سیلاب زدگان کی بحالی پر توجہ دیں
سیلاب کو روکنے اور اس کی تباہی اور نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے ڈیم بہت ضروری ہیں
سندھ کے کئی علاقوں سے سیلاب اور بارشوں کا پانی اب تک نہیں نکالا جاسکا ہے، جس کے باعث پیدا ہونے والی وبائی بیماریوں سے اموات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
وبائی امراض کا شکار ہوکر ضلع دادو میں مزید تین سیلاب متاثرین انتقال کرگئے ، یوں صرف ایک ضلع میں ملیریا ، ڈائریا اور گیسٹرو کے باعث اموات کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی ہے، ملک کے تمام صوبوں کے مختلف اضلاع میں کم و بیش ایسی ہی صورتحال کا سامنا سیلاب زدگان کر رہے ہیں۔
سیلاب اور طوفانی بارشوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات ، اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو پورا کرنا یا ان کے اثرات کو زائل کرنا اگر نا ممکن نہیں ہے تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ یہ درست ہے کہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں، خدمتِ خلق کے ادارے اور این جی اوز اپنی بساط سے بڑھ کر امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
نقد امداد کے علاوہ ضروری اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے لیکن تسلیم کرنا پڑے گا کہ ابھی تک سیلاب اور طوفانی بارشوں سے متاثرہ علاقوں کے مکینوں اور باسیوں کی مشکلات میں اُس حد تک کمی نہیں آئی ہے ان کی بحالی تو خیر یہ بعد کی بات ہے ان کی فوری ضروریات کو بھی پورا نہیں کیا جا سکا۔
مشکل آتی ہے اور گزر جاتی ہے لیکن اس کے جانے کے ساتھ کیا کچھ چلا جاتا ہے اس کا اندازہ متاثرہ انسان ہی لگا سکتے ہیں۔ آفت زدہ علاقے کے متاثرین خاندان کا ہر فرد اپنی اپنی جگہ ذہنی اذیت سے دوچار ہوتا ہے۔ گھر کا سربراہ اور کمانے والا انسان اپنے روزگار کے ختم ہو جانے یا کاروبار کے تباہ ہونے پر پریشان ہوتا ہے۔ گھر کی خواتین سَر چھپانے کے لیے چھت کی ضرورت محسوس کرتی ہیں۔
بزرگ افراد دوائی اور دیکھ بھال کے منتظر ہوتے ہیں اور سنگین حالات سے ناواقف بچے گھر کا صحن کھو جانے پر کھیل کود کی جگہ ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ پینے کے لیے صاف پانی کا نہ ہونا ، صحت مند غذا اور خوراک کی کمی، دواؤں اور صحت سے جڑی بنیادی ضرورتوں کی عدم دستیابی انھیں کمزور اور لاغر بنا دیتی ہے۔ بے گھر ہو جانے، روزگار ختم ہو جانے اور اپنوں کو کھو دینے والے افراد مختلف منفی اثرات کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔
اداسی ، گھبراہٹ ، چڑ چڑاپن یا غصہ ، نیند میں دشواری ، رشتوں میں بد اعتمادی ، منفی خیالات ، ڈراؤنے خواب ، مثبت جذبات کو محسوس کرنے میں دشواری ، ناخوشگوار واقعے سے وابستہ یادیں اور مقامات۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت کے شکار افراد میں یہ نشانیاں کم ہوجاتی ہیں اور وہ بہتری کی طرف لوٹ آتے ہیں، لیکن کچھ لوگوں میں یہ اثرات روز بہ روز بڑھتے جاتے ہیں اور انھیں باقاعدہ علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
