مسافر رستہ منزل…
فاصلے قریب کے ہوں یا دور کے۔ کہیں انھیں مٹانے کی ضرورت ہوتی ہے اور کہیں پر انھیں قائم رکھنے کی۔۔۔۔
ISLAMABAD:
کہتے ہیں کہ جہاں انصاف نہیں ہوتا وہاں انتشار ہوتا ہے۔ منتشر لوگ رستوں میں بکھر جاتے ہیں۔ قافلے بکھر جائیں تو رستے کھو جاتے ہیں اور جب رستہ ہی نہ ہو تو منزل نامعلوم ہوتی ہے۔ لیکن اگر منزل کا تعین ہی نہ کیا گیا ہو تو پھر؟
ذہنی یکسوئی راستہ تلاش کرتی ہے اور راستے منزل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ منزل، راستہ اور مسافر ان میں سے تکون کا سب سے اہم زاویہ یا کونہ کون سا ہے۔ منزل۔ آئیے! غور کریں جس منزل کا ہم نے تصور کیا ہے وہ خواب ہے یا حقیقت اگر خواب ہے تو کیا حقیقت کا روپ دھارنے کا امکان ہے اور اگر حقیقت ہے تو کیا ہماری دسترس وہاں تک ہے۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو ہمیں خواب و حقیقت کا تعاقب ضرور کرنا چاہیے۔ مگر ذرا غور و فکر کے ساتھ سنبھل سنبھل کر۔ منزل تک پہنچنے کے لیے راستہ ضروری ہے۔ راستہ مثبت یا منفی، غلط یا صحیح۔ یہاں بھی مسئلہ غور و فکر کا ہے۔ اگر راستہ اور منزل دونوں کے رخ مخالف ہیں تو راستے پر چلنے والا اپنی صحیح منزل تک کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اسی لیے راستے کا انتخاب انتہائی اخلاص کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اور اب آ گئے مسافر۔ کیا مسافر راہ چلتے ہوئے پرخلوص ہیں۔ خلوص پہلی شرط ہے۔ مسافر آتے جائیں گے اور قافلے بنتے جائیں گے۔ بقول حضرتِ آتشؔؔ: ''سفر ہے شرط مسافر نواز بُہتیرے۔''
کیا صرف اخلاص کافی ہے؟ عزم و ہمت بھی ضروری ہے جس کے ساتھ یقین کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اگر مسافر، رستہ اور منزل پرخلوص شفاف اور مثبت ہوں تو ناممکن کہ کشتی منجھدار میں پھنس جائے اور کنارہ محض حسرت بن کر رہ جائے۔
خوش قسمتی جب دروازے پر دستک دیتی ہے، قربانیاں رنگ لاتی ہیں تو منزل قدم چومتی ہے بشرطیکہ بقول شاعر ایسا نہ ہوکہ
''منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے''
خیر یہ بھی اپنی اپنی قسمت ہے کبھی کبھی مانگے سے بھی کچھ نہیں ملتا اور کبھی کبھی ہاتھ پیر ہلائے بغیر بھی سب کچھ ہمارے دامن میں آ جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ ہاتھ پیر ہلانا ہی چھوڑ دیں کہ خود بہ خود دامن بھر جائے گا ہو سکتا ہے کہ آپ ان لوگوں کی فہرست میں شامل ہوں کہ جنھیں مانگنا پڑتا ہے۔ اپنے حقوق کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے جدوجہد کا لفظ بھی مناسب رہے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنھیں منزل مل جائے ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوتا ہے اگلا قدم وہ کیا اٹھاتے ہیں کیا اپنے اعمال کی بدولت ملی ہوئی منزل کو کھو دیتے ہیں یا پھر جن مقاصد کے لیے منزل حاصل کی تھی ان مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اگر ہم نے مقاصد کو فراموش کر دیا تو منزل خود بہ خود غیر محسوس طریقے پر دور ہو جائے گی اور ایک جھٹکے کے بعد جب آنکھ کھلے گی تو ہم وہیں پہ ہوں گے جہاں سے چلے تھے یہ سب نازک مرحلے ہیں اور ان کی نزاکتوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
