افغان طالبان اور ہماری خارجہ پالیسی
ایک گروپ دنیا کے ساتھ چلنا چاہتا ہے تو دوسرا اپنے اصولوں اور اقدار پر کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہے
افغانستان کی سرزمین کو پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے، افغان طالبان کا کہنا ہے کہ ہماری سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہوئی تو ذمے دار کو گرفتار کرکے غداری کا مقدمہ چلائیں گے ،طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو ایسی سرگرمیاں کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
طالبان ترجمان کی جانب سے یہ وارننگ ایک مثبت پیش رفت کہی جاسکتی ہے لیکن اس بیان کی حقیقت تو اس وقت پتہ چلے گی ، جب پاکستان کو مطلوب لوگوں کے خلاف عملاً کارروائی کی جائے گی،افغانستان کی حکومت کے زعماء اپنے بیانات میں جو کچھ کہتے ہیں۔
ان پر عملی اقدام کم ہی نظر آتے ہیں۔ افغانستان پر طالبان حکومت کا کنٹرول کتنا موثر ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، افغانستان میں دہشت گردی کی وارداتیں اب بھی ہورہی ہیں، طالبان سیکیورٹی فورسز اور طالبان کا انٹیلی جنس سسٹم زیادہ موثر ثابت نہیں ہورہے۔کابل میں القاعدہ کے رہنما ایمن الزواہری کی موت کے بعد صورتحال زیادہ کھل کر سامنے آئی ہے۔ ادھر پاکستان میں بھی افغانستان کے علاقے سے دہشت گرد کارروائیاں کرتے ہیں۔
اس کا واضح مطلب ہے کہ افغانستان کی حکومت نے اپنی جنوبی سرحد کو سیکیورٹی کے حوالے سے محفوظ نہیں بنایا ہے، یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے دہشت گرد بلاروک ٹوک پاکستان میں دراندازی کرتے ہیں۔
افغانستان میں طالبان نے حکومت تو قائم کرلی ہے لیکن وہ جدید تقاضوں کے مطابق سینٹرلائز ایڈمنسٹریٹو سسٹم بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔صوبوں اور اضلاع کی سطح پر بھی انتظامی اور جوڈیشل سسٹم قائم نہیں ہے۔سرحدوں کو محفوظ بنانے کا بھی کوئی مربوط نظام موجود نہیں ہے۔
امریکا کی مدد سے حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں جو نیشنل آرمی قائم کی گئی تھی، وہ سسٹم زمین بوس ہوچکا ہے۔افغان نیشنل آرمی اپنی افادیت ثابت کرنے میں ناکام رہی اور وہ طالبان کی غیرمنظم فورس کا بھی مقابلے کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی، اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان نیشنل آرمی کی قیادت میں عسکری منصوبہ بندی کرنے کے لیے جس فوجی ذہانت، زیرکی اور دلیری کی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ اس سے عاری تھی،حالانکہ جنگجو تنظیمیں خواہ وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، وہ ریگولر اور تربیت یافتہ فوج کا میدان جنگ میں مقابلہ نہیں کرسکتیں لیکن افغانستان کی حکمران قیادت اورنیشنل آرمی قبائلی سوچ سے باہر نہ نکل سکی، اس وجہ سے ہی حکمران قیادت اور فوجی قیادت میں افغان نیشنل ازم محض بیانات کی حد تک تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔
افغانستان کو ایک قوم بنانے کی راہ میں بھی قبائلی معاشرت اور روایات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، وہاں قوم سے مراد قبیلہ ہے،اس سے اوپر جاکر افغانستان کا سارا خطہ پشتون، تاجک، ہزارہ منگول، ازبک وغیرہ میں منقسم ہے۔ایک قوم کا تصور کمزور ہے کیونکہ اس کے پس پردہ مضبوط نظریاتی بنیادیں نہیں ہیں۔اسی لیے تاریخ میں افغانستان بڑی عسکری قوت کے طور پر نظر نہیں آتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیکیورٹی سمیت اہم معاملات پر ڈائیلاگ کا ایک جامع نظام موجود ہے لیکن اس کے باوجود صورتحال میں مثبت تبدیلی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ بہرحال ترجمان افغان طالبان کے خیالات صائب تو ہیں ، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں ، افغانستان کا ساتھ نبھانے کی پالیسی نے پاکستان کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے۔ جانی نقصان کے ساتھ ساتھ پاکستانی معیشت اور انفرااسٹرکچر کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔
آج بھی ہماری حکومت پاکستانی طالبان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہے کیونکہ انھیں افغانستان کے طالبان کی سرپرستی اور مدد حاصل ہے ۔تزویراتی گہرائی اور افغان طالبان ہمارے دوست کے نظریے نے پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی بنانے نہیں دی ۔افغان طالبان حکومت کو عالمی سطح پر تاحال تسلیم نہیں کیا گیا ہے ، پاکستان نے سفارتی سطح پر بہت زیادہ کوششیں اس ضمن میں کی ہیں لیکن افغانستان عالمی برادری میں تنہائی کا شکار ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان بضد ہیں کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق ہی حکومت چلائیں گے ، درحقیقت طالبان قیادت ملکی حکومت چلانے کے مشکل کام کے حوالے سے پریشانی اور ابہام کا شکار ہے، وہ ماضی اور مستقبل میں الجھ کر رہ گئے ہیں، وہ کبھی اپنی ماضی کی حکومت کا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہتے ہیں تو کبھی مستقبل کی جانب دیکھ کر کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں ڈالر کے بحران کی ایک وجہ افغانستان میں پیدا ہونے والی غیر یقینی صورت حال ہے۔ آج بھی تقریباً 20 سے 30 ہزار لوگ روزانہ پاک افغان سرحد پر سفر کرتے ہیں۔ دوران سفر وہ افغان کرنسی یا ڈالرز ساتھ رکھتے ہیں، جب سے طالبان نے افغانستان کو فتح کیا ہے۔
افغان کرنسی کی قیمت گر گئی ہے ، اس لیے لوگ اپنے ساتھ ڈالرز رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ڈالرز کی بڑی تعداد چونکہ پاکستان سے خریدی جاتی ہے اس لیے پاکستانی مارکیٹ میں ڈالرز کی قیمت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔افغانستان میں بھی ڈالر کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کا اثر پاکستان پر پڑ رہا ہے، جس کے باعث ڈالر اسمگلنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔بظاہر افغانستان کی غیریقینی صورت حال جلد ختم ہونے والی نہیں۔ آنے والے دنوں میں جب طالبان حکومت پر مزید پابندیاں لگیں گی تو پاکستان بھی اس کی زد میں آ سکتا ہے۔
افغانستان معدنیات کے حوالے سے مالامال ہے۔ سونا، چاندی، اسٹیل، لوہا، کاپر، اور لیتھیم کے تقریباً دس کھرب ڈالرز کے ایسے ذخائر موجود ہیں جنھیں ابھی تک ہاتھ نہیں لگایا گیا ہے۔اگر دیگر معدنیات کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان کی مالیت تقریباً تین کھرب ڈالرز بنتی ہے۔
اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کے ذخائر بھی موجود ہیں جن سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ماہرین کا ماننا ہے کہ آنے والے سالوں میں دنیا کی تمام بڑی مائننگ کمپنیاں افغانستان کا رخ کر سکتی ہیں۔ ابھی بھی کچھ کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن کے ہیڈ آفس کابل میں ہیں، اگر طالبان حکومت عالمی برادری کا اعتماد جیتنے میں کامیابی ہوجاتی ہے تو افغانستان پوری دنیا کی ضرورت بن سکتا ہے، اس سے پاکستانی تاجروں اور سرمایہ کاروں کو بھی فائدہ حاصل ہو گا بلکہ افغانستان میں بے روزگاری کم کرنے میں بھی مدد مل سکے گی۔
