دل کی حفاظت نہایت ضروری
پاکستان میں قریباً ساڑھے تین لاکھ افراد سالانہ دل کی بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دل کے امراض سے ہرسال دو کروڑ سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عوام تیزی سے اس مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چالیس سال سے کم عمر افراد میں دل کے امراض کی شرح یورپی ممالک کی نسبت دس گنا زیادہ ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چار ممالک میں ہوتاہے، جہاں دل کے پیدائشی امراض والے بچوںکی نصف تعداد ہے۔
یہاں قریباً ساڑھے تین لاکھ افراد سالانہ دل کی بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ ایک انٹرنیشنل میڈیکل سروے رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سترہ اعشاریہ پانچ ملین افراد ہر سال دل کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اس مرض کے شکار اکثر افراد بتاتے ہیں کہ ان کا دل بہت تیز دھڑکنے لگتا ہے، عام طور پر صحت مند دل کی دھڑکن ایک منٹ کے دوران پچاس سے سو کے درمیان ہوتی ہے، مگر Atrial Fibrillation کے شکار افراد میں یہ تعداد 450 تک بھی ہوسکتی ہے، ایسا تناؤ یا تھکاوٹ کے دوران ہوتا ہے۔ تمباکو نوشی یا بہت زیادہ کیفین کے استعمال، الکحل اور ورزش کے بعد بھی ایسا ہوسکتا ہے۔
دل کی بیماری سے متاثرہ افراد کے دل کے پٹھے کمزور یا سخت ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے دل صحیح طریقے سے جسم کو خون فراہم نہیں کرسکتا اور مریض کو سانس لینے میں دشواری کے ساتھ تھکاوٹ بھی محسوس ہوتی ہے۔ تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ جہاں عورتوں میں دل کا درد کمر اور کندھوں سے شروع ہوتا ہے وہیں مردوں میں یہ درد دل سے شروع ہو کر دائیں بازو تک جاتا ہے جب کہ عورتوں کی بجائے مردوں میں اس درد کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔
اگر آپ بغیر کسی وجہ کے چکر یا متلی محسوس کر رہے ہیںیا آپ جسمانی مشقت کے بعد ضرورت سے زیادہ تھکن محسوس کرتے ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کے آ پ کا دل صحیح کام نہیں کر رہا ہے۔
دل کی بیماری ریاست ہائے متحدہ میں صحت عامہ کی ایک بڑی تشویش ہے۔ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیں لینے کے علاوہ ایک شخص اپنے دل کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے اقدامات کر سکتا ہے۔ اس میں صحت مند غذا کھانا ، فعال رہنا اور تمباکو نوشی جیسے طرز عمل سے پرہیز کرنا شامل ہے۔آئیے ! چند ہدایات پر عمل کرکے دل کی صحت کو بہتر بنالیں۔
امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن (AHA) سے جڑے ماہرین کہتے ہیںکہ سبزیوں اور پھلوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ اناج کو اپنی غذا کا حصہ بنائیں۔
مائع، غیر ٹراپیکل تیل، جیسے زیتون یا ایوکاڈو کا تیل
کم سے کم پروسیسرڈ فوڈز استعمال کریں۔
کوئی اضافی شکر نہ استعمال کریں۔
اس کے علاوہ نمک وغیرہ کم مقدار میں استعمال کریں۔
جسمانی سرگرمی دل کی صحت میں اہم معاون کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ایک شخص کو صحت مند وزن برقرار رکھنے میں بھی مدد دے سکتا ہے۔
