معاشی اصلاحات پر توجہ دی جائے
ہمیں معاشی غلامی کی زنجیروں کو کاٹ پھینکنے کے لیے سخت فیصلوں کی ضرورت ہوگی
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے ڈیل کرنا اب میرا کام ہے، کچھ نہیں ہوگا، غریب عوام کو ریلیف دینا انتہائی ضروری ہے، ڈالر کو دو سو روپے سے نیچے لاؤں گا۔
ادارہ شماریات آزاد ادارہ ہے اور وہ ہیرا پھیری نہیں کرتا، اپوزیشن کو ماضی میں بھی کہتا رہا ، آئیں، میثاق معیشت کریں۔ بلاشبہ اسحاق ڈار اپنے تجربے اور گفتگو سے عالمی مالیاتی اداروں کو قائل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر دیکھا جائے تو ملک میں تین کروڑ سے زائد لوگ اس وقت سیلاب سے متاثر اور فوری ریلیف کے منتظر ہی نہیں حقدار بھی ہیں۔
مہنگائی اور بے روزگاری کے بحرانوں نے الگ سے ملک کے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے یہ اور اس طرح کے دیگر چیلنجز کا اب نئے وزیر خزانہ کو سامنا ہے۔
حکومت کو وقت کم مقابلہ سخت کی صورتِ حال کا بھی سامنا ہے، ملک ایک طرف آئینی بحران کا شکار ہے اور دوسری طرف بدترین مالی بدحالی اور اقتصادی کساد بازاری سے دوچار ہے۔ سابقہ حکومت کی معاشی پالیسی نہ ہونے اور منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث نئی حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے ، جن کے حل کے لیے واضح روڈ میپ کے ساتھ انتھک محنت ، سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
اس وقت پاکستان میں افراط زر کی شرح بہت بلند ہے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جو اس امر کا غماز ہے کہ پاکستان کا معاشی نظام اونچ نیچ کا متحمل نہیں ہوسکتا ، یہی وجہ ہے کہ عالمی اتار چڑھاؤ کے ہماری معیشت پر فوری اثرات سامنے آتے ہیں۔ معیشت کو سخت اقدامات ، معیشت کو دستاویزی بنانے، درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کرکے سہارا دیا جا سکتا ہے۔ ٹیکس نظام میں اصلاحات کا دعویٰ ہر حکومت کا رہا ہے مگر عملی طور پر کبھی اس کی نوبت نہیں آئی۔
زمام کار سنبھالنے کے بعد سیاسی مجبوریاں با اثر عناصر کا دباؤ اور ٹیکس گریز عناصر کا طوفان برپا کرنا جیسے مسائل راہ کی سب سے بڑی رکاوٹیں ثابت ہوتی آئی ہیں۔ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے بالواسطہ ٹیکسز کو گھٹانے کی ضرورت تسلیم شدہ ہے اور اس اقدام سے نچلے طبقے کو بھی ریلیف میسر آئے گا ، لیکن چونکہ بالواسطہ ٹیکسزکا حصول سہل امر ہے ، اس لیے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بجائے یہ آسان راستہ ہی برقرار رکھا جاتا ہے اور محنت طلب و وقت طلب و دشوار راستہ اختیار کرنے سے گریز کیا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہماری معیشت و اقتصادی مسلسل غیر یقینی اور دباؤ کی کیفیت کا شکار رہتی ہے۔
فی الحال پاکستان کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے کم از کم سات ارب ڈالر سالانہ اور سالانہ مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے مزید سات ارب ڈالر کی ضرورت ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستان کے بیرونی قرضوں میں غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے ، کچھ اندازوں کے مطابق پاکستان کا بیرونی قرضہ اگلی دو دہائیوں میں 400 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اقتصادی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں سے کہا ہے کہ وہ چارٹر آف اکانومی پر متفق و متحد ہو جائیں۔
پاکستان صنعت کاری کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے، ماضی میں جہاں بھی صنعت کاری ہوئی، ابتدا میں ریاست کی براہ راست شمولیت کی وجہ سے ہوئی۔ پرائیویٹ سیکٹر بھی ریاست کے تعاون سے اُبھرا۔ پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ ریاست کو اس شعبے کے لیے آسانیاں پیدا کرنی ہیں۔ ہماری قومی برآمدات کا ساٹھ فیصد ٹیکسٹائل کے شعبہ سے آتا ہے ، یہ برآمدات خاص طور پر امریکا اور برطانیہ کو جاتی ہیں۔