فاصلے قریب کے ہوں یا دور کے۔ کہیں انھیں مٹانے کی ضرورت ہوتی ہے اور کہیں پر انھیں قائم رکھنے کی۔ یہ فیصلہ تو ہمیں کرنا ہوتا ہے کہ کب کہاں کس کی ضرورت ہے۔ رہی بات ضرورت کی تو اکثر و بیشتر کام ہم بلا ضرورت بھی کرتے ہیں۔ مثلاً فیشن، جی ہاں! فیشن نے ہمارے اخراجات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ صاحب سادگی کا تو زمانہ ہی نہیں، دری، چاندنی، فرش، دسترخوان، سادہ کھانے اور پرخلوص رشتے سب ختم۔ لمبی ٹیبل، کرسیاں، چھری کانٹے، ڈنر سیٹ اور دیگر لوازمات۔ اسی طرح دوسری نشست و برخاست میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔
آؤٹ آف فیشن چیزیں بیکار اور فیشن کے مطابق چیزیں بجٹ پر بوجھ۔ لیجیے صاحب! بچی کے جوتے، موزے، ربن، پن، انگوٹھی، نیل پالش، پونی، سینڈل، چوڑیاں غرض پاؤں سے سر اور سر سے پاؤں تک ہر چیز میچنگ کی۔ ننھی سی دو برس کی جان۔ بھلا پہلے یہ تماشے کہاں تھے۔ اب اگر آپ بچپن سے جب کہ بچے میں شعور بھی نہیں اور لفظ میچنگ کا مطلب بھی نہیں جانتا اگر اسی طرز زندگی کا عادی ہوجائے گا تو اس کے بڑھتے ہوئے تقاضے کس قدر تکلیف دہ ہوں گے۔ اور اگر آپ ان تقاضوں کو پورا کرنے سے معذرت کریں گے تو آپ کا شمار خراب والدین میں ہو گا کیونکہ بقول بچوں کے والدین تو اپنے بچوں کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں۔
جی ہاں! والدین اپنے بچوں کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں۔ بغیر یہ سوچے سمجھے کہ یہ سب کچھ ان کے لیے ضروری بھی ہے یا نہیں۔ مثلاً موبائل، نیٹ، لیپ ٹاپ۔ الیکٹرانک نے دنیا میں دھوم مچا دی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فراہم کردہ اشیا کا بچہ استعمال درست طریقے پر کر رہا ہے یا نہیں اگر درست یا بہتر نتائج کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے تو انسانی ترقی کے راستے نکلتے چلے جائیں لیکن افسوس انسانی ترقی کے ان ذرایع کو ہم غلط نتائج کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں اور غلط نتائج کبھی بھی ہماری بقا کی ضمانت نہیں دے سکتے۔
زمانے نے کچھ اسی انداز سے کروٹ بدلی ہے کہ تمام چیزیں معہ اقدار تہہ و بالا ہو چکی ہیں۔ انقلابی تبدیلیوں کے بعد لمحہ بھر کی ضمانت دینا مشکل ہو گیا ہے۔ دور جدید میں کسی بھی چیز کو آسان نہیں سمجھ سکتے۔ بات سمجھ کی ہو تو ہم ناسمجھ بھی نہیں ہیں۔ ہم تو خیر بڑے ہیں بقول شاعرہ
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