طالبان کے اندرونی اختلافات کے بارے میں بھی سب جانتے ہیں، ایک گروپ دنیا کے ساتھ چلنا چاہتا ہے تو دوسرا اپنے اصولوں اور اقدار پر کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ پاکستان کو ان حقائق کی روشنی میں اپنی خارجہ پالیسی تیار کرنا ہوگی۔
طالبان ترجمان کی جانب سے یہ وارننگ ایک مثبت پیش رفت کہی جاسکتی ہے لیکن اس بیان کی حقیقت تو اس وقت پتہ چلے گی ، جب پاکستان کو مطلوب لوگوں کے خلاف عملاً کارروائی کی جائے گی،افغانستان کی حکومت کے زعماء اپنے بیانات میں جو کچھ کہتے ہیں۔
ان پر عملی اقدام کم ہی نظر آتے ہیں۔ افغانستان پر طالبان حکومت کا کنٹرول کتنا موثر ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، افغانستان میں دہشت گردی کی وارداتیں اب بھی ہورہی ہیں، طالبان سیکیورٹی فورسز اور طالبان کا انٹیلی جنس سسٹم زیادہ موثر ثابت نہیں ہورہے۔کابل میں القاعدہ کے رہنما ایمن الزواہری کی موت کے بعد صورتحال زیادہ کھل کر سامنے آئی ہے۔ ادھر پاکستان میں بھی افغانستان کے علاقے سے دہشت گرد کارروائیاں کرتے ہیں۔
اس کا واضح مطلب ہے کہ افغانستان کی حکومت نے اپنی جنوبی سرحد کو سیکیورٹی کے حوالے سے محفوظ نہیں بنایا ہے، یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے دہشت گرد بلاروک ٹوک پاکستان میں دراندازی کرتے ہیں۔
افغانستان میں طالبان نے حکومت تو قائم کرلی ہے لیکن وہ جدید تقاضوں کے مطابق سینٹرلائز ایڈمنسٹریٹو سسٹم بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔صوبوں اور اضلاع کی سطح پر بھی انتظامی اور جوڈیشل سسٹم قائم نہیں ہے۔سرحدوں کو محفوظ بنانے کا بھی کوئی مربوط نظام موجود نہیں ہے۔
امریکا کی مدد سے حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں جو نیشنل آرمی قائم کی گئی تھی، وہ سسٹم زمین بوس ہوچکا ہے۔افغان نیشنل آرمی اپنی افادیت ثابت کرنے میں ناکام رہی اور وہ طالبان کی غیرمنظم فورس کا بھی مقابلے کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی، اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان نیشنل آرمی کی قیادت میں عسکری منصوبہ بندی کرنے کے لیے جس فوجی ذہانت، زیرکی اور دلیری کی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ اس سے عاری تھی،حالانکہ جنگجو تنظیمیں خواہ وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، وہ ریگولر اور تربیت یافتہ فوج کا میدان جنگ میں مقابلہ نہیں کرسکتیں لیکن افغانستان کی حکمران قیادت اورنیشنل آرمی قبائلی سوچ سے باہر نہ نکل سکی، اس وجہ سے ہی حکمران قیادت اور فوجی قیادت میں افغان نیشنل ازم محض بیانات کی حد تک تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔
افغانستان کو ایک قوم بنانے کی راہ میں بھی قبائلی معاشرت اور روایات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، وہاں قوم سے مراد قبیلہ ہے،اس سے اوپر جاکر افغانستان کا سارا خطہ پشتون، تاجک، ہزارہ منگول، ازبک وغیرہ میں منقسم ہے۔ایک قوم کا تصور کمزور ہے کیونکہ اس کے پس پردہ مضبوط نظریاتی بنیادیں نہیں ہیں۔اسی لیے تاریخ میں افغانستان بڑی عسکری قوت کے طور پر نظر نہیں آتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیکیورٹی سمیت اہم معاملات پر ڈائیلاگ کا ایک جامع نظام موجود ہے لیکن اس کے باوجود صورتحال میں مثبت تبدیلی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ بہرحال ترجمان افغان طالبان کے خیالات صائب تو ہیں ، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں ، افغانستان کا ساتھ نبھانے کی پالیسی نے پاکستان کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے۔ جانی نقصان کے ساتھ ساتھ پاکستانی معیشت اور انفرااسٹرکچر کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔
آج بھی ہماری حکومت پاکستانی طالبان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہے کیونکہ انھیں افغانستان کے طالبان کی سرپرستی اور مدد حاصل ہے ۔تزویراتی گہرائی اور افغان طالبان ہمارے دوست کے نظریے نے پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی بنانے نہیں دی ۔افغان طالبان حکومت کو عالمی سطح پر تاحال تسلیم نہیں کیا گیا ہے ، پاکستان نے سفارتی سطح پر بہت زیادہ کوششیں اس ضمن میں کی ہیں لیکن افغانستان عالمی برادری میں تنہائی کا شکار ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان بضد ہیں کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق ہی حکومت چلائیں گے ، درحقیقت طالبان قیادت ملکی حکومت چلانے کے مشکل کام کے حوالے سے پریشانی اور ابہام کا شکار ہے، وہ ماضی اور مستقبل میں الجھ کر رہ گئے ہیں، وہ کبھی اپنی ماضی کی حکومت کا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہتے ہیں تو کبھی مستقبل کی جانب دیکھ کر کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں ڈالر کے بحران کی ایک وجہ افغانستان میں پیدا ہونے والی غیر یقینی صورت حال ہے۔ آج بھی تقریباً 20 سے 30 ہزار لوگ روزانہ پاک افغان سرحد پر سفر کرتے ہیں۔ دوران سفر وہ افغان کرنسی یا ڈالرز ساتھ رکھتے ہیں، جب سے طالبان نے افغانستان کو فتح کیا ہے۔
افغان کرنسی کی قیمت گر گئی ہے ، اس لیے لوگ اپنے ساتھ ڈالرز رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ڈالرز کی بڑی تعداد چونکہ پاکستان سے خریدی جاتی ہے اس لیے پاکستانی مارکیٹ میں ڈالرز کی قیمت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔افغانستان میں بھی ڈالر کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کا اثر پاکستان پر پڑ رہا ہے، جس کے باعث ڈالر اسمگلنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔بظاہر افغانستان کی غیریقینی صورت حال جلد ختم ہونے والی نہیں۔ آنے والے دنوں میں جب طالبان حکومت پر مزید پابندیاں لگیں گی تو پاکستان بھی اس کی زد میں آ سکتا ہے۔
افغانستان معدنیات کے حوالے سے مالامال ہے۔ سونا، چاندی، اسٹیل، لوہا، کاپر، اور لیتھیم کے تقریباً دس کھرب ڈالرز کے ایسے ذخائر موجود ہیں جنھیں ابھی تک ہاتھ نہیں لگایا گیا ہے۔اگر دیگر معدنیات کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان کی مالیت تقریباً تین کھرب ڈالرز بنتی ہے۔
اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کے ذخائر بھی موجود ہیں جن سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ماہرین کا ماننا ہے کہ آنے والے سالوں میں دنیا کی تمام بڑی مائننگ کمپنیاں افغانستان کا رخ کر سکتی ہیں۔ ابھی بھی کچھ کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن کے ہیڈ آفس کابل میں ہیں، اگر طالبان حکومت عالمی برادری کا اعتماد جیتنے میں کامیابی ہوجاتی ہے تو افغانستان پوری دنیا کی ضرورت بن سکتا ہے، اس سے پاکستانی تاجروں اور سرمایہ کاروں کو بھی فائدہ حاصل ہو گا بلکہ افغانستان میں بے روزگاری کم کرنے میں بھی مدد مل سکے گی۔
طالبان کے اندرونی اختلافات کے بارے میں بھی سب جانتے ہیں، ایک گروپ دنیا کے ساتھ چلنا چاہتا ہے تو دوسرا اپنے اصولوں اور اقدار پر کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ پاکستان کو ان حقائق کی روشنی میں اپنی خارجہ پالیسی تیار کرنا ہوگی۔