بد ہضم سیاست اور ہاضمہ والی گولی

عمران خان یہ نہ بھولیں کہ ان کے بیانیے کے تجزیہ کار خواہشات کے گھوڑے ہی دوڑاتے رہیں گے

Warza10@hotmail.com

بیتے زمانے میں انسانی حیات کی جاودانی کے لیے ''قبض'' کی بیماری کو تمام بیماریوں کی جڑقرار دیا جاتا تھا، اس قبض کی بیماری کا شافی علاج حکما کے تجویز کردہ معجون اور ادویات کو سمجھا جاتا تھا۔

زمانے کی ترقی اور فطرت سے دوری نے اس بیماری کو دقیانوسی حکیمی طریقہ علاج سے تبدیل کیا،پھرجدید ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر جڑی بوٹیوں کے ملاپ کو ٹیبلٹ کی شکل دی گئی،اور جدید تقاضوں کی بنا پر ہاضمے کی شکایات کو دور کرنے کے لیے مختلف مشروب یا سیرپ ایجاد کیے گئے جب کہ حکما نے اپنی حکمت کو ہاضمے کی مستند گولی بنا لی،اور یوں حکما جدید تقاضوں کی مارکیٹنگ میں اپنی بقا و سلامتی رکھنے میں کسی حد تک کامیاب رہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں لازوال ترقی کے باوجود آج بھی ہاضمے کی ایک موثر گولی کی شکل میں بیشتر گھروں میں یہ موجود رہتی ہے،اب یہ عام آدمی کے ہاضمے میں کیا کردار ادا کرتی ہے یہ تو قبض کے شکار افراد ہی بتا سکتے ہیں،مگر یہ طے ہے کہ عام فرد اپنے ہاضمے کی سلامتی کے لیے جو بہتر جتن کر سکتا ہے وہ کرتا ہے،اور کسی نہ کسی طرح اپنا نظام ہاضمہ درست رکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔۔

اس عام فرد کے مقابل ہمارے ملک کا وہ طبقہ جو خود کو اہل سیاست سے جوڑتا ہے یا سیاست کے خار زار میں جاکر عوام کی فلاح اور بہتر زندگی بنانے کے خواب دکھاتا ہے،وہ ایک وقت میں جاکر عوام کے نام پر ایسے ذاتی مفاد یا خود غرضی کی بد ہضمی کا ایسا شکار ہو جاتا ہے،جس کے عمل سے عام فرد سیاست اور سیاسی افراد کو صرف مفاد پرستی کے تناظر میں دیکھنے کے عادی ہو جاتے ہیں جس کا نقصان براہ راست ان سیاسی قوتوں کو اٹھانا پڑتا ہے جو سیاست کو نظریات اور عوامی فلاح کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور سوشلسٹ نظام معیشت سے ملک کے عوام کو بہتر تعلیم،صحت،غیر طبقاتی سماج اور خواتین سمیت تمام محکوم طبقوں کو سکھ چین اور برابری کے حقوق دینا چاہتے ہیں،مگر جب اس پراگندہ سیاسی ماحول کو جھوٹ مکر و فریب اور غیر جمہوری قوتوں کے تجربوں کی گندگی اور مفاد پرستی کی بھٹی میں پکایا جاتا ہے، جنھیں آخر میں طاقتور قوتوں کا ہرکارہ یا فرمانبردار ہی بن کر صرف اور صرف اپنے اشرافیائی طبقے کا مفاد عزیز رکھنا پڑتا ہے اور پھر مذکورہ قسم کے سیاست دان عوام کو پرفریب نعروں اور جمہوری آزادی دینے کے دھوکے میں مبتلا کرکے دراصل غیر جمہوری قوتوں کی بالادستی ہی قائم کرتے مفاد پرستی کے موذی قبض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

آجکل ملکی سیاست میں ''آڈیو لیک'' ہونے کا معاملہ ہر طبقے میں زیر بحث ہے،دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام آڈیوز وزیراعظم ہاؤس سے لیک ہونے کی اطلاع ہے،ان آڈیو لیک میں موجودہ حکومت سے لے کر سابقہ عمران خان حکومت کی وہ خفیہ معلومات منظر عام پر لائی جارہی ہیں جو کہ جہاں ملک کی خفیہ ایجنسیوں پر سوالات پیدا کر رہی ہیں وہیں یہ آڈیو لیک ملک کے سب سے محفوظ دفتر کے وقار اور وہاں کے رازداری کے نظام کو بھی دھچکا پہنچا رہی ہیں،جس پر ملکی سلامتی کونسل اور کابینہ کے اجلاس میں نہ صرف تشویش کا اظہار کیا گیا ہے بلکہ وزیراعظم ہاؤس کی رازداری کے نظام کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنے کا عندیہ دیا ہے۔


عمران خان کی بطور وزیراعظم دو آڈیوز منظر عام پر آچکی ہیں جن میں عمران خان ایک سفارتی مراسلے کو امریکی سازش قرار دینے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں،جس سے عمران خان کے عوام میں پیش کردہ امریکی سازش کے دھوکا دہی دینے والے بیانیے کا پول عوام کے چوراہے پر کھل گیا ہے.

