آئے کچھ ابر
دور کیوں جائیں ہم سے ہمارا پڑوسی ہندوستان بھی کوسوں آگے نکل گیا۔ مگر ہم نہیں کر سکتے اپنے روپوں میں دنیا سے لین دین۔
ہم روپے تو چھاپ سکتے ہیں مگر ڈالر نہیں چھاپ سکتے۔ اپنے روپوں سے تیل خرید سکتے ہیں نہ کوئی اور چیز دنیا سے مانگ سکتے ہیں۔ ہاں مگر یہ کام امریکا کر سکتا ہے، ڈالر چھاپ بھی سکتا ہے تو دنیا سے ڈالر دے کے کچھ منگوا بھی سکتا ہے۔ شاید یہ کام برطانیہ بھی کر سکتا ہے یا دنیا کی بڑی معیشتیں ایسا کر سکتی ہیں۔ وہ اس لیے کر سکتے ہیں کہ انھوں نے لوگوں میں سرمایہ لگایا، لوگ ہنرمند ہوئے تو وہ چیزیں بنائیں جو دنیا میں طلب رکھتی تھیں۔ ان کی کرنسی میں بھی وہی سیاہی استعمال ہوتی ہے جو ہماری کرنسی میں ہوتی ہے، ان کی کرنسی کی ساخت دراصل ان کے لوگوں کے ہنر کی عکاسی ہے۔
دور کیوں جائیں ہم سے ہمارا پڑوسی ہندوستان بھی کوسوں آگے نکل گیا۔ مگر ہم نہیں کر سکتے اپنے روپوں میں دنیا سے لین دین، ہم نے لوگوں میں سرمایہ لگانے کے برعکس بارودی بموں میں سرمایہ لگایا۔ جہاد، جنگ و جدل میں سرمایہ کاری کی۔ ہم نے لوگوں کو ہنر دینے کے بجائے ہالی ووڈ کا باڈی بلڈر اداکار ریمبو بنا دیا، اب یہی ان لوگوں کا روزگار ٹھہرا تو روح کا سکون بھی، کلاشنکوف ذریعہ معاش ٹھہرا۔ جنگ کے طبل بجائیں لوگ خوش ہوتے ہیں، مختلف منصوبوں سے یہ لوگ اغوا بھی کرتے ہیں، بینک بھی لوٹتے ہیں، پوچھو تو وجہ کیا ہے تو کہتے ہیں، ہم حالت جنگ میں ہیں۔ نجانے کب سے ہیں ہم اس جہان خراب میں، لگ بھگ چالیس سال ہونے کو ہیں۔ جنگ کابل کے قہوہ خانوں کو نگل گئی۔ جو نسلیں پروان چڑھنی تھیں، نا معلوم کن کو بارودی سرنگوں نے اپاہج کر دیا، دہائیوں سے بند اسکولوں نے دماغ خالی چھوڑ دیے، وہ جو کابل یونیورسٹی ہوا کرتی تھی، زم زمہ کی چڑھتی دھوپ میں بولیوارڈ پر زرد پتوں کے پڑے قالین کے ساتھ پڑی بینچوں پر شاگرد بیٹھا کرتے تھے، اور دنیا کے حوالہ سے ماڈرن بحثیں کیا کرتے تھے سب کچھ دہائیوں سے چلتی ہوئی جنگ نگل گئی۔ وہ لڑکیاں جو کابل یونیورسٹی کے چوراہوں پر آزادانہ پھرا کرتی تھیں، اب وہاں سناٹوں نے بسیرا کر لیا ہے۔ ان دیواروں کو اب تنہائی کا زہر چاٹ گیا ہے۔ جنگ و جہاد کی ٹکٹکی پر تہذیبیں چڑھ گئیں۔ اور ہماری دنیا میں پہچان یہی ہے کہ ہم جنگیں بیچا کرتے ہیں۔
کل جب سوویت یونین نے افغانستان پر فوج کشی کی تھی ہمارے تو نصیب کھل گئے ، جہاد کے طبل بج گئے۔ گلی گلی کوچے کوچے سے آوازیں لگی، مسلم دنیا سے جہادی آئے، ڈالر کے بھی انبار لگ گئے۔ ہماری چاندی ہو گئی۔ امریکی سامراج لوگوں کے حق حکمرانی کو نظرانداز کر کے ایک آمر کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ پھر سے اربوں ڈالر آئے۔ جنرل ضیاء الحق پوری سرمایہ دار دنیا کے ہیرو بن گئے۔ اور ہم نے غاصب کو حلال قرار دے دیا، جمہوریت کو حرام ۔ دوسری جنگ عظیم میں اسٹالن نے ہر کارخانے کو اسلحہ بنانے کے کارخانے میں تبدیل کر دیا تھا۔ ہر خاندان سے ایک فرد مانگا تھا۔ ہم نے بھی مدرسوں کو جہادی پیدا کرنے کے کام پر مامور کر دیا۔ غریبوں کے پاس بھی کیا تھا نہ روٹی تھی نہ مکان تھا اور ان سیکولر اسکولوں میں بھی کیا تھا، نہ استاد تھے نہ کھانا تھا۔ وہ زمانے انگریز کے رہے نہ خان عبدالقیوم خان کے رہے۔ اس کے برعکس مدرسے غریب کے بچے کو کھانا دیتے، رہنے کے لیے چھت کا سایہ بھی، ایک عدد چار پائی بھی۔ ادھر ایک عرب ملک نے بھی ان مدرسوں کو فنڈز دیے اور ہر ڈونر کی طرح یہ شرط بھی لگائی کہ بچوں کو کچھ اس طرح کی تعلیم دو گے جو وہ صحیح سمجھتے ہیں۔ اور یہ مدرسے وہی کچھ کیا کرتے تھے جو ان کے ڈونر کہا کرتے تھے۔
پھر اس تعلیم و تربیت کا اثر جب نیویارک کی دہلیز تک پہنچا تو تب جا کے امریکا کو سمجھ آئی کہ یہ تو وہی جہاد ہے جسے وہ سوویت یونین کے خلاف تو ٹھیک سمجھتا تھا مگر وہ اب اس کے خلاف 'اٹھ کھڑا ہو گیا ہے۔ دنیا کے کونے میں رہتا ہوا امریکا اپنی دہلیز پر جنگ کو محسوس کرتا ہے، اس کو تب پتہ چلا کہ افغانیوں کے لیے شیطان صرف سوویت یونین نہیں تھا بلکہ امریکا بھی تھا۔ یہ بات جنگ کے کاروبار کرنے والی ریپبلکن پارٹی کے چنے ہوئے صدر بش کو بھی اچھی لگی۔ پوری دنیا پھر جنگ کی لپیٹ میں آ گئی، مذاہب میں جنگ چھڑ گئی۔ تہذیبیں آمنے سامنے ہو گئیں۔ پھر پاکستان میں ڈالر آیا، اس سے ، پہلے جیسے میں نے اوپر عرض کیا، ضیاء الحق کے زمانے میں جہادیوں کو پسپا کرنے کے لیے ڈالر آیا، پھر مشرف کے زمانے میں انھیں ختم کرنے کے لیے ڈالر آیا، ہمیں ڈالر سے غرض تھی اور انھیں اس کے بدلے ہماری جنگی خدمات سے۔ اور یہ کام کوئی بھی منتخب حکومت نہیں کر سکتی تھی، اس لیے سامراج کے اور ملکی گماشتوں کے مفادات بھی ایک تھے کہ لوگوں کا حق حکمرانی بھی ہڑپ کرو۔ امریکا نے ضیاء الحق غاصب جمہوریت کی طرح جنرل مشرف کو بھی لوگوں کے حق حکومت پر ڈاکہ ڈالنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ دنیا کی چھٹی بڑی ریاست کی لیے یہ تھا کپیٹلسٹ و مہذب ریاستوں کا رویہ، کہ شاید ہی اتنا غیر ذمے دار سوویت یونین رہا ہو۔
اور پھر ہمارے پاس ڈالر کے انبار لگ گئے ۔ ہم نے اس بار بھی لوگوں میں معاشی بہتری اور بنیادی تبدیلی لانے کا موقع گنوا دیا، جو اقتدار کے قریب ہوئے وہ خود لوگوں کی ترقی کے لیے مختص پیسوں کو ہڑپ کرنے میں مہارت رکھتے تھے، بری حکمرانی دینا ان کا شیوا تھا، اس بری حکمرانی کی کوکھ سے نکلتی ہے غربت، اور یہ غربت بھی اس مذہبی انتہا پرستی کا ایندھن بنی، بات بننے کے بجائے اور بگڑ گئی۔ پچھلی بار اوجھڑی کیمپ میں دھماکا ہوا، اب کی بار کہاں کہاں دھماکہ نہیں ھوا ۔