سب سے بڑی وجہ وسائل کی کمی اور دور اُفتادہ علاقوں تک ضروری امدادی سامان کے پہنچانے میں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور وجہ قومی یکجہتی اور اتحاد و اتفاق کا فقدان بھی ہے۔
کچھ احباب کو شاید یہ بات پسند نہ آئے لیکن دکھ کے ساتھ اس کا اظہار کرنا پڑتا ہے کہ ہماری بڑی قومی سیاسی جماعت تحریک انصاف مصیبت کی اس گھڑی میں قوم کے دکھ درد بانٹنے، بالخصوص سیلاب زدگان کی امداد، بحالی اور ان کی دلجوئی کے لیے اس طرح سرگرم نہیں ہے جس طرح ہونا چاہیے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت شاید یہ اُدھار کھائے بیٹھی ہے کہ وفاقی حکومت کو سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی میں زیادہ سے زیادہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تاکہ تحریک انصاف خاص طور پر اس کے قائد عمران خان کو میاں شہباز شریف کی حکومت کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کرنے اور اس پر زیادہ سے زیادہ تنقید کرنے کا موقع مل سکے۔
یہاں اس امر کا اظہار کرنا بے جا نہیں ہوگا کہ عالمی برادری بالخصوص ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے ہمیں مصیبت کی اس گھڑی میں اس طرح کی معاونت اور امداد نہیں مل پائی ہے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس جو پچھلے دنوں پاکستان کے دورے پر آئے تھے اور انھوں نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا بھی دورہ کیا تھا ان کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ پاکستان کو بڑی امداد کی ضرورت ہے اور عالمی برادری پاکستان کی بھرپور مدد کرے۔
سیکریٹری جنرل نے بڑی عالمی طاقتوں کو یہ بھی یاد دلایا کہ گلوبل وارمنگ میں پاکستان کا حصہ زیادہ سے زیادہ ایک فیصد ہو سکتا ہے جب کہ اس کی زیادہ سے زیادہ ذمے داری بڑی عالمی طاقتوں اور صنعتی ممالک پر عائد ہوتی ہے۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کا پاکستان سب سے زیادہ نشانہ بن رہا ہے تو اس کی ذمے دار عالمی طاقتوں اور صنعتی ممالک کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس ناگہانی اور المناک صورتحال میں پاکستان کی کھل کر امداد کریں۔
اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ جلد ہی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بہتر صورتحال سامنے آنا شروع ہو جائے گی۔ ان علاقوں میں دور دور تک کئی کئی فٹ گہرے پانی کی سطح گرنا شروع ہی نہیں ہو چکی بلکہ خشک زمین اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں بھی سامنے آنا شروع ہو چکی ہیں۔
سندھ میں منچھر جھیل میں پانی کی سطح کافی کم ہو چکی ہے۔ دریائے سندھ میں بھی پانی کا بہاؤ اونچے سیلاب کے درجے سے نیچے گر چکا ہے۔ ماہی گیر خوش ہیں کہ وہ دریائے سندھ کے پانی کے موجودہ بہاؤ میں مچھلیاں پکڑ سکیں گے جب کہ کچے کی زمین میں بھی سیلابی پانی سے بہہ کر آنے والی مٹی کی تازہ تہہ پھیلی ہوئی ہے کہ جس سے زمین کی زرخیزی میں بہتری آ سکے گی اور آیندہ فصلیں جو اس زمین میں بوئی جائیں گی بہتر پیداوار دیں گی لیکن یہ ساری باتیں بعد کی ہیں فی الحال سیلاب سے متاثرہ تین کروڑ سے زائد آبادی کے مسائل، مصائب اور مشکلات کو کم کرنا اور ان کا ہاتھ بٹانا ہے۔
