محکمہ تعلیم کی غفلت کراچی کے سرکاری کالج کی عمارت ’بھوت بنگلے‘ میں تبدیل
سنہ 2012 میں بننے والی اس عمارت میں نشئی افراد نے ڈیرا جما لیا ہے، تدریسی عمل عارضی طور پر اسکول میں جاری
شہر قائد کے علاقے ابراہیم حیدری میں قائم گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج محکمہ تعلیم کی عدم توجہ کی وجہ سے بھوت بنگلے کا منظر پیش کررہا ہے، جس کے بعد تدریسی عمل قریبی اسکول میں جاری ہے جبکہ اس عمارت کو بھی ماہرین نے انتہائی خستہ حال اور ناقص قرار دے دیا ہے۔
صوبائی محکمہ تعلیم کی عدم توجہ اور مسائل کے سبب گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج ابراہیم حیدری بھوت بنگلے میں تبدیل ہوگیا۔کالج کی عمارت تعلیم کا مرکز بنے کے بجائے نشہ کرنے والوں کا گڑھ بن گئی ہے اور گزشتہ 10 برسوں سے یہاں تاحال کوئی تدریسی عمل نہیں ہوا۔
ابراہیم حیدری میں قائم گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج کا افتتاح 2012 میں ہوا جس کے کچھ عرصے بعد ہی گندگی بدبو دیگر وجوہات کے بنا پر کالج غیر فعال کردیا گیا، 5 سال عدم توجہی کا شکار رہنے سے کالج کی عمارت مکمل تباہ ہوگئی۔
ایکسپریس نے پرانے ابراہیم کالج کا دورہ کیا، وہاں موجود علاقہ مکین عبید نے بتایا یہاں سب کالجز بہت دور دور ہیں اور اطراف میں فیکٹریاں ہیں۔ یہ واحد ایک بڑا سرکاری کالج تھا جہاں کئی سالوں سے نشہ کرنے والوں نے ڈیرا جمایا ہوا ہے۔
عبید کا کہنا تھا کہ ہماری عمر تو نکل گئی مگر آج کے اور آنے والوں بچوں کا مستقبل خراب ہونے سے بچائیں، اگر اس کالج کو فعال نہیں کرسکتے تو اس کالج کو مکمل ختم کیا جائے کیونکہ یہاں نشئی آتے اور پھر رہائشی علاقوں میں گھس کر چوریاں کرتے ہیں۔ یہاں زرا سی بارش ہوتی ہے پورا کالج پانی سے بھر جاتا ہے کوئی دیکھنے والا نہیں۔
ذرائع کے مطابق سندھ اسمبلی میں معاملہ کو اجاگر کرنے کے بعد 2017 میں اس کالج کو عارضی طور پر کھولا گیا تھا اور پھر اس کو ابراہیم حیدری کالج کا نام دے کر عطاء اللہ منگی کو انچارج پرنسپل مقرر کیا گیا، اُس وقت یہاں طلبا کی تعداد 92 تھی جبکہ اس وقت 536 ہیں، جو خستہ حال اسکول کی عمارت میں کلاسز لینے پر مجبور ہیں۔
ذرائع کے مطابق موجودہ کالج کی مالکیت نہ ہونے کے باعث کالج بنیادی سہولیات سے محروم ہے بجلی، گیس، فون سمیت کوئی سہولت میسر نہیں ۔خستہ حالی عمارت کو انجینئر ایجوکیشن ورکس ڈپارٹمنٹ نے فوری خالی کرنے کا نوٹس بھی دیا۔
گورنمنٹ بوائز کالج ابراہیم حیدری کے پرنسپل عطاء اللہ منگی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گورنمنٹ بوائز ابراہیم حیدری کالج کا 2012 میں افتتاح ہوا 2017 میں مجھے انچارج پرنسپل مقرر کیا گیا 2017 سے 2022 تا حال کلاسز ابراہیم حیدری کے علاقے سندھی پاڑا میں عارضی طور پر پرائمری اسکول کو گورنمنٹ بوائز کالج ابراہیم حیدری کا نام دے کر ہو رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عارضی کالج کی حالت انتہائی خستہ اور پرانی ہے اور اساتذہ کی شدید کمی ہے۔ 550 طلبا زیر تعلیم ہیں مگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، کالج میں ایک بھی ایسوسی ایٹ پروفیسر نہیں جبکہ 3 ہونے چائیں البتہ اسسٹنٹ پروفیسرز 2 ہیں جبکہ 5 ہونے چاہئیں اور ایک بھی کمپیوٹر آپریٹر، سپر ٹینڈیٹ اور خاکروب نہیں ہے۔ جس سے موجودہ عملے کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کالج میں کینٹین، اسپورٹس روم، لائبریری بھی نہیں ہے جبکہ 536 طلباء کے لیے 2 کلاسز ہیں، خوف اور اطراف کے حالات کے خوف کی وجہ سے طلبا کالج آنےسے کتراتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے چند دنوں پہلے ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ ڈاکٹر محمد علی مانجھی نے ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز سندھ ڈاکٹر محمد قاسم راجپر کے ہمراہ عارضی گورنمنٹ بوائز کالج ابراہیم حیدری کراچی کا دورہ کیا تھا، میں نے ان سے کالج کی نئی عمارت کی تعمیر کی درخواست کی جس پر ڈی جی کالجز نے یقین دلایا کہ اس معاملے پر اعلیٰ حکام سے بات کی جائے گی۔
