تماشہ اہلِ کرم دیکھتے ہیں
بھیک مانگنا کوئی نئی بات نہیں۔ بھکاری ہر زمانہ میں اور ہر جگہ پائے جاتے تھے لیکن خودداری اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ کسی کے آگے دست ِ سوال دراز کیا جائے تا وقتیکہ انسان انتہائی مجبور نہ ہوجائے لیکن وقت اور حالات کی تبدیلی نے بھیک مانگنے کو بھی ایک پیشہ بنا دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج آپ کو بازاروں، چوراہوں، اسپتالوں،ریلوے اسٹیشنوں، عدالتوں اور اہم تجارتی مراکز جیسے مقامات پر بہروپیئے جگہ جگہ بھیک مانگتے ہوئے نظر آئیں گے۔یہ بھکاری موقع محل کے تقاضوں کے مطابق بات کرتے ہیں اور اپنے ٹارگٹ کی نفسیات سے کھیلتے ہیں مثلاً اگر کوئی اسپتال کے آگے کھڑا ہے تو وہ مریض کے تیمار داروں کو دعاؤں کے ذریعہ لبھائے گا اور اگر کوئی عدالت کچہری میں کھڑا ہوا ہے تو وہ مکہ مدینہ کی زیارت کا واسطہ دے کر اپنے ہدف کے دل کو پگھلانے کی کوشش کرے گا۔
غرض جیسا موقع محل ویسا واسطہ۔ ان گدا گروں میں بوڑھوں، عمر رسیدہ خواتین، جوانوں اور بچوں سمیت سبھی لوگ شامل ہیں۔ نوجوان دوشیزاؤں کا معاملہ سب سے الگ ہے جو اپنے ہدف کو دعوت گناہ دے کر اپنا مقصد حاصل کرتی ہیں۔
یہ کاروبار صبح سے لے کر رات گئے تک جاری رہتا ہے، اگرچہ انسدادِ گداگری کا باقاعدہ ایک قانون موجود ہے لیکن قوانین تو تمام جرائم کے لیے موجود ہیں مگر جرائم میں کمی آنے کے بجائے روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔پولیس کی ذمے داری ہے کہ وہ گداگروں کے خلاف ایکشن لے لیکن بیچاری پولیس کو کیا پڑی ہے کہ اس بکھیڑے میں پڑ کر مصیبت مول لے اور اپنا قیمتی وقت ضایع کرے کیونکہ اُسے اور بھی بہت سے کام ہیں۔ فیض احمد فیض کے بقول:
اور بھی غم ہیں زمانہ میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
یہ اور بات ہے کہ ہماری پولیس اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے کبھی کبھار گداگری کے خلاف مہم چلاتی ہے۔اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ پولیس کی ملی بھگت کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ کوئی جرم ہوجائے اور مجرم بچ کر نکل جائے۔
اس حقیقت کی تائید کے لیے بیشمار واقعات اور مثالیں موجود ہیں۔ علاقہ کے تھانیدار کو خوب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دائرہِ کار میں کون کون مجرم ہے اور وہ کس جرم کے ارتکاب میں ملوث ہے۔جوئے، شراب اور سٹے کے اڈے پولیس کی ملی بھگت کے بغیر چل ہی نہیں سکتے۔ زنا کاری کے ٹھکانے بھی پولیس کے زیر سایہ فروغ پاتے ہیں۔
آئیے !ہم آپ کو ایک واقعہ سناتے ہیں۔ ہوا یوں کہ ہمارے ایک عزیز جو پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہے تھے ان کی جیب کٹ گئی اور انھوں نے یہ واقعہ ہم کو سنایا۔وہ بیچارے بہت پریشان تھے کیونکہ اُن کی پتلون کی جیب سے نکالے گئے بٹوے میں نہ صرف اچھی خاصی رقم تھی بلکہ شناختی کارڈ، کریڈٹ کارڈ اور اُس کے علاوہ چند اور اہم چیزیں شامل تھیں۔ حسن اتفاق سے جس علاقہ میں جیب تراش نے اُن کا بٹوہ نکالا تھا اُس کے تھانیدار سے ہماری شناسائی تھی۔
ہم نے انھیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ گھبرائیں نہیں اِن شاء اللہ آپ کو اپنا بٹوہ مل جائے گا۔ بس آپ کا کام ہے دعا کرنا اور ہمارا کام ہے کوشش کرنا۔چناچہ ہم نے بلاتاخیر متعلقہ تھانیدار سے رجوع کیا اور سارا واقعہ اُن سے بیان کردیا۔ انھوں نے ہمیں شام کے وقت اُن کے تھانہ میں آکر ملنے کو کہا۔ہم مقررہ وقت پر اُن سے ملاقات کے لیے پہنچے تو موصوف کو اُن کے دفتر میں موجود پایا۔انھوں نے ہمیں بیٹھنے کے لیے کہا اور فرمایا کہ آپ تشریف رکھیں اور چائے نوش فرمائیں۔ہم نے اُن کی طرف دیکھا تو اُن کے چہرے پر کسی پریشانی یا فکرمندی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ہم عجیب مخمصہ میں پڑ گئے کہ دیکھیے اب کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