ان آڈیوز کی روشنی میں سابقہ وزیر اعظم عمران خان کے سہولت کار واضح طور سے مراسلے کے مندرجات اپنے حق میں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،دوسری جانب عمران خان جھوٹ پر مبنی اپنی سلیکٹیڈ حکومت کی تبدیلی کو امریکی سازش قرار دے کر عوام کو مسلسل گمراہ کرکے حقیقی آزادی کا نام دے کر عوام کے سیاسی ہاضمے کی سوچ کو مفاداتی قبض میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں،جس کو ملک میں سنجیدہ سیاسی طبقے عمران خان کی دروغ گوئی اور عوام سے جھوٹ بولنے سے تعبیر کر رہے ہیں،جب کہ عمران خان کے ورکر اور حمایتی عجیب خدشات اور وسوسوں کا شکار دکھائی دیتے ہیں.

عمران خان کی گفتگو کی ان آڈیوز کو عمران خان یا تحریک انصاف نے اب تک غلط قرار نہیں دیا ہے اور نہ ہی ان کی تردید کی ہے،بلکہ عمران خان اسے راز کے انکشاف کی کوشش قرار دے کر اس کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں،جب کہ حکومت نے مراسلے کی گمشدگی اور عمران خان کی اس مبینہ قومی سلامتی کو داؤ پر لگانے کی کوشش کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔

سیاست کے تجزیہ کاروں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ عمران خان کا اقتدار سے محروم ہونے کے بعد مزاج بن گیا ہے کہ عدلیہ،الیکشن کمیشن،نیب اور دیگر ادارے اگر آئین و قانون کے مطابق چل رہے ہیں اور مذکورہ ادارے عمران خان کی خواہشات کو بروئے کار نہیں لا رہے تو وہ ہر اس ادارے کے خلاف ہرزہ سرائی سے گریز نہیں کرتے جو ان کے مفادات کی نگہبانی یا مدد نہ کر رہا ہو، فارن فنڈنگ کیس کی تحقیقات کا معاملہ ہو،وہ ان اداروں پر تنقید کرتے وقت یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی بتائی گئی نشاندہی ہی درست ہے جب کہ دوسرے لمحے وہ طاقتور اداروں کو کردار ادا کرنے کی دعوت دیتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں،جو ذہنی افراتفری کا واضح مظہر ہے،اسی کے ساتھ وہ ایک ضدی بالک کی طرح اقتدار کے ایوانوں تک کی رسائی کے راستوں کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے یو ٹرن لینے میں ملکی و غیر ملکی طاقتوں کے ترلے کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

عمران خان کی سہاروں اور مدد کی سیاسی نفسیات کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کی خواہش نے ان کی لانگ مارچ کی تاریخ دینے میں اب تک رکاوٹ ڈالی ہوئی ہے،اس کا منطقی نتیجہ عوام اور ان کے کارکنان میں ان کی غیر سنجیدہ حکمت عملی سمجھا جا رہا ہے،اب عمران خان عدلیہ کے کاندھوں پر بیٹھ کر مسترد شدہ اسمبلی میں واپس جانے کا بھی عندیہ دے رہے ہیں ۔

آج کی سیاست میں عمران خان اپنی سیاسی چالاکیوں اور سیاستدانوں کے چنگل میں آکر خود کو شیر کی کھال کے وہ کمانڈر ثابت کر رہے ہیں جو کسی بھی شکست کے لمحے گیدڑوں کے ساتھ جا کر ان میں پناہ لے سکتا ہے،مگر عمران خان یہ نہ بھولیں کہ ان کے بیانیے کے تجزیہ کار خواہشات کے گھوڑے ہی دوڑاتے رہیں گے، دیکھنا یہ ہے کہ اس قبض شدہ سیاسی ماحول کے ہاضمے کے لیے حکما کی زود ہضم گولی ہوگی یا فارماسیٹیکل سس پینشن۔
Load Next Story