برآمدات کو وسیع کرنے اور برآمدی مقامات کو متنوع بنانے کی ضرورت ہے۔ زراعت ، پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا شعبہ ہے اور جی ڈی پی میں اکیس فیصد کی شراکت داری رکھتا ہے جو ملک کی کل لیبر فورس کا پنتالیس فیصد بھی ہے۔ اس شعبے کو بہتر بنا کر آبادی کے ایک بڑے حصے کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ پاکستان بزنس کونسل کے مطابق پاکستان میں کاشت کاری کے فرسودہ طریقوں پر عمل درآمد کی وجہ سے پانچ بنیادی فصلوں کی پیداوار عالمی بہترین پیداوار کا پچاس فیصد ہے۔
لائیو اسٹاک اور ڈیری بڑی حد تک ناقص پیداوار کے ساتھ رسک کی بنیاد پر ہے ، باغبانی پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ، پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لیے چیلنجز ہیں۔ غذائی عدم تحفظ ایک بڑا مسئلہ ہے ، جو سماجی بد امنی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی ، تکنیک کو اپ گریڈ کرنے ، پانی کے بنیادی ڈھانچے اور نئے بیجوں میں سرمایہ کاری کرنے اور اس شعبے میں تحقیق کو مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کی بہترین کارکردگی سے نہ صرف روزمرہ استعمال کی اشیاء تیار کرکے درآمدات کی طلب میں کمی لائی جا سکتی ہے بلکہ برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔
زمین ، کسی بھی ملک کا اسٹرٹیجک اثاثہ ہوتی ہے پاکستان میں زمین کی قیمتوں کو اُس سطح تک پہنچا دیا ہے جہاں گھر کی ملکیت متوسط طبقے کے لیے خواب بن گیا ہے۔ مزدور طبقہ تو اپنا گھر ہونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ نجی سرمایہ کار ٹیکنالوجی اور صنعت کے بجائے زمین میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں۔ مستقبل کی ضروریات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے ایک جامع زمینی پالیسی تیار کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
پاکستان کی دو تہائی سے زیادہ آبادی تیس سال سے کم عمر کی ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ، غیر ہنر مند اور بے روزگار ہے۔ اعلیٰ ڈگریوں کے حامل افراد کو بھی مناسب ملازمتیں حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اِس خراب معیار کی ایک وجہ تعلیم کی کمی بھی ہے۔ پاکستان کی بیرون ملک مقیم افرادی قوت زیادہ تر غیر ہنر مند ہے۔ تعلیمی نظام کو تنقیدی سوچ ، کھلے ذہن اور موجود مسائل کا جواب دینے کی صلاحیت پر توجہ دینے کے ساتھ ایک مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سالانہ بیس لاکھ نوجوانوں کے افرادی قوت میں داخل ہونے کے ساتھ ، روزگار کے مواقعے پیدا کرنے کو ترجیح دینا ہوگی۔
تعلیم اور ملازمتوں میں صنفی برابری کے بغیر، معیشت کے کسی بھی چارٹر کی کوئی اہمیت نہیں۔ بے سمت ، مایوس اور ناراض نوجوان تعمیر و ترقی کے شراکت دار بننے کے بجائے سماجی بد امنی کا باعث بن رہے ہیں۔ سال دو ہزار اٹھارہ میں، گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس نے پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے طویل مدتی اثرات کے لیے پانچویں سب سے زیادہ کمزور ملک کے طور پر درجہ دیا۔
حالیہ سیلاب اس کا ثبوت ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن پاکستان کو دو وجودی خطرات کا سامنا ہے۔ جنگلات، سب سے اہم شعبہ جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے ، ہمیں نہری نظام کی اصلاح اور پانی کے ضیاع کو کم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے ڈیم اور آبی ذخائر بنا کر بارش کے پانی کو محفوظ کرنا ہوگا اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے بڑے واٹر فلٹریشن پلانٹس لگانے کی ضرورت ہے۔ جنگلات کی کٹائی غربت کا نتیجہ ہے کیونکہ 69فیصد آبادی روزانہ توانائی کے ذرایع کے لیے لکڑی پر انحصار کرتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے یہ صورتحال مزید بدتر ہو گئی ہے۔
