عمران خان کی سیاسی مزاحمت
عمران خان کو ایک بڑی سیاسی برتری ملنے کی وجہ حکمران اتحاد کی حکمرانی سے جڑے مسائل بھی ہیں
پاکستان کی سیاست میں اس وقت عمران خان اپنی مقبولیت کے عروج پر ہیں اور ان کو اپنے تمام سیاسی مخالفین پر برتری بھی حاصل ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کے سیاسی مخالفین ان کے لیے خطرہ کم البتہ عمران خان ان کے لیے زیادہ خطرناک ہوگئے ہیں۔ اگرچہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ طاقت ور طبقات کے ساتھ ہر قیمت پر مفاہمت اور اقتدارچاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ ہر قسم کے سیاسی سمجھوتہ کے لیے بھی تیار ہیں۔
وہ واقعی سمجھوتہ چاہتے ہیں کیونکہ ان کو اندازہ ہے کہ طاقت ورطبقات کو نظرانداز کرکے اقتدار کی منزل بہت مشکل ہے ۔ لیکن اس کھیل میں ان کی ایک بڑی برتری عوامی طاقت یا مقبولیت ہے ۔ وہ اپنی اسی اہم طاقت کو بنیاد بنا کر کچھ لو اور کچھ دو میں اپنی شرائط کی برتری بھی چاہتے ہیں۔
وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک بڑے سیاسی اعصاب کی جنگ ہے اور اس میں وہی کھلاڑی جیتے گا جو زیادہ مضبوط اعصاب کا مالک ہوگا۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہ مفاہمت اور مزاحمت کے دونوں سیاسی کارڈ خوب کھیل رہے ہیں ۔
عمران خان تین نعروں کے ساتھ حکمران اتحاد کو چیلنج کررہے ہیں۔ اول، وہ اس حکومت کو منتخب حکومت ماننے کو تیار نہیںاور ان کے بقول یہ حکومت داخلی و خارجی سازش کے تحت سامنے لائی گئی ہے۔ دوئم، وہ ملک میں فوری عام انتخابات چاہتے ہیں لیکن ان انتخابات سے قبل وہ انتخابی اصلاحات پر بھی زور دے رہے ہیں ۔ ان کے بقول انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے وہ سیاسی مخالفین سے بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
سوئم، انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ نئی حکومت پر چھوڑ دیا جائے اور یہ موجودہ حکومت نئے آرمی چیف کی تقرری کا اختیار ہی نہیں رکھتی۔ اس وقت عمران خان کا سیاسی بیانیہ مضبوط ہے جب کہ اس کے برعکس حکمران اتحاد ان کے خلاف کوئی متبادل بیانیہ نہیں بنا سکا ہے ۔
عمران خان کو ایک بڑی سیاسی برتری ملنے کی وجہ حکمران اتحاد کی حکمرانی سے جڑے مسائل بھی ہیں ۔ جو دعوی حکمران اتحاد نے حکومت بنانے سے پہلے کیا تھا کہ وہ نہ صرف تجربہ کار ہیں بلکہ بلاصلاحیت سمیت ملک میں سیاسی اور معاشی تبدیلی کا ایک واضح روڈ میپ بھی رکھتے ہیں ۔ مگر جو حالات بنے ہیں اور ملک کو جس معاشی بدحالی سمیت مہنگائی کا سامنا ہے اس سے خود حکومتی ساکھ پر ہی سوالیہ نشان اٹھ گئے ہیں ۔
پٹرول ، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نے حکومت کے لیے سیاسی مسائل پیدا کیے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ حکمران اتحاد فوری انتخابات کا مخالف ہے اور ان کے بقول فوری انتخابات کا براہ راست فائدہ عمران خان کو ہوگا ۔حکمران اتحاد ملکی سطح پر انتخابات سے قبل Level Playing Field کا مطالبہ کر رہا ہے ۔ بعض حلقے یہ کوشش کررہے ہیں کہ عمران خان اپنی مزاحمت کو ختم کریں اور مفاہمت کا عمل اختیار کرتے ہوئے دوبارہ پارلیمنٹ کا حصہ بنیں۔لیکن عمران خان اس شرط کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور ان کو لگتا ہے کہ پارلیمنٹ میں ان کی واپسی سیاسی طور پر ان کی مقبولیت کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ دے گی۔
