ہمارا نظام… تجھے سلام
اس ملک میں یہی قانون ہے ،اگر غریبوں کے لیے استعمال ہو تو اُس کو دن میں تارے دکھا دیتا ہے
پاکستان بھی عجیب ملک ہے، یہاں قانون ہے بھی اور نہیں بھی۔ کسی کو بغیر جرم اور ثبوت کے جیل میں بند کردیا جاتا ہے اور اس کی ضمانت بھی نہیں ہوتی اور کسی کا جرم کھلے عام ہوتا ہے لیکن اس پر مقدمہ ہی درج نہیں ہوتا اور اگر درج ہو بھی جائے تو ضمانت پر رہائی مل جاتی ہے۔ سچا کون ہے جھوٹا کون ہے ' ہمارا نظام انصاف اس حوالے سے کوئی واضح فیصلہ نہیں کر پاتا۔ اس کی وجہ بھی قانون میں موجود خامیاں اور ابہام ہیں لیکن انھیں دور کرنے کی طرف کبھی کسی نے توجہ نہیں دی۔ مطلب! قانون تجھے سلام!
اس ملک میں یہی قانون ہے ،اگر غریبوں کے لیے استعمال ہو تو اُس کو دن میں تارے دکھا دیتا ہے، کبھی کبھی تو چند ہزار روپے کی چوری کرنے والے کی ہڈی پسلی توڑ کر بھی اداروں کو ذہنی سکون نہ ملے تو اُس کے خاندان والوں کو اُٹھا کر تھانے میں لے آتے ہیں اور زبردستی اگلواتے ہیں کہ تم بھی مجرم ہو،تبھی تو یونان کے رہنے والے اور ایک عظیم فلسفی سقراط کے شاگرد ارسطو کا مقولہ ہے کہ ''قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات یعنی چھوٹے ہی پھنستے ہیں۔
بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں''۔ آپ ہمارے سیاستدانوں کے کیس ہی لے لیں، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی پاکستان میں کیوں واپس آ رہا ہے اور کیوں بیرون ملک جا رہا ہے۔ اُن پر مقدمات جھوٹے ہیں یا سچے،اس سے بھی ہمارا کوئی علاقہ نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کرپشن کے مقدمات پرسرکاری خزانے سے کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہیں۔ کیا ان بااختیار لوگوں سے پوچھا نہیں جانا چاہیے کہ اگریہ مقدمات درست نہیں تھے تو آپ نے درج کیوں کرائے؟کیا ان سے سارا حساب لیا جانا چاہیے اور ملک کا جو پیسہ خرچ ہوا ہے، وہ سود سمیت واپس لیا جانا چاہیے۔
ہم تو دریا تھے کسی سمت تو بہنا تھا ہمیں
کیا خبر کس نے تری سمت ہمیں موڑ دیا
الغرض انھی چیزوں کو دیکھتے ہوئے ارسطو کا قول صداقت بن جاتا ہے کہ جس میںبڑے لوگوں کے لیے قانون ہونا ،نہ ہونا برابر ہے کیونکہ اُن کے پاس یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جب چاہیں وہ توڑ سکتے ہیں اور جب چاہیں اُس میں ترامیم کر سکتے ہیں۔
جس پر چاہیں جھوٹے مقدمات درج کرا سکتے ہیں ، ایسے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے جن میں بڑے بڑے لوگوں نے قانون کو ایک مکڑی کے جالے سے زیادہ اہمیت نہیں دی ماضی قریب میں ایسے بہت سے واقعات رونما ہوئے جنھوں نے ارسطو کے قول پر مہرِ صداقت ثبت کی ہے۔
آپ زیادہ دور نہ جائیں بلکہ ناظم جوکھیو قتل کیس کو ہی دیکھ لیں جس میں گزشتہ ہفتے ہی دونوں پارٹیوں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔ جس کے مطابق غریب ناظم جوکھیو کے اہل خانہ نے صلح کر لی ہے۔
کیس میں دوسری جانب طاقتور خاندان تھا۔ پورا میڈیا اس کیس کو اُٹھا رہا تھا کہ اب شاید یہ امیر خاندان نہیں بچے گا لیکن اب وہی ہوا جس کا یقین تھا۔ آپ اس سے پیچھے چلے جائیں جب کراچی میں شاہ زیب کو قتل کیا گیا تھا، اُس کیس میں بھی بااثر ملزمان نے صلح کرا لی تھی،کیا آپ ایسے نظام کے ساتھ اس ملک کو ترقی کرتا دیکھ سکیں گے، کبھی بھی نہیں! بلکہ آپ اس سسٹم سے ہی متنفر ہو جائیں گے اور پھر چاہے آپ کو افریقہ کی نیشنلٹی ملے آپ ایسے نظام کو خیر آباد کہہ کرنم آنکھوں کے ساتھ افریقہ شفٹ ہو نے کو ترجیح دیں گے!
