لگایا گیا ہے وہ بھی کلک کی زیر نگرانی میں یہ ایک اچھی نوید ہے۔
کراچی کے شہریوں کے لیے کہ ایک ایسا سرکاری سطح پر کاغذی نقشہ تیار کیا جا رہا ہے جس کی ایک قانونی حیثیت ہوگی اور مستقبل میں ترقیاتی کام ہوں یا نئے علاقوں میں آبادکاری کم از کم کسی دائرے میں تو ہونگے تاہم ان میں سے ایک اہم نکتے کی نشاندہی کرنا اس وقت ضروری سمجھتی ہوںکہ کراچی کے پرانے ماسٹر پلان میں ایسے گوٹھ اور کچی آبادیاں جو منظور نہیں تھیں اور اس طرح کے دیگر منصوبے جو اداروں میں جعلی رجسٹرڈ کیے گئے ہیں۔
ان کو کہیں اس ماسٹر پلان میں شامل تو نہیں کیا جا رہا ہے یا اس نئے ماسٹر پلان میں اندرون سندھ سے آنے والے غریب سیلاب متاثرین کی آڑ میں جرائم پیشہ عناصر کا کراچی میں آنا ایک لمحہ فکریہ ہے کہیں ان کو بھی اب کراچی کی آبادی ظاہر کر کے مقامی اور 1947 کی تقسیم ہند کے بعد جو لوگ پاکستان اور سندھ کے شہر کراچی میں آکر آباد ہوئے ان کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوئی مذموم کوشش تو نہیں؟ میرا سوال سیدھا ہے اگر ایسا ہے توکراچی والے ایسے ماسٹر پلان کو کسی قیمت منظور نہیں کریں گے۔
میرا دوسرا کالم جس کا عنوان تھا ''کراچی کی بڑھتی آبادی اور بے ہنگم ٹریفک '' شایع ہوا ، اس کالم میں کراچی شہر کے حوالے سے نشاندہی کی تھی کہ اگر مذکورہ شاہراہوں اور نئے راستوں پر توجہ مرکوز کی جا ئے تو کراچی کے شہریوں اور معیشت کے اس اکلوتے معاشی حب کی بدولت ملک کی عوام اور صنعتوں کو فائدہ پہنچے گا کیونکہ تیز تر ترسیل کے ذرایع نہ ہوں تو پیداواری صلاحیتیں ماند پڑجاتی ہیں۔
اسی مضمون میں ملیر ندی کے دونوں کناروں پر ایکسپریس وے بنانے کی بات کی تھی لہٰذا ایک اچھی خبر 18ستمبر 2020کو ایکسپریس کراچی میں شایع ہوئی کہ کراچی پیکیج کے تحت پہلے منصوبے میں ملیر ایکسپریس وے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت مکمل کیا جا ئے گا۔
یہ خبر کراچی کے شہریوں اور ملک کے صنعتی ادارے چلانیوالوں کے لیے مورخہ گیارہ دسمبر 2020 کو عملی طور پر اس وقت سامنے آئی جب منصوبے پر کام شروع ہوا۔ میری اسی گزشتہ تحریر میں لیاری ندی کے کوریڈور کا ذکر بھی موجود ہے جس میں سہراب گوٹھ زیرو پوائنٹ سے ندی کے دونوں کناروں پر روڈ کی تعمیرکرکے سرجانی ٹاؤن اور نادرن بائی پاس تک ٹریک بنانے کی بات لکھی ہے۔
اسی تناظر میں میری طرف سے ایک درخواست پلاننگ ڈویژن اسلام آباد کے آفس میں مورخہ 7جون 2021کو جمع ہوئی جو وہاں سے سندھ انفرا اسٹریکچر ڈویلپمنٹ (SIDCL) کو روانہ کی جا چکی ہے جو بنیادی طور پر شہری علاقوں کی منصوبہ بندی اور تعمیر ی کاموں کی ذمے دار ہے۔
کراچی کی سڑکوں ، انڈرپاسسز اور پلوں پرکیے جانے والے مختلف سروے رپورٹ اور اخبارات ، میگزین و الیکٹرونکس میڈیا کی خبریں آگہی دیتی رہتی ہیں کہ مذکورہ شہر جو ملک کا معاشی حب ہے ٹریفک کا جام ہونا یا سست روی سے چلنا اب ایک معمول بنتا جا رہا ہے چھوٹے کاروباری حضرات اور بڑی صنعتوں کو چلانے والوں کے علاوہ ماہر تعمیرات و دیگر شبعہ جات سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی ایک متفقہ رائے ہے کہ کراچی میں متبادل راستے بنائے جائیں ٹریفک کے نظام کو کنٹرول کرنیوالے بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔
انجینئرنگ سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ روایتی پرانے راستے اب مزید ٹریفک کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں جس کی ایک اہم وجہ شہر کا پھیلاؤ اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا ایک بنیادی سبب ہے جب کہ نیا بس سسٹم گرین لائن ، اورنج لائن وغیرہ مخصوص علاقوں تک محدود ہے اور عوام کو اپنے گھر سے کام اور کام سے گھر یا ایک کاروباری مرکز سے دوسرے مقام تک جانا یا اپنے مال کی ترسیل کے سلسلے میں ٹریفک کے دباؤ کی وجہ سے متبادل راستے اختیارکرنا پڑتے ہیں جس سے قیمتی وقت اور ایندھن کا ضیاع ہونا، اب ہمارے سماجی نظام کا حصہ ہوتا جا رہا ہے۔
لہٰذا اس کا تدارک ضروری ہے۔ ان عوامل کو مدنظر رکھ کرکراچی کے ضلع سینٹرل ، ضلع ایسٹ ، ضلع ملیر اور ضلع ویسٹ سے ایک ہی راستے کے ذریعے منسلک کرنے کے لیے لیاری ندی کے دونوں کناروں سے ملحق ایک نیا کوریڈور یعنی ایکسپریس وے تعمیرکیا جا ئے یہ راستہ کراچی میں ایک منفرد حیثیت کا حامل ہوگا، جو چاروں اضلاع کو ملانے کا سبب بنے گا۔ گنجان وسطی علاقوں میں رہنے والے لمبی مسافت کی وجہ سے اندرون شہر رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں جو کراچی میں رہائشی آبادی میں کثافتی ماحول کا سبب بنا ہوا ہے۔
لہٰذا اس کی تعمیر سے کاٹیج انڈسٹریز کو بھی تقویت ملے گی عوام کو روزگار کے نئے ذرایع حاصل ہونگے اور شہریوں کو نئے علاقے آباد کرنے میں درپیش مشکلات میں کمی آنے سے شہر کے مختلف ترقیاتی اداروں کو اپنی پلاننگ کرنیکی پالیسی بنانے میں بھی آسانیاں آسکتی ہیں۔ تاہم اس میں ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کسی منصوبے کی طوالت معاشی اور سماجی نقصانات کا سبب ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ریاست کے اداروں کے کاموں میں غیر متفرق عناصر (کام کو روکنے کے لیے درخواستیں دینے والے ) ان کے داخل ہونے سے اچھے عوامی منصوبے بھی اپنی افادیت کم کر دیتے ہیں ، ہذا ماہرین کو ابتدائی سطح پر ہی ڈیٹیل اسٹڈی کر لینی ضروری ہے ، یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہی ہوں کہ شہری ترقیاتی اسکیموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں حکومتوں کے فیصلوں نے خود میری اسکیموں کو التواء میں ڈال رکھا ہے جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے ہمارے سامنے سی پیک اور کراچی واٹر بورڈ کےK فور کی مثالیں موجود ہیں۔