ایک عورت کی موت

انقلاب ایران کے بعد امریکا اور یورپی اتحادی اس انقلاب کو ناکام بنانے کی منصوبہ بندی کرتے تھے

tauceeph@gmail.com

کرد ، ایران، ترکی اور عراق میں آباد ہیں ، اکثریت کا تعلق متوسط طبقہ سے ہے، کرد مردوں کے ساتھ خواتین بھی تعلیم یافتہ ہیں اور سیاسی حقوق کی جدوجہد میں حصہ لیتی ہیں۔ مھسا امینی کی عمر 22 سال تھی، وہ تہران میں مقیم تھی مگر کرد خواتین کی روایت کے مطابق سر کو اسکارف سے نہیں ڈھانپتی تھی۔ مھسا امینی کو گزشتہ ہفتے اسپتال منتقل کیا گیا تو وہ کوما میں تھی۔ ان کے جسم پر تشدد کے نشانات پائے گئے۔

ڈاکٹروں کی مسلسل کوششوں کے باوجود مھسا امینی کی جان نہیں بچ سکی۔ تہران کی اخلاقی اقدار کے نفاذ کی پولیس نے اقرار کیا کہ مھسا کو غیر مناسب لباس پہننے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

پولیس ترجمان نے مھسا پر تشدد اور اس کی موت کو افسوس ناک قرار دیا۔ مھسا کی بغیر کسی جرم کے سرکاری تحویل میں ہلاکت پر ایران ، یورپ اور امریکا میں مذمت کی لہر پیدا ہوگئی۔ مھسا کی پر تشدد موت سے ایران میں یونیورسٹیوں کے طلبہ براہِ راست متاثر ہوئے۔ تہران سمیت مختلف ایران کے شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ مغربی میڈیا نے مظاہرین کی ہلاکت کی اطلاعات بھی دی ہیں۔

انٹرنیٹ پر دستیاب مواد سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کی حکومت نے 2005 میں گشت ارشاد کے نام سے ایک الگ پولیس فورس قائم کی جو اخلاقی اقدار کے نفاذ کی پولیس کہلاتی ہے۔ اس پولیس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جو فرد ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرے، اس کو گرفتار کیا جائے۔

ایران میں مختلف نسلوں اورکلچر کا پس منظر رکھنے والی قومیں آباد ہیں۔ ان میں ایک کرد قوم ہے ۔ کردوں عورتیں ڈھیلا ڈھالا لباس پہنتی ہیں اور عمومی طور پر سروں کو نہیں ڈھانپتیں۔ یوں مھسا امینی اپنی ثقافت والا لباس زیب تن کیے ہوئے تھی ۔ یہ لباس کرد خواتین صدیوں سے پہنتی چلی آرہی ہیں۔

اب ایران میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ حکومت اس پولیس فورس کو ختم کرے اور اس مھسا امینی کی موت کی کھلی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں، خواتین کارکن اور سیاسی کارکنوں نے یورپ کے مختلف شہروں اور نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے مظاہرہ کیے۔ نوجوانوں نے مھسا کی یاد میں نغمے تخلیق کیے۔

ایران میں احتجاجی خواتین نے ان مظاہروں میں اپنے اسکارف جلا ڈالے۔ مارکسی وادی دانشور اور صحافی وارث رضا اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ علی شریعتی نے اپنی کتابوں میں تاریخ کی عظیم کردار قرۃ العین طاہرہ کی بہادری کا ذکر کیا ہے۔


ایران کے اسکالر ڈاکٹر علی شریعتی اپنی کتاب '' مسلمان عورت اور عہد جدید کے تقاضے'' میں عورت کے حقوق کے بارے میں سگمنڈ فرائیڈ اور بورژوا سماج کے عورت کی آزادی کو سرمایہ دارانہ جنس کے طور پر اختیار کرنے کو ہدف تنقید بناتے ہوئے مشرقی سماج میں اس امر کو یقینی بنانے کی طرف زور دیتے ہیں کہ ہر آگاہ اور با شعور عورت کو حق عورت کی مکمل آزادی ملنی چاہیے اور اس کا زندگی کے ہر شعبہ میں عملی جدوجہد کا کردار ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ عورت کا باشعور کردار ہی انسانی قدروں کی حفاظت کا اہم اور ضروری عنصر ہے۔