فرنٹیئرز ان کارڈیو ویسکولر میڈیسن میں 2019 ء کے ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ متوازن ورزش ان لوگوں میں قلبی افعال کو بہتر بناتی ہے جنھیں دل کی خرابی سے واسطہ پڑچکا ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دل کی بیماری سے متاثرہ افراد میں ڈپریشن کی علامات کیلیے سکریننگ لازمی قرار دی جائے اور ان کے نفسیاتی مسائل کے حل کیلیے ' کونسلنگ ' بھی کی جائے۔ دل کی تیز دھڑکن سے بلڈ پریشر کم ہو سکتا ہے، جس سے آپ بے ہوش ہو سکتے ہیں۔
پیدائشی دل کی بیماری یا والوو کے کچھ مسائل کی وجہ سے اس کا امکان بڑھ سکتا ہے۔ مہلک بیماری اریتھمیا کی وجہ سے کبھی کبھار دل کی دھڑکن تیز ہو سکتی ہے اور دل دھڑکنا بند ہوسکتا ہے۔
اس وقت جرمنی میں ہونے والی اموات کے 50 فیصد واقعات کی وجہ دوران خون اور دل کی بیماریاں بن رہی ہیں، جس میں ہائی بلڈپریشر یا ہائپر ٹینشن بنیادی مسئلہ ہے۔ دل کے دورے اور حرکت قلب کے بند ہو جانے جیسے پیچیدہ امراض کی وجہ بلڈ پریشر یا فشار خون کی کہنہ شکایت بتائی جاتی ہے۔
کیونکہ بلڈ پریشر دراصل قلب کے خلیوں کو رفتہ رفتہ کمزور اور تنگ کر تا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ خون کی نالیاں بند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہائی بلڈ پریشر کی دیرینہ بیماری گردوں کو بھی خراب کر دیتی ہے اور اس کے اثرات بینائی پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ یعنی بصارت کمزور ہو جاتی ہے۔
نیدرلینڈ میں فربہ بچوں کی صحت سے متعلق ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جو بچے بہت زیادہ موٹے ہوتے ہیں انھیں پرائمری سکول کے دوران ہی امراض قلب میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
عام طور پر امراض قلب کا تعلق درمیانی عمر سے ہوتا ہے لیکن دو سے بارہ برس کی عمر کے بچوں میں بھی دل کی بیماریوں کے آثار پائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے تین سو سات بچوں پر تحقیق کی گئی اور اس میں سے دو تہائی بچوں میں بلڈ پریشر جیسی ایک بیماری کی علامت پائی گئی۔
حال ہی میں شکاگو میں منعقد ہونے والی امیریکن کالج آف کارڈیالوجی کانفرنس کے موقع پر پیش کردہ ایک تحقیقی جائزے کی رپورٹ میں امریکی محققین نے بتایا کہ انسانی جسم کے دو اہم حصے، پیٹ اور کمر کی گولائی یا اس کے محیط سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیسے انسان میں دل کی مہلک بیماریوں کے آثار پائے جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں کی جانے والی ریسرچ میں محققین نے ذیابیطس کے 200 ایسے مریضوں کو شامل کیا جن میں کبھی دل کے امراض کی کوئی علامت نہیں پائی گئی۔ محققین کے مطابق بڑی کمر والے ان مریضوں میں چھوٹے پیٹ اور کمر والے مریضوں کے مقابلے میں دل کے لیفٹ وینٹریکل یا بائیں جوف میں نقص یا بیماری کے آثار کہیں زیادہ پائے گئے۔
لیفٹ وینٹریکل ہی دل کا وہ حصہ ہے جہاں سے دماغ اور جسم کے باقی حصوں کو آکسیجن سے بھرپور خون منتقل ہوتا ہے۔ چند سال پہلے تک نوزائیدہ بچوں میں دل کے امراض یا نقائص کا ہونا عام نہیں تھا لیکن موجودہ دور میں23 ہزار سے زائد بچے دل کے نقائص اور امراض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں یعنی ڈیڑھ سو میں سے ایک بچہ دل کی کسی چھوٹی یا بڑی تکلیف کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔
نوزائیدہ بچوں میں دل کی تکلیف عارضی یا معمولی بھی ہوتی ہے جس کا علاج فوری ضروری نہیں ہوتا۔ چند احتیاطوں اور عادات سے دل کی کمزوری پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن بچوں میں بعض دل کی بیماریاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو جان لیوا ہوسکتی ہیں اورجن کا فوری علاج کرنا ضروری ہوتا ہے۔
یورپین سوسائٹی فار کارڈیالوجی میں پیش کی جانے والی ایک تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ دل کی بیماری سے متاثرہ ایسے مریض جو ڈپریشن کا بھی شکار ہوں ان کا ایک سال کے اندر اندر مرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ جرنل آف سٹرینتھ اینڈ کنڈیشننگ ریسرچ میں ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دل پر اعصابی نظام کے ریگولیٹری اثر کو بہتر بنانے کے لیے کھینچنا ایک مفید علاج ثابت ہو سکتا ہے۔ مزید برآں، لچک کے بغیر، جسم کچھ ایروبک یا طاقت کی مشقیں کرنے کے لیے جدوجہد کر سکتا ہے۔
امریکن کالج آف اسپورٹس میڈیسن کے مطابق بہترین نتائج کے لیے ہفتے میں کم از کم دو یا تین بار، یا روزانہ ہلکا پھلکا مشقت طلب کام ضروری ہے۔آپ ہمیشہ صحت مند ، پودوں والی غذائیں اپنے کھانے میں شامل کریں۔
باقاعدگی سے ورزش کریں۔ زیادہ تر دن میں تیز چلنے کی کوشش کریں۔کم از کم 30 منٹ کی ورزش آپ کو فائدہ پہنچاسکتی ہے۔ طرز زندگی کی دیگر عادات جو آپ کے دل کی بیماری کے خطرے کو کم کر سکتی ہیں ان میں رات کو سات سے آٹھ گھنٹے کی نیند لینا بھی ضروری ہے۔سب سے ضروری بات یہ ہے کہ درست خوراک مناسب مقدار میں کھائی جائے اور سالانہ بنیادوں پر دل کی کارکردگی کا معائنہ بھی کرایا جائے تاکہ امراض قلب سے بچا جا سکے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عوام تیزی سے اس مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چالیس سال سے کم عمر افراد میں دل کے امراض کی شرح یورپی ممالک کی نسبت دس گنا زیادہ ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چار ممالک میں ہوتاہے، جہاں دل کے پیدائشی امراض والے بچوںکی نصف تعداد ہے۔
یہاں قریباً ساڑھے تین لاکھ افراد سالانہ دل کی بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ ایک انٹرنیشنل میڈیکل سروے رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سترہ اعشاریہ پانچ ملین افراد ہر سال دل کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اس مرض کے شکار اکثر افراد بتاتے ہیں کہ ان کا دل بہت تیز دھڑکنے لگتا ہے، عام طور پر صحت مند دل کی دھڑکن ایک منٹ کے دوران پچاس سے سو کے درمیان ہوتی ہے، مگر Atrial Fibrillation کے شکار افراد میں یہ تعداد 450 تک بھی ہوسکتی ہے، ایسا تناؤ یا تھکاوٹ کے دوران ہوتا ہے۔ تمباکو نوشی یا بہت زیادہ کیفین کے استعمال، الکحل اور ورزش کے بعد بھی ایسا ہوسکتا ہے۔
دل کی بیماری سے متاثرہ افراد کے دل کے پٹھے کمزور یا سخت ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے دل صحیح طریقے سے جسم کو خون فراہم نہیں کرسکتا اور مریض کو سانس لینے میں دشواری کے ساتھ تھکاوٹ بھی محسوس ہوتی ہے۔ تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ جہاں عورتوں میں دل کا درد کمر اور کندھوں سے شروع ہوتا ہے وہیں مردوں میں یہ درد دل سے شروع ہو کر دائیں بازو تک جاتا ہے جب کہ عورتوں کی بجائے مردوں میں اس درد کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔
اگر آپ بغیر کسی وجہ کے چکر یا متلی محسوس کر رہے ہیںیا آپ جسمانی مشقت کے بعد ضرورت سے زیادہ تھکن محسوس کرتے ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کے آ پ کا دل صحیح کام نہیں کر رہا ہے۔
دل کی بیماری ریاست ہائے متحدہ میں صحت عامہ کی ایک بڑی تشویش ہے۔ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیں لینے کے علاوہ ایک شخص اپنے دل کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے اقدامات کر سکتا ہے۔ اس میں صحت مند غذا کھانا ، فعال رہنا اور تمباکو نوشی جیسے طرز عمل سے پرہیز کرنا شامل ہے۔آئیے ! چند ہدایات پر عمل کرکے دل کی صحت کو بہتر بنالیں۔
امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن (AHA) سے جڑے ماہرین کہتے ہیںکہ سبزیوں اور پھلوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ اناج کو اپنی غذا کا حصہ بنائیں۔
مائع، غیر ٹراپیکل تیل، جیسے زیتون یا ایوکاڈو کا تیل
کم سے کم پروسیسرڈ فوڈز استعمال کریں۔
کوئی اضافی شکر نہ استعمال کریں۔
اس کے علاوہ نمک وغیرہ کم مقدار میں استعمال کریں۔
جسمانی سرگرمی دل کی صحت میں اہم معاون کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ایک شخص کو صحت مند وزن برقرار رکھنے میں بھی مدد دے سکتا ہے۔
فرنٹیئرز ان کارڈیو ویسکولر میڈیسن میں 2019 ء کے ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ متوازن ورزش ان لوگوں میں قلبی افعال کو بہتر بناتی ہے جنھیں دل کی خرابی سے واسطہ پڑچکا ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دل کی بیماری سے متاثرہ افراد میں ڈپریشن کی علامات کیلیے سکریننگ لازمی قرار دی جائے اور ان کے نفسیاتی مسائل کے حل کیلیے ' کونسلنگ ' بھی کی جائے۔ دل کی تیز دھڑکن سے بلڈ پریشر کم ہو سکتا ہے، جس سے آپ بے ہوش ہو سکتے ہیں۔
پیدائشی دل کی بیماری یا والوو کے کچھ مسائل کی وجہ سے اس کا امکان بڑھ سکتا ہے۔ مہلک بیماری اریتھمیا کی وجہ سے کبھی کبھار دل کی دھڑکن تیز ہو سکتی ہے اور دل دھڑکنا بند ہوسکتا ہے۔
اس وقت جرمنی میں ہونے والی اموات کے 50 فیصد واقعات کی وجہ دوران خون اور دل کی بیماریاں بن رہی ہیں، جس میں ہائی بلڈپریشر یا ہائپر ٹینشن بنیادی مسئلہ ہے۔ دل کے دورے اور حرکت قلب کے بند ہو جانے جیسے پیچیدہ امراض کی وجہ بلڈ پریشر یا فشار خون کی کہنہ شکایت بتائی جاتی ہے۔
کیونکہ بلڈ پریشر دراصل قلب کے خلیوں کو رفتہ رفتہ کمزور اور تنگ کر تا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ خون کی نالیاں بند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہائی بلڈ پریشر کی دیرینہ بیماری گردوں کو بھی خراب کر دیتی ہے اور اس کے اثرات بینائی پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ یعنی بصارت کمزور ہو جاتی ہے۔
نیدرلینڈ میں فربہ بچوں کی صحت سے متعلق ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جو بچے بہت زیادہ موٹے ہوتے ہیں انھیں پرائمری سکول کے دوران ہی امراض قلب میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
