کالاباغ ڈیم اورخیبر پختونخوا
پاکستان میں پانی کی کمی کا جب بھی ذکر آتا ہے، اس کے ساتھ ہی کالاباغ ڈیم کا موضوع بھی سر اٹھا لیتا ہے ،کالاباغ ڈیم پر سندھ کے اپنے تحفظات ہوں گے لیکن خیبر پختونخوا کے سیاستدان اور اہل قلم بھی اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔
اگست 2010 اور اگست 2022میں صوبہ خیبرپختونخوا نے دو بڑے سیلابوں کا سامنا کیا'ان دونوں سیلابوں کے واقعات اور راستے تقریباً یکساں ہیں'2010 کے سیلاب کا احوال پڑھ کر 2022کے سیلاب کی شدت اور تباہی کااندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس وقت پورا خیبر پختونخواہ سیلاب کی زد میں تھا' ضلع سوات 'ضلع شانگلہ 'ملاکنڈ ایجنسی 'ضلع دیر' باجوڑ ایجنسی 'مہمند ایجنسی 'خیبر ایجنسی 'ضلع چترال' افغانستان کے صوبوں کنڑ اور ننگر ہار میں چاردن تک پانی برستا رہا'گلیشیرز بھی ابل پڑے 'ان سارے علاقوں کا سیلابی پانی چارسدہ میں داخل ہوا' چارسدہ میں پہلے سے چار روزہ بارش کی وجہ سے سیلاب کی کیفیت تھی' پہاڑوں سے آنے والے سیلاب نے مقامی سیلاب کے ساتھ مل کر چارسدہ کو ڈبو دیا۔
اب یہ سیلاب نوشہرہ کی طرف بڑھا 'دریائے سوات 'خیالی ' سردریاب اور دریائے جندی اپنے معاو ن ندی نالوں کے ساتھ مل کر ورسک ڈیم سے آنے والے سیلابی دریائے کابل میں مل گیا' جو پہلے سے ہی ضلع پشاور اور اوپر پہاڑوں کے سیلابی پانی سے لبالب بہہ رہا تھا'اب یہ طوفانی سیلاب نوشہرہ کی طرف بڑھا نوشہرہ میں دریائے کابل کا پاٹ کافی تنگ ہو گیا ہے' بڑے بڑے بنگلے'نئی بستیاں اور خوبصو رت ہوٹل سب دریائے کابل کے کنارے تعمیر کیے گئے ہیں۔
نوشہرہ پانی میں ڈوبا رہا اور لوگوں کو کشتیوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نکالا گیا'دوسری طرف صوبہ گلگت بلتستان 'ضلع کوہستان 'ضلع شانگلہ 'ضلع بٹگرام 'ضلع مانسہرہ 'وادی کاغان 'ضلع تور غر 'ضلع ایبٹ آباد اور ضلع ہری پور میں بھی مسلسل چار دن تک پانی برستا رہا'یہ سارا پانی دریائے سندھ میں تربیلہ ڈیم تک پہنچا 'ڈیم انتظامیہ نے ایمرجنسی نافذ کی اور تاریخ میں سب سے بڑا پانی کا ریلا نیچے چھوڑدیا۔
ڈیم کی سرنگوں اور سپل ویز سے خارج ہونے والا سیلابی ریلا ضلع صوابی کی طرف بڑھا 'راستے میں غازی 'بٹاکڑہ 'زروبی' یوسفی'ڈھوک'گاڑ اکاخیل'گاڑ یارہ خیل جیسے بڑے قصبوں کے مکانات اور زرعی اراضی میں کھڑی فصلوں کو اپنے ساتھ بہاتا ہوا اور ہر طرف تباہی پھیلاتا ہوا ہنڈکے تاریخی قصبے میں داخل ہوا'ہنڈ میں تباہی مچاتا ہوا یہ پانی موٹروے کی طرف بڑھتا ہوا راستے میں ان تمام ہوٹلوں کو بہاکر لے گیا 'جو اباسین کی تازہ مچھلی کھانے والوں اور اس شدید گرمی میں چند لمحے اباسین کے کنارے ٹھنڈی ہوا میں گزارنے والوں کے لیے بنائے گئے تھے۔
یہ ان لوگوں کی تفریح گاہ تھی جو گرمیاں لندن ' مری یا نتھیاگلی میں گزارنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ شکر ہے کہ فارم کی مرکزی عمارت اونچی ہونے کی وجہ سے بچ گئی' بہرحال اس فارم کے خوبصورت لان اور پھول وغیرہ سیلاب میں ڈوبے رہے۔
یہاں سے پانی کا بڑا ریلا' اللہ ڈھیراور تحصیل لاہور کے دوسرے دیہات کو بہاتا ہوا کنڈ کی تفریح گاہ کو تباہ کر گیا' خیر آباد کے مقام پر دریائے کابل کے سیلابی ریلے کے ساتھ مل کر اب یہ دونوں دریا پنجاب اور سندھ میں تباہی مچا رہے تھے۔ کالاباغ ڈیم کے فوائد اور نقصانات پر بحث کرنے کا یہ موقعہ نہیں ہے، اس وقت ملک کو جو مسئلہ درپیش ہے وہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا نہیں بلکہ موجودہ تباہی کے اثرات کو کیسے کم کیا جائے اور کیا اقدامات اٹھائے جائیں' تاکہ آیندہ ایسی تباہی سے بچا جا سکے۔
