لوگ کیا کہیں گے
شیرعالم نے بے گناہ، بے خطا مامونئی کو ذبح کردیا حالانکہ وہ حقیقت جان گیاتھا
چارصرف چارالفاظ ہیں لوگ۔کیا۔کہیں ۔گے لیکن ان چار الفاظ نے انسان کو ایسا جکڑ کر رکھا ہوا ہے کہ وہ سانس بھی لیتا ہے تو پہلے یہ دیکھتاہے کہ لوگ کیاکہیں گے ؟حالانکہ ان لوگوں کو آج تک نہ تو کسی نے دیکھا ہے اورنہ کہتے ہوئے سنا ہے لیکن پھر بھی ان کا بلکہ ان کے کہنے کا خوف ہرکسی پر مسلط ہوتا ہے ؎
ہرچند سہارا ہے ترے پیار کا دل کو
رہتاہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو
دیکھاجائے تو دنیا میں سارے لوگ اسی ایک جملے کے اسیرہیں، چاہے وہ شاہ ہویاگدا ،بڑاہو یاچھوٹا، کہیںبھی ہو ان دیکھے لوگوں کاخوف ہی اس سے سب کچھ کرواتاہے، کھاناپینا، رہنا سہنا، پہننا اتارنا، اوڑھنا بچھونا سب پر۔لوگ کیاکہیں گے، تلوارلٹکی ہوئی رہتی ہے۔
عرصہ ہوا ٹی وی پرہمارا ایک پشتو ڈرامہ نشر ہوا تھا، عنوان ہی تھا کہ لوگ کیاکہیں گے ۔ایک بیوہ کا لاڈلابیٹا ایک لڑکی پر عاشق ہوتا ہے، اس کی ماں وہاں رشتہ لے کر جاتی ہے، رشتہ منظورتو ہوجاتاہے لیکن بڑی سخت شرائط کے ساتھ، وہ اپنا سب کچھ بیچ کر اورقرض ادھار لے کر ''باہر''چلاجاتا ہے، اسے کچھ آتاجاتا توہے نہیں چنانچہ مزدورکاکام ہی اسے مل سکتاتھا، پہلے پہل تو اتنا ہی کماتا تھا جس سے خود اسی کی گزر بسر ہوتی تھی۔
دس سال بعد گھر آیا تو کچا مکان کھنڈربنا ہوا تھا چنانچہ وہ سارا اندوختہ مکان بنانے میں خرچ ہوگیا چنانچہ پھر چلاگیا اب اس کے خیال میں شادی کے لائق کمالایا تو صرف زیورات اورگہنے ہی بناسکا۔شادی کے دوسرے لوازمات اپنی جگہ کھڑے۔ لوگ کیاکہیں گے؟ کی تلوار لیے کھڑے تھے، اس لیے پھرچلاگیا ابھی کچھ ہی برس گزرے تھے کہ ماں گزرگئی، اب کے سارا اندوختہ ماں کی تجہیزوتکفین میں خرچ ہوگیا،اس، لوگ کیاکہیں گے ،کے سائے میں۔ اب اپنے خیال میں لوگ کیاکہیں گے کا پوراجواب لے کرآیاتھا لیکن اسے پتہ بھی نہیں چلاتھا کہ بال سفید ہوگئے تھے ،دانت نکل گئے تھے اورکمرجھک گئی تھی۔
اب کے گھر میں بھی اب اس کے علاوہ کوئی نہیں تھا، ادھر لڑکی کے والدین بھی سدھارگئے تھے اوروہ اکیلی رہ گئی، ایک دن اس نے سوچا کیوں نہ لڑکی سے براہ راست بات کی جائے ۔دلہن کے گھر پہنچا تو وہ طرح دار اور دلدار لڑکی اب سفید چونڈا لیے سلائی مشین کو آگے رکھے بیٹھی تھی ،آنکھوں پرسفید چشمہ اورایک نحیف ونزار عورت۔ پاس جاکر بیٹھ گیا،دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
