کوچۂ سخن

جو سماعتوں میں ہیں شورشیں، انہیں جام کر؛<br /> کسی وقت حرف کے ذائقے میں قیام کر

فوٹو: فائل

غزل
جو سماعتوں میں ہیں شورشیں، انہیں جام کر
کسی وقت حرف کے ذائقے میں قیام کر
یہ جہان تیری نظر سے فیض اٹھائے گا
کبھی انکسار کے فلسفے کو امام کر
کبھی رنگ بن کے دھڑک نظر کے مدار میں
کبھی نور بانٹ کے ظلمتوں کو تمام کر
ابھی آسماں سے طلوع ہوں گی بشارتیں
ابھی ضبط پال کے رکھ، جنون کو خام کر
میں چلا گیا تو حواس میں نہ رہو گے تم
مجھے الوداع کہو کواڑ کو تھام کر
کفِ اعتبار سمیٹ سکتی ہے زندگی
سو کشاد مت کبھی رابطوں کی لگام کر
ترے ہاتھ آئے گا تازگی کا دھنک کدہ
کبھی بستیوں سے نکل کے دشت میں شام کر
کبھی اختیار کی ڈور چھوڑ دے ہاتھ سے
کبھی دوسروں کے سپرد سارا نظام کر
کبھی کھول ذہن کی زنگ کاڑھتی کھڑکیاں
کبھی چپ کی موج سے لحظہ بھر کو کلام کر
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)


۔۔۔
غزل
گرتی ہے فلک کی کہاں دیوار مکمل
کھلنے نہیں دیتا کوئی اسرار مکمل
یہ بیچ میں کس شخص نے کم کر دیا مجھ کو
اس پار مکمل ہوں نہ اس پار مکمل
آیا ہے نظر اور ذرا موند کے آنکھیں
سویا تو ہوا دوستو بیدار مکمل
اچھا نہیں ہر روز ترا مل کے بچھڑنا
آرام مکمل ہے نہ آزار مکمل
اک شخص نے رکھا ہے عجب مجھ سے تعلق
دشمن ہوا پورا نہ طرفدار مکمل
ہر روز بناتا ہوں نیا توڑ کے خود کو
جاتے نہیں پھر بھی ترے آثار مکمل
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)


۔۔۔
غزل
فلک سے ان کو خدا کے سلام آتے ہیں
جو دوسروں کے مصیبت میں کام آتے ہیں
کبھی کبھی کوئی آتا ہے ان میں شہزادہ
وگرنہ سینکڑوں بکنے غلام آتے ہیں
حقیقی کام یہ ہے، وہ دلوں پہ راج کرے
اسے پر اس کے علاوہ بھی کام آتے ہیں
مشاہدے سے نہ سیکھیں تو تجربہ کرلیں
جو صبح آ نہیں پاتے وہ شام آتے ہیں
ہماری جیب میں رکھے ہیں تجربے سارے
ہمیں یہ کھیل زمانے تمام آتے ہیں
یہ دنیا چھان پھٹک کر بنائے گی کندن
یہاں پہ پہلے پہل سب ہی خام آتے ہیں
وہ خاص لوگ انہی میں شریک ہوتے ہیں
تمہاری بزم میں اکثر جو عام آتے ہیں
تجھے دکھائی نہ دیتے اگر خدا ہوتے
ہم اس لیے ترے آگے مدام آتے ہیں
(حنا عنبرین۔ لیہ)


۔۔۔
غزل
اک آبشارِ حسن کا جلوہ ہو صرف تم
راہِ طلب میں دل کا سہارا ہو صرف تم
باقی تو سب سراب ہے، صحرائے دل کہے
اس تشنگی کے باب میں دریا ہو صرف تم
محفل میں روشنی کی طلب ہر کسی کو ہے
لاریب شمعِ بزمِ تمنا ہو صرف تم
صحرانورد ہم ہی نہیں بے شمار ہیں
بے پایاں ریگزار میں سایہ ہو صرف تم
بند ِ قبا کھلا تو ہوا راز آشکار
سب جنتوں کے باغ کا رستہ ہو صرف تم
در آتے تو ہیں دوسرے مضمون شعر میں
لیکن مری غزل کا قرینہ ہو صرف تم
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاؤ الدّین)


۔۔۔
غزل
ابر چادر کو تاننے لگے تھے
دشت کے بخت جاگنے لگے تھے
کیسے تنہائیوں سے بچتے ہم
وقت سے تیز بھاگنے لگے تھے
اس نے کانوں میں انگلیاں دے لیں
میرے اشعار چیخنے لگے تھے
گونجنے لگ پڑا تھا سناٹا
اور الفاظ ہانپنے لگے تھے
عنبرین اک ذرا طلب کی تھی
اور ہاتھ اس کے کانپنے لگے تھے
(عنبرین خان۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
کوئی صورت نہ تھی حضوری کی
زندگی ہجر میں ہی پوری کی
کارِ دنیاتوسب مکمل تھے
میں نے چاہت مگر ادھوری کی
یوں تو اسباب تھے بہم یارو
اپنی مرضی سے میں نے دُوری کی
اس نے تعریف کے بھی پُل باندھے
اس نے تنقید بھی ضروری کی
اپنا ہر کام عارضی ہی رہا
زندگانی بسر عبوری کی