پاکستان کا رجعت پسند ٹیکس نظام شاید دنیا کے پیچیدہ ترین نظاموں میں سے ایک ہے۔ لوگوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب کم کرنا ہوگا۔ زرعی آمدنی پر ٹیکس کے مسئلے کو حل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ معاشی و اقتصادی ماہرین نے ٹیکس نظام میں بہتری لانے کے لیے تجاویز پیش کی ہیں لیکن سیاسی قوت ارادی کی کمی کے باعث کچھ بھی نہیں بدلا۔ بینکنگ سیکٹر، جدید عالمی مالیاتی نظام کا ایک لازمی حصہ ہے۔
اندازوں کے مطابق غریب ممالک کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیے گئے ہر ایک ڈالر کے لیے پچیس ڈالر سود کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں۔ لوگوں پر بینکنگ و سود کے منفی اثرات کم کرنے کے لیے پاکستان میں بینکاری نظام کی نگرانی کے لیے مضبوط قوانین کی ضرورت ہے۔ سرکاری اور نجی بینکوں بالخصوص کوآپریٹو بینکوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور بینکوں کی توجہ کمیونٹی کی ترقی پر ہونی چاہیے، زیادہ سے زیادہ منافع کمانے پر نہیں۔
ہمیں معاشی غلامی کی زنجیروں کو کاٹ پھینکنے کے لیے سخت فیصلوں کی ضرورت ہوگی اور معیشت کی بنیادوں کو درست کرنا ہوگا ، جب تک معاشی اصلاحات پر توجہ اور آسان و سہل فیصلوں کے بجائے سخت فیصلوں اور معاشی حالات کے متقاضی فیصلے نہیں ہوں گے اور ان پر عزم صمیم کے ساتھ عملدرآمد نہیں ہو گا مشکلات سے نکلا نہیں جا سکتا۔ حکومت اور ملک و قوم دونوں کے لیے یہ آخری موقع ہے، اس حوالے آئی ایم ایف کی جانب سے جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔
ان سے بچنے کے لیے حکومت اور عوام اور بزنس کمیونٹی سبھی کا کردار اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔ صورتحال بھی نوشتہ دیوار ہے اور حالات کی سنگینی کا علم و ادراک بھی ہے مستزاد آئی ایم ایف کی جانب سے بھی نشاندہی اور خطرات کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس کے باوجود بھی اگر ہم خود کو خدانخواستہ نہ سنبھال سکے تو پھر قوموں کی قطار میں ہمیں اعتماد سے کھڑا رہنے کا بھی کوئی حق نہ ہوگا بہتر ہو گا کہ اب بھی اصلاح احوال کا ٹھوس فیصلہ کرکے اس پر پوری استقامت کے ساتھ کھڑا ہوا جائے قبل اس کے کہ دیر ہو جائے، ہمیں اپنی معیشت و اقتصادیات کو سنبھالنے کے لیے اقدامات میں مزید کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے جس کی اب گنجائش بھی باقی نہیں۔
ادارہ شماریات آزاد ادارہ ہے اور وہ ہیرا پھیری نہیں کرتا، اپوزیشن کو ماضی میں بھی کہتا رہا ، آئیں، میثاق معیشت کریں۔ بلاشبہ اسحاق ڈار اپنے تجربے اور گفتگو سے عالمی مالیاتی اداروں کو قائل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر دیکھا جائے تو ملک میں تین کروڑ سے زائد لوگ اس وقت سیلاب سے متاثر اور فوری ریلیف کے منتظر ہی نہیں حقدار بھی ہیں۔
مہنگائی اور بے روزگاری کے بحرانوں نے الگ سے ملک کے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے یہ اور اس طرح کے دیگر چیلنجز کا اب نئے وزیر خزانہ کو سامنا ہے۔
حکومت کو وقت کم مقابلہ سخت کی صورتِ حال کا بھی سامنا ہے، ملک ایک طرف آئینی بحران کا شکار ہے اور دوسری طرف بدترین مالی بدحالی اور اقتصادی کساد بازاری سے دوچار ہے۔ سابقہ حکومت کی معاشی پالیسی نہ ہونے اور منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث نئی حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے ، جن کے حل کے لیے واضح روڈ میپ کے ساتھ انتھک محنت ، سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
اس وقت پاکستان میں افراط زر کی شرح بہت بلند ہے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جو اس امر کا غماز ہے کہ پاکستان کا معاشی نظام اونچ نیچ کا متحمل نہیں ہوسکتا ، یہی وجہ ہے کہ عالمی اتار چڑھاؤ کے ہماری معیشت پر فوری اثرات سامنے آتے ہیں۔ معیشت کو سخت اقدامات ، معیشت کو دستاویزی بنانے، درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کرکے سہارا دیا جا سکتا ہے۔ ٹیکس نظام میں اصلاحات کا دعویٰ ہر حکومت کا رہا ہے مگر عملی طور پر کبھی اس کی نوبت نہیں آئی۔