جارج ڈبلیو بش مسلمانوں کا بھوت دکھا کے امریکی عوام کو ہتھیانا چاہتا تھا۔ جنرل مشرف کے لیے یہ کام گمبھیر تھا، وہ جو کل ضیاء الحق آمر کے ساتھ تھے وہ جمہوریت پرست ہو گئے، ہاں مگر چند ایسے بھی تھے جو نہ اس آمر کے تھے نہ اس آمر کے ۔ جو امریکا کا یار ہے غدار ہے کی بازگشت بھی تھم گئی تھی، ہماری سیکیورٹی پالیسی بھی کچھ مشکل میں پڑ گئی، ان کو کشمیر کے حوالے سے کل جن مجاہدین کی 1948ء، 1965ء اور 1971ء میں ضرورت تھی (کارگل میں ضرورت تھی) وہ ضرورت آج بھی برقرار تھی، مگر پھر گرگٹ کی طرح ہم نے بھی رنگ بدل دیا۔ اور پھر یہ معجون بیچنا شروع کر دیا کہ جو اچھے مجاہد ہیں ان سے نہ لڑو، جو برے ہیں ان سے بھڑ جائو ۔ اور ایسے بھی جمہوریت پرست پیدا ہوئے جن کے لیے ضیاء کی آمریت حلال تھی اور مشرف کی آمریت حرام۔ سعودی عرب کی بادشاہت حلال تھی شام میں حرام۔ اسی خلفشار میں پھر یوں بھی ہوا کے عالمی ضمیر جاگ اٹھا ، ان کو بڑی دیر بعد بالآخر یہ بات سمجھ میں آئی کہ آمریتیں سماج کو کس طرح اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ کس طرح وہ دنیا میں انارکی پھیلانے کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں ، یہی لمحہ تھا کہ کیری لوگر بل آ گیا۔ امریکا نے پاکستان میں آمریتیوں کی حمایت کرنے سے توبہ کر لی۔
یہ ٹھیک ہے امریکا نے تو توبہ کر لی مگر عربوں نے تو نہیں کی، ان کو اپنی بادشاہتیں بچانے کے لیے اب بھی مجاہدوں کی ضرورت تھی اور ایسا نایاب مال ان کے خیال میں صرف پاکستان میں ملتا ہے۔ اس طرح پھر ایک کھیپ ڈالر کی ہماری پاس آئی ہے۔ اس سے پہلے ایسے مصنوعی سہارے آمریتوں کے زمانے میں ملتے تھے، اس بار یہ کارنامہ جمہوری دور میں ہوا ہے۔ ہاں مگر ضیاء الحق کو اب بھی شکست نہیں ہوئی، وہ اب بھی موجود ہے، آئین میں بھی ہے، آئین کے باہر بھی۔ البتہ مشرف کو شکست ہو بھی چکی، نہ وہ آئین کے اندر رہا نہ آئین کے باہر۔
اس مرتبہ جب ڈالر سعودی ارب سے آیا، جس کے عوض ہم ان کو کیا کچھ نذر عنایت کریں گے ، اﷲ جانے، مولا جانے مگر مجھے فیضؔ صاحب بہت یاد آئے ۔؎
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
دور کیوں جائیں ہم سے ہمارا پڑوسی ہندوستان بھی کوسوں آگے نکل گیا۔ مگر ہم نہیں کر سکتے اپنے روپوں میں دنیا سے لین دین، ہم نے لوگوں میں سرمایہ لگانے کے برعکس بارودی بموں میں سرمایہ لگایا۔ جہاد، جنگ و جدل میں سرمایہ کاری کی۔ ہم نے لوگوں کو ہنر دینے کے بجائے ہالی ووڈ کا باڈی بلڈر اداکار ریمبو بنا دیا، اب یہی ان لوگوں کا روزگار ٹھہرا تو روح کا سکون بھی، کلاشنکوف ذریعہ معاش ٹھہرا۔ جنگ کے طبل بجائیں لوگ خوش ہوتے ہیں، مختلف منصوبوں سے یہ لوگ اغوا بھی کرتے ہیں، بینک بھی لوٹتے ہیں، پوچھو تو وجہ کیا ہے تو کہتے ہیں، ہم حالت جنگ میں ہیں۔ نجانے کب سے ہیں ہم اس جہان خراب میں، لگ بھگ چالیس سال ہونے کو ہیں۔ جنگ کابل کے قہوہ خانوں کو نگل گئی۔ جو نسلیں پروان چڑھنی تھیں، نا معلوم کن کو بارودی سرنگوں نے اپاہج کر دیا، دہائیوں سے بند اسکولوں نے دماغ خالی چھوڑ دیے، وہ جو کابل یونیورسٹی ہوا کرتی تھی، زم زمہ کی چڑھتی دھوپ میں بولیوارڈ پر زرد پتوں کے پڑے قالین کے ساتھ پڑی بینچوں پر شاگرد بیٹھا کرتے تھے، اور دنیا کے حوالہ سے ماڈرن بحثیں کیا کرتے تھے سب کچھ دہائیوں سے چلتی ہوئی جنگ نگل گئی۔ وہ لڑکیاں جو کابل یونیورسٹی کے چوراہوں پر آزادانہ پھرا کرتی تھیں، اب وہاں سناٹوں نے بسیرا کر لیا ہے۔ ان دیواروں کو اب تنہائی کا زہر چاٹ گیا ہے۔ جنگ و جہاد کی ٹکٹکی پر تہذیبیں چڑھ گئیں۔ اور ہماری دنیا میں پہچان یہی ہے کہ ہم جنگیں بیچا کرتے ہیں۔
