معیشت اشرافیہ اور عوام
پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایک بار پھر قرضہ پروگرام کی سخت شرائط میں نرمی کا مطالبہ کیا ہے جن کے تحت آیندہ چھ ماہ کے دوران تین ارب ڈالر کے قرض کے لیے بجلی کی قیمتوں اور ایندھن پر ٹیکس میں اضافہ کیا جانا ہے۔
آئی ایم ایف کو یہ یاد دہانی وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر کے ساتھ ورچوئل اجلاس کے دوران کرائی۔ ورچوئل اجلاس کے بارے میں جاری کردہ ایک بیان کے مطابق وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے ایم ڈی کے ساتھ وزیر اعظم شہباز شریف کی ملاقات کا ذکر کیا جس میں ادارے کے ایم ڈی نے سیلاب کی تباہ کاریوں کی صورت حال کے پیش نظر پاکستان کو سپورٹ کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا ۔
پاکستان کی معیشت میں بہتری کے امکانات پیدا ہونے کے اشارے سامنے آ رہے ہیں اور یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی معاشی ٹیم متحرک انداز میں کام کر رہی ہے اور اس کے اہداف واضح ہیں اور سمت بھی درست ہے۔
یوں اگر ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو گیا اور عالمی مالیاتی اداروں کی عملی مدد اور دوست ملکوں کا تعاون ملنے میں کامیابی ہوئی تو صورتحال خاصی بہتر ہو جائے گی، لیکن دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین ایک بار پھر احتجاجی سیاست پر کمربستہ ہیں اور اسلام آباد کے گھیراؤ کی کال دیتے نظر آرہے ہیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا جس کے براہ راست اثرات ملکی معیشت پر مرتب ہونگے۔
ہم اس سچائی سے انکار نہیں کرسکتے کہ سیاسی اختلافات اور وقتی مفادات کی بنا پر پاکستان ایک قومی ریاست کے طور پر کامیاب نہیں ہو پایا چونکہ تمام عالمی سیاسی اور اقتصادی اشاریے مسلسل پاکستان کی خراب سماجی، سیاسی اور معاشی صورتحال کی عکاسی کر رہے ہیں۔
ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق افراط زر کی شرح تقریباً 37فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔ کامیاب اور ناکام ریاستوں کے درمیان باریک لکیر اس وقت عبور ہوتی ہے جب اقتدار پر قابض اشرافیہ ملک کو درپیش بحران سے نہیں نکالتی یا انھی نظر انداز کر دیتی ہے۔
کیا پاکستان کی معیشت، گورننس اور سیاست کو پٹری سے اتارنے کا ذمے دار اشرافیہ کو ٹھہرایا جانا چاہیے؟ کیا عوام سماجی انحطاط کے برابر ذمے دار ہیں؟ اشرافیہ اور باقی آبادی کے مسائل میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ آج پاکستان کے بعد آزادی حاصل کرنیوالے بہت سے ترقی پذیر ممالک معیشت، گورننس، سیاست اور قانون کی حکمرانی کے لحاظ سے بہت بہتر ہیں۔
یہاں تک کہ ملائیشیا اور سنگاپور جیسے ممالک جو پسماندہ اور غریب تھے اب ہم سے بہت آگے ہیں۔ تقریباً دس ملین بیرون ملک مقیم پاکستانی سالانہ 30ارب ڈالر سے زائد رقم پاکستان بھیجتے ہیں۔ عوام اشرافیہ کے غیر ذمے دارانہ رویے سے مایوس ہو رہے ہیں جنھوں نے انھیں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا اور وہ پاکستان کے حال اور مستقبل کو بچانے کے لیے اپنی مراعات اور فوائد کو قربان کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔
ایندھن، گیس اور بجلی سمیت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سے98فیصد لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ صرف مراعات یافتہ طبقہ جو کہ آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، آنیوالی خطرناک صورتحال کے بارے میں کم سے کم فکر مند ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے معاہدے کے مطابق یوٹیلیٹیز کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ تاہم یہ ایک اقتصادی ڈیفالٹ اور پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس اور کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت پر تشویش کو بڑھا رہا ہے۔ مزید برآں، پاکستانی اشرافیہ نے بیرون ملک اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں اور وہ ملک کی معاشی تباہی سے کم از کم پریشان ہیں ، یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ عوام اس اشرافیہ کے خلاف ٹھوس موقف اختیار کرنے میں ناکام ہیں۔
جنھوں نے ملک کو معاشی تباہی اور اس کے نتیجے میں ڈیفالٹ کی طرف دھکیل دیا ہے۔ جب عوام اشرافیہ کی طرح لاتعلق ہو جائیں تو اس کا نتیجہ تباہ کن ہوگا اور اس کے دوررس نتائج برآمد ہونگے۔ عوام جاگیردارانہ کلچر، آمرانہ ذہنیت اور کرپٹ نظام کو چیلنج کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس کے بجائے ناقابل برداشت معاشی حالات کو قبول کر لیا ہے۔
ہماری ترجیحات کا یہ حال ہے کہ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود بارش سے نہیں نمٹ سکتے، جب تک معیشت کے فیصلے میرٹ پر نہیں ہونگے ملک قرضوں پر ہی چلتا رہے گا۔ کورونا وائرس، روس اور یوکرین کی جنگ اور سیلاب نے ملکی معیشت کی کمزوریوں کو عیاں کر دیا ہے مگر اب بھی اسے بہتر بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ ان نازک حالات میں بھی سارا زور ایڈہاک پالیسیوں پر دیا جا رہا ہے جب کہ معیشت کا ماہر اسے ہی تصور کیا جاتا ہے جو قرضوں کا انتظام کر سکے۔
ملکی نظام کو بااثر مافیاز نے یرغمال بنایا ہوا ہے جب کہ سیاستدان اور بیوروکریسی حقیقی سرمایہ کاروں کو تنگ کرکے بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سڑکوں، ریلوے، بندرگاہوں اور توانائی کی بدحالی سے عالمی تجارت میں پاکستان کا حصہ کم ہو رہا ہے، انفرااسٹرکچر میں پاکستان کا 160 ممالک میں 122واں نمبر ہے، تکنیکی مہارت کی کمی کی وجہ سے نئی ٹیکنالوجی کے حصول میں مشکلات ہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومت کو معاشی بحران کے بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان میں موجودہ معاشی مسائل کے تناظر میں شریف حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے2ارب ڈالر کے امدادی فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔
اس کے باوجود اگر موجودہ سیاسی بے یقینی میں مزید اضافہ ہوا تو ملک کے معاشی حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں، گو کہ پاکستان نے مبینہ طور پر اپنے اخراجات کو کم کرنے، توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکس وصولی کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں لیکن یہ اقدامات عوام میں غیر مقبول ہیں۔
معاشی چیلنجز کی سنگینی کے پیش نظر پاکستان کی آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ایک طویل تاریخ ہے اور بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پاکستان کی معاشی پریشانیوں کا طویل مدتی حل نہیں ہے، جیسے جیسے معاشی بحران سنگین ہو رہا ہے، سری لنکا کی طرح پاکستان کو بھی زرمبادلہ کے ذخائر کی بڑھتی ہوئی کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان سمیت بہت سے ترقی پذیر ممالک بھی اسی طرح کی پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان کی طویل مدتی معاشی حکمت عملی عوام کی بھلائی کے لیے ہونی چاہیے۔ معیشت میں استحکام ہونا چاہیے تاکہ آنے والے وقت میں آمدن میں اضافہ اور بیروزگاری میں کمی ہو اور اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں۔ طویل مدت تک ان اقدامات کے حصول کے لیے ایسا معاشی ماحول بنانے کی ضرورت ہے جس سے سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں اضافہ ہو جو لمبے عرصے تک سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں ، معیشت کے ضابطے جیسے افراط زر میں کمی اور کم سے کم شرح سود پر زرمبادلہ کی شرح میں استحکام آنا چاہیے۔
