سیلاب زدگان کے مسائل اور بحالی کے اقدامات
وزیراعظم شہباز شریف نے سیلاب متاثرین کے لیے فلڈ ریلیف ولیج کے ایک سو گھر ٹانک میں تعمیر کرا کے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ گھروں کی تعمیر کے علاوہ ولیج میں سولر سسٹم کی سہولیت سے آراستہ اسکول ، کلینک اور ٹیوب ویل کی بھی سہولت دی گئی ، یہ گھر سخت موسمی حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
ایک ٹویٹ میں شہباز شریف نے کہا کہ سیلاب زدگان کے لیے اقوام متحدہ کی 81 کروڑ ڈالر کی نئی اپیل، عالمی برادری کی طرف سے مسلسل حمایت کی متقاضی ہے ، سیلاب متاثرین کو خوراک اور علاج معالجے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت نے سیلاب متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض کے پھیلاؤ کے پیش نظر پاکستان کے لیے ہیلتھ ایمرجنسی کی اپیل کردی ، پاکستان کی درخواست پر یونیسیف کی جانب سے ملیریا اور بخار کے لیے پینتیس لاکھ گولیاں پاکستان پہنچیں گی۔
حالیہ بارشوں اور سیلاب نے بہت سارے علاقے صفحہ ہستی سے مٹا دیے ہیں ، سیکڑوں پاکستانی سیلاب کی بے رحم موجوں کی نذر ہو کر اپنے پیچھے جدائی کا غم چھوڑ گئے ہیں، بہت بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہیں، مال مویشی، فصلوں، باغات اور املاک کو نقصان پہنچا ہے، لوگ بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، ان تمام تر نقصانات کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے بحالی پیکیجز کا اعلان کیا اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا۔
بستیوں کی بستیوں کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کے ساتھ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان کے گھر ، گھروندے ، گھریلو سازو سامان ، خوراک کے ذخائر، مال مویشی اور ڈھور ڈنگر سیلاب اور بھاری طوفانی ریلوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد کی زندگی کی شمعیں بجھ چکی ہیں۔
بے گھر ہونے والے اور سیلاب سے بری طرح متاثرہ لوگ اونچی جگہوں اور سڑکوں پر پناہ کے لیے مجبور ہی نہیں ہیں بلکہ امدادی جماعتوں اور حکومت کی طرف سے خوراک کی ضروری اشیاء اور دیگر سازو سامان کے انتظار میں شب و روز بسر کر رہے ہیں، سیلاب سے متاثرہ علاقوں صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی ہے کیونکہ وبائی امراض پھوٹنے سے اموات کا سلسلہ بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ ایک طرف ہمیں گونا گوں مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے لیکن دوسری جانب صوبائی حکومتوں اور وفاق نے ایک دوسرے سے سینگ پھنسا رکھے ہیں اور کوئی بھی موقع ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا ہاتھ سے جانے نہیں دیا جا رہا، یعنی جب خیبر پختونخوا حکومت کے سربراہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے پیکیج کا اعلان کرتے ہیں تو وہاں بھی وفاقی حکومت کو ''امپورٹڈ حکومت'' کا طعنہ دیتے ذرہ سا بھی نہیں چوکتے نا ہی انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ موقع اپنا سیاسی حساب کتاب برابر کرنے کا نہیں بلکہ انھیں سیلاب زدگان کی مشکلات میں کمی کا چیلنج درپیش ہے۔
سیلاب سے پیدا ہونے والی صورت حال نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ہر طرف اسی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ سیاسی قیادتیں قدرے تاخیر سے اس طرف متوجہ ہوئیں جب واقعی پانی محاورتاً نہیں بلکہ حقیقت میں لوگوں کے سروں سے گزر چکا تھا۔ ہماری ایک قومی عادت بن چکی ہے کہ ہم مسائل کے حوالے سے قبل از وقت حکمت عملی وضع کرنے کے بجائے مسائل میں مکمل دھنس جانے کے بعد ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