ڈی جی کالجز ڈاکٹرمحمد علی مانجھی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ابراہیم حیدری کالج کا دورہ کیا ہے، اگلے ہفتے انجینئرز عمارت کا جائزہ لیں گے اور عمارت کی باقاعدگی سے مرمت کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ 2012 میں جس کالج کا افتتاح ہوا وہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا ہے، ابھی کے کالج کے لیے ایک پلاٹ پر کام کروائیں گے جس میں 3 سال لگ جائیں گے تب تک عارضی طور پر تدریسی عمل جاری رکھا جائے گا تا کہ تعلیمی سرگرمیاں متاثر نہ ہو۔
کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر غلام نبی لغاری نے کہا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کالج تک نہیں آتی جس کے باعث کالج آنے میں اساتذہ اور طلباء کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس سائنس جیسے اہم مضمون کے اساتذہ نہیں ہیں جس میں باٹنی ، زولوجی، فزکس شامل ہیں۔ اکاؤنٹنگ آرٹس اور لازمی مضامین کے اساتذہ بھی موجود نہیں، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی ملا کر 8 گروپس ہیں۔ جس کی مشکل سے 5یا 6 کلاسز ہوتی ہیں جس کی موجودہ اساتذہ ہی زمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عارضی کالج کی عمارت میں بجلی اور گیس مناسب نہ ہونے کے باعث کیمسٹری لیب نہیں چلا سکتے۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ کالج کو مین روڈ پر منتقل کیا جائے تا کہ طلبا اور استاذہ کو رسائی میں مشکل نہ ہو، اگر ہم طالب علموں کو سہولیات دیں تو وہ اتنی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اچھی کارکردگی دکھا سکیں۔
صوبائی محکمہ تعلیم کی عدم توجہ اور مسائل کے سبب گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج ابراہیم حیدری بھوت بنگلے میں تبدیل ہوگیا۔کالج کی عمارت تعلیم کا مرکز بنے کے بجائے نشہ کرنے والوں کا گڑھ بن گئی ہے اور گزشتہ 10 برسوں سے یہاں تاحال کوئی تدریسی عمل نہیں ہوا۔
ابراہیم حیدری میں قائم گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج کا افتتاح 2012 میں ہوا جس کے کچھ عرصے بعد ہی گندگی بدبو دیگر وجوہات کے بنا پر کالج غیر فعال کردیا گیا، 5 سال عدم توجہی کا شکار رہنے سے کالج کی عمارت مکمل تباہ ہوگئی۔
ایکسپریس نے پرانے ابراہیم کالج کا دورہ کیا، وہاں موجود علاقہ مکین عبید نے بتایا یہاں سب کالجز بہت دور دور ہیں اور اطراف میں فیکٹریاں ہیں۔ یہ واحد ایک بڑا سرکاری کالج تھا جہاں کئی سالوں سے نشہ کرنے والوں نے ڈیرا جمایا ہوا ہے۔
عبید کا کہنا تھا کہ ہماری عمر تو نکل گئی مگر آج کے اور آنے والوں بچوں کا مستقبل خراب ہونے سے بچائیں، اگر اس کالج کو فعال نہیں کرسکتے تو اس کالج کو مکمل ختم کیا جائے کیونکہ یہاں نشئی آتے اور پھر رہائشی علاقوں میں گھس کر چوریاں کرتے ہیں۔ یہاں زرا سی بارش ہوتی ہے پورا کالج پانی سے بھر جاتا ہے کوئی دیکھنے والا نہیں۔
ذرائع کے مطابق سندھ اسمبلی میں معاملہ کو اجاگر کرنے کے بعد 2017 میں اس کالج کو عارضی طور پر کھولا گیا تھا اور پھر اس کو ابراہیم حیدری کالج کا نام دے کر عطاء اللہ منگی کو انچارج پرنسپل مقرر کیا گیا، اُس وقت یہاں طلبا کی تعداد 92 تھی جبکہ اس وقت 536 ہیں، جو خستہ حال اسکول کی عمارت میں کلاسز لینے پر مجبور ہیں۔
