عملی اقدامات کے بغیر عالمی ماحولیاتی چیلنجز پر قابو نہیں پایا جاسکتا

وزیراعظم کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب...ملک کو درپیش چیلنجزکا بخوبی احاطہ کیا

ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کے دورہ امریکا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا۔

جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد
(چیئرپرسن شعبہ سیاسیات جامعہ پنجاب)

ممالک کے درمیان تعلقات کے پیچھے ان کے اپنے اپنے ملکی مفادات لازمی ہوتے ہیں۔ ممالک کے درمیان تعلقات میں تاریخی اعتبار سے تبدیلیاں بھی آتی ہیں، سیاسی مفادات کے اعتبار سے بھی اتار چڑھاؤ رہتا ہے لیکن ہمیشہ سب سے اہم ان اپنا مفاد ہوتا ہے۔

روس اور یوکرائن کے درمیان جاری جنگ و دیگر بدلتے حالات کے پیش نظردنیا میں بہت سی تبدیلیاں ناگزیر ہوچکی ہیں۔ پاکستان امریکا تعلقات کی تاریخ طویل ہے۔ پاکستانی حکومتیں ہمیشہ قومی مفاد کے تناظر میں ہی امریکا کے ساتھ تعلقات قائم کرتی رہی ہیں، ان پر حالات و واقعات کا بھی اثر رہا ہے۔

چین ہمارا دیرینہ دوست ہے مگر اس کی اپنی ترجیحات بھی ہیں لہٰذا جن پالیسیوںپر وہ پوری دنیا میں عمل پیرا ہے اس میں اس کی ترجیحات شامل ہیں لیکن اس سب میں پاکستان کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ خطے کے حالات واقعات اور ملک کے اندرونی حالات بہرحال یہ تقاضہ کر رہے تھے اور بعض حلقوں کی جانب سے یہ کہا بھی جا رہا تھا کہ وزیراعظم کو یہ دورہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔

اندرونی حالات اور مسائل سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت سیلاب کے حوالے سے لوگوں کی مشکلات کے اثرات حکومت پر پڑ رہے ہیں، شاید ایک عام فہم بات تو یہی مناسب لگتی کہ یہ دورہ نہ کیا جاتا لیکن میرے نزدیک اگر یہ دورہ نہ کیا جاتا تو پاکستان بین الاقوامی طور پر اپنے اس مسئلے کو شاید اتنا اجاگر نہ کر پاتا جتنا زیادہ وزیر اعظم شہباز شریف کے دور ے اور پھر جنرل اسمبلی سے خطاب کی وجہ سے ہوا۔

انہوں نے اپنی تقریر میں دنیا کے ممالک کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے پاکستان کے اس مسئلے کی جانب نشاندہی کی۔ یہ محض سیلاب اور اس کے نتیجے میں متاثر ہونے والے عوام کا نمبر نہیں ہے بلکہ اس سیلاب کی نوعیت مختلف ہے۔

بین الاقوامی ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات کے نتیجے میں یہ سیلاب پاکستان میں آیا۔ ضروری تھا کہ ایسے فورم پر جہاں دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان موجودتھے جو براہ راست سن رہے تھے اور بعض کے نمائندے موجود تھے، وہاں یہ بات لازمی کی جاتی۔

چنانچہ ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ وزیراعظم نے پاکستان کے موجودہ حالات میں ایک مشکل فیصلہ کیا۔ اگر وہ نہ جاتے تو یہ مقبولیت والا فیصلہ ہوتا مگر وہاں جا کر اس مسئلے کی نشاندہی کرنا انتہائی اہم قدم ہے، مجھے یقین ہے کہ اس کے اثرات جلد ہمیں نظر آئیں گے۔ کروناکے بعد کی صورتحال میں ہر ملک معاشی لحاظ سے مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔

ان حالات میں مددکی آفر دینا اور حقیقی معنوں میں مدد پہنچانا مشکل کام ہے۔ یہ ساری صورتحال مشکل اور مختلف ہے لیکن بہرحال دنیاکو یہ احساس دلوانا ہماری قیادت کی ذمہ داری تھی۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ تقریر کے ذریعے پاکستان کا موقف دنیا تک پہنچایا گیا۔

اب اس موقف کا جب تک ہم فالو اپ نہیں کریں گے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے جو نمائندے اقوام متحدہ کی مختلف کمیٹیوں میں موجود ہیں وہ کس طرح سے اس گفتگو کا ایادہ کرتے ہیں اور بین الاقوامی قیادت کو بار بار یاد دہانی کراتے ہیں کہ آئیں مل کر دنیا کے ماحول کی بہتری کیلئے مشترکہ اقدامات کریں تاکہ آئندہ کسی بھی ملک کو سیلاب جیسی مشکل صورتحال سے بچایا جاسکے۔