اب جب کہ تباہی نے ہمیں چاروں طرف سے جکڑ لیا ہے تو ہم پانی کے تند و تیز ریلوں کے تھم جانے یا پھر سیلابی پانی اتر جانے کا انتظار کر رہے ہیں تا کہ زندگی کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات شروع کیے جا سکیں۔
بحالی اور ریلیف کے کام میں پیش پیش لوگوں کو بالترتیب دیکھیں تو سب سے پہلے انفرادی سطح پر لوگ ایک دوسرے کی مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں ، اس کے بعد ملک کے طول و عرض میں قائم اپنی مدد آپ کے تحت قائم ہونے والی تنظیمیں اپنے اپنے انداز سے آگے بڑھتی ہیں جس میں دینی شناخت کی حامل تنظیمیں اگلی صفوں میں دکھائی دیتی ہیں۔
یہ ملک کے اندر قائم ہونے والا وہ خود ساختہ نظام ہے جو خیر کے جذبے کے تحت وجود میں آتا ہے اور اسی جذبے کے سائبان میں خود رو پودے کی طرح پروان چڑھتا ہے۔ ملک میں پیدا ہونے والی کسی بھی ہنگامی صورت حال میں یہ نظام ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جو حکومتی مشینری سے بھی پہلے اور موثر ترین انداز سے ریلیف کے کام کا آغاز کر دیتا ہے۔ پاک فوج بھی ایسے ہر موقع پر لوگوں کے قریب تر پہنچ کر ان کو مشکل سے نکالنے میں آگے دکھائی دیتی ہیں۔
اس کے بعد حکومت بھی پہلے فضائی دوروں سے مشن میں داخل ہونے کا آغاز کرتے ہوئے مالی امداد کے اعلان اور عوام سے مدد کی اپیل کے ساتھ میدان میں دکھائی دینے لگتی ہے۔ بیوروکریسی جو اس صورتحال کو سنبھالنے کی اصل ذمے دار ہے وہ بھی ایسی مشکلات میں سیاسی قیادتوں کے دوروں کو ترتیب دینے اور ان کی آؤ بھگت میں ہی زیادہ وقت گزارتی ہے اور کبھی بھی اس طبقے کی طرف سے ایسی صورت حال میں کوئی نمایاں کردار سامنے نہیں آ سکا حالانکہ اگر صرف ہماری بیوروکریسی کے ذمے داران اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے سر انجام دینے لگ جائیں تو نہ صرف ایسے مسائل سے قبل از وقت بہتر انداز سے نپٹا جاسکتا ہے بلکہ ریلیف کے بہت سے کام بھی زیادہ بہتر انداز سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
آرمی چیف کی طرف سے دریاؤں کے منہ پر غیرقانونی تعمیرات کی اجازت دینے والے افسران کے تعین کی بات بہت اہمیت کی حامل ہے۔ حکومت کا پورا زور لوگوں سے مدد کی اپیل اور بین الاقوامی برادری کی طرف صرف ہوتا ہے کہ اب ہماری مدد کی جائے۔ آفرین ہے مغربی و دوست ممالک پر جو ہر سال انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہماری آواز کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں ، حالانکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ آفت نہیں بلکہ حالات سے نپٹنے کی صلاحیت سے محرومی اور نا اہلی کی علامت ہے کہ آج سے تیس سال پہلے بھی جو علاقے سیلاب میں ڈوبتے تھے آج بھی ڈوب رہے ہیں۔
دنیا کو پتا چل جائے کہ2005 کے ہیبت ناک زلزلے اور 2010 میں آنے والے سیلاب کے بعد دنیا بھر سے آنے والے اعلیٰ معیار کے سامان کا زیادہ تر حصہ بڑے بڑے لوگوں کے گوداموں میں محفوظ ہو کر بکتا رہا تو شاید یہ لوگ سامان بھیجنے کے بجائے خود لوگوں کی مدد کرنے آ جائیں۔ قومی سطح پر قائم تنظیمیں وقتی ریلیف کا کام بہت احسن طریقے سے سر انجام دیتی ہیں جن میں ایسے لوگوں کو ریسکیو کرکے محفوظ مقام تک پہنچانا، ان کے کھانے، کپڑوں، خیموں، علاج معالجہ اور ضروریات زندگی کی دیگر چیزوں کا انتظام کرنا شامل ہوتا ہے۔
حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو جتنی امداد ہم اس مد میں صرف باہر کی دنیا سے لے چکے ہیں اس سے نہ صرف سیلاب زدہ دیہاتی گاؤں ترقی یافتہ شہروں میں تبدیل ہو سکتے تھے بلکہ اس سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے ان علاقوں میں ڈیموں کا جال بھی بچھایا جا سکتا تھا۔ اندرون ملک جمع ہونے والے عطیات کا اندازہ لگائیں تو صرف تحریک انصاف کی اپیل پر جمع ہونے والے 500 کروڑ کو ہی لے لیا جائے تو سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی تعداد کم و بیش تین کروڑ ہے اور صرف اسی پیسے کو متاثرین میں تقسیم کر دیا جائے تو فی کس سوا کروڑ روپے بنتے ہیں، جب کہ دیگر قومی سطح پر آنے والے لاکھوں ڈالرز اور قیمتی ساز وسامان الگ سے ہے لیکن تاریخ گواہ ہے زلزلہ زدگان اور سابقہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی وقتی ریلیف کے بعد زندگی بہت مشکلات کا شکار ہوئی اور وہ لوگ آج تک نہ تو خود اپنے پاؤں پر صحیح طرح سے کھڑے ہو سکے اور نہ ہی ان کے مکان۔
قومی منظر نامے پر موجود ڈھیروں سیاسی خاندانوں اور شخصیات کی ذاتی جیب سے کوئی خاطر خواہ اعلان نہ ہونا بھی لمحہ فکریہ ہے۔ ایسے موقع پر خیر خواہی کا جذبہ رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ مفاد پرستوں کے ٹولے بھی حرکت میں آ چکے ہیں جو سیلاب کا بہانہ بنا کر پیاز ٹماٹر کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر رہے ہیں جس کے سبب ہنگامی طور پر ایران اور انڈیا سے اس کی درآمد کی اجازت دے دی گئی ہے۔
اس ساری صورت حال میں سلام ہے ان خدائی خدمت گاروں کو جو ایسے مواقع پر میدان عمل میں فقط رضائے خداوندی کے لیے مخلوق خدا کی خدمت کا جذبہ لے کر مصیبت زدہ لوگوں تک پہنچ رہے ہیں، سلام ہے ان دوست ممالک پر جو ہمارا ٹریک ریکارڈ جانتے ہوئے بھی ہر بار ہماری مدد کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں اور سلام ہے ان سیاسی قیادتوں پر جو ان علاقوں کا فضائی اور زمینی دورہ کرتے ہوئے اپنے پروفیشنل فوٹو گرافر کو ساتھ لیجانا ہر گز نہیں بھولتے۔
حرف آخر ہماری تمام صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کو مل کر سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے کام کرنا چاہیے ، سیلاب زدگان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے انھیں یہ باور کرانا چاہیے کہ حکومت ان کے مسائل کے حل اور ان کی بحالی میں سنجیدہ ہے۔
ایک ٹویٹ میں شہباز شریف نے کہا کہ سیلاب زدگان کے لیے اقوام متحدہ کی 81 کروڑ ڈالر کی نئی اپیل، عالمی برادری کی طرف سے مسلسل حمایت کی متقاضی ہے ، سیلاب متاثرین کو خوراک اور علاج معالجے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت نے سیلاب متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض کے پھیلاؤ کے پیش نظر پاکستان کے لیے ہیلتھ ایمرجنسی کی اپیل کردی ، پاکستان کی درخواست پر یونیسیف کی جانب سے ملیریا اور بخار کے لیے پینتیس لاکھ گولیاں پاکستان پہنچیں گی۔
حالیہ بارشوں اور سیلاب نے بہت سارے علاقے صفحہ ہستی سے مٹا دیے ہیں ، سیکڑوں پاکستانی سیلاب کی بے رحم موجوں کی نذر ہو کر اپنے پیچھے جدائی کا غم چھوڑ گئے ہیں، بہت بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہیں، مال مویشی، فصلوں، باغات اور املاک کو نقصان پہنچا ہے، لوگ بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، ان تمام تر نقصانات کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے بحالی پیکیجز کا اعلان کیا اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا۔
بستیوں کی بستیوں کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کے ساتھ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان کے گھر ، گھروندے ، گھریلو سازو سامان ، خوراک کے ذخائر، مال مویشی اور ڈھور ڈنگر سیلاب اور بھاری طوفانی ریلوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد کی زندگی کی شمعیں بجھ چکی ہیں۔