سب سے اہم کام یہ ہے کہ کوہ ہمالیہ'قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں سے آنے والے دریاؤں کے آگے بند باندھ کر پانی کو اوپر ہی روکنا ہوگا' تربیلہ ڈیم اور اس کے آگے غازی بھروتا بیراج نے پانی کی ایک بڑی مقدار کو روک لیا تھا' ورنہ یہ سیلاب اس سے بھی تین گنا زیادہ شدت کا ہوتا 'اگر بھاشا ڈیم اورسکردو ڈیم ہوتے 'تو سارا سیلابی پانی ان میںسما جاتا' ہزاروں میگاواٹ بجلی بھی پیدا ہوتی اور آبپاشی کے لیے بھی سارا سال پانی کی کمی نہیں ہوتی اور نہ ہی پنجاب اور سندھ کو پانی کے مسئلے پر لڑنا پڑتا' اسی طرح مہمند ڈیم اگر بن جاتا تو سوات'دیر 'چترال اور ملاکنڈ ڈویژن کے دیگر اضلاع کا پانی وہا ںذخیرہ ہوجاتااور چارسدہ اور نوشہرہ سمیت پنجاب اور سندھ بھی سیلاب سے بچ جاتے۔
جنوب میں گومل زام اور دریائے ٹوچی پر ڈیم بنانے سے ان دریاؤں کا پانی بھی دریائے سندھ میں جاکر سیلاب کا سبب بننے کی بجائے ان ڈیموں میں جمع ہوتا۔میرانی ڈیم 'کٹ زرہ ڈیم ' سبک زئی ڈیم اور ست پارہ ڈیم سمیت نہ جانے کتنے منصوبے واپڈا ہاؤس کے ریکارڈ روم میں دیمکوں کی خوراک بن رہے ہیں،حکومت کو چاہیے کہ سیلابوں کو روکنے اور پانی و بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے فوری کاروائی کرے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ قدرت کی طرف سے دیے گئے نعمتوں سے مستفید نہیں ہو رہے 'ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر پارٹی کے منشور میں واٹر ایمرجنسی ضرور شامل ہونی چائیے۔ انشاء اللہ کالاباغ کے بارے میںسندھ کے تحفظات کا ذکر آیندہ ۔
اگست 2010 اور اگست 2022میں صوبہ خیبرپختونخوا نے دو بڑے سیلابوں کا سامنا کیا'ان دونوں سیلابوں کے واقعات اور راستے تقریباً یکساں ہیں'2010 کے سیلاب کا احوال پڑھ کر 2022کے سیلاب کی شدت اور تباہی کااندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس وقت پورا خیبر پختونخواہ سیلاب کی زد میں تھا' ضلع سوات 'ضلع شانگلہ 'ملاکنڈ ایجنسی 'ضلع دیر' باجوڑ ایجنسی 'مہمند ایجنسی 'خیبر ایجنسی 'ضلع چترال' افغانستان کے صوبوں کنڑ اور ننگر ہار میں چاردن تک پانی برستا رہا'گلیشیرز بھی ابل پڑے 'ان سارے علاقوں کا سیلابی پانی چارسدہ میں داخل ہوا' چارسدہ میں پہلے سے چار روزہ بارش کی وجہ سے سیلاب کی کیفیت تھی' پہاڑوں سے آنے والے سیلاب نے مقامی سیلاب کے ساتھ مل کر چارسدہ کو ڈبو دیا۔
اب یہ سیلاب نوشہرہ کی طرف بڑھا 'دریائے سوات 'خیالی ' سردریاب اور دریائے جندی اپنے معاو ن ندی نالوں کے ساتھ مل کر ورسک ڈیم سے آنے والے سیلابی دریائے کابل میں مل گیا' جو پہلے سے ہی ضلع پشاور اور اوپر پہاڑوں کے سیلابی پانی سے لبالب بہہ رہا تھا'اب یہ طوفانی سیلاب نوشہرہ کی طرف بڑھا نوشہرہ میں دریائے کابل کا پاٹ کافی تنگ ہو گیا ہے' بڑے بڑے بنگلے'نئی بستیاں اور خوبصو رت ہوٹل سب دریائے کابل کے کنارے تعمیر کیے گئے ہیں۔
