نبی کریمؐکا خاندان اور ولادت
ربیع الاول کے مہینے کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس بابرکت مہینے میں سرکارِ دوعالم ؐ کی پیدائش بھی ہوئی اور آپ اسی مہینے اپنی دنیاوی زندگی مکمل کر کے مقامِ محمود پر فائز ہونے کے لیے اس دنیا سے پردہ کر گئے۔
مورخین نے قدیم عرب قوموں اور قبیلوں کو عمومی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلی قسم میں عربوں کی وہ اقوام آتی ہیں جنھیں عربِ بائدہ یعنی سرزمین ِ عرب کی ابتدائی اور قدیم ترین قومیں کہا جا تا ہے۔یہ عربِ بائدہ رسول اﷲ کی پیدائش سے بہت پہلے فنا ہو چکے تھے۔ دوسری قسم میں وہ عرب اقوام آتی ہیں جنھیں عربِ عاربہ کہا گیا۔
یہ بنو قحطان تھے جو عربِ بائدہ کے بعد سرزمینِ عرب میں آباد رہے۔ان کا اصلی وطن یمن کی سرزمین تھی۔ عربوں کی تیسری قسم کو عربِ مستعربہ کہا گیا۔سیدنا ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے سیدنا اسمٰعیل ؑ اور ان کی اولاد جو بکہ یعنی مکۃ المکرمہ اور اس کے آس پاس آباد ہوئے۔نبی کریمؐ کی بعثت کے وقت بنو قحطان اور بنو اسمٰعیل ؑ جن کو عدنانی قبائل بھی کہتے ہیں ملکِ عرب کے اصلی باشندے تھے۔
ان دو بڑے عرب قبائل کے علاوہ کہیں کہیں بہت تھوڑی تعداد میں یہودیوں کی آبادیاں تھیں۔اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اصلی عرب باشندے یمن سے شام تک ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے۔ہر نامور بڑا قبیلہ کئی چھوٹی چھوٹی شاخیں بھی رکھتا تھا۔ عربِ ِعاربہ کے دو بڑے قبائل میں بنو قحطان اور قیس تھے۔
بنو قحطان اور بنو اسمٰعیل نے نبی کریمﷺ کی بعثت سے پہلے متعدد حکومتیں قائم کیں البتہ ان میں سے 5بڑی متمدن سلطنتیں قائم ہوئیں۔معینی سلطنت۔ معیِن یمن میں ایک مقام کا نام ہے جو کسی زمانے میں ایک بڑی متمدن سلطنت کا صدر مقام رہا ہے۔ سبائی سلطنت یعنی قومِ سبا کی قائم کردہ سلطنت۔ یہ وہی سلطنت ہے جس کا ذکر حضرت سلیمان کے قصے میں آیا ہے۔
حضر موتی۔حضر موت موجودہ سعودی عرب اور یمن کے درمیان ایک علاقہ ہے۔آج کل حضر موت کے بزنس مین سارے عرب میں سب سے بڑے اور سب سے کامیاب بزنس مین سمجھے جاتے ہیں۔قبتانی سلطنت۔ قبتان عدن میں ایک مقام تھا۔نابتی سلطنت۔کہا جاتا ہے کہ سیدنا اسمٰعیل ؑ کے ایک بیٹے کا نام نابت تھا یہ سلطنت انھی کی طرف منسوب ہے۔سرزمین عرب پر سیدنا اسمٰعیل ؑ اور خاتم النبینﷺ کی بعثت کے درمیانی عرصے میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا۔
حضرت اسمٰعیل ؑ جب مکہ میں آباد ہوئے تو مکہ کے ارد گرد بنو قحطان کا قبیلہ بنو جرہم آباد تھا۔سیدنا اسمٰعیل ؑ نے اس خاندان میں شادی کی اس عقد سے جو اولاد ہوئی وہ عربِ مستعربہ کہلائے۔اب عربوں کا بڑا حصہ اسی خاندان سے ہے۔حضور نبی کریمﷺ حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد اور خاندان سے ہیں۔
یہ بات آپؐ نے خود فرمائی ہے کہ آپ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد ہیں،اسی لیے آپ کو جو شریعت عطا ہوئی وہ وہی شریعت ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کو عطا ہوئی تھی۔سورۃ حج کی آیت78میں یہی بتایا گیا ہے۔