بے گھر ہونے والے اور سیلاب سے بری طرح متاثرہ لوگ اونچی جگہوں اور سڑکوں پر پناہ کے لیے مجبور ہی نہیں ہیں بلکہ امدادی جماعتوں اور حکومت کی طرف سے خوراک کی ضروری اشیاء اور دیگر سازو سامان کے انتظار میں شب و روز بسر کر رہے ہیں، سیلاب سے متاثرہ علاقوں صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی ہے کیونکہ وبائی امراض پھوٹنے سے اموات کا سلسلہ بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ ایک طرف ہمیں گونا گوں مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے لیکن دوسری جانب صوبائی حکومتوں اور وفاق نے ایک دوسرے سے سینگ پھنسا رکھے ہیں اور کوئی بھی موقع ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا ہاتھ سے جانے نہیں دیا جا رہا، یعنی جب خیبر پختونخوا حکومت کے سربراہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے پیکیج کا اعلان کرتے ہیں تو وہاں بھی وفاقی حکومت کو ''امپورٹڈ حکومت'' کا طعنہ دیتے ذرہ سا بھی نہیں چوکتے نا ہی انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ موقع اپنا سیاسی حساب کتاب برابر کرنے کا نہیں بلکہ انھیں سیلاب زدگان کی مشکلات میں کمی کا چیلنج درپیش ہے۔
سیلاب سے پیدا ہونے والی صورت حال نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ہر طرف اسی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ سیاسی قیادتیں قدرے تاخیر سے اس طرف متوجہ ہوئیں جب واقعی پانی محاورتاً نہیں بلکہ حقیقت میں لوگوں کے سروں سے گزر چکا تھا۔ ہماری ایک قومی عادت بن چکی ہے کہ ہم مسائل کے حوالے سے قبل از وقت حکمت عملی وضع کرنے کے بجائے مسائل میں مکمل دھنس جانے کے بعد ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
اب جب کہ تباہی نے ہمیں چاروں طرف سے جکڑ لیا ہے تو ہم پانی کے تند و تیز ریلوں کے تھم جانے یا پھر سیلابی پانی اتر جانے کا انتظار کر رہے ہیں تا کہ زندگی کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات شروع کیے جا سکیں۔
بحالی اور ریلیف کے کام میں پیش پیش لوگوں کو بالترتیب دیکھیں تو سب سے پہلے انفرادی سطح پر لوگ ایک دوسرے کی مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں ، اس کے بعد ملک کے طول و عرض میں قائم اپنی مدد آپ کے تحت قائم ہونے والی تنظیمیں اپنے اپنے انداز سے آگے بڑھتی ہیں جس میں دینی شناخت کی حامل تنظیمیں اگلی صفوں میں دکھائی دیتی ہیں۔
یہ ملک کے اندر قائم ہونے والا وہ خود ساختہ نظام ہے جو خیر کے جذبے کے تحت وجود میں آتا ہے اور اسی جذبے کے سائبان میں خود رو پودے کی طرح پروان چڑھتا ہے۔ ملک میں پیدا ہونے والی کسی بھی ہنگامی صورت حال میں یہ نظام ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جو حکومتی مشینری سے بھی پہلے اور موثر ترین انداز سے ریلیف کے کام کا آغاز کر دیتا ہے۔ پاک فوج بھی ایسے ہر موقع پر لوگوں کے قریب تر پہنچ کر ان کو مشکل سے نکالنے میں آگے دکھائی دیتی ہیں۔
اس کے بعد حکومت بھی پہلے فضائی دوروں سے مشن میں داخل ہونے کا آغاز کرتے ہوئے مالی امداد کے اعلان اور عوام سے مدد کی اپیل کے ساتھ میدان میں دکھائی دینے لگتی ہے۔ بیوروکریسی جو اس صورتحال کو سنبھالنے کی اصل ذمے دار ہے وہ بھی ایسی مشکلات میں سیاسی قیادتوں کے دوروں کو ترتیب دینے اور ان کی آؤ بھگت میں ہی زیادہ وقت گزارتی ہے اور کبھی بھی اس طبقے کی طرف سے ایسی صورت حال میں کوئی نمایاں کردار سامنے نہیں آ سکا حالانکہ اگر صرف ہماری بیوروکریسی کے ذمے داران اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے سر انجام دینے لگ جائیں تو نہ صرف ایسے مسائل سے قبل از وقت بہتر انداز سے نپٹا جاسکتا ہے بلکہ ریلیف کے بہت سے کام بھی زیادہ بہتر انداز سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
