پشاور کی گمشدہ فلائٹ
جو ہاتھ پھولوں کے ہار اٹھائے ہوئے ہیں ان کی قدر کرنا سیکھیں ورنہ یہ ہاتھ کچھ بھی اٹھا سکتے ہیں
ہر کوئی بہت خوش تھا۔ خوب تیاریوں میں مصروف تھا۔ انتظامیہ، اساتذہ، طلباء سب اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ جامعات کے لیے نئے اداروں کا قیام بہت اہم موقع ہوتا ہے۔ بالخصوص وہ جامعات جو ایسے علاقوں میں تدریس کا کام کر رہے ہیں جہاں پر حالات مخدوش اور زندگی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ کیمپس میں ہر طرف کسی اہم ترین شخصیت کی آمد کی خبر گھوم رہی تھی۔ احتیاط اور حفظ ماتقدم کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انتظامیہ اشاروں کنایوں میں بتا رہی تھی کہ ایک مقبول ترین شخص اگلے 48 گھنٹوں میں اس جگہ کو شرف بخشے گا۔ اس کے مبارک ہاتھوں سے یہ ربن کٹے گا۔ 12 کروڑ کی خطیر رقم سے بننے والا تحقیق کا یہ ادارہ امن اور سلامتی کے اہم معاملات پر اشاعت اور بحث کے ذریعے سوچ کے نئے دروازے کھولنے کے لیے نیک کام کا آغاز کر دے گا۔ جامع پشاور کے ادارہ برائے امن اور جنگ کی افتتاحی تقریب کے لیے انتظامات اتنے سخت کیے گئے تھے کہ آنے والی اہم شخصیت کو محفوظ ترین کونے میں لیجا کر محض رسمی کارروائی پر لاکھوں روپے لگا دیے گئے۔
مہمانوں میں سے تو ہر کسی کو اس گوشہ پاک میں جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔ جگہ جگہ پر میٹل ڈیٹیکٹر کھڑے کیے گئے تھے تاکہ ہر کوئی تلاشی کے بعد اس خاص حصے کے قریب پہنچ پائے جہاں پر یہ اہم واقعہ رونما ہونا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی آمد سے متعلق یہ اقدامات مزید غیر معمولی اس لیے بنا دیے گئے تھے کہ وزیر اعلی پرویز خٹک کو بھی شامل محفل ہونا تھا۔ جس سے مراد یہ ہے کہ تمام کابینہ ، مشیر اور مشیران کی فوج اپنی قابل قیادت کے ساتھ دیکھے جانے کے لیے وہاں پر موجودگی کے لیے کوشاں تھی۔ صوبائی اسمبلی کے اسپیکر اور اس طرح کی دوسری اہم شخصیات نے بھی دعوت ناموں کا جواب مثبت ہی دیا تھا۔ عمران خان آئیں اور یہ سب نہ پہنچ پائیں یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ با لآخر وہ دن آ پہنچا جب سب کی محنتوں نے رنگ لانا تھا ۔ سیکڑوں طلباء کو عمران خان کی آمد کی جگہ سے دور رکھنے پر بد مزگی بھی پیدا ہوئی ۔
اپنے قائد کی دید کے طالب جب غصہ میں آئے تو انھوں نے میٹل ڈیٹیکٹر اکھاڑ پھینکے ۔ ان کے خیال میں تبدیلی کی راہ میں رکاوٹوں کو ایسے ہی ہٹا دینا چاہیے ۔ عمران خان کی آمد کا وقت قریب آتا چلا گیا ۔ انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی گئیں ۔ انتظامیہ کے لوگ بار بار اپنی کلائیوں کی طرف دیکھتے ، وقت گزرتا چلا جا رہا تھا ، عمران خان کی آمد کے کوئی نشانات ظاہر نہیں ہو رہے تھے ۔ پھر یکدم کہیں سے خبر آئی کہ ترین ایئر لائن پشاور نہیں پہنچ پائی ۔ اسلام آباد میں کسی میٹنگ کا انعقاد ہو گیا اور عمران خان اس تقریب کے لیے وقت نہیں نکال پائے ۔ شرمندگی اور ندامت سے منتظمین بغلیں جھانک رہے تھے کہ ایک اور بم پھٹا کہ چونکہ چیئرمین صاحب نہیں آ رہے تو وزیر اعلی کا آنا بھی ممکن نہ رہا ۔ تمام انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے جو تقریب ایک بہترین خبر کا باعث بن سکتی تھی حسرت و یاس کی تصویر بن گئی۔ اور تو اور خود اسپیکر صاحب نے بھی ڈیڑھ گھنٹے کے بعد قدم رنجا فرمانے کی زحمت کی اور جب آئے تو محفل میں موجود ہر کوئی یہ سوچ رہا تھا کہ یہ کیوں آئے ہیں اور کیا باتیں کر رہے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ کل نشترہال میں پیش آیا ۔ انصاف اسٹوڈنٹ فیڈریشن نے عمران خان سے ملاقات کا اہتمام کیا ۔ مقامی قیادت نے پورے جذبے کے ساتھ رابطے کی مہم تیز کی ، ہر کسی کو اس اہم موقع سے فائدہ اٹھانے کی تاکید کی ۔ چیئرمین صاحب کو حقائق سے آگاہ کرنے کا لائحہ عمل بھی طے کیا ۔ اس احتیاط کی گرہیں بھی زبان پر لگائیں جو بڑے لیڈر کے سامنے بات کرتے ہوئے ملحوظ خاطر رکھنی ہوتی ہیں۔ نشترہال بھر گیا۔ لوگ منتظر ، آنکھیں فرش راہ ، ایڑیوں پر کھڑے ہو ہو کر دروازے کو دیکھتے ہوئے سر ، اسٹیج پر پڑی ہوئی کرسیوں کو گھورتی ہوئی آنکھیں ۔ پھر ایک ٹیلی فون کال آئی جس نے یہ پیغام دیا کہ ترین ایئر لائن دوبارہ فضائی سفر کرنے سے قاصر رہی ۔ لیکن چیئرمین صاحب نے کمال فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ISF کے جیالوں سے بذریعہ اسکائپ خطاب کرنا گوارہ کر لیا ۔ اس خطاب میں انہوں نے ریاست مدینہ کے اوصاف بیان کیے ۔ اسلامی نظام پر ایک لمبا لیکچر دیا اور دین و دنیا کے حوالے سے دانش مندی کے وہ موتی چنے جو آج تک کسی پر آشکار نہیں ہوئے تھے ۔ بہت سے ممبران کو یہ فراخدلی ناکافی محسوس ہوئی ۔ اپنے پیارے لیڈر کی غیرموجودگی پر تقریر کے شروع ہوتے ہیں ہال سے باہر جا کر خاموش احتجاج کیا اور اس طرح یہ خطاب تکمیل کو پہنچا۔
ان دونوں واقعات سے آپ عمران خان کی مصروفیات اور ترجیہات کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ قیادت اپنے نظم سے پہچانی جاتی ہے ۔ لوگوں کو لائنوں میں کھڑا کر کے انتظار کروانا اور پھر غیر موجودگی پہ کسی بھی قسم کی وضاحت دینے سے گریز کرنا صرف اس وقت ممکن ہے جب لیڈر کو یہ احساس ہے کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ اس کو کوئی پوچھے گا نہیں اور اگر کسی نے پوچھ بھی لیا تو پھر دروازے کے باہر کھڑا رحم کی فریادیں ہی کرتا رہے گا ۔ بڑے لیڈر چھوٹی احتیاطوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ اعتماد اور غرور میں فرق ہوتا ہے ۔ دبنگ رویہ اور چیزتکبر سمانا اور چیز ہے ۔ بد قسمتی سے وہ پارٹی جس نے پسے ہوئے طبقات کو آواز کا پلیٹ فارم مہیا کرنے کا علم اٹھایا تھا اب ان رویوں کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہے جو 67 سال سے اس ملک میں رائج ہے ۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ۔ پشاور میں ایک صوبائی وزیر کے بارے میں عمران خان کے دست خاص جہانگیر خان نے سخت لہجہ استعمال کیا ۔ کرپشن اور نکمے پن کا ذکر ہوا ، اہلیت کے بارے میں سوال اٹھائے گئے اور سب کچھ ایسے انداز میں ہوا جیسے تھانیدار ملزم سے پوچھ پرتیت کرتا ہے ۔اب کہاں لودھراں ، کہاں پشاور دونوں جگہوں کی سیاست اور ثقافت میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔گھنٹوں کے سفر کو منٹوں میں طے کرنے سے مختلف علاقوں کی تہذیب اور طریقے کار بھی ایک جیسے نہیں ہو جاتے ۔