مکہ ایک بہت ہی قدیم آبادی ہے البتہ اس کا قدیمی نام بکہ تھا۔سورۃ آلِ عمران کی آیت 96 میں فرمانِ خداوندی ہے کہ ''پہلا متبرک گھر جو اﷲ کی عبادت کی خاطر روئے زمین پر بنایا گیا وہ وہی ہے جو بکہ میں ہے''بائیبل میں زبور کے باب 6میں درج ہے کہ بکہ کی وادی میں ایک کنواں ہے،برکتوں سے بھرا ہوا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی بعثت کے وقت دنیا میں ہر طرف جہالت اور تاریکی تھی۔قبول حق کے لیے زمین پر کوئی جگہ نہیں تھی۔
حضرت ابراہیم ؑنے اپنے آبائی علاقے میں توحید کا درس دینا چاہا تو ان کو آگ کے شعلوں سے سابقہ پڑا۔مصر گئے اور وہاں سے فلسطین پہنچے تو کسی نے آپؐ کی بات پر دھیان نہ دیا۔ایسے میں آپ نے سیدہ حاجرہ اور اپنے پہلوٹی کے بیٹے سیدنا اسمٰعیل ؑ کو سرزمینِ عرب میں بسایا۔باپ اور بیٹے دونوں نے یہاں ایک گھر بنایا اور کعبہء مشرفہ کی تعمیر کی سورۃ بقرہ آیت (127۔کعبہ کی تعمیر کے بعد اﷲ نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ میرے بندوں کو میرے اس عزت اور شرف والے گھر کے طواف اور حج کے لیے بلائیں۔
حضرت اسمٰعیل کے بارہ بیٹے بیان کیے جاتے ہیں جن کا ذکر موجودہ تورات میں بھی ہے۔ان میں سے قیدار کی اولاد حجازِ مقدس میں آباد ہوئی اور یہیں پھلی پھولی۔قیدار کی اولاد میں سے ہی آپ کے جدِ امجد عدنان ہیں۔حضور نبی کریمﷺ کا خاندان پشتوں سے معزز و مکرم چلا آ رہا تھا لیکن جس شخص نے اس خاندان کو قریش کے لقب سے ممتاز کیا وہ نصر بن کنانہ تھے۔
بعض دوسرے مورخین کے نزدیک قریش کا لقب سب سے پہلے فہر کو ملا۔حافظ عراقی اپنے اشعار میں یہی کہتے ہیں۔ آپ کے پردادا ہاشم نے کعبہ مشرفہ اور اپنے قبیلے کے امور کی نگرانی میں بہت کامیابی اورعزت کمائی۔ایک دفعہ مکہ میں قحط پڑ گیا تو ہاشم نے اس قحط کے دوران شوربے میں توڑ توڑ کر، چُورا کر کے روٹیاں لوگوں کو کھلائیں۔
اُس وقت سے وہ ہاشم کے نام سے مشہور ہو گئے۔عربی زبان میں چُورا کرنے کو ہشم کہتے ہیں۔ ہاشم تجارت کی غرض سے شام گئے اور راستے میں مدینہ میں پڑاؤ کیا جہاں قبیلہ بنو نجار کی ایک خوب سیرت سلمیٰ نامی خاتون سے شادی کی۔کچھ دن ٹھہر کر شام چلے گئے اور اسی سفر میں ان کا انتقال ہو گیا۔سلمیٰ کے ہاں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام شیبہ رکھا گیا۔شیبہ نے آٹھ برس تک مدینہ ہی میں پرورش پائی۔
ہاشم کے ایک بھائی مطلب کو جب اس بچے کا پتا چلا تو فوراً مدینہ روانہ ہو گئے اور شیبہ کی ماں کی اجازت سے انھیں لے کر مکہ معظمہ لے آئے۔ یہاں آ کر ان کا نام عبدالمطلب پڑ گیا۔ عبدالمطلب نے زم زم کے کنویں کو دوبارہ سے مرمت کروا کے قابلِ استعمال بنایا۔ عبدالمطلب کے دس بیٹے جوانی کو پہنچے۔
ان بیٹوں میں سے عبداﷲ سب سے وجیہ اور پر کشش شخصیت کے مالک تھے۔سیدنا عبداﷲ کی شادی مدینہ المنورہ کے قبیلہ زہرہ میں وہیب بن عبد مناف کی صاحبزادی سیدہ آمنہ سلام اﷲ علیہا سے ہوئی۔ سیدنا عبداﷲ، اﷲ کے آخری رسول کی پیدائش سے کچھ پہلے مدینہ میں انتقال کر گئے۔