یونہی رسماً بلایا محفل میں
ایک حجّت تھی اس نے پوری کی
رعب اتنا تھا حسن کا ساجد
میں نے مشکل سے بات پوری کی
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
سب یہاں سمت و نشاں والے ہیں
اک ہمی گمشدگاں والے ہیں
شعر، جیسے کوئی لو لہرائے
ہم چراغوں کی زباں والے ہیں
خاک سے رشتہ مروت کا ہے
ہم الگ کاہکشاں والے ہیں
تم وہاں سکّے یقیں کے لائے
جہاں بازار گماں والے ہیں
ہم ہیں پھولوں بھری شاخوں جیسے
آپ تو عہدِ خزاں والے ہیں
پھر بھی خواہش ہے منافع کی ہمیں
کام تو سارے زیاں والے ہیں
ہمیں سیلاب لئے پھرتا ہے
آپ ساحل کے نشاں والے ہیں
خیمہ و چشم اٹے ہیں اپنے
راہرو ریگِ رواں والے ہیں
عالمِ جذب میں رقصِ درویش
سلسلے کون و مکاں والے ہیں
(قیوم طاہر ۔راولپنڈی)


۔۔۔
غزل
ترے چہرے پہ رعنائی رہے گی
مری آنکھوں میں زیبائی رہے گی
رہیں ہم لوگ یا جائیں عدم کو
یہ دنیا تو مرے بھائی رہے گی
بہت سے رنگ بدلے گا یہ موسم
کلی پھولوں سے شرمائی رہے گی
سنبھل جائے گا دل یا اب ہمیشہ
یونہی افسردگی چھائی رہے گی؟
کسے فرصت کہ کھولے بابِ احساس
مشینوں میں ہی دانائی رہے گی
ولیؔ یہ کھوکھلے لوگ اب رہے تو
کہاں پھر خامہ فرسائی رہے گی
(شاہ روم خان ولیؔ۔ مردان)


۔۔۔
غزل
دیکھتے ہیں بت بنے سب لوگ حیرانی کے ساتھ
کتنے سپنے بہہ گئے ہیں ایک طغیانی کے ساتھ
گھر کے ملبے سے کوئی چادر تلاشی جائے گی
ڈھانپ لیں گی میتیں سر کو پریشانی کے ساتھ
دیکھتی ہے آسماں کی سمت یہ دنیا کہ کب
آیتیں رحمت کی اتریں معجزہ خوانی کے ساتھ
راکھ ہوتی جا رہی ہے شاخِ صندل آگ میں
سانپ لپٹے جا رہے ہیں رات کی رانی کے ساتھ
نجم کب محسوس کر پائیں گے ہم دنیا کے غم
شعر کہتے ہیں کہ نیند آجا ئے آسانی کے ساتھ
(نجم الحسن کاظمی۔حویلیاں،ایبٹ آباد)


۔۔۔
غزل
زخم دے کر اسے سینے کا کہا جاتا ہے
مرنے لگتا ہوں تو جینے کا کہا جاتا ہے
کیاگزرتی ہے عدالت میں کسی بوڑھے پر
جب اسے اگلے مہینے کا کہا جاتا ہے
داد خود اس کے تعاقب میں چلی آتی ہے
شعر جب کوئی قرینے کا کہا جاتا ہے
آنکھ دریا ہے کہ مئے خانہ کوئی ہے عمران
اشک بہتے ہیں تو پینے کا کہا جاتا ہے
(سید علی عمران کاظمی۔مانچسٹر ،انگلینڈ)


۔۔۔
غزل
ہر ایک کھیل میں فاتح تری انا ہی رہے
سو جو بھی تیرا رہے زیر دست و پا ہی رہے
یہ میرا تجربہ کہتا ہے تو کسی کا نہیں
دعا کروں گا جو تیرا ہے وہ ترا ہی رہے
تجھے ہی دیکھے یہ دنیا ہماری آنکھوں میں
ہمارے دامنِ دل پر تری سیاہی رہے
ہمارا دل بھی دعا کی طرح نہیں لگتا
تمہارا لگتا ہے دل تو کہیں لگا ہی رہے
(احسن سلیمان ۔تتہ پانی)


۔۔۔
غزل
یہ محبت بھی کیا بلا ہے یار
مجھ کو ہر شخص جانتا ہے یار
پٹی باندھی گئی تھی آنکھوں پر
عشق اندھا تبھی ہوا ہے یار
میرے مرنے میں اور جینے میں
ایک آہٹ کا فاصلہ ہے یار
زندہ رہنا،گنوا کے پیاروں کو
یہ تو محسن کا حوصلہ ہے یار
پہلے چبھتے تھے خواب آنکھوں میں
اب تو کاجل بھی چبھ رہا ہے یار
راگ سنتے تھے جب تلک تُو تھا
اب تلاوت پہ اکتفا ہے یار
پانی دریا کا رک چکا کب سے
اک کنارہ ہی بہہ رہا ہے یار
(سفیر حسین۔ نوتک، ضلع بھکر)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story