آخر اس نے سلسلہ کلام شروع کرتے ہوئے کہا،اب نہ تمہاراکوئی رہاہے نہ میرا،تو کیوں نہ خود ہی آپس میں شادی کرلیں،اس پر لڑکی نے کہا،اس عمرمیں؟ لوگ کیاکہیں گے؟ اوریہیں پر دق سے اس کے دماغ کا فیوزاڑگیا ،چلاکربولا یہ کم بخت لوگ کبھی چپ بھی ہوں گے یا نہیں۔ایک پشتو لوک اسٹوری ہے ،شیرعالم مامونئی ،اس پر بہت سارے گیت اور نغمے بھی لکھے گئے ۔شیرعالم ایک نوجوان تھا جس کی نہایت محبوب بیوی مامونئی تھی، ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ جب شیرعالم گھر پرنہیں تھا ،حجرے میں کچھ مہمان آگئے۔
کھانے پینے کے بعد ''حقہ'' کی ضرورت پڑی تو کسی کے پاس تمباکو نہیں تھا، ایسے میں کسی نے کہا کہ شیرعالم کے گھر تمباکو ضرورہوگاچنانچہ کسی کو بھیج کر اس کے گھر سے تمباکولانے کاکہاگیا۔مامونئی نے تمباکو کی تھیلی دے دی۔لیکن اس کا بتنگڑ بن گیاجب وہ تھیلی اس شخص کے پاس دیکھی گئی، مامونئی اوراس شخص کے درمیان تعلق کی باتیں ہر طرف پھیل گئیں،یعنی بات ''لوگوں''تک پہنچ گئی۔
شیرعالم نے بے گناہ، بے خطا مامونئی کو ذبح کردیا حالانکہ وہ حقیقت جان گیاتھا، ذبح کرتے ہوئے اس نے مامونئی سے کہاکہ میں جانتاہوں، تم بے گناہ ہولیکن میرے پاس لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے اس کے سوا اورکوئی چارہ نہیں۔
اپنے چاروں طرف دیکھئے، جہاں جہاں تک نظرجاتی ہے، لوگ اسی ایک کام میں لگے ہوئے ہیں کہ لوگ کیاکہیں گے، یہ دنیا کی تمام گڑ بڑیاں اسی ایک خیال کی پیداوارہیں کہ لوگ ہمارے بارے اچھا کہیں۔لیکن تاریخ گواہ ہے۔لوگوں نے کبھی بھی کسی کے بارے میں اچھا نہیںکہاہے جب بھی کہیں گے براہی کہیں گے۔
کسی شخص نے ایک امیرکو اپنی حالت زار کے بارے میں بتایا تو اس نے اسے سودرہم دیے، وہ شخص جاتے ہوئے اپنے ساتھ بڑبڑا رہا تھا ،درہم کی جگہ اگر اشرفیاں دیتاتو اچھا تھا ۔کنجوس کہیںکا۔
ہرچند سہارا ہے ترے پیار کا دل کو
رہتاہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو
دیکھاجائے تو دنیا میں سارے لوگ اسی ایک جملے کے اسیرہیں، چاہے وہ شاہ ہویاگدا ،بڑاہو یاچھوٹا، کہیںبھی ہو ان دیکھے لوگوں کاخوف ہی اس سے سب کچھ کرواتاہے، کھاناپینا، رہنا سہنا، پہننا اتارنا، اوڑھنا بچھونا سب پر۔لوگ کیاکہیں گے، تلوارلٹکی ہوئی رہتی ہے۔
عرصہ ہوا ٹی وی پرہمارا ایک پشتو ڈرامہ نشر ہوا تھا، عنوان ہی تھا کہ لوگ کیاکہیں گے ۔ایک بیوہ کا لاڈلابیٹا ایک لڑکی پر عاشق ہوتا ہے، اس کی ماں وہاں رشتہ لے کر جاتی ہے، رشتہ منظورتو ہوجاتاہے لیکن بڑی سخت شرائط کے ساتھ، وہ اپنا سب کچھ بیچ کر اورقرض ادھار لے کر ''باہر''چلاجاتا ہے، اسے کچھ آتاجاتا توہے نہیں چنانچہ مزدورکاکام ہی اسے مل سکتاتھا، پہلے پہل تو اتنا ہی کماتا تھا جس سے خود اسی کی گزر بسر ہوتی تھی۔
