خواتین کے حقوق
تھر میں ہمیشہ غذائی قلت رہی ہے اس لیے وہاں پیدا ہونے والی لڑکیاں کمزور اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہیں
مظفرگڑھ میں ایک لڑکی جنسی زیادتی کا شکار ہوئی، انصاف نہ ملنے پر خودسوزی پر مجبور ہوئی ۔ شکار پور میں ایک جرگے نے کاری قرار دے کرلڑکیوںکو قتل کرنے کا فیصلہ دیا، پولیس نے سابق وزیر غوث بخش مہر کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ۔جھول میں بروہی قبیلے کے جرگے کے فیصلے کے تحت صغریٰ نامی عورت کو پسندکی شادی کرنے پر زندہ دفن کردیا گیا۔ اس سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل نے کمسن بچوں کی شادی کے قانون اور مرد کی دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت کے قانون کو غیر اسلامی قرار دے کر خواتین کے حالات کار کو بہتر بنانے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ، یوں پاکستان کے آئین کے تحت بنیادی حقوق کے باب میں درج جنس کی بنیاد پر تفریق کے خاتمے کی شق مجروح ہوئی۔ یہ حقیقت ہے کہ خواتین کو تو اسلام نے برابرکے حقوق دیے ہیں مگر مسلمان بادشاہوں نے خواتین کی حیثیت کو کم کرتے ہوئے ان کے حقوق پامال کیے ۔ جب ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم ہوئی تو ہندوئوں میں عورت کو ستی قرار دے کر شوہر کی چتاکے ساتھ جل مرنے کی رسم پر عمل ہوتا تھا۔راجا رام موہن رائے جیسے دانشور اس رسم کے خلاف تھے ۔
جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے ستی کی رسم کو غیر قانونی قرار دیا تو ہندو پنڈتوں نے اس پابندی کے خلاف مزاحمت کی حکومت کے سخت اقدامات کے نتیجے میں بیوہ عورتوں کی جانیں بچ گئیں پھر انگریز حکومت نے گزشتہ صدی کے دوسرے عشرے میں کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی عائد کردی ۔ یہ وہ وقت تھا جب گاندھی جی کانگریس کے قائدبن گئے تھے ۔ ہندو پنڈتوں کے خوف کی بناء پر گاندھی جی نے اس قانون کی حمایت نہیں کی ۔ مسلم لیگ کی قیادت مولانا محمد علی جوہر کے پاس تھی وہ اس قانون کی حمایت پر آمادہ نہیں ہوئے ۔ جناح اس زمانے میں کانگریس سے مایوس ہوچکے تھے اور مسلم لیگ میں نمایاں حیثیت نہیں رکھتے تھے مگر محمد علی جناح واحد ہندوستانی رہنما تھے جنہوں نے کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی کے قانون کی حمایت کی ۔ جناح کا کہنا تھا کہ کمسن بچیوں کی شادی نہ صرف ان کی صحت کو تباہ کرتی ہے بلکہ انھیں تعلیم حاصل کرنے سے روکتی ہے یوں ناخواندہ لڑکی کی بچپن میں شادی سے بننے والے خاندان کی بنیادیں کمزور ہوتی ہیں یہ بچیاں بچے پیدا کرنے کی مشین میں تبدیل ہوجاتی ہیں یوں ان کی صحت برباد ہوجاتی ہے اور کمزور بچے پیدا ہوتے ہیں اس طرح نوزائیدہ بچوں اور زچہ کے مرنے کی شرح ہندوستان میں بہت زیادہ تھی ۔
جناح کی اس حمایت کی بنیاد پر کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی کا قانون ہندوستان میں رائج ہوا اور پھر پاکستان بننے کے بعد رائج رہا۔ جب جناح نے رتی کو پسند کیا تو رتی کے والد کا کہنا تھا کہ رتی بالغ نہیں ہے اس لیے اس کی شادی نہیں ہوسکتی یوں معاملہ بمبئی کی عدالت میں پیش کیا ۔ عدالت نے رتی کے والد کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ رتی ایک سال بعد بالغ ہوگی جب وہ شادی کرسکتی ہے ۔ عدالت نے جناح پر پابندی عائد کی کہ وہ ایک سال تک رتی سے رابطہ نہیں کریں ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اس فیصلے کی مکمل پاسداری کی اور ایک سال انتظار کے بعد رتی سے نکاح کیا ۔ انھوں نے کمسن بچیو ں کی شادی پر پابندی کے اصولی موقف کو اپنے اوپر لاگو کیا۔ ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ جہالت اور قبائلی روایات کی تابعداری کرتے ہوئے والدین اپنی لڑکیوں اور لڑکوں کی بچپن میں شادی کردیتے تھے یوں وہ شادی کے اسلامی اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے لڑکی کی رضامندی ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ اس طرح بچپن میں لڑکی کی مرضی معلوم کیے بغیر اجنبی خاندان کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ ماہرین صحت کا کہنا تھا کہ بچپن میں شادی کے مرحلے سے گزرنے والی لڑکیاں بہت جلد بدصورتی کا شکار ہوجاتی ہیں یوں مردوں کو دوسری شادی کا جواز ملتا ہے ۔
اس طرح کثرت ازواج سے جہاں خواتین کے حقوق پامال ہوتے تھے وہاں شرح پیدائش بڑھنے سے خاندان کے ملک کی معیشت بھی متاثر ہوتی تھی ۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے خواتین کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے قوانین Family Laws 1961نافذ کیے ، یوں پہلی دفعہ شادی اور طلاق جیسے اہم ترین معاملہ کی دستاویز تیار ہونے لگی، ان قوانین میں لڑکی کی شادی کی عمر 16سال مقرر کی گئی اور نکاح نامے پر اس کی مرضی ظاہر کرنے کے لیے دستخط لازمی قرار دیے اس کے ساتھ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی مرضی کی شرط کو لازمی قرار دیا ۔ حکومت کا یہ اقدام خواتین انجمنوں کے مسلسل مطالبہ پر تھا ۔ خواتین انجمنوں کا یہ موقف تھا کہ اب مرد بیویوں سے برابر کے سلوک کے اسلامی اصول پر عمل نہیں کرتے وہ بیک وقت کئی نئی شادیاں کرتے ہیں ۔ مہر کی رقم معمولی ہوتی ہے وہ یہ رقم ادا نہیں کرتے یا لڑکی کی مرضی کے بغیر مہر کی رقم کم مقرر کی جاتی تھی مرد معمولی رقم دے کر طلاق دیتے تھے یوں طلاق یافتہ عورت کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔ اس لیے دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی مرضی کو لازمی قرار دیا تاکہ شوہر بیوی کے حقوق کے تحفظ کے لیے اس سے کوئی معاہدہ کرے۔ اس قانون کا ایک مقصد مردوں کو بغیر کسی وجہ سے شادیاں کرنے سے روکنا تھا۔ مردوں کی زیادہ شادیاں کرنے سے عورتوں کے علاوہ بچوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں پھر زیادہ بچے پیدا ہونے سے معیشت غیر مستحکم ہوتی ہے ۔ اس بناء پر دوسری شادی کو بیوی کی مرضی سے منسلک کرنا ضروری ہے۔اس وقت روشن خیال علماء نے حکومت کے اس موقف کی حمایت کی تھی ۔
ایک مشہور عالم دین ڈاکٹر فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ دوسری شادی کی اجازت مخصوص حالات میں دی گئی ہے ۔ مسلمانوں کے عظیم رہنما سرسید احمد خان بھی کثرت ازدواج کے خلاف تھے یوں عائلی قوانین میں شادی کی عمر طے ہونے سے عورت کو ایک قانونی تحفظ حاصل ہوا تھا ۔ اگر غیر جانبداری سے عورتوں کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی اور دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت کا قانون عصر جدید کے تقاضوں کے مطابق نظر آتا ہے ۔ آج بھی دیہی علاقوں میں دشمن سے دوستی کے لیے بچیوں کو ونی بنانے کی روایت موجود ہے۔ بعض دفعہ پیدا ہونے سے پہلے بچی کو ونی کردیا جاتا ہے ۔ جب کمسن بچی ونی ہوکر دشمن کے گھر بھیج دی جاتی ہے تو دشمنی تو ختم ہو جاتی ہے مگر اس لڑکی کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ اس طرح لڑکیاں ساری زندگی باندی کی حیثیت سے گزارتی ہیں ۔ مرد اپنے دشمن سے بدلہ لینے کے لیے ونی قرار دی گئی بچیوں پر ہر قسم کا ظلم کرتے رہتے ہیں۔ یہ دونوں قوانین بچیوں کو ونی بنا کر شادی کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں ۔ بعض ماہرین تھر میں گزشتہ دنوں بچوں کی اموات کو بھی بچپن میں شادی سے منسلک کرتے ہیں ۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں لڑکیوں کو کم غذ ا ملتی ہے ۔ جب غذائی قلت ہوتی ہے تو وہ سب سے پہلے اس قلت کا شکار ہوتی ہے ۔
تھر میں ہمیشہ غذائی قلت رہی ہے اس لیے وہاں پیدا ہونے والی لڑکیاں کمزور اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہیں ، بچپن میںان کی شادی کردی جاتی ہے تو کم غذائیت کی بناء پر پیدا ہونے والے بچے انتہائی لاغر ہوتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہ بچے پیدائش کے بعد تشنج، کھانسی ، ملیریا،ڈائریا اور نمونیا جیسے امراض کا شکار ہوتے ہیں، اس بناء پر نوزائیدہ بچوں اور زچہ کے مرنے کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ان اہم نکات کو مدنظر رکھنے کے بجائے بے راہ روی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی اور دوسری شادی کی مشروط اجازت کی مخالفت کی ہے۔ کونسل کے معزز اراکین اس حقیقت کو بھول گئے بے راہ روی ان مردوں میں زیادہ ہوتی ہے جن لوگوں کی بچپن میں شادیاں ہوجاتی ہیں ۔کم عمری میں ہونے والی شادیوں کی بناء پر عورتیں جوانی میں بدصورت ہوجاتی ہیں ۔ سندھ اسمبلی میں بچپن کی شادی کو غیر قانونی قرار دینے کا قانون منظوری کا منتظر ہے،ایسے قوانین وفاق اور صوبوں میں بھی بننے چاہیے۔ عجیب بات ہے کہ کمپنی کے دور میں ہندو مذہبی عالم ستی کی رسم کے خاتمے کے خلاف مزاحمت کررہے تھے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان 2014میں خواتین کے حالات کار کو بہتر بنانے کے قوانین کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں ۔ خواتین نمایندوں نے قومی اسمبلی میں اس مسئلے پر آواز اٹھائی ہے مگرخواتین کے خلاف مسلسل بدترین سلوک جاری ہے ۔ غربت کا خاتمہ خواتین کی ترقی کے بغیر ممکن نہیں ، تمام معقول لوگوں کو خواتین کے حالات کار بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے ستی کی رسم کو غیر قانونی قرار دیا تو ہندو پنڈتوں نے اس پابندی کے خلاف مزاحمت کی حکومت کے سخت اقدامات کے نتیجے میں بیوہ عورتوں کی جانیں بچ گئیں پھر انگریز حکومت نے گزشتہ صدی کے دوسرے عشرے میں کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی عائد کردی ۔ یہ وہ وقت تھا جب گاندھی جی کانگریس کے قائدبن گئے تھے ۔ ہندو پنڈتوں کے خوف کی بناء پر گاندھی جی نے اس قانون کی حمایت نہیں کی ۔ مسلم لیگ کی قیادت مولانا محمد علی جوہر کے پاس تھی وہ اس قانون کی حمایت پر آمادہ نہیں ہوئے ۔ جناح اس زمانے میں کانگریس سے مایوس ہوچکے تھے اور مسلم لیگ میں نمایاں حیثیت نہیں رکھتے تھے مگر محمد علی جناح واحد ہندوستانی رہنما تھے جنہوں نے کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی کے قانون کی حمایت کی ۔ جناح کا کہنا تھا کہ کمسن بچیوں کی شادی نہ صرف ان کی صحت کو تباہ کرتی ہے بلکہ انھیں تعلیم حاصل کرنے سے روکتی ہے یوں ناخواندہ لڑکی کی بچپن میں شادی سے بننے والے خاندان کی بنیادیں کمزور ہوتی ہیں یہ بچیاں بچے پیدا کرنے کی مشین میں تبدیل ہوجاتی ہیں یوں ان کی صحت برباد ہوجاتی ہے اور کمزور بچے پیدا ہوتے ہیں اس طرح نوزائیدہ بچوں اور زچہ کے مرنے کی شرح ہندوستان میں بہت زیادہ تھی ۔