اس دورے کے دوران وزیر خارجہ نے مختلف فورمز سے گفتگو کی۔ وزیر اعظم کا ایک انٹریو بھی غور طلب ہے۔ جب بھی پاکستانی قیادت امریکا جاتی ہے تو وہاں کا میڈیا بعض اوقات بہت زیادہ پذیرائی دیتا ہے اور بعض اوقات سرد ہوتا ہے۔

اس مرتبہ وزیراعظم کے انٹرویو میں تفصیل کے ساتھ بنیادی مسائل کی نشاندہی کی گئی جو مثبت پہلو ہے۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے پاکستان اور امریکا میں تناؤ کی کیفیت تھی، ہمارے رہنماؤں کی جانب سے کچھ ایسے بیانات اور کھلم کھلا باتیں کی گئیں جن سے سفارتی حلقوں میں تشویش ہوئی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ مشکل تھا کہ وہاں کوئی ایسی گفتگو ، سوال یا ایسی بات کھلے عام نہ کر دی جائے جس سے حالات مشکل ہوجائیں۔

میرے نزدیک ان مشکل ترین حالات میں کیے گئے اس دورے کے ذریعے آنے والے دونوں میں امریکی رویوں میں کچھ حد تک مثبت تبدیلی بھی نظر آئے گی۔ اقوام متحدہ میں موجود ہمارے سفیر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے یہ ساری منصوبہ بندی کی اور یہ اہتمام کیا کہ وزیراعظم کی تقریر بھی ہو اور ساتھ ساتھ میڈیا میں بھی اس کا ذکر ہوتا رہے۔ ایک اور بات انتہائی اہم ہے کہ صرف جنرل اسمبلی سے خطاب کر لینا ہی کافی نہیں ہے۔

میرے نزدیک وہاں موجود ممالک کے سربراہان یا نمائندوں کی تعداد انتہائی اہم ہوتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے سربراہان مملکت کا خطاب سننے والے ممالک کونسے تھے؟ اگر پورا سال اس پر لابنگ کی جائے اور تقریر کے وقت زیادہ ممالک کے سربراہان و نمائندگان کی تعداد یقینی بنائی جائے تو اس سے خاطر خواہ فائدہ ہوسکتا ہے، سفارتی تعلقات بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔

ڈاکٹر امجد مگسی


(ماہر امور خارجہ و سیاسی تجزیہ نگار)

جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس میں پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے اپنے خطاب میں پاکستان کو اس کی تاریخ کے سب سے تباہ کن سیلاب کے المناک اثرات کا ذکر کیا جو در اصل ترقی یافتہ ممالک کی ماحول دشمن توانائی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

پاکستان کا ایک تہائی رقبہ پانی میں ڈوب گیا اور سوا تین کروڑ سے زائد شہری اس سے متاثر ہوئے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں برملا واضح کیا کہ نقصاندہ گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد بھی نہ ہونے کے باوجود پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو ان گیسوں سے جنم لینے والی فضائی آلودگی کے تباہ کن اثرات کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔

اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں، جنگلات جل رہے ہیں ، درجہ حرارت 53 ڈگری سے بڑھ گیا ہے۔ وزیر اعظم نے سیلاب زدگان کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے آفت زدہ علاقوں کا دورہ کرنے اور ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرانے پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ عالمی برادری انصاف کے تقاضوں کے مطابق پاکستان کے نقصانات کی تلافی کے لئے خاطرخواہ اقدامات کرے گی۔

وزیراعظم نے معاونت کرنے والے تمام ممالک کا پوری پاکستانی قوم کی طرف سے شکریہ ادا کیااور توقع ظاہر کی کہ ڈونرز کانفرنس وغیرہ جیسے اقدامات میں اس پر حوصلہ افزاء ردعمل سامنے آئے گا اور پاکستان عالمی برادری کے تعاون سے موسمیاتی تبدیلی سمیت تمام درپیش چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآء ہوجائے گا۔

وزیر اعظم نے اسلامو فوبیا، افغانستان، فلسطین،شام، یمن اور دیگر بین الاقوامی معاملات پر پاکستان کا موقف واضح کرنے کے علاوہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی ضرورت کا خاص طور پر اظہار کیا۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کے پیش نظر پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ کشمیر کا معاملہ سلجھ جائے تو دونوں اپنے دفاعی اخراجات میں خاطر خواہ کمی کرکے اپنے وسائل اس نئے چیلنج سے نمٹنے اور اپنے لوگوں کے حالات زندگی بہتر بنانے کے لیے مختص کرسکتے ہیں۔