حکام کو کوسنا زبان زد عام بن چکا ہے ان کی غیر ذمے داریوں پر ملامت کیا جارہا ہے، مگر خیال یہ اٹھتا ہے کہ ہم بحیثیت انسان و مسلمان اپنے سیلاب زدگان کے لیے کیا کررہے ہیں ؟ دوسروں کی نالائقیوں کو گنوانے کے بجائے کیا ہم نے خود سے کبھی یہ سوال کیا ہے کہ ہم اپنے فرائض و ذمے داریوں کو کتنا ادا کررہے ہیں؟
جب کھانا کھانے بیٹھیں تو نوالہ منہ میں ڈالنے سے پہلے لازمی ان بھائی بیٹیوں، بزرگوں، ماؤں بہنوں بیٹیوں کا سوچیے گا کہ ان کی طرف بھی کھانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ سامنے پانی کا سیلاب ہے مگر پینے کے قابل نہیں، کھانے کو گندگی بھرے کیچڑ کا ڈھیر ہے مگر وہ کھانے کا نہیں۔ گندے کپڑے ، پراگندہ بال ، مٹی سے اٹے ہوئے چہرے کے ساتھ ، سر چھپانے کو چھت بھی نہیں۔ بے آسرا بے یار و مدد گار بھوک سے نڈھال کسی خیر خواہ کے منتظر بیٹھے ہیں۔
ہمارے بعض بے حس تاجروں نے اس موقعے پر مفت اشیا متاثرین میں تقسیم کرنے کے بجائے ضروری اشیا کی قیمتیں ہی بڑھا دی ہیں۔ سبزیوں کے ریٹ بڑھ گئے ہیں اور بہانہ سیلاب کی وجہ سے راستوں کی بندش کا بنایا جا رہا ہے، اس وقت وقتی خیمہ بستیاں آباد کرنے کے لیے خیموں کی زیادہ ضرورت ہے اور تاجر برادری نے ان کی قیمتیں بھی ڈبل کر دی ہیں۔ کاش ہم لوگ دوسروں کی مصیبت اور پریشانی سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ان کی مدد کے لیے کچھ کرتے ۔
2005کے زلزلے کے بعد بلدیاتی کونسلرز نے متاثرہ علاقوں میں فعال اور موثر کردار ادا کیا تھا۔ کونسلرز محلے کی جانی پہچانی شخصیت ہوتے ہیں اور انھیں آیندہ بھی ووٹ لینے ہوتے ہیں، وہ ایک جانب عوام سے اور دوسری جانب یونین کونسل، ٹاؤن اور ضلع ناظمین سے رابطے میں رہتے ہیں، اس طرح ایک زنجیر بن جاتی ہے جو ہنگامی حالات میں موثر ثابت ہوتی ہے۔ بیورو کریسی اور سرکاری ملازمین ان کی طرح لگن اور جذبے سے کام نہیں کر سکتے، لہٰذا بلدیاتی نظام کا احیا کیا جائے۔
سیلاب کو روکنے اور اس کی تباہی اور نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے ڈیم بہت ضروری ہیں۔ قانون ساز اداروں میں کوئی اس قسم کی قانون سازی کرنی چاہیے کہ ہر دور حکومت میں ڈیم بنانے پر توجہ دی جائے اور آنے والی نئی حکومت بھی اس کام کو جاری و ساری رکھے اور ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
ہمارے حکومتی اداروں اور وزراء کی وزارتوں کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے بعض دوسرے اداروں کی طرح ریٹنگ سے مشروط کر دیا جائے تاکہ ہمارے سیاستدان محض نعرہ بازی کی سیاست ہی نہ کرتے رہیں بلکہ حکومت میں آ کر کچھ کر کے بھی دکھائیں، اگر آج ہماری موجودہ اور ماضی کی حکومتوں نے کوئی واضح حکمت عملی مرتب کی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے اداروں اور وزارتوں کی ناقص کارکردگی کا ذمے دار ان کے سربراہوں کو ٹھہرایا جائے۔
ہماری اعلیٰ عدالتوں کو بھی متعلقہ اداروں اور ذمے داروں کو فرائض میں غفلت برتنے پر کٹہرے میں لانا چاہیے کہ شاید اس طرح سے ہی مستقبل میں کچھ اچھی چیزیں سامنے لائی جا سکیں۔ اصلاح احوال کی طرف توجہ نہ دی گئی تو یہ حادثات و سانحات اسی طرح رونما ہوتے رہیں گے اور بیچارے عوام اپنے جان و مال کی اسی طرح قربانی دیتے ہوئے ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے مفادات پر قربان ہوتے رہیں گے۔