زمام کار سنبھالنے کے بعد سیاسی مجبوریاں با اثر عناصر کا دباؤ اور ٹیکس گریز عناصر کا طوفان برپا کرنا جیسے مسائل راہ کی سب سے بڑی رکاوٹیں ثابت ہوتی آئی ہیں۔ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے بالواسطہ ٹیکسز کو گھٹانے کی ضرورت تسلیم شدہ ہے اور اس اقدام سے نچلے طبقے کو بھی ریلیف میسر آئے گا ، لیکن چونکہ بالواسطہ ٹیکسزکا حصول سہل امر ہے ، اس لیے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بجائے یہ آسان راستہ ہی برقرار رکھا جاتا ہے اور محنت طلب و وقت طلب و دشوار راستہ اختیار کرنے سے گریز کیا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہماری معیشت و اقتصادی مسلسل غیر یقینی اور دباؤ کی کیفیت کا شکار رہتی ہے۔
فی الحال پاکستان کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے کم از کم سات ارب ڈالر سالانہ اور سالانہ مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے مزید سات ارب ڈالر کی ضرورت ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستان کے بیرونی قرضوں میں غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے ، کچھ اندازوں کے مطابق پاکستان کا بیرونی قرضہ اگلی دو دہائیوں میں 400 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اقتصادی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں سے کہا ہے کہ وہ چارٹر آف اکانومی پر متفق و متحد ہو جائیں۔
پاکستان صنعت کاری کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے، ماضی میں جہاں بھی صنعت کاری ہوئی، ابتدا میں ریاست کی براہ راست شمولیت کی وجہ سے ہوئی۔ پرائیویٹ سیکٹر بھی ریاست کے تعاون سے اُبھرا۔ پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ ریاست کو اس شعبے کے لیے آسانیاں پیدا کرنی ہیں۔ ہماری قومی برآمدات کا ساٹھ فیصد ٹیکسٹائل کے شعبہ سے آتا ہے ، یہ برآمدات خاص طور پر امریکا اور برطانیہ کو جاتی ہیں۔
برآمدات کو وسیع کرنے اور برآمدی مقامات کو متنوع بنانے کی ضرورت ہے۔ زراعت ، پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا شعبہ ہے اور جی ڈی پی میں اکیس فیصد کی شراکت داری رکھتا ہے جو ملک کی کل لیبر فورس کا پنتالیس فیصد بھی ہے۔ اس شعبے کو بہتر بنا کر آبادی کے ایک بڑے حصے کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ پاکستان بزنس کونسل کے مطابق پاکستان میں کاشت کاری کے فرسودہ طریقوں پر عمل درآمد کی وجہ سے پانچ بنیادی فصلوں کی پیداوار عالمی بہترین پیداوار کا پچاس فیصد ہے۔
لائیو اسٹاک اور ڈیری بڑی حد تک ناقص پیداوار کے ساتھ رسک کی بنیاد پر ہے ، باغبانی پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ، پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لیے چیلنجز ہیں۔ غذائی عدم تحفظ ایک بڑا مسئلہ ہے ، جو سماجی بد امنی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی ، تکنیک کو اپ گریڈ کرنے ، پانی کے بنیادی ڈھانچے اور نئے بیجوں میں سرمایہ کاری کرنے اور اس شعبے میں تحقیق کو مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کی بہترین کارکردگی سے نہ صرف روزمرہ استعمال کی اشیاء تیار کرکے درآمدات کی طلب میں کمی لائی جا سکتی ہے بلکہ برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔
زمین ، کسی بھی ملک کا اسٹرٹیجک اثاثہ ہوتی ہے پاکستان میں زمین کی قیمتوں کو اُس سطح تک پہنچا دیا ہے جہاں گھر کی ملکیت متوسط طبقے کے لیے خواب بن گیا ہے۔ مزدور طبقہ تو اپنا گھر ہونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ نجی سرمایہ کار ٹیکنالوجی اور صنعت کے بجائے زمین میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں۔ مستقبل کی ضروریات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے ایک جامع زمینی پالیسی تیار کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