آرمی چیف کی طرف سے دریاؤں کے منہ پر غیرقانونی تعمیرات کی اجازت دینے والے افسران کے تعین کی بات بہت اہمیت کی حامل ہے۔ حکومت کا پورا زور لوگوں سے مدد کی اپیل اور بین الاقوامی برادری کی طرف صرف ہوتا ہے کہ اب ہماری مدد کی جائے۔ آفرین ہے مغربی و دوست ممالک پر جو ہر سال انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہماری آواز کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں ، حالانکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ آفت نہیں بلکہ حالات سے نپٹنے کی صلاحیت سے محرومی اور نا اہلی کی علامت ہے کہ آج سے تیس سال پہلے بھی جو علاقے سیلاب میں ڈوبتے تھے آج بھی ڈوب رہے ہیں۔
دنیا کو پتا چل جائے کہ2005 کے ہیبت ناک زلزلے اور 2010 میں آنے والے سیلاب کے بعد دنیا بھر سے آنے والے اعلیٰ معیار کے سامان کا زیادہ تر حصہ بڑے بڑے لوگوں کے گوداموں میں محفوظ ہو کر بکتا رہا تو شاید یہ لوگ سامان بھیجنے کے بجائے خود لوگوں کی مدد کرنے آ جائیں۔ قومی سطح پر قائم تنظیمیں وقتی ریلیف کا کام بہت احسن طریقے سے سر انجام دیتی ہیں جن میں ایسے لوگوں کو ریسکیو کرکے محفوظ مقام تک پہنچانا، ان کے کھانے، کپڑوں، خیموں، علاج معالجہ اور ضروریات زندگی کی دیگر چیزوں کا انتظام کرنا شامل ہوتا ہے۔
حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو جتنی امداد ہم اس مد میں صرف باہر کی دنیا سے لے چکے ہیں اس سے نہ صرف سیلاب زدہ دیہاتی گاؤں ترقی یافتہ شہروں میں تبدیل ہو سکتے تھے بلکہ اس سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے ان علاقوں میں ڈیموں کا جال بھی بچھایا جا سکتا تھا۔ اندرون ملک جمع ہونے والے عطیات کا اندازہ لگائیں تو صرف تحریک انصاف کی اپیل پر جمع ہونے والے 500 کروڑ کو ہی لے لیا جائے تو سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی تعداد کم و بیش تین کروڑ ہے اور صرف اسی پیسے کو متاثرین میں تقسیم کر دیا جائے تو فی کس سوا کروڑ روپے بنتے ہیں، جب کہ دیگر قومی سطح پر آنے والے لاکھوں ڈالرز اور قیمتی ساز وسامان الگ سے ہے لیکن تاریخ گواہ ہے زلزلہ زدگان اور سابقہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی وقتی ریلیف کے بعد زندگی بہت مشکلات کا شکار ہوئی اور وہ لوگ آج تک نہ تو خود اپنے پاؤں پر صحیح طرح سے کھڑے ہو سکے اور نہ ہی ان کے مکان۔
قومی منظر نامے پر موجود ڈھیروں سیاسی خاندانوں اور شخصیات کی ذاتی جیب سے کوئی خاطر خواہ اعلان نہ ہونا بھی لمحہ فکریہ ہے۔ ایسے موقع پر خیر خواہی کا جذبہ رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ مفاد پرستوں کے ٹولے بھی حرکت میں آ چکے ہیں جو سیلاب کا بہانہ بنا کر پیاز ٹماٹر کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر رہے ہیں جس کے سبب ہنگامی طور پر ایران اور انڈیا سے اس کی درآمد کی اجازت دے دی گئی ہے۔
اس ساری صورت حال میں سلام ہے ان خدائی خدمت گاروں کو جو ایسے مواقع پر میدان عمل میں فقط رضائے خداوندی کے لیے مخلوق خدا کی خدمت کا جذبہ لے کر مصیبت زدہ لوگوں تک پہنچ رہے ہیں، سلام ہے ان دوست ممالک پر جو ہمارا ٹریک ریکارڈ جانتے ہوئے بھی ہر بار ہماری مدد کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں اور سلام ہے ان سیاسی قیادتوں پر جو ان علاقوں کا فضائی اور زمینی دورہ کرتے ہوئے اپنے پروفیشنل فوٹو گرافر کو ساتھ لیجانا ہر گز نہیں بھولتے۔
حرف آخر ہماری تمام صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کو مل کر سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے کام کرنا چاہیے ، سیلاب زدگان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے انھیں یہ باور کرانا چاہیے کہ حکومت ان کے مسائل کے حل اور ان کی بحالی میں سنجیدہ ہے۔