جناح کی اس حمایت کی بنیاد پر کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی کا قانون ہندوستان میں رائج ہوا اور پھر پاکستان بننے کے بعد رائج رہا۔ جب جناح نے رتی کو پسند کیا تو رتی کے والد کا کہنا تھا کہ رتی بالغ نہیں ہے اس لیے اس کی شادی نہیں ہوسکتی یوں معاملہ بمبئی کی عدالت میں پیش کیا ۔ عدالت نے رتی کے والد کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ رتی ایک سال بعد بالغ ہوگی جب وہ شادی کرسکتی ہے ۔ عدالت نے جناح پر پابندی عائد کی کہ وہ ایک سال تک رتی سے رابطہ نہیں کریں ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اس فیصلے کی مکمل پاسداری کی اور ایک سال انتظار کے بعد رتی سے نکاح کیا ۔ انھوں نے کمسن بچیو ں کی شادی پر پابندی کے اصولی موقف کو اپنے اوپر لاگو کیا۔ ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ جہالت اور قبائلی روایات کی تابعداری کرتے ہوئے والدین اپنی لڑکیوں اور لڑکوں کی بچپن میں شادی کردیتے تھے یوں وہ شادی کے اسلامی اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے لڑکی کی رضامندی ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ اس طرح بچپن میں لڑکی کی مرضی معلوم کیے بغیر اجنبی خاندان کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ ماہرین صحت کا کہنا تھا کہ بچپن میں شادی کے مرحلے سے گزرنے والی لڑکیاں بہت جلد بدصورتی کا شکار ہوجاتی ہیں یوں مردوں کو دوسری شادی کا جواز ملتا ہے ۔
اس طرح کثرت ازواج سے جہاں خواتین کے حقوق پامال ہوتے تھے وہاں شرح پیدائش بڑھنے سے خاندان کے ملک کی معیشت بھی متاثر ہوتی تھی ۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے خواتین کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے قوانین Family Laws 1961نافذ کیے ، یوں پہلی دفعہ شادی اور طلاق جیسے اہم ترین معاملہ کی دستاویز تیار ہونے لگی، ان قوانین میں لڑکی کی شادی کی عمر 16سال مقرر کی گئی اور نکاح نامے پر اس کی مرضی ظاہر کرنے کے لیے دستخط لازمی قرار دیے اس کے ساتھ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی مرضی کی شرط کو لازمی قرار دیا ۔ حکومت کا یہ اقدام خواتین انجمنوں کے مسلسل مطالبہ پر تھا ۔ خواتین انجمنوں کا یہ موقف تھا کہ اب مرد بیویوں سے برابر کے سلوک کے اسلامی اصول پر عمل نہیں کرتے وہ بیک وقت کئی نئی شادیاں کرتے ہیں ۔ مہر کی رقم معمولی ہوتی ہے وہ یہ رقم ادا نہیں کرتے یا لڑکی کی مرضی کے بغیر مہر کی رقم کم مقرر کی جاتی تھی مرد معمولی رقم دے کر طلاق دیتے تھے یوں طلاق یافتہ عورت کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔ اس لیے دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی مرضی کو لازمی قرار دیا تاکہ شوہر بیوی کے حقوق کے تحفظ کے لیے اس سے کوئی معاہدہ کرے۔ اس قانون کا ایک مقصد مردوں کو بغیر کسی وجہ سے شادیاں کرنے سے روکنا تھا۔ مردوں کی زیادہ شادیاں کرنے سے عورتوں کے علاوہ بچوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں پھر زیادہ بچے پیدا ہونے سے معیشت غیر مستحکم ہوتی ہے ۔ اس بناء پر دوسری شادی کو بیوی کی مرضی سے منسلک کرنا ضروری ہے۔اس وقت روشن خیال علماء نے حکومت کے اس موقف کی حمایت کی تھی ۔