وبائی امراض کا شکار ہوکر ضلع دادو میں مزید تین سیلاب متاثرین انتقال کرگئے ، یوں صرف ایک ضلع میں ملیریا ، ڈائریا اور گیسٹرو کے باعث اموات کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی ہے، ملک کے تمام صوبوں کے مختلف اضلاع میں کم و بیش ایسی ہی صورتحال کا سامنا سیلاب زدگان کر رہے ہیں۔
سیلاب اور طوفانی بارشوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات ، اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو پورا کرنا یا ان کے اثرات کو زائل کرنا اگر نا ممکن نہیں ہے تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ یہ درست ہے کہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں، خدمتِ خلق کے ادارے اور این جی اوز اپنی بساط سے بڑھ کر امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
نقد امداد کے علاوہ ضروری اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے لیکن تسلیم کرنا پڑے گا کہ ابھی تک سیلاب اور طوفانی بارشوں سے متاثرہ علاقوں کے مکینوں اور باسیوں کی مشکلات میں اُس حد تک کمی نہیں آئی ہے ان کی بحالی تو خیر یہ بعد کی بات ہے ان کی فوری ضروریات کو بھی پورا نہیں کیا جا سکا۔
مشکل آتی ہے اور گزر جاتی ہے لیکن اس کے جانے کے ساتھ کیا کچھ چلا جاتا ہے اس کا اندازہ متاثرہ انسان ہی لگا سکتے ہیں۔ آفت زدہ علاقے کے متاثرین خاندان کا ہر فرد اپنی اپنی جگہ ذہنی اذیت سے دوچار ہوتا ہے۔ گھر کا سربراہ اور کمانے والا انسان اپنے روزگار کے ختم ہو جانے یا کاروبار کے تباہ ہونے پر پریشان ہوتا ہے۔ گھر کی خواتین سَر چھپانے کے لیے چھت کی ضرورت محسوس کرتی ہیں۔
بزرگ افراد دوائی اور دیکھ بھال کے منتظر ہوتے ہیں اور سنگین حالات سے ناواقف بچے گھر کا صحن کھو جانے پر کھیل کود کی جگہ ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ پینے کے لیے صاف پانی کا نہ ہونا ، صحت مند غذا اور خوراک کی کمی، دواؤں اور صحت سے جڑی بنیادی ضرورتوں کی عدم دستیابی انھیں کمزور اور لاغر بنا دیتی ہے۔ بے گھر ہو جانے، روزگار ختم ہو جانے اور اپنوں کو کھو دینے والے افراد مختلف منفی اثرات کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔
اداسی ، گھبراہٹ ، چڑ چڑاپن یا غصہ ، نیند میں دشواری ، رشتوں میں بد اعتمادی ، منفی خیالات ، ڈراؤنے خواب ، مثبت جذبات کو محسوس کرنے میں دشواری ، ناخوشگوار واقعے سے وابستہ یادیں اور مقامات۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت کے شکار افراد میں یہ نشانیاں کم ہوجاتی ہیں اور وہ بہتری کی طرف لوٹ آتے ہیں، لیکن کچھ لوگوں میں یہ اثرات روز بہ روز بڑھتے جاتے ہیں اور انھیں باقاعدہ علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
سب سے بڑی وجہ وسائل کی کمی اور دور اُفتادہ علاقوں تک ضروری امدادی سامان کے پہنچانے میں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور وجہ قومی یکجہتی اور اتحاد و اتفاق کا فقدان بھی ہے۔