نوشہرہ پانی میں ڈوبا رہا اور لوگوں کو کشتیوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نکالا گیا'دوسری طرف صوبہ گلگت بلتستان 'ضلع کوہستان 'ضلع شانگلہ 'ضلع بٹگرام 'ضلع مانسہرہ 'وادی کاغان 'ضلع تور غر 'ضلع ایبٹ آباد اور ضلع ہری پور میں بھی مسلسل چار دن تک پانی برستا رہا'یہ سارا پانی دریائے سندھ میں تربیلہ ڈیم تک پہنچا 'ڈیم انتظامیہ نے ایمرجنسی نافذ کی اور تاریخ میں سب سے بڑا پانی کا ریلا نیچے چھوڑدیا۔
ڈیم کی سرنگوں اور سپل ویز سے خارج ہونے والا سیلابی ریلا ضلع صوابی کی طرف بڑھا 'راستے میں غازی 'بٹاکڑہ 'زروبی' یوسفی'ڈھوک'گاڑ اکاخیل'گاڑ یارہ خیل جیسے بڑے قصبوں کے مکانات اور زرعی اراضی میں کھڑی فصلوں کو اپنے ساتھ بہاتا ہوا اور ہر طرف تباہی پھیلاتا ہوا ہنڈکے تاریخی قصبے میں داخل ہوا'ہنڈ میں تباہی مچاتا ہوا یہ پانی موٹروے کی طرف بڑھتا ہوا راستے میں ان تمام ہوٹلوں کو بہاکر لے گیا 'جو اباسین کی تازہ مچھلی کھانے والوں اور اس شدید گرمی میں چند لمحے اباسین کے کنارے ٹھنڈی ہوا میں گزارنے والوں کے لیے بنائے گئے تھے۔
یہ ان لوگوں کی تفریح گاہ تھی جو گرمیاں لندن ' مری یا نتھیاگلی میں گزارنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ شکر ہے کہ فارم کی مرکزی عمارت اونچی ہونے کی وجہ سے بچ گئی' بہرحال اس فارم کے خوبصورت لان اور پھول وغیرہ سیلاب میں ڈوبے رہے۔
یہاں سے پانی کا بڑا ریلا' اللہ ڈھیراور تحصیل لاہور کے دوسرے دیہات کو بہاتا ہوا کنڈ کی تفریح گاہ کو تباہ کر گیا' خیر آباد کے مقام پر دریائے کابل کے سیلابی ریلے کے ساتھ مل کر اب یہ دونوں دریا پنجاب اور سندھ میں تباہی مچا رہے تھے۔ کالاباغ ڈیم کے فوائد اور نقصانات پر بحث کرنے کا یہ موقعہ نہیں ہے، اس وقت ملک کو جو مسئلہ درپیش ہے وہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا نہیں بلکہ موجودہ تباہی کے اثرات کو کیسے کم کیا جائے اور کیا اقدامات اٹھائے جائیں' تاکہ آیندہ ایسی تباہی سے بچا جا سکے۔
سب سے اہم کام یہ ہے کہ کوہ ہمالیہ'قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں سے آنے والے دریاؤں کے آگے بند باندھ کر پانی کو اوپر ہی روکنا ہوگا' تربیلہ ڈیم اور اس کے آگے غازی بھروتا بیراج نے پانی کی ایک بڑی مقدار کو روک لیا تھا' ورنہ یہ سیلاب اس سے بھی تین گنا زیادہ شدت کا ہوتا 'اگر بھاشا ڈیم اورسکردو ڈیم ہوتے 'تو سارا سیلابی پانی ان میںسما جاتا' ہزاروں میگاواٹ بجلی بھی پیدا ہوتی اور آبپاشی کے لیے بھی سارا سال پانی کی کمی نہیں ہوتی اور نہ ہی پنجاب اور سندھ کو پانی کے مسئلے پر لڑنا پڑتا' اسی طرح مہمند ڈیم اگر بن جاتا تو سوات'دیر 'چترال اور ملاکنڈ ڈویژن کے دیگر اضلاع کا پانی وہا ںذخیرہ ہوجاتااور چارسدہ اور نوشہرہ سمیت پنجاب اور سندھ بھی سیلاب سے بچ جاتے۔
جنوب میں گومل زام اور دریائے ٹوچی پر ڈیم بنانے سے ان دریاؤں کا پانی بھی دریائے سندھ میں جاکر سیلاب کا سبب بننے کی بجائے ان ڈیموں میں جمع ہوتا۔میرانی ڈیم 'کٹ زرہ ڈیم ' سبک زئی ڈیم اور ست پارہ ڈیم سمیت نہ جانے کتنے منصوبے واپڈا ہاؤس کے ریکارڈ روم میں دیمکوں کی خوراک بن رہے ہیں،حکومت کو چاہیے کہ سیلابوں کو روکنے اور پانی و بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے فوری کاروائی کرے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ قدرت کی طرف سے دیے گئے نعمتوں سے مستفید نہیں ہو رہے 'ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر پارٹی کے منشور میں واٹر ایمرجنسی ضرور شامل ہونی چائیے۔ انشاء اللہ کالاباغ کے بارے میںسندھ کے تحفظات کا ذکر آیندہ ۔