ایک مشہور عالم دین ڈاکٹر فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ دوسری شادی کی اجازت مخصوص حالات میں دی گئی ہے ۔ مسلمانوں کے عظیم رہنما سرسید احمد خان بھی کثرت ازدواج کے خلاف تھے یوں عائلی قوانین میں شادی کی عمر طے ہونے سے عورت کو ایک قانونی تحفظ حاصل ہوا تھا ۔ اگر غیر جانبداری سے عورتوں کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی اور دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت کا قانون عصر جدید کے تقاضوں کے مطابق نظر آتا ہے ۔ آج بھی دیہی علاقوں میں دشمن سے دوستی کے لیے بچیوں کو ونی بنانے کی روایت موجود ہے۔ بعض دفعہ پیدا ہونے سے پہلے بچی کو ونی کردیا جاتا ہے ۔ جب کمسن بچی ونی ہوکر دشمن کے گھر بھیج دی جاتی ہے تو دشمنی تو ختم ہو جاتی ہے مگر اس لڑکی کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ اس طرح لڑکیاں ساری زندگی باندی کی حیثیت سے گزارتی ہیں ۔ مرد اپنے دشمن سے بدلہ لینے کے لیے ونی قرار دی گئی بچیوں پر ہر قسم کا ظلم کرتے رہتے ہیں۔ یہ دونوں قوانین بچیوں کو ونی بنا کر شادی کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں ۔ بعض ماہرین تھر میں گزشتہ دنوں بچوں کی اموات کو بھی بچپن میں شادی سے منسلک کرتے ہیں ۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں لڑکیوں کو کم غذ ا ملتی ہے ۔ جب غذائی قلت ہوتی ہے تو وہ سب سے پہلے اس قلت کا شکار ہوتی ہے ۔
تھر میں ہمیشہ غذائی قلت رہی ہے اس لیے وہاں پیدا ہونے والی لڑکیاں کمزور اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہیں ، بچپن میںان کی شادی کردی جاتی ہے تو کم غذائیت کی بناء پر پیدا ہونے والے بچے انتہائی لاغر ہوتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہ بچے پیدائش کے بعد تشنج، کھانسی ، ملیریا،ڈائریا اور نمونیا جیسے امراض کا شکار ہوتے ہیں، اس بناء پر نوزائیدہ بچوں اور زچہ کے مرنے کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ان اہم نکات کو مدنظر رکھنے کے بجائے بے راہ روی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی اور دوسری شادی کی مشروط اجازت کی مخالفت کی ہے۔ کونسل کے معزز اراکین اس حقیقت کو بھول گئے بے راہ روی ان مردوں میں زیادہ ہوتی ہے جن لوگوں کی بچپن میں شادیاں ہوجاتی ہیں ۔کم عمری میں ہونے والی شادیوں کی بناء پر عورتیں جوانی میں بدصورت ہوجاتی ہیں ۔ سندھ اسمبلی میں بچپن کی شادی کو غیر قانونی قرار دینے کا قانون منظوری کا منتظر ہے،ایسے قوانین وفاق اور صوبوں میں بھی بننے چاہیے۔ عجیب بات ہے کہ کمپنی کے دور میں ہندو مذہبی عالم ستی کی رسم کے خاتمے کے خلاف مزاحمت کررہے تھے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان 2014میں خواتین کے حالات کار کو بہتر بنانے کے قوانین کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں ۔ خواتین نمایندوں نے قومی اسمبلی میں اس مسئلے پر آواز اٹھائی ہے مگرخواتین کے خلاف مسلسل بدترین سلوک جاری ہے ۔ غربت کا خاتمہ خواتین کی ترقی کے بغیر ممکن نہیں ، تمام معقول لوگوں کو خواتین کے حالات کار بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