اسٹریٹ کرائمز کراچی میں سب سے بڑا مسئلہ ہے ایڈیشنل آئی جی کا اعتراف
غیرمقامی افراد کی شہر میں موجودگی اسٹریٹ کرائم میں اضافے کی وجہ ہے، تاجر رہنما
ایڈیشنل آئی جی جاوید عالم اوڈھو نے شہر قائد میں بڑھتے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز کو کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دے دیا۔
کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی بزنس کمیونٹی کے حوالے سے میرے بیان کو غلط انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کی بزنس کمیونٹی پورے ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ میرا ایمان ہے کہ کراچی کی تاجر براداری ملکی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کی بزنس کمیونٹی اور پولیس کے درمیان تعلقات مضبوط ہیں۔ دونوں مل کر اسٹریٹ کرائمز کا قلع قمع کریں گے۔ کراچی میں پولیس نے 6600 کرمنلز گرفتار کیے ہیں۔ شہر میں اس وقت صرف 42 ہزار نفری موجود ہے، مزید بھرتیاں کرنی ہیں، جس کی سندھ حکومت نے اجازت دیدی ہے۔
ایڈیشنل آئی جی نے اہالیان کراچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ شہر کی خدمت کے لیے پولیس کی نوکری میں دلچسپی ظاہر کریں۔ صوبائی حکومت جلد کراچی پولیس کو نئی گاڑیاں فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ڈیٹا کے مطابق کراچی میں کرائم کا درجہ 106 سے گھٹ کر 128 نمبر پر آیا ہے۔
گاڑی چوری کے تازہ واقعے پر انہوں نے کہا کہ اللہ والا ٹاؤن میں کار اٹھانے کے واقعے میں ملوث پولیس موبائل کی نشاندہی ہوگئی ہے۔ فوٹیج میں آنے والی موبائل اے سی ایل سی کی ہے۔ سادہ کپڑوں میں کارروائی کرنے والے اہلکاروں پر جرائم پیشہ عناصر ہونے کا شبہہ ہوتا ہے۔ واقعہ میں پولیس کوتاہی کی تحقیقات کررہے ہیں۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایس ایم منیر نے کہا کہ ملکی معیشت ڈوب رہی ہے، ایک دوسرے کو چور چور کہنا بند کیا جائے۔ خالد تواب نے کہا کہ غیرمقامی افراد کی شہر میں موجودگی اسٹریٹ کرائم میں اضافے کی وجہ ہے۔ سہراب گوٹھ پر غیر ملکی پرچم لہرانے کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ اگر ان عناصر کے خلاف کارروائیاں بروقت ہوتیں تو حالات بہتر ہوتے۔ ایسی چیزوں سے ملک کا امیج خراب ہوتا ہے۔
چئیرمین لا اینڈ آرڈر کمیٹی دانش خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی شرح بڑھ گئی ہے۔ صنعتی علاقوں میں چھپرا ہوٹلز راتوں رات قائم ہوجاتے ہیں، جو جرائم بڑھانے کا سبب ہیں۔ایسے ہی مقامات سے ریکی و منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہر ماہ کی یکم سے 12تاریخ کے دوران لوٹنے کے لیے صنعتی ورکرز ہدف ہوتے ہیں۔ بینکوں سے تنخواہ نکلوانے والوں کو ہدف بنایا جاتا ہے۔
کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی بزنس کمیونٹی کے حوالے سے میرے بیان کو غلط انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کی بزنس کمیونٹی پورے ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ میرا ایمان ہے کہ کراچی کی تاجر براداری ملکی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کی بزنس کمیونٹی اور پولیس کے درمیان تعلقات مضبوط ہیں۔ دونوں مل کر اسٹریٹ کرائمز کا قلع قمع کریں گے۔ کراچی میں پولیس نے 6600 کرمنلز گرفتار کیے ہیں۔ شہر میں اس وقت صرف 42 ہزار نفری موجود ہے، مزید بھرتیاں کرنی ہیں، جس کی سندھ حکومت نے اجازت دیدی ہے۔
ایڈیشنل آئی جی نے اہالیان کراچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ شہر کی خدمت کے لیے پولیس کی نوکری میں دلچسپی ظاہر کریں۔ صوبائی حکومت جلد کراچی پولیس کو نئی گاڑیاں فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ڈیٹا کے مطابق کراچی میں کرائم کا درجہ 106 سے گھٹ کر 128 نمبر پر آیا ہے۔
گاڑی چوری کے تازہ واقعے پر انہوں نے کہا کہ اللہ والا ٹاؤن میں کار اٹھانے کے واقعے میں ملوث پولیس موبائل کی نشاندہی ہوگئی ہے۔ فوٹیج میں آنے والی موبائل اے سی ایل سی کی ہے۔ سادہ کپڑوں میں کارروائی کرنے والے اہلکاروں پر جرائم پیشہ عناصر ہونے کا شبہہ ہوتا ہے۔ واقعہ میں پولیس کوتاہی کی تحقیقات کررہے ہیں۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایس ایم منیر نے کہا کہ ملکی معیشت ڈوب رہی ہے، ایک دوسرے کو چور چور کہنا بند کیا جائے۔ خالد تواب نے کہا کہ غیرمقامی افراد کی شہر میں موجودگی اسٹریٹ کرائم میں اضافے کی وجہ ہے۔ سہراب گوٹھ پر غیر ملکی پرچم لہرانے کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ اگر ان عناصر کے خلاف کارروائیاں بروقت ہوتیں تو حالات بہتر ہوتے۔ ایسی چیزوں سے ملک کا امیج خراب ہوتا ہے۔
چئیرمین لا اینڈ آرڈر کمیٹی دانش خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی شرح بڑھ گئی ہے۔ صنعتی علاقوں میں چھپرا ہوٹلز راتوں رات قائم ہوجاتے ہیں، جو جرائم بڑھانے کا سبب ہیں۔ایسے ہی مقامات سے ریکی و منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہر ماہ کی یکم سے 12تاریخ کے دوران لوٹنے کے لیے صنعتی ورکرز ہدف ہوتے ہیں۔ بینکوں سے تنخواہ نکلوانے والوں کو ہدف بنایا جاتا ہے۔