کبھی کبھی تو شک ہونے لگتا ہے کہ کیا یہ واقعی بچے ہیں۔ شک کی بھی خوب رہی۔ شک پہلے کبھی کبھی ہوتا تھا مگر اب تو ہر وقت ہر جگہ ہر انسان پر ہونے لگا ہے۔ ہماری گاڑی کے پیچھے دو اسکوٹر والے آ رہے تھے ان کا بھی اتفاق سے وہ ہی رستہ تھا۔ ہم اب اسی خوف میں کہ شاید پیچھا کر رہے ہیں۔ جب ہماری سڑک سے وہ آگے چوراہے پر مڑ گئے تو جان میں جان آئی۔ کبھی ایسا خوف تو نہ تھا جیسا اب ہے۔ خوفزدہ انسان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اور جب انسان سوچ سمجھ نہ سکے تو وہ بے عمل ہو جاتا ہے کیونکہ عمل کا تعلق نظریات سے ہوتا ہے۔ بے عمل شخص معاشرے کے لیے ناکارہ ہو جاتا ہے۔ ناکارہ شخص ایک مایوس انسان میں تبدیل ہوتا ہے اور مایوسی اکثر اوقات مریض بنا دیتی ہے۔
نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے ہراساں کر دینے والے اس ماحول میں بھلا صحت مند ذہن کیونکر جنم لے سکتے ہیں۔ صحت مند جسم کے لیے صحت مند ذہن اور صحت مند ذہن کے لیے صحت مند جسم ضروری ہے۔ اور صحت کے لیے شفاف آلودگی سے پاک فضا اور ماحول۔ ماحول کا تو بالکل نہ پوچھیں۔ لگتا ہے کہ گندگی کے ڈھیر پر کھڑے ہیں کسی کو پرواہ ہی نہیں۔ پرواہ تو ہمیں خود بھی اپنی نہیں۔ ورنہ فرد واحد (اکیلا شخص) اتنا بھی کمزور نہیں ہوتا کہ تنکے کی مانند لہروں کے ساتھ بہتا چلا جائے۔ قطرہ سمندر کا حصہ ہوتا ہے۔ فرد معاشرے کا۔ فرد سے افراد اور افراد سے معاشرے بنتے اور بگڑتے ہیں۔ اینٹ سے اینٹ مل کر دیوار بنتی ہے۔ ذرے سے ذرے مل کر صحرا یا ریت بنتے ہیں۔ قطرے سے قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ تنکے سے تنکا ملتا ہے تو چلمن یا چٹائی بنتی ہے۔ تنکا، ذرہ، قطرہ، اینٹ اپنی اپنی جگہ اہم ہیں۔ کاش! ہم اس اہمیت کا اندازہ لگا لیں تو پھر منزل آسان ہو جائے گی، سفر کی دشواریاں ختم ہو جائیں گی اور مسافر کبھی بھی رستے سے نہیں بھٹکے گا۔
کہتے ہیں کہ جہاں انصاف نہیں ہوتا وہاں انتشار ہوتا ہے۔ منتشر لوگ رستوں میں بکھر جاتے ہیں۔ قافلے بکھر جائیں تو رستے کھو جاتے ہیں اور جب رستہ ہی نہ ہو تو منزل نامعلوم ہوتی ہے۔ لیکن اگر منزل کا تعین ہی نہ کیا گیا ہو تو پھر؟
ذہنی یکسوئی راستہ تلاش کرتی ہے اور راستے منزل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ منزل، راستہ اور مسافر ان میں سے تکون کا سب سے اہم زاویہ یا کونہ کون سا ہے۔ منزل۔ آئیے! غور کریں جس منزل کا ہم نے تصور کیا ہے وہ خواب ہے یا حقیقت اگر خواب ہے تو کیا حقیقت کا روپ دھارنے کا امکان ہے اور اگر حقیقت ہے تو کیا ہماری دسترس وہاں تک ہے۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو ہمیں خواب و حقیقت کا تعاقب ضرور کرنا چاہیے۔ مگر ذرا غور و فکر کے ساتھ سنبھل سنبھل کر۔ منزل تک پہنچنے کے لیے راستہ ضروری ہے۔ راستہ مثبت یا منفی، غلط یا صحیح۔ یہاں بھی مسئلہ غور و فکر کا ہے۔ اگر راستہ اور منزل دونوں کے رخ مخالف ہیں تو راستے پر چلنے والا اپنی صحیح منزل تک کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اسی لیے راستے کا انتخاب انتہائی اخلاص کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اور اب آ گئے مسافر۔ کیا مسافر راہ چلتے ہوئے پرخلوص ہیں۔ خلوص پہلی شرط ہے۔ مسافر آتے جائیں گے اور قافلے بنتے جائیں گے۔ بقول حضرتِ آتشؔؔ: ''سفر ہے شرط مسافر نواز بُہتیرے۔''