ایران اس خطے کا ایسا ملک ہے جس کی تاریخ اور ثقافت کی تاریخ انتہائی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ایران کی تاریخ یہ ظاہر کرتی ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں ہمیشہ انسانی حقوق کو اہمیت دی گئی۔ ایران کے شاعر فردوسی کے کلام میں احترام ، برداشت اور عدم تشدد کا سبق ملتا ہے۔ ایرانی خواتین نے تعلیم، صحت، فلم، ثقافت اور ہر شعبہ میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے ، وہ مردوں کے شانہ بشانہ ترقی کی دوڑ میں شامل رہی ہیں۔

ایرانی خواتین سابق شہنشاہ ایران رضا شاہ کی حکومت کے خلاف جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 60 اور 70 کی دہائی میں سابق شہنشاہ ایران کی خفیہ پولیس ساواک شہریوں کے سانس بھی گنتی تھی۔ اس دور میں تودا پارٹی اور مجاہدین خلق نے اس آمریت کے خلاف زبردست جدوجہد کی تھی۔ آیت اﷲ خمینی کے انقلاب کے بعدکچھ پابندیاں عائد ہوئی تھیں مگر یہ پابندیاں طالبان کی پابندیوں کی طرح نہیں تھیں۔ شیریں عبادی ایران کی مشہور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

وہ پہلی مسلمان خاتون ہیں جنھیں 2003 میں انسانی حقوق کا نوبل پرائز ملا ، مگر انھوں نے ایک طویل عرصہ ایران کی جیلوں میں گزارا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مسلسل احتجاج پر انھیں جلاوطن کردیا گیا اور اب وہ لندن میں مقیم ہیں اور کتابیں لکھ رہی ہیں۔

ایران کے فیصلہ ساز قدامت پرست ادارہ کے فیصلے پر طالبان کی پالیسیوں کے اثرات نظر آتے ہیں۔ انقلاب ایران کے بعد خواتین کو تعلیم حاصل کرنے، روزگار حاصل کرنے حتیٰ کہ پارلیمنٹ کار کن منتخب ہونے کے لیے بھی اہل قرار دیا گیا۔

اس حکومت میں کئی ایرانی خواتین ڈائریکٹرز نے ایسی فلمیں تخلیق کیں کہ کینز کے فلمی میلہ میں ان فلموں کی پذیرائی ہوئی۔ کچھ فلموں میں کام کرنے والے اداکاروں کو بین الاقوامی انعامات بھی ملے۔ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران فیصلہ ساز قوتوں میں رجعت پسندانہ رجحانات بالادست ہوتے نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ برسوں کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کی پارلیمنٹ نے آزادی اظہار، صنفی برابری اور تشدد کے خاتمہ کے لیے قوانین منظور کیے۔

گارجین کونسل کی قدامت پرست قیادت نے ان قوانین کو مسترد کردیا۔ بین الاقوامی تنظیم Women, Peace and Securityصنفی برابری پر کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ہے۔ اس تنظیم کے 2017-2018 کے سروے کے تحت صنفی برابری انڈکس میں 153 ممالک شامل ہیں۔ ایران کا نمبر اس میں 116 ہے، یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی اداروں کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایران میں خواتین کے حقوق کا تحفظ نہیں ہے۔

انقلاب ایران کے بعد امریکا اور یورپی اتحادی اس انقلاب کو ناکام بنانے کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔ سابق صدر اوباما اور اس وقت کے ایرانی صدر نے جوہری توانائی کے مسودہ قانون پر اتفاق کیا مگر سابق امریکی صدر ٹرمپ نے اس قانون کو مسترد کردیا اور ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں لگادیں مگر اس بات کا امکان ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ ایران سے ضرور کوئی مفاہمت پر سوچ و بچار کررہی ہے ، مگر ایران میں انسانی حقوق بحال ہوجائیں تو ایران کی بین الاقوامی طور پر پوزیشن بہتر ہوگی اور امریکا اور یورپ کی پالیسیوں میں فرق آئے گا اور ایران زیادہ بہتر انداز میں دنیا میں حمایت حاصل کرسکے گا۔
Load Next Story