پاکستان کی دو تہائی سے زیادہ آبادی تیس سال سے کم عمر کی ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ، غیر ہنر مند اور بے روزگار ہے۔ اعلیٰ ڈگریوں کے حامل افراد کو بھی مناسب ملازمتیں حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اِس خراب معیار کی ایک وجہ تعلیم کی کمی بھی ہے۔ پاکستان کی بیرون ملک مقیم افرادی قوت زیادہ تر غیر ہنر مند ہے۔ تعلیمی نظام کو تنقیدی سوچ ، کھلے ذہن اور موجود مسائل کا جواب دینے کی صلاحیت پر توجہ دینے کے ساتھ ایک مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سالانہ بیس لاکھ نوجوانوں کے افرادی قوت میں داخل ہونے کے ساتھ ، روزگار کے مواقعے پیدا کرنے کو ترجیح دینا ہوگی۔
تعلیم اور ملازمتوں میں صنفی برابری کے بغیر، معیشت کے کسی بھی چارٹر کی کوئی اہمیت نہیں۔ بے سمت ، مایوس اور ناراض نوجوان تعمیر و ترقی کے شراکت دار بننے کے بجائے سماجی بد امنی کا باعث بن رہے ہیں۔ سال دو ہزار اٹھارہ میں، گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس نے پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے طویل مدتی اثرات کے لیے پانچویں سب سے زیادہ کمزور ملک کے طور پر درجہ دیا۔
حالیہ سیلاب اس کا ثبوت ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن پاکستان کو دو وجودی خطرات کا سامنا ہے۔ جنگلات، سب سے اہم شعبہ جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے ، ہمیں نہری نظام کی اصلاح اور پانی کے ضیاع کو کم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے ڈیم اور آبی ذخائر بنا کر بارش کے پانی کو محفوظ کرنا ہوگا اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے بڑے واٹر فلٹریشن پلانٹس لگانے کی ضرورت ہے۔ جنگلات کی کٹائی غربت کا نتیجہ ہے کیونکہ 69فیصد آبادی روزانہ توانائی کے ذرایع کے لیے لکڑی پر انحصار کرتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے یہ صورتحال مزید بدتر ہو گئی ہے۔
پاکستان کا رجعت پسند ٹیکس نظام شاید دنیا کے پیچیدہ ترین نظاموں میں سے ایک ہے۔ لوگوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب کم کرنا ہوگا۔ زرعی آمدنی پر ٹیکس کے مسئلے کو حل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ معاشی و اقتصادی ماہرین نے ٹیکس نظام میں بہتری لانے کے لیے تجاویز پیش کی ہیں لیکن سیاسی قوت ارادی کی کمی کے باعث کچھ بھی نہیں بدلا۔ بینکنگ سیکٹر، جدید عالمی مالیاتی نظام کا ایک لازمی حصہ ہے۔
اندازوں کے مطابق غریب ممالک کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیے گئے ہر ایک ڈالر کے لیے پچیس ڈالر سود کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں۔ لوگوں پر بینکنگ و سود کے منفی اثرات کم کرنے کے لیے پاکستان میں بینکاری نظام کی نگرانی کے لیے مضبوط قوانین کی ضرورت ہے۔ سرکاری اور نجی بینکوں بالخصوص کوآپریٹو بینکوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور بینکوں کی توجہ کمیونٹی کی ترقی پر ہونی چاہیے، زیادہ سے زیادہ منافع کمانے پر نہیں۔
ہمیں معاشی غلامی کی زنجیروں کو کاٹ پھینکنے کے لیے سخت فیصلوں کی ضرورت ہوگی اور معیشت کی بنیادوں کو درست کرنا ہوگا ، جب تک معاشی اصلاحات پر توجہ اور آسان و سہل فیصلوں کے بجائے سخت فیصلوں اور معاشی حالات کے متقاضی فیصلے نہیں ہوں گے اور ان پر عزم صمیم کے ساتھ عملدرآمد نہیں ہو گا مشکلات سے نکلا نہیں جا سکتا۔ حکومت اور ملک و قوم دونوں کے لیے یہ آخری موقع ہے، اس حوالے آئی ایم ایف کی جانب سے جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔
ان سے بچنے کے لیے حکومت اور عوام اور بزنس کمیونٹی سبھی کا کردار اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔ صورتحال بھی نوشتہ دیوار ہے اور حالات کی سنگینی کا علم و ادراک بھی ہے مستزاد آئی ایم ایف کی جانب سے بھی نشاندہی اور خطرات کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس کے باوجود بھی اگر ہم خود کو خدانخواستہ نہ سنبھال سکے تو پھر قوموں کی قطار میں ہمیں اعتماد سے کھڑا رہنے کا بھی کوئی حق نہ ہوگا بہتر ہو گا کہ اب بھی اصلاح احوال کا ٹھوس فیصلہ کرکے اس پر پوری استقامت کے ساتھ کھڑا ہوا جائے قبل اس کے کہ دیر ہو جائے، ہمیں اپنی معیشت و اقتصادیات کو سنبھالنے کے لیے اقدامات میں مزید کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے جس کی اب گنجائش بھی باقی نہیں۔