آمدن کی نسبت خرچ میں اضافہ ہماری مالی صورتحال کی زبوں حالی کی وجہ ہے۔ زیادہ تر مالیات حکومتی اخراجات میں خرچ ہو جاتے ہیں اور نجی شعبہ اور سرمایہ کاروں کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ ہمیں اپنی آمدن میں اضافے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہماری داخلی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح بہت کم ہے اور اگر ہم اپنی معاشی نمو میں 6 سے 8 فیصد اضافہ چاہتے ہیں تو ہمیں داخلی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح کو اگلے 5 سال میں 13 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد تک لے جانا ہوگا۔ ٹیکس وصولی کا عمل سب کے لیے ہونا چاہیے جس میں بنیادی توجہ نئے ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے نہ کہ جو پہلے ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں ان پر مزید ٹیکس لاگو کرنا۔ اگر ہم آنے والے 5 سالوں میں ٹیکس دہندگان کی تعداد 1 کروڑ تک لے جاتے ہیں تو معاشی بحالی ممکن ہو سکتی ہے۔
دوسرا یہ کہ سیلز ٹیکس کی شرح کو 17.5 فیصد سے کم سطح پر لایا جائے۔ ہمیں ٹیکس کا ایسا نظام متعارف کروانا چاہیے جس میں تمام آمدن ٹیکس یافتہ ہوں، تمام خرچے ٹیکس یافتہ ہوں اور ہر قسم کی چھوٹ ختم کر دی جائے۔
اسی طرح ہمیں اپنے اخراجات پر قابو پانا چاہیے کیونکہ قرضوں کی ادائیگی ایک بہت بڑا ا خرچہ ہے۔ نجی شعبہ کے ادارے آمدن کی مد میں ایک بڑی مشکل ہیں جن کے سالانہ نقصان کا تخمینہ تقریبا 700 سے 750 ارب روپے ہے۔ ان کمرشل تنظیموں کو صحیح اصلاحات سے منافع بخش بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معیشت کی بحالی میں یہ ادارے اپنا کردار ادا کرسکیں ۔
آئی ایم ایف کو یہ یاد دہانی وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر کے ساتھ ورچوئل اجلاس کے دوران کرائی۔ ورچوئل اجلاس کے بارے میں جاری کردہ ایک بیان کے مطابق وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے ایم ڈی کے ساتھ وزیر اعظم شہباز شریف کی ملاقات کا ذکر کیا جس میں ادارے کے ایم ڈی نے سیلاب کی تباہ کاریوں کی صورت حال کے پیش نظر پاکستان کو سپورٹ کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا ۔
پاکستان کی معیشت میں بہتری کے امکانات پیدا ہونے کے اشارے سامنے آ رہے ہیں اور یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی معاشی ٹیم متحرک انداز میں کام کر رہی ہے اور اس کے اہداف واضح ہیں اور سمت بھی درست ہے۔
یوں اگر ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو گیا اور عالمی مالیاتی اداروں کی عملی مدد اور دوست ملکوں کا تعاون ملنے میں کامیابی ہوئی تو صورتحال خاصی بہتر ہو جائے گی، لیکن دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین ایک بار پھر احتجاجی سیاست پر کمربستہ ہیں اور اسلام آباد کے گھیراؤ کی کال دیتے نظر آرہے ہیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا جس کے براہ راست اثرات ملکی معیشت پر مرتب ہونگے۔
ہم اس سچائی سے انکار نہیں کرسکتے کہ سیاسی اختلافات اور وقتی مفادات کی بنا پر پاکستان ایک قومی ریاست کے طور پر کامیاب نہیں ہو پایا چونکہ تمام عالمی سیاسی اور اقتصادی اشاریے مسلسل پاکستان کی خراب سماجی، سیاسی اور معاشی صورتحال کی عکاسی کر رہے ہیں۔
ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق افراط زر کی شرح تقریباً 37فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔ کامیاب اور ناکام ریاستوں کے درمیان باریک لکیر اس وقت عبور ہوتی ہے جب اقتدار پر قابض اشرافیہ ملک کو درپیش بحران سے نہیں نکالتی یا انھی نظر انداز کر دیتی ہے۔
کیا پاکستان کی معیشت، گورننس اور سیاست کو پٹری سے اتارنے کا ذمے دار اشرافیہ کو ٹھہرایا جانا چاہیے؟ کیا عوام سماجی انحطاط کے برابر ذمے دار ہیں؟ اشرافیہ اور باقی آبادی کے مسائل میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ آج پاکستان کے بعد آزادی حاصل کرنیوالے بہت سے ترقی پذیر ممالک معیشت، گورننس، سیاست اور قانون کی حکمرانی کے لحاظ سے بہت بہتر ہیں۔
یہاں تک کہ ملائیشیا اور سنگاپور جیسے ممالک جو پسماندہ اور غریب تھے اب ہم سے بہت آگے ہیں۔ تقریباً دس ملین بیرون ملک مقیم پاکستانی سالانہ 30ارب ڈالر سے زائد رقم پاکستان بھیجتے ہیں۔ عوام اشرافیہ کے غیر ذمے دارانہ رویے سے مایوس ہو رہے ہیں جنھوں نے انھیں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا اور وہ پاکستان کے حال اور مستقبل کو بچانے کے لیے اپنی مراعات اور فوائد کو قربان کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔
ایندھن، گیس اور بجلی سمیت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سے98فیصد لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ صرف مراعات یافتہ طبقہ جو کہ آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، آنیوالی خطرناک صورتحال کے بارے میں کم سے کم فکر مند ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے معاہدے کے مطابق یوٹیلیٹیز کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ تاہم یہ ایک اقتصادی ڈیفالٹ اور پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس اور کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت پر تشویش کو بڑھا رہا ہے۔ مزید برآں، پاکستانی اشرافیہ نے بیرون ملک اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں اور وہ ملک کی معاشی تباہی سے کم از کم پریشان ہیں ، یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ عوام اس اشرافیہ کے خلاف ٹھوس موقف اختیار کرنے میں ناکام ہیں۔
جنھوں نے ملک کو معاشی تباہی اور اس کے نتیجے میں ڈیفالٹ کی طرف دھکیل دیا ہے۔ جب عوام اشرافیہ کی طرح لاتعلق ہو جائیں تو اس کا نتیجہ تباہ کن ہوگا اور اس کے دوررس نتائج برآمد ہونگے۔ عوام جاگیردارانہ کلچر، آمرانہ ذہنیت اور کرپٹ نظام کو چیلنج کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس کے بجائے ناقابل برداشت معاشی حالات کو قبول کر لیا ہے۔
ہماری ترجیحات کا یہ حال ہے کہ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود بارش سے نہیں نمٹ سکتے، جب تک معیشت کے فیصلے میرٹ پر نہیں ہونگے ملک قرضوں پر ہی چلتا رہے گا۔ کورونا وائرس، روس اور یوکرین کی جنگ اور سیلاب نے ملکی معیشت کی کمزوریوں کو عیاں کر دیا ہے مگر اب بھی اسے بہتر بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ ان نازک حالات میں بھی سارا زور ایڈہاک پالیسیوں پر دیا جا رہا ہے جب کہ معیشت کا ماہر اسے ہی تصور کیا جاتا ہے جو قرضوں کا انتظام کر سکے۔
ملکی نظام کو بااثر مافیاز نے یرغمال بنایا ہوا ہے جب کہ سیاستدان اور بیوروکریسی حقیقی سرمایہ کاروں کو تنگ کرکے بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سڑکوں، ریلوے، بندرگاہوں اور توانائی کی بدحالی سے عالمی تجارت میں پاکستان کا حصہ کم ہو رہا ہے، انفرااسٹرکچر میں پاکستان کا 160 ممالک میں 122واں نمبر ہے، تکنیکی مہارت کی کمی کی وجہ سے نئی ٹیکنالوجی کے حصول میں مشکلات ہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومت کو معاشی بحران کے بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان میں موجودہ معاشی مسائل کے تناظر میں شریف حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے2ارب ڈالر کے امدادی فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔
اس کے باوجود اگر موجودہ سیاسی بے یقینی میں مزید اضافہ ہوا تو ملک کے معاشی حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں، گو کہ پاکستان نے مبینہ طور پر اپنے اخراجات کو کم کرنے، توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکس وصولی کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں لیکن یہ اقدامات عوام میں غیر مقبول ہیں۔
معاشی چیلنجز کی سنگینی کے پیش نظر پاکستان کی آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ایک طویل تاریخ ہے اور بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پاکستان کی معاشی پریشانیوں کا طویل مدتی حل نہیں ہے، جیسے جیسے معاشی بحران سنگین ہو رہا ہے، سری لنکا کی طرح پاکستان کو بھی زرمبادلہ کے ذخائر کی بڑھتی ہوئی کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان سمیت بہت سے ترقی پذیر ممالک بھی اسی طرح کی پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان کی طویل مدتی معاشی حکمت عملی عوام کی بھلائی کے لیے ہونی چاہیے۔ معیشت میں استحکام ہونا چاہیے تاکہ آنے والے وقت میں آمدن میں اضافہ اور بیروزگاری میں کمی ہو اور اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں۔ طویل مدت تک ان اقدامات کے حصول کے لیے ایسا معاشی ماحول بنانے کی ضرورت ہے جس سے سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں اضافہ ہو جو لمبے عرصے تک سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں ، معیشت کے ضابطے جیسے افراط زر میں کمی اور کم سے کم شرح سود پر زرمبادلہ کی شرح میں استحکام آنا چاہیے۔
آمدن کی نسبت خرچ میں اضافہ ہماری مالی صورتحال کی زبوں حالی کی وجہ ہے۔ زیادہ تر مالیات حکومتی اخراجات میں خرچ ہو جاتے ہیں اور نجی شعبہ اور سرمایہ کاروں کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ ہمیں اپنی آمدن میں اضافے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہماری داخلی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح بہت کم ہے اور اگر ہم اپنی معاشی نمو میں 6 سے 8 فیصد اضافہ چاہتے ہیں تو ہمیں داخلی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح کو اگلے 5 سال میں 13 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد تک لے جانا ہوگا۔ ٹیکس وصولی کا عمل سب کے لیے ہونا چاہیے جس میں بنیادی توجہ نئے ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے نہ کہ جو پہلے ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں ان پر مزید ٹیکس لاگو کرنا۔ اگر ہم آنے والے 5 سالوں میں ٹیکس دہندگان کی تعداد 1 کروڑ تک لے جاتے ہیں تو معاشی بحالی ممکن ہو سکتی ہے۔
دوسرا یہ کہ سیلز ٹیکس کی شرح کو 17.5 فیصد سے کم سطح پر لایا جائے۔ ہمیں ٹیکس کا ایسا نظام متعارف کروانا چاہیے جس میں تمام آمدن ٹیکس یافتہ ہوں، تمام خرچے ٹیکس یافتہ ہوں اور ہر قسم کی چھوٹ ختم کر دی جائے۔
اسی طرح ہمیں اپنے اخراجات پر قابو پانا چاہیے کیونکہ قرضوں کی ادائیگی ایک بہت بڑا ا خرچہ ہے۔ نجی شعبہ کے ادارے آمدن کی مد میں ایک بڑی مشکل ہیں جن کے سالانہ نقصان کا تخمینہ تقریبا 700 سے 750 ارب روپے ہے۔ ان کمرشل تنظیموں کو صحیح اصلاحات سے منافع بخش بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معیشت کی بحالی میں یہ ادارے اپنا کردار ادا کرسکیں ۔