اہم فیصلوں کے لیے اکتوبر کا مہینہ بہت اہم
ہماری ملکی سیاست میں ایک جوتشی بہت اہم ہیں، وہ ہر مہینے کوئی نہ کوئی پیش گوئی کرتے رہتے ہیں کہ میں اس مہینہ کے اواخر میںاہم سیاسی تبدیلی ہوتے دیکھ رہاہوں۔اپریل 2022 جب سے اُن کے سیاسی مرشدجناب عمران خان صاحب کی حکومت خالصتاً ایک آئینی اورجمہوری طریقہ سے معزول کی گئی ہے وہ اتنے مضطرب اوربے چین ہوچکے ہیں کہ باقاعدہ طور پرہر مہینے کو سیاسی تبدیلی کے لیے بہت اہم قرار دیتے رہے ہیں۔
اُن کی دلی خواہشیں الیکٹرانک میڈیا اوراخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت تو بن جاتی ہیں لیکن حقیقت کاروپ نہیں دھار پاتیں۔ ہر مہینہ اس طرح پیش گوئی کرنے کاایک فائدہ تو یہ ہوتاہے کہ وہ اس طرح سیاست اور خبروں میں زندہ رہتے ہیں اوراگر کسی مہینہ کوئی بڑا اوراہم فیصلہ سامنے آجائے جو بہرحال آنا ہی ہوتاہے تو یہ صاحب خود کو بہت بڑا نجومی اورجوتشی سمجھ کر داغنے لگتے ہیں۔
اُن کو ہمارے لوگ اب اچھی طرح سمجھ چکے ہیںاور چند ہی لوگ اُن کی کہی باتوں کو کوئی اہمیت دیتے ہیں۔ 16 دفعہ وزیر بننے کا دعویٰ کرنے والے اس جوتشی کو شاید یہ یاد نہیں رہاکہ اُس کے اس سیاسی قدوقامت میں اصل حصہ میاں صاحب سے وابستگی کا ہی ہے۔
میاں صاحب اگر انھیں کوئی اہمیت نہ دیتے تو شاید ہی کوئی انھیں آج جان اورپہچان رہا ہوتا۔جس گیٹ نمبر 4 کا حوالہ وہ اکثر اپنے سیاسی بیانوں میں دیتے رہتے ہیں اور اس سے اپنی وابستگی اور تعلق کا دعویٰ بھی بڑے فخر سے کرتے رہتے ہیں انھیں اس گیٹ کے قریب ہی نہیں آنے دیا جاتا۔ وہ اس بات کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں لیکن کیاکریں کہ اس کے بغیر ان کی سیاسی دکان ایک دن کے لیے بھی چلنے والی نہیں، وہ جب بھی وفاقی وزیر بنے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے۔
کسی ایک وزارت میں بھی کوئی کام مکمل نہیں کرسکے، وہ اگر کسی وزارت کے لیے اتنا ہی اہم اور ضروری تصورکیے جاتے تو انھیں کبھی قبل ازوقت فارغ یاتبدیل نہیں کیاجاتا۔ خان صاحب کے دور حکومت میں بھی وہ ریلوے کے ایک بار پھر وفاقی وزیر بنائے گئے لیکن وہاں اگر ان کی کارکردگی اچھی ہوتی تو خان صاحب کو ان کے قلم دان کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔
قطع نظر ان کی بے سروپاپیش گوئیوں کے ہمارے یہاں سیاسی فیصلوں کے لیے اگلا مہینہ یقیناً بہت اہم ہے۔آیندہ ماہ ہونے والے اہل فیصلوں میں ہم سب کی نظریں نئے آرمی چیف کی نامزدگی اورتعیناتی پرلگی ہوئی ہیں۔دنیابھر میں نئے آرمی چیف کاانتخاب کبھی اس طرح عوامی سطح پر موضوع گفتگو نہیں بناکرتا جس طرح ہمارے یہاں یہ بنادیاگیاہے۔خان صاحب کے برسراقتدار آنے سے پہلے تک یہ معمول کے مطابق اور آئین میں درج اصولوں کے تحت طے کر دیاجاتاتھااورکسی کوکوئی اعتراض یاشکایت بھی نہیں ہوتی تھی،لیکن خان صاحب نے اس آئینی عہدے کی تعیناتی کوبھی متنازع بنانے کی پوری کوشش کی ہے۔ بہر حال خان صاحب جو چاہیں کر لیں' ہر تعیناتی طے شدہ آئینی و قانونی طریقے سے خوش اسلوبی سے ہو جائے گی۔
اکتوبر کے مہینے میں جو تبدیلی کے مزید آثار دکھائی دے رہے ہیں اُن میں اسحاق ڈارکی وطن واپسی کے علاوہ خود میاں صاحب کی واپسی کے انتظامات بھی شامل ہیں۔نئے انتخابات جن کے لیے خان صاحب بہت بے چین ہیں وہ کم زکم اس سال توہوتے نہ صرف دکھائی نہیں دے رہے بلکہ ناممکن بھی نظر آرہے ہیں۔ سیلاب اورقدرتی آفت نے بچاکچا امکان بھی ختم کرکے رکھ دیاہے۔ خان صاحب کی مشکلیں بڑھتی جارہی ہیں۔