کل جب سوویت یونین نے افغانستان پر فوج کشی کی تھی ہمارے تو نصیب کھل گئے ، جہاد کے طبل بج گئے۔ گلی گلی کوچے کوچے سے آوازیں لگی، مسلم دنیا سے جہادی آئے، ڈالر کے بھی انبار لگ گئے۔ ہماری چاندی ہو گئی۔ امریکی سامراج لوگوں کے حق حکمرانی کو نظرانداز کر کے ایک آمر کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ پھر سے اربوں ڈالر آئے۔ جنرل ضیاء الحق پوری سرمایہ دار دنیا کے ہیرو بن گئے۔ اور ہم نے غاصب کو حلال قرار دے دیا، جمہوریت کو حرام ۔ دوسری جنگ عظیم میں اسٹالن نے ہر کارخانے کو اسلحہ بنانے کے کارخانے میں تبدیل کر دیا تھا۔ ہر خاندان سے ایک فرد مانگا تھا۔ ہم نے بھی مدرسوں کو جہادی پیدا کرنے کے کام پر مامور کر دیا۔ غریبوں کے پاس بھی کیا تھا نہ روٹی تھی نہ مکان تھا اور ان سیکولر اسکولوں میں بھی کیا تھا، نہ استاد تھے نہ کھانا تھا۔ وہ زمانے انگریز کے رہے نہ خان عبدالقیوم خان کے رہے۔ اس کے برعکس مدرسے غریب کے بچے کو کھانا دیتے، رہنے کے لیے چھت کا سایہ بھی، ایک عدد چار پائی بھی۔ ادھر ایک عرب ملک نے بھی ان مدرسوں کو فنڈز دیے اور ہر ڈونر کی طرح یہ شرط بھی لگائی کہ بچوں کو کچھ اس طرح کی تعلیم دو گے جو وہ صحیح سمجھتے ہیں۔ اور یہ مدرسے وہی کچھ کیا کرتے تھے جو ان کے ڈونر کہا کرتے تھے۔
پھر اس تعلیم و تربیت کا اثر جب نیویارک کی دہلیز تک پہنچا تو تب جا کے امریکا کو سمجھ آئی کہ یہ تو وہی جہاد ہے جسے وہ سوویت یونین کے خلاف تو ٹھیک سمجھتا تھا مگر وہ اب اس کے خلاف 'اٹھ کھڑا ہو گیا ہے۔ دنیا کے کونے میں رہتا ہوا امریکا اپنی دہلیز پر جنگ کو محسوس کرتا ہے، اس کو تب پتہ چلا کہ افغانیوں کے لیے شیطان صرف سوویت یونین نہیں تھا بلکہ امریکا بھی تھا۔ یہ بات جنگ کے کاروبار کرنے والی ریپبلکن پارٹی کے چنے ہوئے صدر بش کو بھی اچھی لگی۔ پوری دنیا پھر جنگ کی لپیٹ میں آ گئی، مذاہب میں جنگ چھڑ گئی۔ تہذیبیں آمنے سامنے ہو گئیں۔ پھر پاکستان میں ڈالر آیا، اس سے ، پہلے جیسے میں نے اوپر عرض کیا، ضیاء الحق کے زمانے میں جہادیوں کو پسپا کرنے کے لیے ڈالر آیا، پھر مشرف کے زمانے میں انھیں ختم کرنے کے لیے ڈالر آیا، ہمیں ڈالر سے غرض تھی اور انھیں اس کے بدلے ہماری جنگی خدمات سے۔ اور یہ کام کوئی بھی منتخب حکومت نہیں کر سکتی تھی، اس لیے سامراج کے اور ملکی گماشتوں کے مفادات بھی ایک تھے کہ لوگوں کا حق حکمرانی بھی ہڑپ کرو۔ امریکا نے ضیاء الحق غاصب جمہوریت کی طرح جنرل مشرف کو بھی لوگوں کے حق حکومت پر ڈاکہ ڈالنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ دنیا کی چھٹی بڑی ریاست کی لیے یہ تھا کپیٹلسٹ و مہذب ریاستوں کا رویہ، کہ شاید ہی اتنا غیر ذمے دار سوویت یونین رہا ہو۔