قرآن میںخالقِ کائنات فرماتا ہے کہ میں اپنے اس نبی پر صلوۃ و سلام کرتا ہوں۔یہی نہیں میرے فرشتے بھی درود و سلام کرتے ہیں۔اس لیے اے میرے مومن بندو تم بھی میرے اس نبی پر صلوۃ و سلام بھیجو۔ صلوۃ و سلام ہو محمد رسول اﷲ کی ذات اور اُن کی آل پر۔
مورخین نے قدیم عرب قوموں اور قبیلوں کو عمومی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلی قسم میں عربوں کی وہ اقوام آتی ہیں جنھیں عربِ بائدہ یعنی سرزمین ِ عرب کی ابتدائی اور قدیم ترین قومیں کہا جا تا ہے۔یہ عربِ بائدہ رسول اﷲ کی پیدائش سے بہت پہلے فنا ہو چکے تھے۔ دوسری قسم میں وہ عرب اقوام آتی ہیں جنھیں عربِ عاربہ کہا گیا۔
یہ بنو قحطان تھے جو عربِ بائدہ کے بعد سرزمینِ عرب میں آباد رہے۔ان کا اصلی وطن یمن کی سرزمین تھی۔ عربوں کی تیسری قسم کو عربِ مستعربہ کہا گیا۔سیدنا ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے سیدنا اسمٰعیل ؑ اور ان کی اولاد جو بکہ یعنی مکۃ المکرمہ اور اس کے آس پاس آباد ہوئے۔نبی کریمؐ کی بعثت کے وقت بنو قحطان اور بنو اسمٰعیل ؑ جن کو عدنانی قبائل بھی کہتے ہیں ملکِ عرب کے اصلی باشندے تھے۔
ان دو بڑے عرب قبائل کے علاوہ کہیں کہیں بہت تھوڑی تعداد میں یہودیوں کی آبادیاں تھیں۔اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اصلی عرب باشندے یمن سے شام تک ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے۔ہر نامور بڑا قبیلہ کئی چھوٹی چھوٹی شاخیں بھی رکھتا تھا۔ عربِ ِعاربہ کے دو بڑے قبائل میں بنو قحطان اور قیس تھے۔
بنو قحطان اور بنو اسمٰعیل نے نبی کریمﷺ کی بعثت سے پہلے متعدد حکومتیں قائم کیں البتہ ان میں سے 5بڑی متمدن سلطنتیں قائم ہوئیں۔معینی سلطنت۔ معیِن یمن میں ایک مقام کا نام ہے جو کسی زمانے میں ایک بڑی متمدن سلطنت کا صدر مقام رہا ہے۔ سبائی سلطنت یعنی قومِ سبا کی قائم کردہ سلطنت۔ یہ وہی سلطنت ہے جس کا ذکر حضرت سلیمان کے قصے میں آیا ہے۔
حضر موتی۔حضر موت موجودہ سعودی عرب اور یمن کے درمیان ایک علاقہ ہے۔آج کل حضر موت کے بزنس مین سارے عرب میں سب سے بڑے اور سب سے کامیاب بزنس مین سمجھے جاتے ہیں۔قبتانی سلطنت۔ قبتان عدن میں ایک مقام تھا۔نابتی سلطنت۔کہا جاتا ہے کہ سیدنا اسمٰعیل ؑ کے ایک بیٹے کا نام نابت تھا یہ سلطنت انھی کی طرف منسوب ہے۔سرزمین عرب پر سیدنا اسمٰعیل ؑ اور خاتم النبینﷺ کی بعثت کے درمیانی عرصے میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا۔
حضرت اسمٰعیل ؑ جب مکہ میں آباد ہوئے تو مکہ کے ارد گرد بنو قحطان کا قبیلہ بنو جرہم آباد تھا۔سیدنا اسمٰعیل ؑ نے اس خاندان میں شادی کی اس عقد سے جو اولاد ہوئی وہ عربِ مستعربہ کہلائے۔اب عربوں کا بڑا حصہ اسی خاندان سے ہے۔حضور نبی کریمﷺ حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد اور خاندان سے ہیں۔
یہ بات آپؐ نے خود فرمائی ہے کہ آپ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد ہیں،اسی لیے آپ کو جو شریعت عطا ہوئی وہ وہی شریعت ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کو عطا ہوئی تھی۔سورۃ حج کی آیت78میں یہی بتایا گیا ہے۔
