سیلاب زدگان کی بحالی اور مالی مشکلات

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس گزشتہ روز ہوا۔اس اجلاس میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے ملک بھر میں بارشوں، سیلاب اور اُس سے ہونے والی تباہی کی موجودہ صورتحال اور وفاقی اور صوبائی محکموں کی طرف سے جاری ریسکیو، ریلیف اور بحالی کی سرگرمیوں پر مفصل بریفنگ دی۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب ہے جس میں سندھ اور بلوچستان بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

14جون سے اب تک پورے پاکستان میں پچھلے30 سال کی نسبت 190فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں،جب کہ سندھ میں اس کی شرح 465 فیصد اور بلوچستان میں 437 فیصد رہی ہے۔ملک بھر میں مرد، خواتین اور بچوں سمیت 1325افراد لقمہ اجل بنے ۔ بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں 16 لاکھ 88 ہزار گھر، 246رابطہ پُل، 5ہزار 735 کلومیٹر پر محیط سڑکیں اور 7لاکھ 50 ہزار مویشی سیلابی ریلوں کی نذر ہوئے۔

وزیرِ ریلوے و ہوابازی خواجہ سعد رفیق نے کابینہ کو بتایا کہ پاکستان ریلوے کی چاروں لائینز سیلابی ریلے سے بُری طرح متاثر ہوئی ہیں اورکوئٹہ۔سبی سیکشن میں ایک رابطہ پُل تباہ ہونے کی وجہ سے ریلوے کے آپریشنز تاحال بند ہیں۔وزیرِ توانائی انجینئر خرم دستگیر نے کابینہ کو بتایا کہ بلوچستان کی810 میگا واٹ کی تین بڑی بجلی کی ٹرانسمیشن لائینز میں سے دو بحال کردی گئی ہیں۔

وزارتِ توانائی نے کابینہ کو بتایا کہ ملک بھر میں صرف وہی گرڈ اسٹیشنز بند ہیں جو ابھی تک زِیر آب ہیں۔وفاقی کابینہ نے BISP کے ذریعے تقسیم کی جانے والی 28ارب روپے کی رقم کو بڑھا کر 70 ارب روپے کرنے کی منظوری دی۔کابینہ نے اس رقم کو شفاف طریقے سے سیلاب زدگان تک پہنچانے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کی بھی منظوری دی۔کابینہ کو بتایا گیا کہ بعض علاقوں جیسے سوات میں انسانی حماقتوں کے باعث تباہی آئی۔

جہاں River Bed میں غیر قانونی طور پر ہوٹل تعمیر کیے گئے ۔ وزیراعظم نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی وہRiver Bed میں زمین کے استعمال سے متعلق زوننگ قوانین و ضوابط پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنائیں تاکہ مستقبل میں ایسی کسی بھی تباہی سے بچا جاسکے۔

دریا کے عین کناروں پر کسی بھی ہوٹل یا کسی قسم کی تعمیر ویسے ہی قانوناً درست نہیں ، جب ریور بیڈ میں تعمیرات ہو رہی تھیں تو اس وقت متعلقہ محکموں نے اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا ،اگر متعلقے محکمے بروقت ان تعمیرات کے خلاف کارروائی کرتے تو آج جو تباہی دیکھنے میں آئی وہ نہ ہوتی،لیکن کیا کیا جائے یہاں رشوت دے کر ہر غیر قانونی کام بآسانی کرایا جا سکتا ہے،اور متعلقہ محکمے کے اہلکار اپنی جیب گرم کرنے کے بعد کسی بھی غلط اور غیر قانونی کام کا نوٹس نہیں لیتے اور حکومت بھی اس پر خاموش رہتی ہے، جس پر عوامی سطح پر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ متعلقہ وزارت کے سربراہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔

نیشنل فلڈ ریسپانس سینٹر کے حکام نے کابینہ کو بتایا کہ اندازے کے مطابق ملک بھر میں زیرِ آب رقبے کا 80سے 90 فیصد گندم کی کاشت کے لیے موزوں بنایا جاسکے گا،بصورتِ دیگر ملک میں خوراک کا شدید بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ البتہ دس سے بیس فیصد رقبہ پر کاشت نہ ہونے سے خوراک کی پیداوار کم ہونے سے خوراک مہنگی ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

وزیراعظم میاں شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی اقوام عالم کی توجہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کے بارے میں مبذول کرا چکے ہیں۔پاکستان کو اس وقت سیلاب زدگان کی بحالی اور تباہ حال انفرااسٹرکچر کی تعمیر ومرمت کے لیے بہت زیادہ مالی وسائل کی ضرورت ہے۔ملک کی موجود مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ پاکستان کی حکومت اپنے بل بوتے پر یہ کام کرسکے۔

اس لیے اسے دنیا کے امیر ملکوں سے تعاون کی اشد ضرورت ہے تاکہ پاکستان اپنی معیشت کوپاؤں پر کھڑا کرسکے، سیلاب متاثرین کی بحالی کا کام مکمل کرسکے اور تباہ شدہ انفرااسٹرکچر تعمیر کرسکے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول زرداری نے بھی کہا ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پاکستان معاوضے کا نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ ماحولیاتی انصاف کا خواہاں ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں کا قصور وار پاکستان نہیں،موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان سمیت متاثر ممالک کے معاشی سہارے کے لیے قرضوں کو ری شیڈول کیا جائے۔