کچھ احباب کو شاید یہ بات پسند نہ آئے لیکن دکھ کے ساتھ اس کا اظہار کرنا پڑتا ہے کہ ہماری بڑی قومی سیاسی جماعت تحریک انصاف مصیبت کی اس گھڑی میں قوم کے دکھ درد بانٹنے، بالخصوص سیلاب زدگان کی امداد، بحالی اور ان کی دلجوئی کے لیے اس طرح سرگرم نہیں ہے جس طرح ہونا چاہیے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت شاید یہ اُدھار کھائے بیٹھی ہے کہ وفاقی حکومت کو سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی میں زیادہ سے زیادہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تاکہ تحریک انصاف خاص طور پر اس کے قائد عمران خان کو میاں شہباز شریف کی حکومت کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کرنے اور اس پر زیادہ سے زیادہ تنقید کرنے کا موقع مل سکے۔
یہاں اس امر کا اظہار کرنا بے جا نہیں ہوگا کہ عالمی برادری بالخصوص ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے ہمیں مصیبت کی اس گھڑی میں اس طرح کی معاونت اور امداد نہیں مل پائی ہے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس جو پچھلے دنوں پاکستان کے دورے پر آئے تھے اور انھوں نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا بھی دورہ کیا تھا ان کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ پاکستان کو بڑی امداد کی ضرورت ہے اور عالمی برادری پاکستان کی بھرپور مدد کرے۔
سیکریٹری جنرل نے بڑی عالمی طاقتوں کو یہ بھی یاد دلایا کہ گلوبل وارمنگ میں پاکستان کا حصہ زیادہ سے زیادہ ایک فیصد ہو سکتا ہے جب کہ اس کی زیادہ سے زیادہ ذمے داری بڑی عالمی طاقتوں اور صنعتی ممالک پر عائد ہوتی ہے۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کا پاکستان سب سے زیادہ نشانہ بن رہا ہے تو اس کی ذمے دار عالمی طاقتوں اور صنعتی ممالک کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس ناگہانی اور المناک صورتحال میں پاکستان کی کھل کر امداد کریں۔
اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ جلد ہی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بہتر صورتحال سامنے آنا شروع ہو جائے گی۔ ان علاقوں میں دور دور تک کئی کئی فٹ گہرے پانی کی سطح گرنا شروع ہی نہیں ہو چکی بلکہ خشک زمین اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں بھی سامنے آنا شروع ہو چکی ہیں۔
سندھ میں منچھر جھیل میں پانی کی سطح کافی کم ہو چکی ہے۔ دریائے سندھ میں بھی پانی کا بہاؤ اونچے سیلاب کے درجے سے نیچے گر چکا ہے۔ ماہی گیر خوش ہیں کہ وہ دریائے سندھ کے پانی کے موجودہ بہاؤ میں مچھلیاں پکڑ سکیں گے جب کہ کچے کی زمین میں بھی سیلابی پانی سے بہہ کر آنے والی مٹی کی تازہ تہہ پھیلی ہوئی ہے کہ جس سے زمین کی زرخیزی میں بہتری آ سکے گی اور آیندہ فصلیں جو اس زمین میں بوئی جائیں گی بہتر پیداوار دیں گی لیکن یہ ساری باتیں بعد کی ہیں فی الحال سیلاب سے متاثرہ تین کروڑ سے زائد آبادی کے مسائل، مصائب اور مشکلات کو کم کرنا اور ان کا ہاتھ بٹانا ہے۔