ذرائع کے مطابق موجودہ کالج کی مالکیت نہ ہونے کے باعث کالج بنیادی سہولیات سے محروم ہے بجلی، گیس، فون سمیت کوئی سہولت میسر نہیں ۔خستہ حالی عمارت کو انجینئر ایجوکیشن ورکس ڈپارٹمنٹ نے فوری خالی کرنے کا نوٹس بھی دیا۔
گورنمنٹ بوائز کالج ابراہیم حیدری کے پرنسپل عطاء اللہ منگی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گورنمنٹ بوائز ابراہیم حیدری کالج کا 2012 میں افتتاح ہوا 2017 میں مجھے انچارج پرنسپل مقرر کیا گیا 2017 سے 2022 تا حال کلاسز ابراہیم حیدری کے علاقے سندھی پاڑا میں عارضی طور پر پرائمری اسکول کو گورنمنٹ بوائز کالج ابراہیم حیدری کا نام دے کر ہو رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عارضی کالج کی حالت انتہائی خستہ اور پرانی ہے اور اساتذہ کی شدید کمی ہے۔ 550 طلبا زیر تعلیم ہیں مگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، کالج میں ایک بھی ایسوسی ایٹ پروفیسر نہیں جبکہ 3 ہونے چائیں البتہ اسسٹنٹ پروفیسرز 2 ہیں جبکہ 5 ہونے چاہئیں اور ایک بھی کمپیوٹر آپریٹر، سپر ٹینڈیٹ اور خاکروب نہیں ہے۔ جس سے موجودہ عملے کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کالج میں کینٹین، اسپورٹس روم، لائبریری بھی نہیں ہے جبکہ 536 طلباء کے لیے 2 کلاسز ہیں، خوف اور اطراف کے حالات کے خوف کی وجہ سے طلبا کالج آنےسے کتراتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے چند دنوں پہلے ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ ڈاکٹر محمد علی مانجھی نے ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز سندھ ڈاکٹر محمد قاسم راجپر کے ہمراہ عارضی گورنمنٹ بوائز کالج ابراہیم حیدری کراچی کا دورہ کیا تھا، میں نے ان سے کالج کی نئی عمارت کی تعمیر کی درخواست کی جس پر ڈی جی کالجز نے یقین دلایا کہ اس معاملے پر اعلیٰ حکام سے بات کی جائے گی۔
ڈی جی کالجز ڈاکٹرمحمد علی مانجھی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ابراہیم حیدری کالج کا دورہ کیا ہے، اگلے ہفتے انجینئرز عمارت کا جائزہ لیں گے اور عمارت کی باقاعدگی سے مرمت کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ 2012 میں جس کالج کا افتتاح ہوا وہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا ہے، ابھی کے کالج کے لیے ایک پلاٹ پر کام کروائیں گے جس میں 3 سال لگ جائیں گے تب تک عارضی طور پر تدریسی عمل جاری رکھا جائے گا تا کہ تعلیمی سرگرمیاں متاثر نہ ہو۔
کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر غلام نبی لغاری نے کہا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کالج تک نہیں آتی جس کے باعث کالج آنے میں اساتذہ اور طلباء کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس سائنس جیسے اہم مضمون کے اساتذہ نہیں ہیں جس میں باٹنی ، زولوجی، فزکس شامل ہیں۔ اکاؤنٹنگ آرٹس اور لازمی مضامین کے اساتذہ بھی موجود نہیں، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی ملا کر 8 گروپس ہیں۔ جس کی مشکل سے 5یا 6 کلاسز ہوتی ہیں جس کی موجودہ اساتذہ ہی زمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عارضی کالج کی عمارت میں بجلی اور گیس مناسب نہ ہونے کے باعث کیمسٹری لیب نہیں چلا سکتے۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ کالج کو مین روڈ پر منتقل کیا جائے تا کہ طلبا اور استاذہ کو رسائی میں مشکل نہ ہو، اگر ہم طالب علموں کو سہولیات دیں تو وہ اتنی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اچھی کارکردگی دکھا سکیں۔