اور پھر ہمارے پاس ڈالر کے انبار لگ گئے ۔ ہم نے اس بار بھی لوگوں میں معاشی بہتری اور بنیادی تبدیلی لانے کا موقع گنوا دیا، جو اقتدار کے قریب ہوئے وہ خود لوگوں کی ترقی کے لیے مختص پیسوں کو ہڑپ کرنے میں مہارت رکھتے تھے، بری حکمرانی دینا ان کا شیوا تھا، اس بری حکمرانی کی کوکھ سے نکلتی ہے غربت، اور یہ غربت بھی اس مذہبی انتہا پرستی کا ایندھن بنی، بات بننے کے بجائے اور بگڑ گئی۔ پچھلی بار اوجھڑی کیمپ میں دھماکا ہوا، اب کی بار کہاں کہاں دھماکہ نہیں ھوا ۔
جارج ڈبلیو بش مسلمانوں کا بھوت دکھا کے امریکی عوام کو ہتھیانا چاہتا تھا۔ جنرل مشرف کے لیے یہ کام گمبھیر تھا، وہ جو کل ضیاء الحق آمر کے ساتھ تھے وہ جمہوریت پرست ہو گئے، ہاں مگر چند ایسے بھی تھے جو نہ اس آمر کے تھے نہ اس آمر کے ۔ جو امریکا کا یار ہے غدار ہے کی بازگشت بھی تھم گئی تھی، ہماری سیکیورٹی پالیسی بھی کچھ مشکل میں پڑ گئی، ان کو کشمیر کے حوالے سے کل جن مجاہدین کی 1948ء، 1965ء اور 1971ء میں ضرورت تھی (کارگل میں ضرورت تھی) وہ ضرورت آج بھی برقرار تھی، مگر پھر گرگٹ کی طرح ہم نے بھی رنگ بدل دیا۔ اور پھر یہ معجون بیچنا شروع کر دیا کہ جو اچھے مجاہد ہیں ان سے نہ لڑو، جو برے ہیں ان سے بھڑ جائو ۔ اور ایسے بھی جمہوریت پرست پیدا ہوئے جن کے لیے ضیاء کی آمریت حلال تھی اور مشرف کی آمریت حرام۔ سعودی عرب کی بادشاہت حلال تھی شام میں حرام۔ اسی خلفشار میں پھر یوں بھی ہوا کے عالمی ضمیر جاگ اٹھا ، ان کو بڑی دیر بعد بالآخر یہ بات سمجھ میں آئی کہ آمریتیں سماج کو کس طرح اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ کس طرح وہ دنیا میں انارکی پھیلانے کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں ، یہی لمحہ تھا کہ کیری لوگر بل آ گیا۔ امریکا نے پاکستان میں آمریتیوں کی حمایت کرنے سے توبہ کر لی۔
یہ ٹھیک ہے امریکا نے تو توبہ کر لی مگر عربوں نے تو نہیں کی، ان کو اپنی بادشاہتیں بچانے کے لیے اب بھی مجاہدوں کی ضرورت تھی اور ایسا نایاب مال ان کے خیال میں صرف پاکستان میں ملتا ہے۔ اس طرح پھر ایک کھیپ ڈالر کی ہماری پاس آئی ہے۔ اس سے پہلے ایسے مصنوعی سہارے آمریتوں کے زمانے میں ملتے تھے، اس بار یہ کارنامہ جمہوری دور میں ہوا ہے۔ ہاں مگر ضیاء الحق کو اب بھی شکست نہیں ہوئی، وہ اب بھی موجود ہے، آئین میں بھی ہے، آئین کے باہر بھی۔ البتہ مشرف کو شکست ہو بھی چکی، نہ وہ آئین کے اندر رہا نہ آئین کے باہر۔
اس مرتبہ جب ڈالر سعودی ارب سے آیا، جس کے عوض ہم ان کو کیا کچھ نذر عنایت کریں گے ، اﷲ جانے، مولا جانے مگر مجھے فیضؔ صاحب بہت یاد آئے ۔؎
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے