سیلاب پر سیاست ہی نہیں سنگ دلی بھی
امدادی اشیا کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سیاسی مفادات اور اقربا پروری ہے۔ سیاستدان انتخابی مہم بھی چلا رہے ہیں
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیلاب پر سیاست کرنے والوں سے عوام حساب لیں گے مگر حکومت کی طرف سے یہ نہیں کہا جا رہا کہ سیلاب متاثرین کی حکومتی امداد کی تقسیم میں کرپشن، اقربا پروری، بلیک میلنگ، گراں فروشی، سیاسی وجوہات پر امدادی سامان کی تقسیم، سیلاب متاثرین کے لیے آئے ہوئے امدادی سامان کے ٹرکوں کو خفیہ مقامات پر چھپا دینے کے ذمے داروں کو کیوں نہیں روکا جا رہا اور قدرتی آفات پر بھی سنگ دلی کا مظاہرہ کرنے والوں کو کب پوچھا جائے گا؟
ڈبلیو ایچ او کے مطابق سیلاب کے بعد وبائی امراض میں تشویش ناک اضافہ ہو رہا ہے اور امریکی سینیٹر باب سینڈز کے مطابق ملنے والی امداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ سیلاب نے قدرتی وباؤں سے نمٹنے کی صلاحیت کم کردی ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق سیلاب سے پاکستان میں دو ہزار صحت کے مراکز تباہ ہو چکے ہیں۔
پاکستانی و امریکی کمیونٹی کی تقریب میں کہا گیا ہے کہ سیلاب سے تباہی اتنی زیادہ ہے کہ غیر ملکی امداد کم پڑ رہی ہے اس لیے سیلاب بحالی پروگرام کے لیے بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس منعقد ہونی چاہیے۔
ملک کے چاروں صوبوں میں عالمی طور پر اس قدر تشویش پائی جا رہی ہے مگر اندرون ملک سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کو عام انتخابات کی بہت جلدی ہے اور اسے ملک میں قیامت خیز سیلابی تباہ کاریوں کا کوئی احساس نہیں اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کہہ رہے ہیں کہ ایک سیاسی رہنما کو آرمی چیف کی تقرری اور حکومتی رہنماؤں کو نیب کی پڑی ہے جب کہ سب سے اہم مسئلہ سیلاب ہے مگر اس پر توجہ کم ہے۔
بیرون ملک سے سیلاب متاثرین کے لیے امداد آ رہی ہے اور ملک بھر میں فلاحی ادارے مخیر حضرات کے تعاون سے متاثرین کی دادرسی کر رہے ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں سے سیلاب متاثرین تک اپنے مواصلاتی ذرائع محدود ہونے کے باوجود فلاحی اداروں کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔ ملک بھر میں ریلیف کیمپس قائم تو کیے گئے ہیں مگر وہاں سہولتوں کا شدید فقدان ہے۔ لاکھوں افراد سڑکوں کے کنارے، بندوں اور پانی سے محفوظ علاقوں میں دادرسی کے منتظر ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ ان لوگوں کے پاس سر چھپانے کی محفوظ جگہ ہے نہ انھیں خیمے ملے جس کی وجہ سے وہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنی چارپائیوں کے سائے میں خود کو بچا رہے ہیں۔ پنجاب، کے پی اور بلوچستان کی حکومتوں کی بے حسی کی تو انتہا نظر آئی اور صرف سندھ کے وزیر اعلیٰ متاثرہ علاقوں میں کسی حد تک پہنچے مگر ان کی کارکردگی سے متاثرین مطمئن نہیں اس لیے ان کی گاڑی کو متاثرین نے روکا جواب میں انھیں صرف تسلیاں ملیں۔
ہر جگہ متاثرین احتجاج کرتے رہے کہ انھیں صبح شام چاول کھلا کر بیمار کردیا گیا ہے انھیں مسلسل چاول کھلانے کی بجائے خشک راشن دیا جائے وہ چاول کھا کھا کر تنگ آگئے ہیں۔
سخت گرمی، دھوپ، سہولتوں کی عدم فراہمی، پینے کے صاف پانی کے فقدان، پہننے کے کپڑے نہ ہونے، دوائیں نہ ملنے، اپنے بچوں کی بیماریوں کی صورت حال، زچہ خواتین کی بدحالی سے متاثرین اس قدر تنگ آگئے ہیں کہ انھوں نے احتجاج اور آپس میں لڑنا شروع کردیا ہے۔ مظاہرین اپنے علاقوں میں من پسند افراد کو نوازنے، سیاسی اور برادری بنیادوں پر امدادی اشیا کی تقسیم پر بھی سراپا احتجاج ہیں۔
اکثر متاثرہ علاقوں کے ارکان اسمبلی اور وزرا انھیں پوچھنے تک نہیں آئے کیونکہ انھیں اپنے علاقوں کے متاثرین کی بجائے اپنے رہائشی علاقے اور فصلیں بچانے کی پڑی رہی اور انھوں نے اپنے اثر و رسوخ اپنے علاقے بچا کر غریبوں کے علاقوں کو ڈبونے کو ترجیح دی اور وزیر اعلیٰ سندھ نے یہ کہہ کر جان چھڑالی کہ ایسا محکمہ آبپاشی کی غلطیوں سے ہوا۔
حکومت نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔ پی پی کے رکن سندھ اسمبلی قمبر اس صورت حال پر اپنی ہی حکومت پر برس پڑے کہ سندھ حکومت کہیں نظر نہیں آئی۔ وزرا و مشیر صرف بیان بازی کرتے رہے اور انھوں نے کچھ نہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ اگر پانی کو راستہ دے دیتی تو شہر نہ ڈوبتے اور نہ ہی اتنی بڑی تباہی پھیلتی۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر جگہ بااثر افراد نے بندوں پر کٹ لگوا کر اپنے علاقوں کو محفوظ بنایا اور کچھ نہیں کیا۔
سندھ اور بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب سے سب سے زیادہ تباہی اور لاکھوں افراد متاثر ہوئے جنھیں اب بیماریوں کا سامنا ہے۔ ان کے علاقوں میں اب بیماریوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ سیلاب کا پانی مزید ایک ماہ موجود رہنے کا خدشہ ہے۔ ہر طرف گیسٹرو اور ملیریا کا راج ہے۔
اب بیماریوں سے روزانہ ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ دادو کے اسپتال میں سات ہزار مریض داخل ہیں اور جن علاقوں میں پانی موجود اور متاثرین کھلے آسمان تلے موسم کی سختی اور بیماریوں میں آ پھنسے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ہمارا سب کچھ لٹ چکا۔
کھانے کو پیسے نہیں تو علاج کیسے کرائیں۔ امدادی ادارے متاثرین کو خوراک کے ساتھ طبی امداد بھی دے رہے ہیں مگر سندھ و بلوچستان کی حکومتیں لوگوں کو طبی سہولیات فراہم نہیں کر پا رہیں کیونکہ سرکاری طبی عملہ کم اور بیماروں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کی مدد حکومتیں نہیں کر رہیں کیونکہ دوائیں بھی کم ہیں۔ سندھ کے بعض علاقوں میں کئی کئی فٹ پانی موجود ہے جہاں لوگ کشتیاں استعمال کر رہے ہیں اور انھوں نے چارپائیوں سے ڈرم باندھ کر آمد و رفت کے متبادل ذرائع بنا لیے ہیں کیونکہ کشتیاں کم پڑ چکی ہیں۔
سیاسی سنگ دلی کی انتہا یہ ہے کہ متاثرین کی مدد کی بجائے عمران خان کے جلسے مسلسل ہو رہے ہیں جن پر کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ جلسے روک کر یہ رقم اگر متاثرین پر خرچ کی جاتی تو صورتحال بہتر ہوسکتی تھی۔ سندھ کے چور، ڈاکو بھی پی ٹی آئی کی طرح سنگدل بن چکے ہیں۔ راتوں کو کشتیوں میں جا کر لٹے پٹے متاثرین کے گھروں میں چوریاں کی جا رہی ہیں۔
امدادی اشیا کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سیاسی مفادات اور اقربا پروری ہے۔ سیاستدان انتخابی مہم بھی چلا رہے ہیں۔ مجبوروں کی مجبوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ متاثرہ علاقوں کے سرکاری افسر امدادی مال خود ہتھیانے کے لیے آپس میں لڑ رہے ہیں اور روکنے اور سیاست سے دور رہنے والے اعلیٰ افسر برائے نام ہیں۔ اسی سلسلے میں خیرپور کے چار ڈپٹی کمشنر تبدیل ہو چکے ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں فلاحی ادارے بلاامتیاز امداد بانٹ رہے ہیں اور سنگدل سیاسی لوگ سیلاب کو بھی اپنی کمائی اور سیاسی انتقام کا ذریعہ بنا بیٹھے ہیں جنھیں متاثرین کی تکالیف سے زیادہ اپنا سیاسی مفاد عزیز ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق سیلاب کے بعد وبائی امراض میں تشویش ناک اضافہ ہو رہا ہے اور امریکی سینیٹر باب سینڈز کے مطابق ملنے والی امداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ سیلاب نے قدرتی وباؤں سے نمٹنے کی صلاحیت کم کردی ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق سیلاب سے پاکستان میں دو ہزار صحت کے مراکز تباہ ہو چکے ہیں۔
پاکستانی و امریکی کمیونٹی کی تقریب میں کہا گیا ہے کہ سیلاب سے تباہی اتنی زیادہ ہے کہ غیر ملکی امداد کم پڑ رہی ہے اس لیے سیلاب بحالی پروگرام کے لیے بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس منعقد ہونی چاہیے۔
ملک کے چاروں صوبوں میں عالمی طور پر اس قدر تشویش پائی جا رہی ہے مگر اندرون ملک سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کو عام انتخابات کی بہت جلدی ہے اور اسے ملک میں قیامت خیز سیلابی تباہ کاریوں کا کوئی احساس نہیں اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کہہ رہے ہیں کہ ایک سیاسی رہنما کو آرمی چیف کی تقرری اور حکومتی رہنماؤں کو نیب کی پڑی ہے جب کہ سب سے اہم مسئلہ سیلاب ہے مگر اس پر توجہ کم ہے۔
بیرون ملک سے سیلاب متاثرین کے لیے امداد آ رہی ہے اور ملک بھر میں فلاحی ادارے مخیر حضرات کے تعاون سے متاثرین کی دادرسی کر رہے ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں سے سیلاب متاثرین تک اپنے مواصلاتی ذرائع محدود ہونے کے باوجود فلاحی اداروں کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔ ملک بھر میں ریلیف کیمپس قائم تو کیے گئے ہیں مگر وہاں سہولتوں کا شدید فقدان ہے۔ لاکھوں افراد سڑکوں کے کنارے، بندوں اور پانی سے محفوظ علاقوں میں دادرسی کے منتظر ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ ان لوگوں کے پاس سر چھپانے کی محفوظ جگہ ہے نہ انھیں خیمے ملے جس کی وجہ سے وہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنی چارپائیوں کے سائے میں خود کو بچا رہے ہیں۔ پنجاب، کے پی اور بلوچستان کی حکومتوں کی بے حسی کی تو انتہا نظر آئی اور صرف سندھ کے وزیر اعلیٰ متاثرہ علاقوں میں کسی حد تک پہنچے مگر ان کی کارکردگی سے متاثرین مطمئن نہیں اس لیے ان کی گاڑی کو متاثرین نے روکا جواب میں انھیں صرف تسلیاں ملیں۔
ہر جگہ متاثرین احتجاج کرتے رہے کہ انھیں صبح شام چاول کھلا کر بیمار کردیا گیا ہے انھیں مسلسل چاول کھلانے کی بجائے خشک راشن دیا جائے وہ چاول کھا کھا کر تنگ آگئے ہیں۔
سخت گرمی، دھوپ، سہولتوں کی عدم فراہمی، پینے کے صاف پانی کے فقدان، پہننے کے کپڑے نہ ہونے، دوائیں نہ ملنے، اپنے بچوں کی بیماریوں کی صورت حال، زچہ خواتین کی بدحالی سے متاثرین اس قدر تنگ آگئے ہیں کہ انھوں نے احتجاج اور آپس میں لڑنا شروع کردیا ہے۔ مظاہرین اپنے علاقوں میں من پسند افراد کو نوازنے، سیاسی اور برادری بنیادوں پر امدادی اشیا کی تقسیم پر بھی سراپا احتجاج ہیں۔