عام طور پر امراض قلب کا تعلق درمیانی عمر سے ہوتا ہے لیکن دو سے بارہ برس کی عمر کے بچوں میں بھی دل کی بیماریوں کے آثار پائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے تین سو سات بچوں پر تحقیق کی گئی اور اس میں سے دو تہائی بچوں میں بلڈ پریشر جیسی ایک بیماری کی علامت پائی گئی۔
حال ہی میں شکاگو میں منعقد ہونے والی امیریکن کالج آف کارڈیالوجی کانفرنس کے موقع پر پیش کردہ ایک تحقیقی جائزے کی رپورٹ میں امریکی محققین نے بتایا کہ انسانی جسم کے دو اہم حصے، پیٹ اور کمر کی گولائی یا اس کے محیط سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیسے انسان میں دل کی مہلک بیماریوں کے آثار پائے جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں کی جانے والی ریسرچ میں محققین نے ذیابیطس کے 200 ایسے مریضوں کو شامل کیا جن میں کبھی دل کے امراض کی کوئی علامت نہیں پائی گئی۔ محققین کے مطابق بڑی کمر والے ان مریضوں میں چھوٹے پیٹ اور کمر والے مریضوں کے مقابلے میں دل کے لیفٹ وینٹریکل یا بائیں جوف میں نقص یا بیماری کے آثار کہیں زیادہ پائے گئے۔
لیفٹ وینٹریکل ہی دل کا وہ حصہ ہے جہاں سے دماغ اور جسم کے باقی حصوں کو آکسیجن سے بھرپور خون منتقل ہوتا ہے۔ چند سال پہلے تک نوزائیدہ بچوں میں دل کے امراض یا نقائص کا ہونا عام نہیں تھا لیکن موجودہ دور میں23 ہزار سے زائد بچے دل کے نقائص اور امراض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں یعنی ڈیڑھ سو میں سے ایک بچہ دل کی کسی چھوٹی یا بڑی تکلیف کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔
نوزائیدہ بچوں میں دل کی تکلیف عارضی یا معمولی بھی ہوتی ہے جس کا علاج فوری ضروری نہیں ہوتا۔ چند احتیاطوں اور عادات سے دل کی کمزوری پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن بچوں میں بعض دل کی بیماریاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو جان لیوا ہوسکتی ہیں اورجن کا فوری علاج کرنا ضروری ہوتا ہے۔
یورپین سوسائٹی فار کارڈیالوجی میں پیش کی جانے والی ایک تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ دل کی بیماری سے متاثرہ ایسے مریض جو ڈپریشن کا بھی شکار ہوں ان کا ایک سال کے اندر اندر مرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ جرنل آف سٹرینتھ اینڈ کنڈیشننگ ریسرچ میں ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دل پر اعصابی نظام کے ریگولیٹری اثر کو بہتر بنانے کے لیے کھینچنا ایک مفید علاج ثابت ہو سکتا ہے۔ مزید برآں، لچک کے بغیر، جسم کچھ ایروبک یا طاقت کی مشقیں کرنے کے لیے جدوجہد کر سکتا ہے۔
امریکن کالج آف اسپورٹس میڈیسن کے مطابق بہترین نتائج کے لیے ہفتے میں کم از کم دو یا تین بار، یا روزانہ ہلکا پھلکا مشقت طلب کام ضروری ہے۔آپ ہمیشہ صحت مند ، پودوں والی غذائیں اپنے کھانے میں شامل کریں۔
باقاعدگی سے ورزش کریں۔ زیادہ تر دن میں تیز چلنے کی کوشش کریں۔کم از کم 30 منٹ کی ورزش آپ کو فائدہ پہنچاسکتی ہے۔ طرز زندگی کی دیگر عادات جو آپ کے دل کی بیماری کے خطرے کو کم کر سکتی ہیں ان میں رات کو سات سے آٹھ گھنٹے کی نیند لینا بھی ضروری ہے۔سب سے ضروری بات یہ ہے کہ درست خوراک مناسب مقدار میں کھائی جائے اور سالانہ بنیادوں پر دل کی کارکردگی کا معائنہ بھی کرایا جائے تاکہ امراض قلب سے بچا جا سکے۔