عمران خان حکمران اتحاد سمیت عدلیہ اور میڈیا پر بھی سخت تنقید کرتے ہیں۔ امریکا پر بھی رجیم چینج کے تناظر میں ان کی تنقید شدید تھی لیکن اب اس میں کافی حد تک ٹھہراؤ آگیا ہے۔عمران خان کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر انھوں نے اپنے مطالبات منوائے تو اس میں اہم کردار حکمران اتحاد کے مقابلے میں اسٹیبلیشمنٹ کا ہوگا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے دباؤ کی سیاست کا بنیادی نقطہ اسٹیبلیشمنٹ اور سیاسی محاذ پر مسلم لیگ ن ہے۔ وہ ایک بڑے دھرنے کی بنیاد پر لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
ان کے بقول یہ حتمی مارچ ہوگا اور اس میں حکومتی تبدیلی یا نئے انتخابات کا عمل سامنے آئے گا۔عمران خان اسلام آباد کی طرف جو دھرنا یا لانگ مارچ لے کر جانا چاہتے ہیں یہ واقعی ان کی مزاحمتی سیاست کے تناظر میں ایک بڑا سیاسی چیلنج ہے ۔ کیونکہ اس سے قبل جو کچھ 25مئی کے لانگ مارچ کے ساتھ ہوا اور عمران خان کے بقول ہم نے بھرپور تیاری نہیں کی تھی اس نے پی ٹی آئی کی سیاست کو کمزور کیا اور ان کا مزاحمتی رنگ کمزور دکھائی دیا۔
اس لیے اب اگر وہ لانگ مارچ کی طرف بڑھتے ہیں تو ان کی ماضی کے مقابلے میں کتنی تیاری ہے اور کیا کچھ انھوں نے پچھلی غلطی سے سیکھا ہے، اہم پہلو ہے۔ اس بار ان کو ایک برتری حکمران اتحاد پر ہے اور وہ پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت ہے۔ خیبر پختونخواہ میں بھی عمران خان کی مضبوط حکومت ہے اور ا س بار ان کو پنجاب سے لوگوں کو نکالنے میں بھی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیںہوگا۔ البتہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور حکومت کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں کیا ٹکراؤ پیدا ہوگا اور اگر ایسا ہوا تو اس کا نقصان حکومت کو اور فائدہ عمران خان کو ہی ہوگا۔
لیکن عمران خان کو سوچ سمجھ کر حتمی کال دینی چاہیے کیونکہ دھرنے کی ناکامی ان کو سیاسی طور پر نقصان پہنچائے گی۔اگرچہ عمران خان کے خلاف حکمران اتحاد کی حکمت عملی یہ بھی ہے کہ ان کو سیاست سے نااہل کیا جائے۔ توشہ خانہ اور ممنوعہ فنڈنگ اس وقت اہم ایشوز ہیں ۔ جب کہ دہشت گردی سمیت توہین عدالت کا معاملہ کافی حد تک ان کے حق میں نظر آتا ہے۔
عمران خان نے اپنے جلسوں کی مدد سے یہ بیانیہ بنا دیا ہے کہ کچھ لوگ ان کو تکنیکی بنیادوں پر سیاست سے نااہل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے سیاست آگے بڑھنے کے بجائے اور زیادہ ٹکراؤ میں تبدیل ہوگی۔کیا عمران خان اس پورے مقبولیت پر مبنی ماحول کو لمبے عرصے تک یا نئے انتخابات اگر فوری نہیں ہوتے تو قائم رکھ سکیں گے۔اسی طرح یہ عمران خان کے حامیوں کا بھی ٹیسٹ کیس ہے کہ وہ کس حد تک مزاحمت کی سیاست میں ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ووٹ دینا یا انتخابی مہم میں پرجوشیت پیدا کرنا الگ بات جب کہ ایک بڑی سیاسی لڑائی میں اپنی مزاحمت یعنی سڑکوں پر متحرک ہونا دوسری چیز ہے ۔