اس ملک میں یہی قانون ہے ،اگر غریبوں کے لیے استعمال ہو تو اُس کو دن میں تارے دکھا دیتا ہے، کبھی کبھی تو چند ہزار روپے کی چوری کرنے والے کی ہڈی پسلی توڑ کر بھی اداروں کو ذہنی سکون نہ ملے تو اُس کے خاندان والوں کو اُٹھا کر تھانے میں لے آتے ہیں اور زبردستی اگلواتے ہیں کہ تم بھی مجرم ہو،تبھی تو یونان کے رہنے والے اور ایک عظیم فلسفی سقراط کے شاگرد ارسطو کا مقولہ ہے کہ ''قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات یعنی چھوٹے ہی پھنستے ہیں۔
بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں''۔ آپ ہمارے سیاستدانوں کے کیس ہی لے لیں، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی پاکستان میں کیوں واپس آ رہا ہے اور کیوں بیرون ملک جا رہا ہے۔ اُن پر مقدمات جھوٹے ہیں یا سچے،اس سے بھی ہمارا کوئی علاقہ نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کرپشن کے مقدمات پرسرکاری خزانے سے کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہیں۔ کیا ان بااختیار لوگوں سے پوچھا نہیں جانا چاہیے کہ اگریہ مقدمات درست نہیں تھے تو آپ نے درج کیوں کرائے؟کیا ان سے سارا حساب لیا جانا چاہیے اور ملک کا جو پیسہ خرچ ہوا ہے، وہ سود سمیت واپس لیا جانا چاہیے۔
ہم تو دریا تھے کسی سمت تو بہنا تھا ہمیں
کیا خبر کس نے تری سمت ہمیں موڑ دیا
الغرض انھی چیزوں کو دیکھتے ہوئے ارسطو کا قول صداقت بن جاتا ہے کہ جس میںبڑے لوگوں کے لیے قانون ہونا ،نہ ہونا برابر ہے کیونکہ اُن کے پاس یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جب چاہیں وہ توڑ سکتے ہیں اور جب چاہیں اُس میں ترامیم کر سکتے ہیں۔
جس پر چاہیں جھوٹے مقدمات درج کرا سکتے ہیں ، ایسے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے جن میں بڑے بڑے لوگوں نے قانون کو ایک مکڑی کے جالے سے زیادہ اہمیت نہیں دی ماضی قریب میں ایسے بہت سے واقعات رونما ہوئے جنھوں نے ارسطو کے قول پر مہرِ صداقت ثبت کی ہے۔
آپ زیادہ دور نہ جائیں بلکہ ناظم جوکھیو قتل کیس کو ہی دیکھ لیں جس میں گزشتہ ہفتے ہی دونوں پارٹیوں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔ جس کے مطابق غریب ناظم جوکھیو کے اہل خانہ نے صلح کر لی ہے۔
کیس میں دوسری جانب طاقتور خاندان تھا۔ پورا میڈیا اس کیس کو اُٹھا رہا تھا کہ اب شاید یہ امیر خاندان نہیں بچے گا لیکن اب وہی ہوا جس کا یقین تھا۔ آپ اس سے پیچھے چلے جائیں جب کراچی میں شاہ زیب کو قتل کیا گیا تھا، اُس کیس میں بھی بااثر ملزمان نے صلح کرا لی تھی،کیا آپ ایسے نظام کے ساتھ اس ملک کو ترقی کرتا دیکھ سکیں گے، کبھی بھی نہیں! بلکہ آپ اس سسٹم سے ہی متنفر ہو جائیں گے اور پھر چاہے آپ کو افریقہ کی نیشنلٹی ملے آپ ایسے نظام کو خیر آباد کہہ کرنم آنکھوں کے ساتھ افریقہ شفٹ ہو نے کو ترجیح دیں گے!