چائے پیتے ہی موصوف ہم سے گویا ہوئے کہ ''مبارک ہو بٹوہ مل گیا لیکن رقم اس میں موجود نہیں ہے لیکن باقی سب چیزیں موجود ہیں۔الحمد للہ ہم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اُس کے بعد تھانیدار صاحب کا بہت شکریہ ادا کیا۔تھانیدار صاحب نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رقم تو برآمد نہیں ہوسکی کیونکہ جیب تراش نے اُسے خرچ کردیا۔
بھکاریوں کی ایک مخصوص صنف بھی ہے جسے خواجہ سرا کہا جاتا ہے لیکن جو عرفِ عام میں ہیجڑا کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ شام ہوتے ہی شہر کے اہم چوراہوں پر قبضہ کر لیتے ہیں اور اپنے مخصوص انداز میں آنے جانے والوں سے خراج وصول کرتے ہیں اور اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے لوگ اُن کی مٹھی گرم کرکے چلے جاتے ہیں۔بعض اوقات اُن کی وجہ سے ٹریفک کے گزرنے میں رَخنہ بھی پڑجاتا ہے۔
پیشہ ور بھکاریوں کی ایک اور قسم بھی ہے جو چھوٹی موٹی اشیاء فروخت کرنے کے بہانے گداگری کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تاکہ لوگ ترس کھا کر اُن کی مدد کریں۔یہ لوگ کہیں بال پین اور کہیں غبارے فروخت کرنے والوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔گداگری کا کاروبار چلانے والے ایک الگ مافیا ہے جو باقاعدہ منظم انداز میں موجود ہے۔ یہ مافیا بھیک مانگنے کی باقاعدہ تربیت دیتا ہے اور کسی کو لنگڑا لولا اور کسی کو گونگا بہرا اور کسی کو زخمی یا جزامی کا روپ دھار کر انسانی ہمدردی کو کیش کرتا ہے۔مرزا تو بہت پہلے کہہ چکے ہیں:
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
رمضان شریف کے مبارک مہینہ میں تو گدا گروں کی چاندی ہوجاتی ہے اور یہ لوگ برساتی مینڈکوں کی طرح جگہ جگہ پھدکتے ہوئی دکھائی دیتے ہیں اور نت نئے پینتروں سے زکوۃ، صدقہ اور خیرات وصول کرکے مستحق لوگوں کا حق مارتے ہیں اور اُن کی جیبوں پر ڈاکا ڈالتے ہیں۔حالیہ سیلاب کے بعد تو گدا گروں کی لاٹری نکل آئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج آپ کو بازاروں، چوراہوں، اسپتالوں،ریلوے اسٹیشنوں، عدالتوں اور اہم تجارتی مراکز جیسے مقامات پر بہروپیئے جگہ جگہ بھیک مانگتے ہوئے نظر آئیں گے۔یہ بھکاری موقع محل کے تقاضوں کے مطابق بات کرتے ہیں اور اپنے ٹارگٹ کی نفسیات سے کھیلتے ہیں مثلاً اگر کوئی اسپتال کے آگے کھڑا ہے تو وہ مریض کے تیمار داروں کو دعاؤں کے ذریعہ لبھائے گا اور اگر کوئی عدالت کچہری میں کھڑا ہوا ہے تو وہ مکہ مدینہ کی زیارت کا واسطہ دے کر اپنے ہدف کے دل کو پگھلانے کی کوشش کرے گا۔
غرض جیسا موقع محل ویسا واسطہ۔ ان گدا گروں میں بوڑھوں، عمر رسیدہ خواتین، جوانوں اور بچوں سمیت سبھی لوگ شامل ہیں۔ نوجوان دوشیزاؤں کا معاملہ سب سے الگ ہے جو اپنے ہدف کو دعوت گناہ دے کر اپنا مقصد حاصل کرتی ہیں۔
یہ کاروبار صبح سے لے کر رات گئے تک جاری رہتا ہے، اگرچہ انسدادِ گداگری کا باقاعدہ ایک قانون موجود ہے لیکن قوانین تو تمام جرائم کے لیے موجود ہیں مگر جرائم میں کمی آنے کے بجائے روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔پولیس کی ذمے داری ہے کہ وہ گداگروں کے خلاف ایکشن لے لیکن بیچاری پولیس کو کیا پڑی ہے کہ اس بکھیڑے میں پڑ کر مصیبت مول لے اور اپنا قیمتی وقت ضایع کرے کیونکہ اُسے اور بھی بہت سے کام ہیں۔ فیض احمد فیض کے بقول:
اور بھی غم ہیں زمانہ میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
یہ اور بات ہے کہ ہماری پولیس اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے کبھی کبھار گداگری کے خلاف مہم چلاتی ہے۔اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ پولیس کی ملی بھگت کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ کوئی جرم ہوجائے اور مجرم بچ کر نکل جائے۔