تقریباً پچاس سیاسی جلسے کرکے وہ عوام کو اپنے حق میں متحرک تو کرچکے ہیں لیکن انھیں ابھی تک سڑکوں پرنہیں لاسکے ہیں۔ لانگ مارچ کی حتمی کال دیتے ہوئے وہ نجانے کیوں ہچکچارہے ہیں۔25 مئی 2022 کو جس لانگ مارچ کے اختتام پرانھوں نے چھ روز کاالٹی میٹم دیاتھاوہ آج چار ماہ گزر جانے پر بھی حقیقت کا روپ نہیںدھار پایا۔ہر جلسے میں وہ کال دینے کاکہتے ضرور ہیں لیکن دے نہیں پاتے۔ اُن کے اس طرزعمل سے اب اُن کے پرستار بھی مایوس ہوتے جارہے ہیں۔
خان صاحب دراصل نئے آرمی چیف کی نامزدگی کے انتظار میں اس کال کو موخر کرتے جارہے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ اگلاچیف کون ہوگا،جس کے بعد ہی وہ کوئی لائحہ عمل ترتیب دے پائیںگے۔یہی وجہ ہے کہ اعلان کرنے کے باوجود وہ ہرجلسہ میں عوام کو اگلے جلسہ کاجھانسہ دیکر کال کے انتظار میں تیار رہنے کا کہتے دکھائی دیتے ہیں، وہ کھل کرقوم کو یہ بتابھی نہیں سکتے کہ میں نئے آرمی چیف کے انتخاب کاانتظار کررہا ہوں۔
جیسے جیسے دن گذرتے جارہے ہیں خان صاحب کواپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لالے پڑتے جارہے ہیں۔ ملک کے معاشی حالات اگر نئے مجوزہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی کوششوں سے بہتر ہوگئے تو خان کے لیے مشکلیں اوربھی بڑھ جائیںگی، اور تو اوراگر میاں نوازشریف کو بھی سیاست میں کھیلنے کے لیے اگر پلین فیلڈ فراہم کردیاگیاتوساراپانسہ ہی پلٹ کررہ سکتاہے۔
یہی خوف اورڈر خان کوپریشان کیے ہوئے ہے اوروہ اپنے دل کی بھڑاس اسٹبلشمنٹ کے خلاف نکال کرانھیں ایسا کرجانے سے بازرکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ ایک بار پھر اُن کے ساتھ ملکر میاں نوازشریف کا راستہ روک دے اوروہ دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہوکر ایک بار پھر برسراقتدار آجائیں، جس کے بعد وہ اس ملک کے آئین کا حلیہ ہی بدل دیں اورملک میںفرد واحد کی حکمرانی یعنی صدارتی نظام نافذ کرکے تاحیات اس کے سربراہ بن جائیں۔
اُن کی دلی خواہشیں الیکٹرانک میڈیا اوراخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت تو بن جاتی ہیں لیکن حقیقت کاروپ نہیں دھار پاتیں۔ ہر مہینہ اس طرح پیش گوئی کرنے کاایک فائدہ تو یہ ہوتاہے کہ وہ اس طرح سیاست اور خبروں میں زندہ رہتے ہیں اوراگر کسی مہینہ کوئی بڑا اوراہم فیصلہ سامنے آجائے جو بہرحال آنا ہی ہوتاہے تو یہ صاحب خود کو بہت بڑا نجومی اورجوتشی سمجھ کر داغنے لگتے ہیں۔
اُن کو ہمارے لوگ اب اچھی طرح سمجھ چکے ہیںاور چند ہی لوگ اُن کی کہی باتوں کو کوئی اہمیت دیتے ہیں۔ 16 دفعہ وزیر بننے کا دعویٰ کرنے والے اس جوتشی کو شاید یہ یاد نہیں رہاکہ اُس کے اس سیاسی قدوقامت میں اصل حصہ میاں صاحب سے وابستگی کا ہی ہے۔
میاں صاحب اگر انھیں کوئی اہمیت نہ دیتے تو شاید ہی کوئی انھیں آج جان اورپہچان رہا ہوتا۔جس گیٹ نمبر 4 کا حوالہ وہ اکثر اپنے سیاسی بیانوں میں دیتے رہتے ہیں اور اس سے اپنی وابستگی اور تعلق کا دعویٰ بھی بڑے فخر سے کرتے رہتے ہیں انھیں اس گیٹ کے قریب ہی نہیں آنے دیا جاتا۔ وہ اس بات کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں لیکن کیاکریں کہ اس کے بغیر ان کی سیاسی دکان ایک دن کے لیے بھی چلنے والی نہیں، وہ جب بھی وفاقی وزیر بنے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے۔