دس سال بعد گھر آیا تو کچا مکان کھنڈربنا ہوا تھا چنانچہ وہ سارا اندوختہ مکان بنانے میں خرچ ہوگیا چنانچہ پھر چلاگیا اب اس کے خیال میں شادی کے لائق کمالایا تو صرف زیورات اورگہنے ہی بناسکا۔شادی کے دوسرے لوازمات اپنی جگہ کھڑے۔ لوگ کیاکہیں گے؟ کی تلوار لیے کھڑے تھے، اس لیے پھرچلاگیا ابھی کچھ ہی برس گزرے تھے کہ ماں گزرگئی، اب کے سارا اندوختہ ماں کی تجہیزوتکفین میں خرچ ہوگیا،اس، لوگ کیاکہیں گے ،کے سائے میں۔ اب اپنے خیال میں لوگ کیاکہیں گے کا پوراجواب لے کرآیاتھا لیکن اسے پتہ بھی نہیں چلاتھا کہ بال سفید ہوگئے تھے ،دانت نکل گئے تھے اورکمرجھک گئی تھی۔
اب کے گھر میں بھی اب اس کے علاوہ کوئی نہیں تھا، ادھر لڑکی کے والدین بھی سدھارگئے تھے اوروہ اکیلی رہ گئی، ایک دن اس نے سوچا کیوں نہ لڑکی سے براہ راست بات کی جائے ۔دلہن کے گھر پہنچا تو وہ طرح دار اور دلدار لڑکی اب سفید چونڈا لیے سلائی مشین کو آگے رکھے بیٹھی تھی ،آنکھوں پرسفید چشمہ اورایک نحیف ونزار عورت۔ پاس جاکر بیٹھ گیا،دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
آخر اس نے سلسلہ کلام شروع کرتے ہوئے کہا،اب نہ تمہاراکوئی رہاہے نہ میرا،تو کیوں نہ خود ہی آپس میں شادی کرلیں،اس پر لڑکی نے کہا،اس عمرمیں؟ لوگ کیاکہیں گے؟ اوریہیں پر دق سے اس کے دماغ کا فیوزاڑگیا ،چلاکربولا یہ کم بخت لوگ کبھی چپ بھی ہوں گے یا نہیں۔ایک پشتو لوک اسٹوری ہے ،شیرعالم مامونئی ،اس پر بہت سارے گیت اور نغمے بھی لکھے گئے ۔شیرعالم ایک نوجوان تھا جس کی نہایت محبوب بیوی مامونئی تھی، ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ جب شیرعالم گھر پرنہیں تھا ،حجرے میں کچھ مہمان آگئے۔
کھانے پینے کے بعد ''حقہ'' کی ضرورت پڑی تو کسی کے پاس تمباکو نہیں تھا، ایسے میں کسی نے کہا کہ شیرعالم کے گھر تمباکو ضرورہوگاچنانچہ کسی کو بھیج کر اس کے گھر سے تمباکولانے کاکہاگیا۔مامونئی نے تمباکو کی تھیلی دے دی۔لیکن اس کا بتنگڑ بن گیاجب وہ تھیلی اس شخص کے پاس دیکھی گئی، مامونئی اوراس شخص کے درمیان تعلق کی باتیں ہر طرف پھیل گئیں،یعنی بات ''لوگوں''تک پہنچ گئی۔
شیرعالم نے بے گناہ، بے خطا مامونئی کو ذبح کردیا حالانکہ وہ حقیقت جان گیاتھا، ذبح کرتے ہوئے اس نے مامونئی سے کہاکہ میں جانتاہوں، تم بے گناہ ہولیکن میرے پاس لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے اس کے سوا اورکوئی چارہ نہیں۔
اپنے چاروں طرف دیکھئے، جہاں جہاں تک نظرجاتی ہے، لوگ اسی ایک کام میں لگے ہوئے ہیں کہ لوگ کیاکہیں گے، یہ دنیا کی تمام گڑ بڑیاں اسی ایک خیال کی پیداوارہیں کہ لوگ ہمارے بارے اچھا کہیں۔لیکن تاریخ گواہ ہے۔لوگوں نے کبھی بھی کسی کے بارے میں اچھا نہیںکہاہے جب بھی کہیں گے براہی کہیں گے۔
کسی شخص نے ایک امیرکو اپنی حالت زار کے بارے میں بتایا تو اس نے اسے سودرہم دیے، وہ شخص جاتے ہوئے اپنے ساتھ بڑبڑا رہا تھا ،درہم کی جگہ اگر اشرفیاں دیتاتو اچھا تھا ۔کنجوس کہیںکا۔