اس حقیقت کی تائید کے لیے بیشمار واقعات اور مثالیں موجود ہیں۔ علاقہ کے تھانیدار کو خوب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دائرہِ کار میں کون کون مجرم ہے اور وہ کس جرم کے ارتکاب میں ملوث ہے۔جوئے، شراب اور سٹے کے اڈے پولیس کی ملی بھگت کے بغیر چل ہی نہیں سکتے۔ زنا کاری کے ٹھکانے بھی پولیس کے زیر سایہ فروغ پاتے ہیں۔
آئیے !ہم آپ کو ایک واقعہ سناتے ہیں۔ ہوا یوں کہ ہمارے ایک عزیز جو پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہے تھے ان کی جیب کٹ گئی اور انھوں نے یہ واقعہ ہم کو سنایا۔وہ بیچارے بہت پریشان تھے کیونکہ اُن کی پتلون کی جیب سے نکالے گئے بٹوے میں نہ صرف اچھی خاصی رقم تھی بلکہ شناختی کارڈ، کریڈٹ کارڈ اور اُس کے علاوہ چند اور اہم چیزیں شامل تھیں۔ حسن اتفاق سے جس علاقہ میں جیب تراش نے اُن کا بٹوہ نکالا تھا اُس کے تھانیدار سے ہماری شناسائی تھی۔
ہم نے انھیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ گھبرائیں نہیں اِن شاء اللہ آپ کو اپنا بٹوہ مل جائے گا۔ بس آپ کا کام ہے دعا کرنا اور ہمارا کام ہے کوشش کرنا۔چناچہ ہم نے بلاتاخیر متعلقہ تھانیدار سے رجوع کیا اور سارا واقعہ اُن سے بیان کردیا۔ انھوں نے ہمیں شام کے وقت اُن کے تھانہ میں آکر ملنے کو کہا۔ہم مقررہ وقت پر اُن سے ملاقات کے لیے پہنچے تو موصوف کو اُن کے دفتر میں موجود پایا۔انھوں نے ہمیں بیٹھنے کے لیے کہا اور فرمایا کہ آپ تشریف رکھیں اور چائے نوش فرمائیں۔ہم نے اُن کی طرف دیکھا تو اُن کے چہرے پر کسی پریشانی یا فکرمندی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ہم عجیب مخمصہ میں پڑ گئے کہ دیکھیے اب کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
چائے پیتے ہی موصوف ہم سے گویا ہوئے کہ ''مبارک ہو بٹوہ مل گیا لیکن رقم اس میں موجود نہیں ہے لیکن باقی سب چیزیں موجود ہیں۔الحمد للہ ہم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اُس کے بعد تھانیدار صاحب کا بہت شکریہ ادا کیا۔تھانیدار صاحب نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رقم تو برآمد نہیں ہوسکی کیونکہ جیب تراش نے اُسے خرچ کردیا۔
بھکاریوں کی ایک مخصوص صنف بھی ہے جسے خواجہ سرا کہا جاتا ہے لیکن جو عرفِ عام میں ہیجڑا کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ شام ہوتے ہی شہر کے اہم چوراہوں پر قبضہ کر لیتے ہیں اور اپنے مخصوص انداز میں آنے جانے والوں سے خراج وصول کرتے ہیں اور اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے لوگ اُن کی مٹھی گرم کرکے چلے جاتے ہیں۔بعض اوقات اُن کی وجہ سے ٹریفک کے گزرنے میں رَخنہ بھی پڑجاتا ہے۔
پیشہ ور بھکاریوں کی ایک اور قسم بھی ہے جو چھوٹی موٹی اشیاء فروخت کرنے کے بہانے گداگری کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تاکہ لوگ ترس کھا کر اُن کی مدد کریں۔یہ لوگ کہیں بال پین اور کہیں غبارے فروخت کرنے والوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔گداگری کا کاروبار چلانے والے ایک الگ مافیا ہے جو باقاعدہ منظم انداز میں موجود ہے۔ یہ مافیا بھیک مانگنے کی باقاعدہ تربیت دیتا ہے اور کسی کو لنگڑا لولا اور کسی کو گونگا بہرا اور کسی کو زخمی یا جزامی کا روپ دھار کر انسانی ہمدردی کو کیش کرتا ہے۔مرزا تو بہت پہلے کہہ چکے ہیں:
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
رمضان شریف کے مبارک مہینہ میں تو گدا گروں کی چاندی ہوجاتی ہے اور یہ لوگ برساتی مینڈکوں کی طرح جگہ جگہ پھدکتے ہوئی دکھائی دیتے ہیں اور نت نئے پینتروں سے زکوۃ، صدقہ اور خیرات وصول کرکے مستحق لوگوں کا حق مارتے ہیں اور اُن کی جیبوں پر ڈاکا ڈالتے ہیں۔حالیہ سیلاب کے بعد تو گدا گروں کی لاٹری نکل آئی ہے۔