نیویارک میںاقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول زرداری نے کہا کہ یہ معاوضہ حاصل کرنے میں تاحال کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا ہے، یہ ایک طویل المدتی سوال ہے، ہم حقیقت پسندانہ ماحولیاتی انصاف کے خواہاں ہیں۔

وزیر خارجہ نے کونسل آن فارن ریلیشنز(سی ایف آر)میں امریکی اسکالرز اور ماہرین کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں سیلاب زدگان کے لیے دنیا کا تعاون طلب کیا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا دائرہ وسیع اور شدت بہت زیادہ ہے، بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں کے لیے عالمی برادری کی مدد ناگزیر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مالی امداد سے زیادہ پاکستان کو اپنے بنیادی انفرااسٹرکچر اور معیشت کی تعمیر نو کے لیے ماحولیاتی انصاف اور گرین پلان کی ضرورت ہے۔بی بی سی ورلڈ نیوز سے انٹرویو میں وزیر خارجہ نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی میں دہائیاں درکار ہوں گی کیونکہ لوگوں کا سب کچھ پانی میں بہہ گیا ہے،سیلاب کی وجہ سے 3 کروڑ30 لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے اور ہمارے پاس جو وسائل موجود ہیں وہ سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے ناکافی ہیں۔

سیلاب متاثرین کے لیے دنیا دل کھول کر امداد کررہی ہے لیکن جب آپ اس امداد کا ہونے والی تباہی کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو یہ سمندر میں قطرے کے برابر ہے۔ہم نے حال ہی میںآئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تھا اور امپورٹ اور ایکسپورٹ کے حوالے سے ہمارے تمام تخمینے اورمنصوبے سیلابی پانی میں بہہ گئے ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کی مبہم خارجہ پالیسی کی وجہ سے خاصے مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔امریکا ، یورپی یونین اور عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری آئی، عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات بھی اتارچڑھاؤ کا شکار رہے جس کی وجہ سے پاکستان کی معاشی اور مالی حالت خراب ہونا شروع ہوگئی۔

اسی دوران کورونا وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔دنیا بھر کی معیشتیں کساد بازاری کا شکار ہوگئیں، کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہوگئیں، پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آیا،یوں ملک کی معیشت مزید دباؤ کا شکار ہوگئی۔اب صورتحال میں کچھ تبدیلی آئی ہے ، آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پائے ہیں لیکن حالیہ بارشوں اور سیلاب نے پاکستان کی معیشت کے کس بل نکال دیے ہیں۔

تاہم یہ امر خوش آیند ہے کہ ورلڈبینک کے نائب صدر برائے جنوبی ایشیا مارٹن ریسر کی سربراہی میں وفد کے دورۂ پاکستان کے اختتام پر پاکستان کو سیلاب زدگان کی بحال کے لیے 2 ارب ڈالرقرض کی فراہمی کا عندیہ دیا گیا۔ ورلڈ بینک کے پاکستان میں واقع دفتر کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظر ورلڈ بینک پاکستان کے عوام کو سپورٹ کرنے کے لیے پر عزم ہے۔

ورلڈ بینک کا کہنا تھا کہ فوری ردعمل کے طور پر ورلڈ بینک کی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبوں کی رقم صحت، خوراک، پناہ گاہوں، بحالی اور نقد رقوم کی ہنگامی ضروریات کے لیے فراہم کی جائے گی۔ ورلڈبینک کے نائب صدر برائے جنوبی ایشیا مارٹن ریسر کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ہم 2 ارب ڈالر کی فنانسنگ پر غور کررہے ہیں۔

پاکستان کی حکومت اور پالیسی سازوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ ملک کے مالی بحران کو مدنظر رکھ کر امور مملکت چلا رہے ہیں۔غیر پیداواری اخراجات کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ریاست کے اعلیٰ عہدیداروں کو اپنی مراعات اپنے ملک کی مالی حالت کے مطابق رکھنی ہوں گی۔ ایک غریب ملک کے اعلیٰ عہدیدار شاہانہ طرز زندگی نہیں گزار سکتے ، ان کی تنخواہیں، مراعات اور پنشن ملک کے مالی حالات کے مطابق ہونی چاہیے۔

پاکستان کے پاس اب بھی اتنا پوٹنشل موجود ہے کہ وہ اس بڑے بحران سے نکل سکتا ہے۔پاکستان کی رولنگ کلاس کو سرکاری خزانے کے بیدریغ استعمال کا کوئی حق نہیں ہے۔پاکستان کا خزانہ اس ملک کے عوام کی ملکیت ہے کیونکہ وہ اپنی محنت کی کمائی سے ٹیکس ادا کرکے ریاست کو وسائل فراہم کررہے ہیں۔

سرکاری اداروں میں غیرضروری اور خلاف میرٹ بھرتیاںملک کے ٹیکس پیئرز کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے کیونکہ سرکار کا ملازم خواہ وہ اعلیٰ افسران ہوں یا چپڑاسی، مالی ، ڈرائیور، خانساماں وغیرہ سب کی تنخواہیں ملک کے ٹیکس پیئرز کے پیسیوں سے ادا ہوتی ہیں، اسی طرح ریاست کے ذمے جو قرضے ہیں، ان کی ادائیگی بھی اس غریب ملک کے عوام مختلف نوعیت کے ٹیکسوں کے ذریعے کررہے ہیں۔
Load Next Story