کسی ایک وزارت میں بھی کوئی کام مکمل نہیں کرسکے، وہ اگر کسی وزارت کے لیے اتنا ہی اہم اور ضروری تصورکیے جاتے تو انھیں کبھی قبل ازوقت فارغ یاتبدیل نہیں کیاجاتا۔ خان صاحب کے دور حکومت میں بھی وہ ریلوے کے ایک بار پھر وفاقی وزیر بنائے گئے لیکن وہاں اگر ان کی کارکردگی اچھی ہوتی تو خان صاحب کو ان کے قلم دان کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔
قطع نظر ان کی بے سروپاپیش گوئیوں کے ہمارے یہاں سیاسی فیصلوں کے لیے اگلا مہینہ یقیناً بہت اہم ہے۔آیندہ ماہ ہونے والے اہل فیصلوں میں ہم سب کی نظریں نئے آرمی چیف کی نامزدگی اورتعیناتی پرلگی ہوئی ہیں۔دنیابھر میں نئے آرمی چیف کاانتخاب کبھی اس طرح عوامی سطح پر موضوع گفتگو نہیں بناکرتا جس طرح ہمارے یہاں یہ بنادیاگیاہے۔خان صاحب کے برسراقتدار آنے سے پہلے تک یہ معمول کے مطابق اور آئین میں درج اصولوں کے تحت طے کر دیاجاتاتھااورکسی کوکوئی اعتراض یاشکایت بھی نہیں ہوتی تھی،لیکن خان صاحب نے اس آئینی عہدے کی تعیناتی کوبھی متنازع بنانے کی پوری کوشش کی ہے۔ بہر حال خان صاحب جو چاہیں کر لیں' ہر تعیناتی طے شدہ آئینی و قانونی طریقے سے خوش اسلوبی سے ہو جائے گی۔
اکتوبر کے مہینے میں جو تبدیلی کے مزید آثار دکھائی دے رہے ہیں اُن میں اسحاق ڈارکی وطن واپسی کے علاوہ خود میاں صاحب کی واپسی کے انتظامات بھی شامل ہیں۔نئے انتخابات جن کے لیے خان صاحب بہت بے چین ہیں وہ کم زکم اس سال توہوتے نہ صرف دکھائی نہیں دے رہے بلکہ ناممکن بھی نظر آرہے ہیں۔ سیلاب اورقدرتی آفت نے بچاکچا امکان بھی ختم کرکے رکھ دیاہے۔ خان صاحب کی مشکلیں بڑھتی جارہی ہیں۔
تقریباً پچاس سیاسی جلسے کرکے وہ عوام کو اپنے حق میں متحرک تو کرچکے ہیں لیکن انھیں ابھی تک سڑکوں پرنہیں لاسکے ہیں۔ لانگ مارچ کی حتمی کال دیتے ہوئے وہ نجانے کیوں ہچکچارہے ہیں۔25 مئی 2022 کو جس لانگ مارچ کے اختتام پرانھوں نے چھ روز کاالٹی میٹم دیاتھاوہ آج چار ماہ گزر جانے پر بھی حقیقت کا روپ نہیںدھار پایا۔ہر جلسے میں وہ کال دینے کاکہتے ضرور ہیں لیکن دے نہیں پاتے۔ اُن کے اس طرزعمل سے اب اُن کے پرستار بھی مایوس ہوتے جارہے ہیں۔
خان صاحب دراصل نئے آرمی چیف کی نامزدگی کے انتظار میں اس کال کو موخر کرتے جارہے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ اگلاچیف کون ہوگا،جس کے بعد ہی وہ کوئی لائحہ عمل ترتیب دے پائیںگے۔یہی وجہ ہے کہ اعلان کرنے کے باوجود وہ ہرجلسہ میں عوام کو اگلے جلسہ کاجھانسہ دیکر کال کے انتظار میں تیار رہنے کا کہتے دکھائی دیتے ہیں، وہ کھل کرقوم کو یہ بتابھی نہیں سکتے کہ میں نئے آرمی چیف کے انتخاب کاانتظار کررہا ہوں۔
جیسے جیسے دن گذرتے جارہے ہیں خان صاحب کواپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لالے پڑتے جارہے ہیں۔ ملک کے معاشی حالات اگر نئے مجوزہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی کوششوں سے بہتر ہوگئے تو خان کے لیے مشکلیں اوربھی بڑھ جائیںگی، اور تو اوراگر میاں نوازشریف کو بھی سیاست میں کھیلنے کے لیے اگر پلین فیلڈ فراہم کردیاگیاتوساراپانسہ ہی پلٹ کررہ سکتاہے۔
یہی خوف اورڈر خان کوپریشان کیے ہوئے ہے اوروہ اپنے دل کی بھڑاس اسٹبلشمنٹ کے خلاف نکال کرانھیں ایسا کرجانے سے بازرکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ ایک بار پھر اُن کے ساتھ ملکر میاں نوازشریف کا راستہ روک دے اوروہ دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہوکر ایک بار پھر برسراقتدار آجائیں، جس کے بعد وہ اس ملک کے آئین کا حلیہ ہی بدل دیں اورملک میںفرد واحد کی حکمرانی یعنی صدارتی نظام نافذ کرکے تاحیات اس کے سربراہ بن جائیں۔