مکہ ایک بہت ہی قدیم آبادی ہے البتہ اس کا قدیمی نام بکہ تھا۔سورۃ آلِ عمران کی آیت 96 میں فرمانِ خداوندی ہے کہ ''پہلا متبرک گھر جو اﷲ کی عبادت کی خاطر روئے زمین پر بنایا گیا وہ وہی ہے جو بکہ میں ہے''بائیبل میں زبور کے باب 6میں درج ہے کہ بکہ کی وادی میں ایک کنواں ہے،برکتوں سے بھرا ہوا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی بعثت کے وقت دنیا میں ہر طرف جہالت اور تاریکی تھی۔قبول حق کے لیے زمین پر کوئی جگہ نہیں تھی۔
حضرت ابراہیم ؑنے اپنے آبائی علاقے میں توحید کا درس دینا چاہا تو ان کو آگ کے شعلوں سے سابقہ پڑا۔مصر گئے اور وہاں سے فلسطین پہنچے تو کسی نے آپؐ کی بات پر دھیان نہ دیا۔ایسے میں آپ نے سیدہ حاجرہ اور اپنے پہلوٹی کے بیٹے سیدنا اسمٰعیل ؑ کو سرزمینِ عرب میں بسایا۔باپ اور بیٹے دونوں نے یہاں ایک گھر بنایا اور کعبہء مشرفہ کی تعمیر کی سورۃ بقرہ آیت (127۔کعبہ کی تعمیر کے بعد اﷲ نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ میرے بندوں کو میرے اس عزت اور شرف والے گھر کے طواف اور حج کے لیے بلائیں۔
حضرت اسمٰعیل کے بارہ بیٹے بیان کیے جاتے ہیں جن کا ذکر موجودہ تورات میں بھی ہے۔ان میں سے قیدار کی اولاد حجازِ مقدس میں آباد ہوئی اور یہیں پھلی پھولی۔قیدار کی اولاد میں سے ہی آپ کے جدِ امجد عدنان ہیں۔حضور نبی کریمﷺ کا خاندان پشتوں سے معزز و مکرم چلا آ رہا تھا لیکن جس شخص نے اس خاندان کو قریش کے لقب سے ممتاز کیا وہ نصر بن کنانہ تھے۔
بعض دوسرے مورخین کے نزدیک قریش کا لقب سب سے پہلے فہر کو ملا۔حافظ عراقی اپنے اشعار میں یہی کہتے ہیں۔ آپ کے پردادا ہاشم نے کعبہ مشرفہ اور اپنے قبیلے کے امور کی نگرانی میں بہت کامیابی اورعزت کمائی۔ایک دفعہ مکہ میں قحط پڑ گیا تو ہاشم نے اس قحط کے دوران شوربے میں توڑ توڑ کر، چُورا کر کے روٹیاں لوگوں کو کھلائیں۔
اُس وقت سے وہ ہاشم کے نام سے مشہور ہو گئے۔عربی زبان میں چُورا کرنے کو ہشم کہتے ہیں۔ ہاشم تجارت کی غرض سے شام گئے اور راستے میں مدینہ میں پڑاؤ کیا جہاں قبیلہ بنو نجار کی ایک خوب سیرت سلمیٰ نامی خاتون سے شادی کی۔کچھ دن ٹھہر کر شام چلے گئے اور اسی سفر میں ان کا انتقال ہو گیا۔سلمیٰ کے ہاں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام شیبہ رکھا گیا۔شیبہ نے آٹھ برس تک مدینہ ہی میں پرورش پائی۔
ہاشم کے ایک بھائی مطلب کو جب اس بچے کا پتا چلا تو فوراً مدینہ روانہ ہو گئے اور شیبہ کی ماں کی اجازت سے انھیں لے کر مکہ معظمہ لے آئے۔ یہاں آ کر ان کا نام عبدالمطلب پڑ گیا۔ عبدالمطلب نے زم زم کے کنویں کو دوبارہ سے مرمت کروا کے قابلِ استعمال بنایا۔ عبدالمطلب کے دس بیٹے جوانی کو پہنچے۔
ان بیٹوں میں سے عبداﷲ سب سے وجیہ اور پر کشش شخصیت کے مالک تھے۔سیدنا عبداﷲ کی شادی مدینہ المنورہ کے قبیلہ زہرہ میں وہیب بن عبد مناف کی صاحبزادی سیدہ آمنہ سلام اﷲ علیہا سے ہوئی۔ سیدنا عبداﷲ، اﷲ کے آخری رسول کی پیدائش سے کچھ پہلے مدینہ میں انتقال کر گئے۔
قرآن میںخالقِ کائنات فرماتا ہے کہ میں اپنے اس نبی پر صلوۃ و سلام کرتا ہوں۔یہی نہیں میرے فرشتے بھی درود و سلام کرتے ہیں۔اس لیے اے میرے مومن بندو تم بھی میرے اس نبی پر صلوۃ و سلام بھیجو۔ صلوۃ و سلام ہو محمد رسول اﷲ کی ذات اور اُن کی آل پر۔