لاپتہ افراد کیس فوجی افسروں کے خلاف مقدمہ درج نہ ہوسکا سپریم کورٹ برہم

حکومت کوآج تک مہلت،درج رپٹ کی نقل پیش،ڈی سی مالاکنڈ جائزہ لےرہےہیں،دفعات کا فیصلہ ہونے پرمقدمہ درج ہوگا،ایڈووکیٹ جنرل

حکم پرعمل نہیں ہوا، قانون کی پاسداری سے فوج سمیت کسی ادارے کی بے عزتی نہیں ہوتی،قانون کی حکمرانی ہی چلے گی، عدالت عظمیٰ۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ کے احکام کے باوجود لاپتہ قیدی کیس میں فوجی افسروں کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہوسکا، عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاق اورخیبر پختونخوا حکومت کو ایف آئی آرکی نقل پیش کرنے کے لیے 24گھنٹے کی مزید مہلت دے دی، جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے سماعت کی۔

اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے رپورٹ اور تھانہ سیکریٹریٹ میں درج کی جانے والی رپٹ کی نقل پیش کی، انھوں نے بتایا کہ ایف آئی آر مالاکنڈ بھیج دی گئی ہے اور وہاں وصولی کی تصدیق بھی ہو چکی ہے، وہاں اس ایف آئی آر کو وفاقی حکومت کی طرف سے مقامی ایف آئی آر میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ ایڈووکیٹ جنرل لطیف یوسف زئی نے بتایا کہ پوسٹ کمانڈر مالاکنڈ لیویز کو ایف آئی آر مل چکی ہے، پولیس آرڈر کے تحت اس کو مقامی ایف آئی آر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ اب قانون اپنا راستہ خود بنائے گا، زندگی اور موت کے فیصلے کرنا کسی انسان کا اختیار نہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے رپٹ درج کرنے کا اقدام قابل ستائش ہے، آئین کی بالادستی واضح ہوگئی لیکن جاننا چاہتے ہیں کہ ایف آئی آر میں کیا لکھا گیا ہے، آن لائن کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ اب تک 7 حکم نامے ارسال کرچکے، شکرہے کچھ تو پیشرفت ہوئی۔


وفاقی حکومت 10دسمبر 2013 کے احکامات کے مطابق مقدمات درج کرائے، قانون جذبات کو نہیں دیکھتا، فوج سمیت تمام ادارے اگر قانون کی پاسداری کریں گے تو اس سے ان کی بے عزتی کا پہلو نہیں نکلتا، قانون جذباتی نہیں ہے، قانون کی حکمرانی ہی چلے گی، کسی کا اونچا نیچا ہونا نہیں، اے پی پی کے مطابق جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت کیس میں 7 بار احکامات دے چکی ہے جن پر پہلے عملدرآمد ہونا چاہیے تھا' ہم آئین اورقانون کی عملداری کویقینی بنائیں گے۔عدالت کے اقدام کا مقصدکسی کو بے وقارکرنا نہیں۔ انھوں نے تھانہ سیکریٹریٹ میں درج ایف آئی آر کا جائزہ لیا جس کے مطابق وزیردفاع کی طرف سے لکھے گئے خط میں شکایت کی گئی ہے کہ محبت شاہ نامی شخص کی درخواست پرسپریم کورٹ نے ان کے لاپتہ بھائی یاسین شاہ کا مقدمہ سنا جبکہ مالاکنڈ حراستی مرکز کے سپرنٹنڈنٹ نے عدالت میں انکشاف کیا کہ فوج کے نائب صوبیدار امان اللہ اور دیگر اہلکار 35 قیدیوں بشمول یاسین شاہ کو ساتھ لے گئے، کارروائی کی جائے، خط سپریم کورٹ کے ڈاکخانے سے بھیجا گیا تھا۔

وزیردفاع کی شکایت پررپٹ روزنامچے میں درج کردی گئی ہے، پولیس رولز کے تحت رپٹ درج کرکے اصل درخواست ضروری کارروائی کے لیے پوسٹ کمانڈر مالاکنڈ لیویز کو بھیج دی گئی ہے۔ عدالت نے اس پر تشویش کا اظہار کیا، جسٹس جواد نے کہاکہ ہمیں کچھ وضاحتیں درکار ہیں، اس کے لیے ایس ایچ او تھانہ سیکریٹریٹ کو پیش کیاجائے، ایس ایچ او نے بتایا کہ یہ ایف آئی آر نہیں بلکہ رپٹ ہے، ایف آئی آر مالاکنڈ میں درج ہوگی، ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر درخواست کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہاکہ بات تو پھر واضح نہیں، مالاکنڈ میں درخواست کے ساتھ کیا ہوتا ہے، کل تک اس کا جواب آجائے گا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ پھرڈپٹی کمشنر کو بھی طلب کرلیا جائے، جسٹس جواد نے کہاکہ ہم کسی ڈپٹی کمشنر کو بلائیں گے اور نہ ہی ہمیں وزارت دفاع کی ضرورت ہے ، سرکار کے لا افسران ہمارے سامنے ہیں، جو کچھ کرنا ہے سرکار نے کرنا ہے، آئین کی پیروی ہوگی تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، اے پی پی کے مطابق عدالت نے درخواست کا جائزہ لینے کے بعد متعلقہ ایس ایچ او کو طلب کرتے ہوئے ایف آئی آر درج نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے بتایا کہ ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں ہوئی کیونکہ ڈپٹی کمشنر مالاکنڈ دفعات کاجائزہ لے رہے ہیں جس کے بعد مالاکنڈ تھانہ میں ایف آئی آر درج کی جائے گی۔

آن لائن کے مطابق ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا کہ مالاکنڈ تھانے میں شکایت پہنچ چکی ہے جس کا جائزہ لیا جارہا ہے، دفعات کا فیصلہ ہونے پر مقدمہ درج کرلیا جائے گا، فی الحال ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی، جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب واضح ہے کہ عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا گیا، عدالت نے ایف آئی آر 24گھنٹوں میں درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے آج جمعے کو وفاق اور کے پی کے حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ دریں اثنا جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے لاپتہ تاسف ملک کے مقدمے میں ملزم سے اہلخانہ کی 24گھنٹے میں ملاقات کرانے اور رپورٹ آج پیش کرنے کا حکم دیا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ نے بتایا کہ تاسف ملک کی بیوی عابدہ اپنے بچوں اور سسر کے ہمراہ ملاقات کے لیے گئی ہے، ملاقات لکی مروت کے حراستی مرکز میں کرائی جائے گی، کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہاکہ عدالت کا حکم تھا کہ ملاقات ایسی جگہ پر کرائی جائے جہاں اہلخانہ کو آسانی ہو، لکی مروت خطرناک علاقہ ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وہاں ملاقات سیکیورٹی کی وجہ سے رکھی گئی، جسٹس ناصرالملک نے کہاکہ ایک عورت اور بچے کس طرح سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔ خاتون خانہ کو لکی مروت بلانا افسوسناک ہے۔
Load Next Story