ایک طرف ہمیں عمران خان نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ان کے سیاسی مخالفین کا اتحاد ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر سیاسی برتری چاہتے ہیں۔ حالیہ محاذ آرائی کسی بھی صورت میں ملک کے مفاد میں نہیں ۔
وہ واقعی سمجھوتہ چاہتے ہیں کیونکہ ان کو اندازہ ہے کہ طاقت ورطبقات کو نظرانداز کرکے اقتدار کی منزل بہت مشکل ہے ۔ لیکن اس کھیل میں ان کی ایک بڑی برتری عوامی طاقت یا مقبولیت ہے ۔ وہ اپنی اسی اہم طاقت کو بنیاد بنا کر کچھ لو اور کچھ دو میں اپنی شرائط کی برتری بھی چاہتے ہیں۔
وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک بڑے سیاسی اعصاب کی جنگ ہے اور اس میں وہی کھلاڑی جیتے گا جو زیادہ مضبوط اعصاب کا مالک ہوگا۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہ مفاہمت اور مزاحمت کے دونوں سیاسی کارڈ خوب کھیل رہے ہیں ۔
عمران خان تین نعروں کے ساتھ حکمران اتحاد کو چیلنج کررہے ہیں۔ اول، وہ اس حکومت کو منتخب حکومت ماننے کو تیار نہیںاور ان کے بقول یہ حکومت داخلی و خارجی سازش کے تحت سامنے لائی گئی ہے۔ دوئم، وہ ملک میں فوری عام انتخابات چاہتے ہیں لیکن ان انتخابات سے قبل وہ انتخابی اصلاحات پر بھی زور دے رہے ہیں ۔ ان کے بقول انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے وہ سیاسی مخالفین سے بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
سوئم، انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ نئی حکومت پر چھوڑ دیا جائے اور یہ موجودہ حکومت نئے آرمی چیف کی تقرری کا اختیار ہی نہیں رکھتی۔ اس وقت عمران خان کا سیاسی بیانیہ مضبوط ہے جب کہ اس کے برعکس حکمران اتحاد ان کے خلاف کوئی متبادل بیانیہ نہیں بنا سکا ہے ۔
عمران خان کو ایک بڑی سیاسی برتری ملنے کی وجہ حکمران اتحاد کی حکمرانی سے جڑے مسائل بھی ہیں ۔ جو دعوی حکمران اتحاد نے حکومت بنانے سے پہلے کیا تھا کہ وہ نہ صرف تجربہ کار ہیں بلکہ بلاصلاحیت سمیت ملک میں سیاسی اور معاشی تبدیلی کا ایک واضح روڈ میپ بھی رکھتے ہیں ۔ مگر جو حالات بنے ہیں اور ملک کو جس معاشی بدحالی سمیت مہنگائی کا سامنا ہے اس سے خود حکومتی ساکھ پر ہی سوالیہ نشان اٹھ گئے ہیں ۔
پٹرول ، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نے حکومت کے لیے سیاسی مسائل پیدا کیے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ حکمران اتحاد فوری انتخابات کا مخالف ہے اور ان کے بقول فوری انتخابات کا براہ راست فائدہ عمران خان کو ہوگا ۔حکمران اتحاد ملکی سطح پر انتخابات سے قبل Level Playing Field کا مطالبہ کر رہا ہے ۔ بعض حلقے یہ کوشش کررہے ہیں کہ عمران خان اپنی مزاحمت کو ختم کریں اور مفاہمت کا عمل اختیار کرتے ہوئے دوبارہ پارلیمنٹ کا حصہ بنیں۔لیکن عمران خان اس شرط کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور ان کو لگتا ہے کہ پارلیمنٹ میں ان کی واپسی سیاسی طور پر ان کی مقبولیت کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ دے گی۔
عمران خان حکمران اتحاد سمیت عدلیہ اور میڈیا پر بھی سخت تنقید کرتے ہیں۔ امریکا پر بھی رجیم چینج کے تناظر میں ان کی تنقید شدید تھی لیکن اب اس میں کافی حد تک ٹھہراؤ آگیا ہے۔عمران خان کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر انھوں نے اپنے مطالبات منوائے تو اس میں اہم کردار حکمران اتحاد کے مقابلے میں اسٹیبلیشمنٹ کا ہوگا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے دباؤ کی سیاست کا بنیادی نقطہ اسٹیبلیشمنٹ اور سیاسی محاذ پر مسلم لیگ ن ہے۔ وہ ایک بڑے دھرنے کی بنیاد پر لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
ان کے بقول یہ حتمی مارچ ہوگا اور اس میں حکومتی تبدیلی یا نئے انتخابات کا عمل سامنے آئے گا۔عمران خان اسلام آباد کی طرف جو دھرنا یا لانگ مارچ لے کر جانا چاہتے ہیں یہ واقعی ان کی مزاحمتی سیاست کے تناظر میں ایک بڑا سیاسی چیلنج ہے ۔ کیونکہ اس سے قبل جو کچھ 25مئی کے لانگ مارچ کے ساتھ ہوا اور عمران خان کے بقول ہم نے بھرپور تیاری نہیں کی تھی اس نے پی ٹی آئی کی سیاست کو کمزور کیا اور ان کا مزاحمتی رنگ کمزور دکھائی دیا۔
اس لیے اب اگر وہ لانگ مارچ کی طرف بڑھتے ہیں تو ان کی ماضی کے مقابلے میں کتنی تیاری ہے اور کیا کچھ انھوں نے پچھلی غلطی سے سیکھا ہے، اہم پہلو ہے۔ اس بار ان کو ایک برتری حکمران اتحاد پر ہے اور وہ پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت ہے۔ خیبر پختونخواہ میں بھی عمران خان کی مضبوط حکومت ہے اور ا س بار ان کو پنجاب سے لوگوں کو نکالنے میں بھی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیںہوگا۔ البتہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور حکومت کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں کیا ٹکراؤ پیدا ہوگا اور اگر ایسا ہوا تو اس کا نقصان حکومت کو اور فائدہ عمران خان کو ہی ہوگا۔
لیکن عمران خان کو سوچ سمجھ کر حتمی کال دینی چاہیے کیونکہ دھرنے کی ناکامی ان کو سیاسی طور پر نقصان پہنچائے گی۔اگرچہ عمران خان کے خلاف حکمران اتحاد کی حکمت عملی یہ بھی ہے کہ ان کو سیاست سے نااہل کیا جائے۔ توشہ خانہ اور ممنوعہ فنڈنگ اس وقت اہم ایشوز ہیں ۔ جب کہ دہشت گردی سمیت توہین عدالت کا معاملہ کافی حد تک ان کے حق میں نظر آتا ہے۔
عمران خان نے اپنے جلسوں کی مدد سے یہ بیانیہ بنا دیا ہے کہ کچھ لوگ ان کو تکنیکی بنیادوں پر سیاست سے نااہل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے سیاست آگے بڑھنے کے بجائے اور زیادہ ٹکراؤ میں تبدیل ہوگی۔کیا عمران خان اس پورے مقبولیت پر مبنی ماحول کو لمبے عرصے تک یا نئے انتخابات اگر فوری نہیں ہوتے تو قائم رکھ سکیں گے۔اسی طرح یہ عمران خان کے حامیوں کا بھی ٹیسٹ کیس ہے کہ وہ کس حد تک مزاحمت کی سیاست میں ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ووٹ دینا یا انتخابی مہم میں پرجوشیت پیدا کرنا الگ بات جب کہ ایک بڑی سیاسی لڑائی میں اپنی مزاحمت یعنی سڑکوں پر متحرک ہونا دوسری چیز ہے ۔
ایک طرف ہمیں عمران خان نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ان کے سیاسی مخالفین کا اتحاد ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر سیاسی برتری چاہتے ہیں۔ حالیہ محاذ آرائی کسی بھی صورت میں ملک کے مفاد میں نہیں ۔