حکام کو کوسنا زبان زد عام بن چکا ہے ان کی غیر ذمے داریوں پر ملامت کیا جارہا ہے، مگر خیال یہ اٹھتا ہے کہ ہم بحیثیت انسان و مسلمان اپنے سیلاب زدگان کے لیے کیا کررہے ہیں ؟ دوسروں کی نالائقیوں کو گنوانے کے بجائے کیا ہم نے خود سے کبھی یہ سوال کیا ہے کہ ہم اپنے فرائض و ذمے داریوں کو کتنا ادا کررہے ہیں؟
جب کھانا کھانے بیٹھیں تو نوالہ منہ میں ڈالنے سے پہلے لازمی ان بھائی بیٹیوں، بزرگوں، ماؤں بہنوں بیٹیوں کا سوچیے گا کہ ان کی طرف بھی کھانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ سامنے پانی کا سیلاب ہے مگر پینے کے قابل نہیں، کھانے کو گندگی بھرے کیچڑ کا ڈھیر ہے مگر وہ کھانے کا نہیں۔ گندے کپڑے ، پراگندہ بال ، مٹی سے اٹے ہوئے چہرے کے ساتھ ، سر چھپانے کو چھت بھی نہیں۔ بے آسرا بے یار و مدد گار بھوک سے نڈھال کسی خیر خواہ کے منتظر بیٹھے ہیں۔
ہمارے بعض بے حس تاجروں نے اس موقعے پر مفت اشیا متاثرین میں تقسیم کرنے کے بجائے ضروری اشیا کی قیمتیں ہی بڑھا دی ہیں۔ سبزیوں کے ریٹ بڑھ گئے ہیں اور بہانہ سیلاب کی وجہ سے راستوں کی بندش کا بنایا جا رہا ہے، اس وقت وقتی خیمہ بستیاں آباد کرنے کے لیے خیموں کی زیادہ ضرورت ہے اور تاجر برادری نے ان کی قیمتیں بھی ڈبل کر دی ہیں۔ کاش ہم لوگ دوسروں کی مصیبت اور پریشانی سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ان کی مدد کے لیے کچھ کرتے ۔
2005کے زلزلے کے بعد بلدیاتی کونسلرز نے متاثرہ علاقوں میں فعال اور موثر کردار ادا کیا تھا۔ کونسلرز محلے کی جانی پہچانی شخصیت ہوتے ہیں اور انھیں آیندہ بھی ووٹ لینے ہوتے ہیں، وہ ایک جانب عوام سے اور دوسری جانب یونین کونسل، ٹاؤن اور ضلع ناظمین سے رابطے میں رہتے ہیں، اس طرح ایک زنجیر بن جاتی ہے جو ہنگامی حالات میں موثر ثابت ہوتی ہے۔ بیورو کریسی اور سرکاری ملازمین ان کی طرح لگن اور جذبے سے کام نہیں کر سکتے، لہٰذا بلدیاتی نظام کا احیا کیا جائے۔
سیلاب کو روکنے اور اس کی تباہی اور نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے ڈیم بہت ضروری ہیں۔ قانون ساز اداروں میں کوئی اس قسم کی قانون سازی کرنی چاہیے کہ ہر دور حکومت میں ڈیم بنانے پر توجہ دی جائے اور آنے والی نئی حکومت بھی اس کام کو جاری و ساری رکھے اور ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
ہمارے حکومتی اداروں اور وزراء کی وزارتوں کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے بعض دوسرے اداروں کی طرح ریٹنگ سے مشروط کر دیا جائے تاکہ ہمارے سیاستدان محض نعرہ بازی کی سیاست ہی نہ کرتے رہیں بلکہ حکومت میں آ کر کچھ کر کے بھی دکھائیں، اگر آج ہماری موجودہ اور ماضی کی حکومتوں نے کوئی واضح حکمت عملی مرتب کی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے اداروں اور وزارتوں کی ناقص کارکردگی کا ذمے دار ان کے سربراہوں کو ٹھہرایا جائے۔
ہماری اعلیٰ عدالتوں کو بھی متعلقہ اداروں اور ذمے داروں کو فرائض میں غفلت برتنے پر کٹہرے میں لانا چاہیے کہ شاید اس طرح سے ہی مستقبل میں کچھ اچھی چیزیں سامنے لائی جا سکیں۔ اصلاح احوال کی طرف توجہ نہ دی گئی تو یہ حادثات و سانحات اسی طرح رونما ہوتے رہیں گے اور بیچارے عوام اپنے جان و مال کی اسی طرح قربانی دیتے ہوئے ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے مفادات پر قربان ہوتے رہیں گے۔