کیا صرف اخلاص کافی ہے؟ عزم و ہمت بھی ضروری ہے جس کے ساتھ یقین کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اگر مسافر، رستہ اور منزل پرخلوص شفاف اور مثبت ہوں تو ناممکن کہ کشتی منجھدار میں پھنس جائے اور کنارہ محض حسرت بن کر رہ جائے۔
خوش قسمتی جب دروازے پر دستک دیتی ہے، قربانیاں رنگ لاتی ہیں تو منزل قدم چومتی ہے بشرطیکہ بقول شاعر ایسا نہ ہوکہ
''منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے''
خیر یہ بھی اپنی اپنی قسمت ہے کبھی کبھی مانگے سے بھی کچھ نہیں ملتا اور کبھی کبھی ہاتھ پیر ہلائے بغیر بھی سب کچھ ہمارے دامن میں آ جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ ہاتھ پیر ہلانا ہی چھوڑ دیں کہ خود بہ خود دامن بھر جائے گا ہو سکتا ہے کہ آپ ان لوگوں کی فہرست میں شامل ہوں کہ جنھیں مانگنا پڑتا ہے۔ اپنے حقوق کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے جدوجہد کا لفظ بھی مناسب رہے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنھیں منزل مل جائے ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوتا ہے اگلا قدم وہ کیا اٹھاتے ہیں کیا اپنے اعمال کی بدولت ملی ہوئی منزل کو کھو دیتے ہیں یا پھر جن مقاصد کے لیے منزل حاصل کی تھی ان مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اگر ہم نے مقاصد کو فراموش کر دیا تو منزل خود بہ خود غیر محسوس طریقے پر دور ہو جائے گی اور ایک جھٹکے کے بعد جب آنکھ کھلے گی تو ہم وہیں پہ ہوں گے جہاں سے چلے تھے یہ سب نازک مرحلے ہیں اور ان کی نزاکتوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
فاصلے قریب کے ہوں یا دور کے۔ کہیں انھیں مٹانے کی ضرورت ہوتی ہے اور کہیں پر انھیں قائم رکھنے کی۔ یہ فیصلہ تو ہمیں کرنا ہوتا ہے کہ کب کہاں کس کی ضرورت ہے۔ رہی بات ضرورت کی تو اکثر و بیشتر کام ہم بلا ضرورت بھی کرتے ہیں۔ مثلاً فیشن، جی ہاں! فیشن نے ہمارے اخراجات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ صاحب سادگی کا تو زمانہ ہی نہیں، دری، چاندنی، فرش، دسترخوان، سادہ کھانے اور پرخلوص رشتے سب ختم۔ لمبی ٹیبل، کرسیاں، چھری کانٹے، ڈنر سیٹ اور دیگر لوازمات۔ اسی طرح دوسری نشست و برخاست میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔
آؤٹ آف فیشن چیزیں بیکار اور فیشن کے مطابق چیزیں بجٹ پر بوجھ۔ لیجیے صاحب! بچی کے جوتے، موزے، ربن، پن، انگوٹھی، نیل پالش، پونی، سینڈل، چوڑیاں غرض پاؤں سے سر اور سر سے پاؤں تک ہر چیز میچنگ کی۔ ننھی سی دو برس کی جان۔ بھلا پہلے یہ تماشے کہاں تھے۔ اب اگر آپ بچپن سے جب کہ بچے میں شعور بھی نہیں اور لفظ میچنگ کا مطلب بھی نہیں جانتا اگر اسی طرز زندگی کا عادی ہوجائے گا تو اس کے بڑھتے ہوئے تقاضے کس قدر تکلیف دہ ہوں گے۔ اور اگر آپ ان تقاضوں کو پورا کرنے سے معذرت کریں گے تو آپ کا شمار خراب والدین میں ہو گا کیونکہ بقول بچوں کے والدین تو اپنے بچوں کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں۔