انہوں نے اس قضیے کے حل کیلئے عالمی برادری کے تعاون اور عملی کردار پر زور دیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران پاکستان کے سیلاب متاثرین کی حالت زار کو اجاگر کرنا اہمیت کا حامل ہے جس پر وزیراعظم نے ان کا شکریہ ادا کیا۔

جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں امریکا کے صدارتی نمائندہ برائے ماحولیاتی تبدیلی سے موجودہ صورتحال سے نمٹنے اور توانائی کے شعبے میں مذاکرات آگے بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ وزیر اعظم نے ملنڈا اینڈ بل گیٹس فاؤنڈیشن کے بانی بل گیٹس سے ملاقات کی۔ شہباز شریف سے یورپی یونین کی صدر ارزلا فان دیئر لیئن نے ملاقات کی۔

وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں موجودہ پروگرامزمیں پاکستان کے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے امداد پر خصوصی طور پر زور دیادیگرعالمی رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں گفتگو کا محور سیلاب ، موسمیاتی تبدیلی اور سیلاب متاثرین کی بحالی پر مرکوز رہا۔ عالمی برادری نے اس پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا اور اس مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

امید کی جاتی ہے کی دورہ امریکہ کے دوران وزیراعظم اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی اہم عالمی شخصیات سے ملاقاتیں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے نتیجے میں پاکستان نے اپنے مسائل کو عالمی برادری کے سامنے پیش کیا اور اس بات کو تسلیم کروایا ہے کہ عالمی سطح کے چیلنجز کو عالمگیر تعاون اور مشترکہ حکمت عملی اور متحدہ اقدامات کیے ذریعے نمٹا جا سکتا ہے۔

مجموعی طور پر یہ دورہ سفارتی اور اقتصادی طور پر کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر اجاگر کیا گیا اور اور ممبر ممالک نے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کی مدت میں توسیع اور عالمی مالیاتی اداروں سے مزید مالی تعاون حاصل کیا جا سکے گا۔

کرنل (ر) فرخ چیمہ

(دفاعی تجزیہ نگار)

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے دو مقاصد ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ قومیں اپنا موقف عالمی فورم پر پیش کریں جبکہ دوسرا قومی لیڈران کی آپس میں سائڈ لائن ملاقاتیں ہوجاتی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کا موقف پیش کیا، تقریباََ تمام نکات کا احاطہ کیا اور بہت ساری سائڈ لائن ملاقاتیں بھی کیں جن کا دیرپا اثر کچھ وقت بعد نظر آئے گا۔ مختلف ملاقاتوں سے جو خبریں نکلتی ہیں، ان کی روشنی میں قوم اپنے راستہ متعین کرتی ہے۔

اس دورے کے حوالے سے میرے نزدیک یہ غلطی ہوئی کہ اسے لندن کی سیاسی گہما گہمی تھی سے جوڑ دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام پاکستانیوں نے وزیراعظم کے دورے کو اپنے اپنے نظریے سے دیکھا۔ اسی طرح میڈیا کی تمام ہیڈلائنز اور سوشل میڈیا پر امریکا کے بجائے لندن کا دورہ ہائی لائٹ رہا ۔ میرے نزدیک اگر دونوں بڑے ایونٹس علیحدہ علیحدہ کرتے تو بہتر نتائج سامنے آتے۔

اگر ایسا نہیں ہوسکتا تھا تو وزیراعظم شہباز شریف پارٹی قائد اور بھائی میاں نواز شریف سے ملاقات کو اتنی ہائپ نہ دیتے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں اپنی محنت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ آج بھی لوگ اس ملاقات کے نتائج کو دیکھ رہے ہیں لیکن جنرل اسمبلی کے خطاب کے نتائج کب آئیں گے۔

اس کیلئے قیاس آرائیاں ہی کی جاسکتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی میڈیاکو اس پر توجہ دینی چاہیے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے سائڈ لائن ہونے والوی ملاقاتوں کا بہتر تجزیہ کریں اور اان کی مثبت باتیں لوگوں کے سامنے لائیں۔ اس حوالے سے حکومت کو خود لیڈ لینا پڑے گی، اسے اپنے طریقہ کار سے میڈیا کو بھی ایجوکیٹ کرنا ہوگا، اس سے خاطر خواہ فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔
Load Next Story