اکثر متاثرہ علاقوں کے ارکان اسمبلی اور وزرا انھیں پوچھنے تک نہیں آئے کیونکہ انھیں اپنے علاقوں کے متاثرین کی بجائے اپنے رہائشی علاقے اور فصلیں بچانے کی پڑی رہی اور انھوں نے اپنے اثر و رسوخ اپنے علاقے بچا کر غریبوں کے علاقوں کو ڈبونے کو ترجیح دی اور وزیر اعلیٰ سندھ نے یہ کہہ کر جان چھڑالی کہ ایسا محکمہ آبپاشی کی غلطیوں سے ہوا۔
حکومت نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔ پی پی کے رکن سندھ اسمبلی قمبر اس صورت حال پر اپنی ہی حکومت پر برس پڑے کہ سندھ حکومت کہیں نظر نہیں آئی۔ وزرا و مشیر صرف بیان بازی کرتے رہے اور انھوں نے کچھ نہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ اگر پانی کو راستہ دے دیتی تو شہر نہ ڈوبتے اور نہ ہی اتنی بڑی تباہی پھیلتی۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر جگہ بااثر افراد نے بندوں پر کٹ لگوا کر اپنے علاقوں کو محفوظ بنایا اور کچھ نہیں کیا۔
سندھ اور بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب سے سب سے زیادہ تباہی اور لاکھوں افراد متاثر ہوئے جنھیں اب بیماریوں کا سامنا ہے۔ ان کے علاقوں میں اب بیماریوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ سیلاب کا پانی مزید ایک ماہ موجود رہنے کا خدشہ ہے۔ ہر طرف گیسٹرو اور ملیریا کا راج ہے۔
اب بیماریوں سے روزانہ ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ دادو کے اسپتال میں سات ہزار مریض داخل ہیں اور جن علاقوں میں پانی موجود اور متاثرین کھلے آسمان تلے موسم کی سختی اور بیماریوں میں آ پھنسے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ہمارا سب کچھ لٹ چکا۔
کھانے کو پیسے نہیں تو علاج کیسے کرائیں۔ امدادی ادارے متاثرین کو خوراک کے ساتھ طبی امداد بھی دے رہے ہیں مگر سندھ و بلوچستان کی حکومتیں لوگوں کو طبی سہولیات فراہم نہیں کر پا رہیں کیونکہ سرکاری طبی عملہ کم اور بیماروں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کی مدد حکومتیں نہیں کر رہیں کیونکہ دوائیں بھی کم ہیں۔ سندھ کے بعض علاقوں میں کئی کئی فٹ پانی موجود ہے جہاں لوگ کشتیاں استعمال کر رہے ہیں اور انھوں نے چارپائیوں سے ڈرم باندھ کر آمد و رفت کے متبادل ذرائع بنا لیے ہیں کیونکہ کشتیاں کم پڑ چکی ہیں۔
سیاسی سنگ دلی کی انتہا یہ ہے کہ متاثرین کی مدد کی بجائے عمران خان کے جلسے مسلسل ہو رہے ہیں جن پر کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ جلسے روک کر یہ رقم اگر متاثرین پر خرچ کی جاتی تو صورتحال بہتر ہوسکتی تھی۔ سندھ کے چور، ڈاکو بھی پی ٹی آئی کی طرح سنگدل بن چکے ہیں۔ راتوں کو کشتیوں میں جا کر لٹے پٹے متاثرین کے گھروں میں چوریاں کی جا رہی ہیں۔
امدادی اشیا کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سیاسی مفادات اور اقربا پروری ہے۔ سیاستدان انتخابی مہم بھی چلا رہے ہیں۔ مجبوروں کی مجبوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ متاثرہ علاقوں کے سرکاری افسر امدادی مال خود ہتھیانے کے لیے آپس میں لڑ رہے ہیں اور روکنے اور سیاست سے دور رہنے والے اعلیٰ افسر برائے نام ہیں۔ اسی سلسلے میں خیرپور کے چار ڈپٹی کمشنر تبدیل ہو چکے ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں فلاحی ادارے بلاامتیاز امداد بانٹ رہے ہیں اور سنگدل سیاسی لوگ سیلاب کو بھی اپنی کمائی اور سیاسی انتقام کا ذریعہ بنا بیٹھے ہیں جنھیں متاثرین کی تکالیف سے زیادہ اپنا سیاسی مفاد عزیز ہے۔