جہانگیر خان کو یہ بات اس وقت سمجھ آئی جب وزیر نے ان کو مخصوص مقامی انداز میں جواب دیا ۔ اس پر اس سے کمرے میں اضطراب سے بڑی خاموشی چھا گئی کہ یہ کیا ہو گیا ۔ اس خاموش سوال کا جواب وزیر نے یہ کہہ کر دے دیا کہ میں منتخب ہو کر آیا ہوں ۔ نوکری نہیں کرتا ۔ اس کے بعد انھوں نے بدعنوانی کا جوابی دعوی دائر کردیا۔ جس کو سن کر چیئرمین صاحب بہت پریشان ہوئے اور بچ بچائو سے یہ معاملہ رفع دفع کردیا ۔ اس طرح کے بہت سے واقعات اب پاکستان تحریک انصاف کے رویوں کے حوالے سے خبروں کی زینت بن رہے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ جمہوریت اور جمہوری ثقافت کے آداب کیا ہیں ۔ بڑی جماعتوں کے جید سیاستدانوں کو اس کا خوب علم ہے ۔ ان کو یہ بھی علم ہو گا کہ جب گھمنڈ طبیعت کا حصہ بن جائے تو شناسا چہرے بد نما لگنے لگ جاتے ہیں ۔ دل میں اترتی ہوئی شخصیات دل سے اتر جاتی ہیں ۔ جو ہاتھ پھولوں کے ہار اٹھائے ہوئے ہیں ان کی قدر کرنا سیکھیں ورنہ یہ ہاتھ کچھ بھی اٹھا سکتے ہیں۔
مہمانوں میں سے تو ہر کسی کو اس گوشہ پاک میں جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔ جگہ جگہ پر میٹل ڈیٹیکٹر کھڑے کیے گئے تھے تاکہ ہر کوئی تلاشی کے بعد اس خاص حصے کے قریب پہنچ پائے جہاں پر یہ اہم واقعہ رونما ہونا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی آمد سے متعلق یہ اقدامات مزید غیر معمولی اس لیے بنا دیے گئے تھے کہ وزیر اعلی پرویز خٹک کو بھی شامل محفل ہونا تھا۔ جس سے مراد یہ ہے کہ تمام کابینہ ، مشیر اور مشیران کی فوج اپنی قابل قیادت کے ساتھ دیکھے جانے کے لیے وہاں پر موجودگی کے لیے کوشاں تھی۔ صوبائی اسمبلی کے اسپیکر اور اس طرح کی دوسری اہم شخصیات نے بھی دعوت ناموں کا جواب مثبت ہی دیا تھا۔ عمران خان آئیں اور یہ سب نہ پہنچ پائیں یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ با لآخر وہ دن آ پہنچا جب سب کی محنتوں نے رنگ لانا تھا ۔ سیکڑوں طلباء کو عمران خان کی آمد کی جگہ سے دور رکھنے پر بد مزگی بھی پیدا ہوئی ۔
اپنے قائد کی دید کے طالب جب غصہ میں آئے تو انھوں نے میٹل ڈیٹیکٹر اکھاڑ پھینکے ۔ ان کے خیال میں تبدیلی کی راہ میں رکاوٹوں کو ایسے ہی ہٹا دینا چاہیے ۔ عمران خان کی آمد کا وقت قریب آتا چلا گیا ۔ انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی گئیں ۔ انتظامیہ کے لوگ بار بار اپنی کلائیوں کی طرف دیکھتے ، وقت گزرتا چلا جا رہا تھا ، عمران خان کی آمد کے کوئی نشانات ظاہر نہیں ہو رہے تھے ۔ پھر یکدم کہیں سے خبر آئی کہ ترین ایئر لائن پشاور نہیں پہنچ پائی ۔ اسلام آباد میں کسی میٹنگ کا انعقاد ہو گیا اور عمران خان اس تقریب کے لیے وقت نہیں نکال پائے ۔ شرمندگی اور ندامت سے منتظمین بغلیں جھانک رہے تھے کہ ایک اور بم پھٹا کہ چونکہ چیئرمین صاحب نہیں آ رہے تو وزیر اعلی کا آنا بھی ممکن نہ رہا ۔ تمام انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے جو تقریب ایک بہترین خبر کا باعث بن سکتی تھی حسرت و یاس کی تصویر بن گئی۔ اور تو اور خود اسپیکر صاحب نے بھی ڈیڑھ گھنٹے کے بعد قدم رنجا فرمانے کی زحمت کی اور جب آئے تو محفل میں موجود ہر کوئی یہ سوچ رہا تھا کہ یہ کیوں آئے ہیں اور کیا باتیں کر رہے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ کل نشترہال میں پیش آیا ۔ انصاف اسٹوڈنٹ فیڈریشن نے عمران خان سے ملاقات کا اہتمام کیا ۔ مقامی قیادت نے پورے جذبے کے ساتھ رابطے کی مہم تیز کی ، ہر کسی کو اس اہم موقع سے فائدہ اٹھانے کی تاکید کی ۔ چیئرمین صاحب کو حقائق سے آگاہ کرنے کا لائحہ عمل بھی طے کیا ۔ اس احتیاط کی گرہیں بھی زبان پر لگائیں جو بڑے لیڈر کے سامنے بات کرتے ہوئے ملحوظ خاطر رکھنی ہوتی ہیں۔ نشترہال بھر گیا۔ لوگ منتظر ، آنکھیں فرش راہ ، ایڑیوں پر کھڑے ہو ہو کر دروازے کو دیکھتے ہوئے سر ، اسٹیج پر پڑی ہوئی کرسیوں کو گھورتی ہوئی آنکھیں ۔ پھر ایک ٹیلی فون کال آئی جس نے یہ پیغام دیا کہ ترین ایئر لائن دوبارہ فضائی سفر کرنے سے قاصر رہی ۔ لیکن چیئرمین صاحب نے کمال فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ISF کے جیالوں سے بذریعہ اسکائپ خطاب کرنا گوارہ کر لیا ۔ اس خطاب میں انہوں نے ریاست مدینہ کے اوصاف بیان کیے ۔ اسلامی نظام پر ایک لمبا لیکچر دیا اور دین و دنیا کے حوالے سے دانش مندی کے وہ موتی چنے جو آج تک کسی پر آشکار نہیں ہوئے تھے ۔ بہت سے ممبران کو یہ فراخدلی ناکافی محسوس ہوئی ۔ اپنے پیارے لیڈر کی غیرموجودگی پر تقریر کے شروع ہوتے ہیں ہال سے باہر جا کر خاموش احتجاج کیا اور اس طرح یہ خطاب تکمیل کو پہنچا۔
ان دونوں واقعات سے آپ عمران خان کی مصروفیات اور ترجیہات کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ قیادت اپنے نظم سے پہچانی جاتی ہے ۔ لوگوں کو لائنوں میں کھڑا کر کے انتظار کروانا اور پھر غیر موجودگی پہ کسی بھی قسم کی وضاحت دینے سے گریز کرنا صرف اس وقت ممکن ہے جب لیڈر کو یہ احساس ہے کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ اس کو کوئی پوچھے گا نہیں اور اگر کسی نے پوچھ بھی لیا تو پھر دروازے کے باہر کھڑا رحم کی فریادیں ہی کرتا رہے گا ۔ بڑے لیڈر چھوٹی احتیاطوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ اعتماد اور غرور میں فرق ہوتا ہے ۔ دبنگ رویہ اور چیزتکبر سمانا اور چیز ہے ۔ بد قسمتی سے وہ پارٹی جس نے پسے ہوئے طبقات کو آواز کا پلیٹ فارم مہیا کرنے کا علم اٹھایا تھا اب ان رویوں کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہے جو 67 سال سے اس ملک میں رائج ہے ۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ۔ پشاور میں ایک صوبائی وزیر کے بارے میں عمران خان کے دست خاص جہانگیر خان نے سخت لہجہ استعمال کیا ۔ کرپشن اور نکمے پن کا ذکر ہوا ، اہلیت کے بارے میں سوال اٹھائے گئے اور سب کچھ ایسے انداز میں ہوا جیسے تھانیدار ملزم سے پوچھ پرتیت کرتا ہے ۔اب کہاں لودھراں ، کہاں پشاور دونوں جگہوں کی سیاست اور ثقافت میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔گھنٹوں کے سفر کو منٹوں میں طے کرنے سے مختلف علاقوں کی تہذیب اور طریقے کار بھی ایک جیسے نہیں ہو جاتے ۔
جہانگیر خان کو یہ بات اس وقت سمجھ آئی جب وزیر نے ان کو مخصوص مقامی انداز میں جواب دیا ۔ اس پر اس سے کمرے میں اضطراب سے بڑی خاموشی چھا گئی کہ یہ کیا ہو گیا ۔ اس خاموش سوال کا جواب وزیر نے یہ کہہ کر دے دیا کہ میں منتخب ہو کر آیا ہوں ۔ نوکری نہیں کرتا ۔ اس کے بعد انھوں نے بدعنوانی کا جوابی دعوی دائر کردیا۔ جس کو سن کر چیئرمین صاحب بہت پریشان ہوئے اور بچ بچائو سے یہ معاملہ رفع دفع کردیا ۔ اس طرح کے بہت سے واقعات اب پاکستان تحریک انصاف کے رویوں کے حوالے سے خبروں کی زینت بن رہے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ جمہوریت اور جمہوری ثقافت کے آداب کیا ہیں ۔ بڑی جماعتوں کے جید سیاستدانوں کو اس کا خوب علم ہے ۔ ان کو یہ بھی علم ہو گا کہ جب گھمنڈ طبیعت کا حصہ بن جائے تو شناسا چہرے بد نما لگنے لگ جاتے ہیں ۔ دل میں اترتی ہوئی شخصیات دل سے اتر جاتی ہیں ۔ جو ہاتھ پھولوں کے ہار اٹھائے ہوئے ہیں ان کی قدر کرنا سیکھیں ورنہ یہ ہاتھ کچھ بھی اٹھا سکتے ہیں۔