جی ہاں! والدین اپنے بچوں کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں۔ بغیر یہ سوچے سمجھے کہ یہ سب کچھ ان کے لیے ضروری بھی ہے یا نہیں۔ مثلاً موبائل، نیٹ، لیپ ٹاپ۔ الیکٹرانک نے دنیا میں دھوم مچا دی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فراہم کردہ اشیا کا بچہ استعمال درست طریقے پر کر رہا ہے یا نہیں اگر درست یا بہتر نتائج کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے تو انسانی ترقی کے راستے نکلتے چلے جائیں لیکن افسوس انسانی ترقی کے ان ذرایع کو ہم غلط نتائج کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں اور غلط نتائج کبھی بھی ہماری بقا کی ضمانت نہیں دے سکتے۔
زمانے نے کچھ اسی انداز سے کروٹ بدلی ہے کہ تمام چیزیں معہ اقدار تہہ و بالا ہو چکی ہیں۔ انقلابی تبدیلیوں کے بعد لمحہ بھر کی ضمانت دینا مشکل ہو گیا ہے۔ دور جدید میں کسی بھی چیز کو آسان نہیں سمجھ سکتے۔ بات سمجھ کی ہو تو ہم ناسمجھ بھی نہیں ہیں۔ ہم تو خیر بڑے ہیں بقول شاعرہ
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
کبھی کبھی تو شک ہونے لگتا ہے کہ کیا یہ واقعی بچے ہیں۔ شک کی بھی خوب رہی۔ شک پہلے کبھی کبھی ہوتا تھا مگر اب تو ہر وقت ہر جگہ ہر انسان پر ہونے لگا ہے۔ ہماری گاڑی کے پیچھے دو اسکوٹر والے آ رہے تھے ان کا بھی اتفاق سے وہ ہی رستہ تھا۔ ہم اب اسی خوف میں کہ شاید پیچھا کر رہے ہیں۔ جب ہماری سڑک سے وہ آگے چوراہے پر مڑ گئے تو جان میں جان آئی۔ کبھی ایسا خوف تو نہ تھا جیسا اب ہے۔ خوفزدہ انسان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اور جب انسان سوچ سمجھ نہ سکے تو وہ بے عمل ہو جاتا ہے کیونکہ عمل کا تعلق نظریات سے ہوتا ہے۔ بے عمل شخص معاشرے کے لیے ناکارہ ہو جاتا ہے۔ ناکارہ شخص ایک مایوس انسان میں تبدیل ہوتا ہے اور مایوسی اکثر اوقات مریض بنا دیتی ہے۔
نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے ہراساں کر دینے والے اس ماحول میں بھلا صحت مند ذہن کیونکر جنم لے سکتے ہیں۔ صحت مند جسم کے لیے صحت مند ذہن اور صحت مند ذہن کے لیے صحت مند جسم ضروری ہے۔ اور صحت کے لیے شفاف آلودگی سے پاک فضا اور ماحول۔ ماحول کا تو بالکل نہ پوچھیں۔ لگتا ہے کہ گندگی کے ڈھیر پر کھڑے ہیں کسی کو پرواہ ہی نہیں۔ پرواہ تو ہمیں خود بھی اپنی نہیں۔ ورنہ فرد واحد (اکیلا شخص) اتنا بھی کمزور نہیں ہوتا کہ تنکے کی مانند لہروں کے ساتھ بہتا چلا جائے۔ قطرہ سمندر کا حصہ ہوتا ہے۔ فرد معاشرے کا۔ فرد سے افراد اور افراد سے معاشرے بنتے اور بگڑتے ہیں۔ اینٹ سے اینٹ مل کر دیوار بنتی ہے۔ ذرے سے ذرے مل کر صحرا یا ریت بنتے ہیں۔ قطرے سے قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ تنکے سے تنکا ملتا ہے تو چلمن یا چٹائی بنتی ہے۔ تنکا، ذرہ، قطرہ، اینٹ اپنی اپنی جگہ اہم ہیں۔ کاش! ہم اس اہمیت کا اندازہ لگا لیں تو پھر منزل آسان ہو جائے گی، سفر کی دشواریاں ختم ہو جائیں گی اور مسافر کبھی بھی رستے سے نہیں بھٹکے گا۔