شہزادی عابدہ سلطان
امور سلطنت چلانے کے لیے جس مدبرانہ مزاج کی ضرورت ہوتی ہے وہ شہزادی عابدہ سلطان کو ورثے میں ملا تھا۔۔۔
ہر سال مارچ میں جب موسم بہار اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ تو عالمی یوم خواتین بھی منایا جاتا ہے پاکستان کی نام ور خواتین میں یوں تو کئی نام ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں۔ جن میں سے کئی ایک کو فراموش کردیا گیا ہے۔ جیساکہ عطیہ فیضی کے ساتھ ہوا کہ نام لینے پر مخاطب کی آنکھوں میں اجنبیت یوں در آئی جیسے کہہ رہا ہو اب ان کے ذکر کا کیا فائدہ؟ بالکل اسی طرح ایک بہت بڑی شخصیت شہزادی عابدہ سلطان کے ساتھ بھی ہوا ۔ حالانکہ ان کا انتقال 11 مئی 2002 میں کراچی کے خوبصورت مضافاتی علاقے ملیر میں ہوا۔ جو شہزادی کو بوجوہ بہت پسند تھا۔ انھوں نے عمر کا آخری حصہ اپنے پسندیدہ علاقے میں ہی گزارا ۔ اور ''باغ ملیر'' کے قبرستان ہی میں آسودہ خاک ہیں۔شہزادی عابدہ سلطان سابق بھارتی ریاست بھوپال کے حکمران نواب حمید اللہ خاں کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔ جو 28 اگست 1913 میں پیدا ہوئی تھیں اور صرف پندرہ برس کی عمر میں ریاست بھوپال کی ولی عہد بنا دی گئی تھیں۔ نواب حمید اللہ خان سے قبل ان کی والدہ نواب سلطان جہاں بیگم ریاست بھوپال کی چوتھی حکمران تھیں۔ نواب حمید اللہ خاں اپنی والدہ کی ریاست کی حکمرانی سے دستبرداری کے بعد 17 مئی 1926 کو بھوپال کے حکمراں بنے تھے۔
عابدہ سلطان کی پرورش ان کی دادی کی نگرانی میں ہوئی۔ اولاد نرینہ نہ ہونے کے باعث ریاست کا سربراہ قانونی طور پر عابدہ ہی کو ہونا تھا۔ اس حوالے سے دادی حضور نے سخت نگرانی میں ان کی تعلیم و تربیت کی۔ نہ صرف دینی علوم سے آراستہ کیا بلکہ تربیت کے حوالے سے انھوں نے کوئی رو رعایت نہ برتی۔ فجر کی نماز کے لیے اٹھانا، قرآن ناظرہ کے اسباق کے علاوہ پوتی کو قرآن مجید کا اردو ترجمہ بھی حفظ کروایا تاکہ وہ قرآنی تعلیمات کی اصل روح کو سمجھے۔ یہ لفظی ترجمہ شہزادی نے صرف آٹھ سال کی عمر میں حفظ کرکے لفظ بہ لفظ دادی کو سنا دیا۔ریاست کی ولی عہد ہونے کے ناتے نواب سلطان جہاں بیگم نے انھیں ان تمام ڈسپلن کا سختی سے عادی بنا دیا جن کی ضرورت انتظامی امور کے حوالے سے نہایت ضروری تھی۔ شہزادی کی پرورش کے معاملے میں بیگم صاحبہ اس محاورے پر پوری طرح عمل پیرا تھیں کہ ۔۔۔۔کھلاؤ سونے کا نوالہ، لیکن دیکھو شیرکی نظر سے۔ لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ انھوں نے پوتی کے فطری شوق کو کبھی نہیں دبایا۔ شہزادی کھیلوں کی بے حد شوقین تھیں۔ پولو، اسکواش، کرکٹ اور ہاکی کی بہترین کھلاڑی تھیں۔
شکار کی ماہر تھیں، بہترین نشانہ باز تھیں اور 73 شیروں کا شکار کرچکی تھیں۔ انھیں ہوا بازی کا بھی شوق تھا اور ان کے پاس جہاز اڑانے کا باقاعدہ لائسنس بھی تھا۔ یوں کہیے کہ تمام مردانہ شوق یعنی گھڑ سواری سے لے کر بندوق چلانے تک میں انھیں پوری مہارت تھی۔ یہ تربیت اس لیے بھی ضروری تھی کہ وہ ریاست کی ولی عہد نامزد ہوچکی تھیں۔ بھوپال کی پانچویں خاتون حکمراں ہونا طے تھا۔ لیکن کاتب تقدیر نے کچھ اور ہی طے کر رکھا تھا۔ سترہ سال کی عمر میں ان کی شادی ریاست کوروائی کے حکمراں سے ہوگئی۔ لیکن بوجوہ یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ ایک بیٹے کی ماں بنیں۔ جنھیں وہ پیار سے ''میاں'' کہا کرتی تھیں۔ جن کا اصل نام ہے شہریار محمدخان جو اپنی اعلیٰ تعلیم، خاندانی پس منظر اور اعلیٰ نسبی کی بدولت پاکستان کے نام ور بیوروکریٹ ہیں، پاکستان کے امور خارجہ کے سیکریٹری رہے۔ انھوں نے اعلیٰ تعلیمی سند کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کی اور فارن سروس جوائن کرکے اپنی ماں کے خواب کو پورا کیا۔ آج کل شہریار محمد خان بھارت سے بیک ڈور ڈپلومیسی کے معاملات سے وابستہ ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد نواب حمید اللہ خاں تو بھوپال ہی میں رہے۔ لیکن عابدہ سلطان اپنی والدہ اور بیٹے کے ہمراہ اس خواب کی حقیقت پانے پاکستان آگئیں۔ جو ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ 2اکتوبر 1950 میں وہ B.O.A.C کے طیارے سے رات کو کراچی ایئرپورٹ پہنچیں تو انھیں یوں لگا کہ محمد علی جناح کہیں ان کے آس پاس ہی ہیں۔ قائد کی جنم بھومی میں انھیں ایک عجیب سی مانوسیت کا احساس ہوا۔ وہ ایک نڈر اور بہادر شہزادی تھیں۔ انھوں نے اپنے آنے کی کسی کو اطلاع نہ دی تھی کہ ''سرکار اماں'' کی پوتی کوئی چھوٹی موٹی نہیں تھی بلکہ ریاست کی مضبوط شہزادی تھی۔ کراچی میں ایک ٹیکسی لے کر رات بھر وہ نواب جونا گڑھ کی رہائش گاہ تلاش کرتی رہیں۔ لیکن انھیں وہاں کوئی نہیں جانتا تھا۔ نہ کسی کو ''دلاور منزل'' کا علم تھا۔ نہ ہی نواب جوناگڑھ مہابت خانجی (موجودہ نواب جوناگڑھ جہانگیر خانجی کے دادا) کو کوئی جانتا تھا۔ انھیں دلی صدمہ ہوا۔ پھر بھی انھوں نے تلاش جاری رکھی کیونکہ نواب صاحب کی پہلی بیگم منور جہاں بیگم کا تعلق بھوپال سے تھا اور وہ عابدہ سلطان کی جگری سہیلی تھیں۔
بہرحال رات بھر کی تلاش رنگ لائی اور ملیر کے نواحی علاقے میں ''دلاور منزل'' مل گئی۔ دونوں سہیلیاں ایک دوسرے کے گلے لگ گئیں۔ پاکستان آنے کے بعد حکومت نے ان کی صلاحیتوں کی قدر کی اور قطعاً میرٹ کی بنیاد پر انھیں اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمایندگی کا اعزاز ملا۔ اور پھر ''چلی'' اور ''برازیل'' میں پاکستان کی سفیر بھی متعین کیا گیا۔ 1956 میں جب چین سے تعلقات کا آغاز ہوا اور حسین شہید سہروردی وزیر اعظم کی حیثیت سے چین کے دورے پر گئے تو شہزادی عابدہ سلطان بھی ان کے ہمراہ تھیں جہاں بھاری رائفل سے انھوں نے ماہر نشانہ باز کی حیثیت سے جو مظاہرہ کیا وہ دیکھ کر چینی وزیر دفاع اور چو این لائی بہت زیادہ متاثر اور مرعوب ہوئے۔ فروری 1960 میں نواب حمید اللہ خاں کی وفات کے بعد عابدہ سلطان کو بھوپال کی حکمرانی کی دعوت دی گئی لیکن انھوں نے یہ پیشکش ٹھکرا دی اور اپنی چھوٹی بہن کے حق میں دستبردار ہوگئیں اور خود سماجی خدمات میں مصروف ہوگئیں۔
باوجود ایک ریاست کی شہزادی اور ولی عہد ہونے کے تکبر اور نخوت سے وہ کوسوں دور تھیں کیونکہ بھوپال کی حکمران بیگمات کی ہر دلعزیزی کی بڑی وجہ مزاج کی سادگی اور امور سلطنت چلانے کے لیے جس مدبرانہ مزاج کی ضرورت ہوتی ہے وہ شہزادی عابدہ سلطان کو ورثے میں ملا تھا۔ ان سے مل کر ایک سادہ مزاج شخصیت کا احساس ہوتا تھا۔ وہ اپنی گفتگو میں شاہانہ حوالوں کو زیر بحث نہیں لاتی تھیں جو اعلیٰ نسب خاندانی لوگوں کا شیوہ ہے ۔ ان کے دوستوں نے انھیں بھارت واپس چلے جانے کا مشورہ بھی دیا۔ مگر وہ اس وطن کی اور ملیر کی مٹی کی محبت میں ایسی گرفتار ہوئیں کہ اس مٹی میں دفن ہونا پسند کیا، جس میں انھوں نے جنم بھی نہیں لیا تھا۔ لیکن ''وفاداری بشرط استواری'' کیونکہ اصل ایماں ہے، اس حقیقت کو باغ ملیر کا قبرستان ہمیشہ یاد رکھے گا۔ ارض وطن کی محبتوں کا قرض نبھانے کے لیے اس خطہ خاک میں جنم لینا ضروری نہیں۔ اگر ایسا ہوتا فرزند زمیں ہونے کے دعویداروں سے تاریخ بھری نہ پڑی ہوتی، جنھوں نے بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں ذاتی مفاد کی خاطر دھرتی ماں کا سودا کیا۔
عابدہ سلطان کی پرورش ان کی دادی کی نگرانی میں ہوئی۔ اولاد نرینہ نہ ہونے کے باعث ریاست کا سربراہ قانونی طور پر عابدہ ہی کو ہونا تھا۔ اس حوالے سے دادی حضور نے سخت نگرانی میں ان کی تعلیم و تربیت کی۔ نہ صرف دینی علوم سے آراستہ کیا بلکہ تربیت کے حوالے سے انھوں نے کوئی رو رعایت نہ برتی۔ فجر کی نماز کے لیے اٹھانا، قرآن ناظرہ کے اسباق کے علاوہ پوتی کو قرآن مجید کا اردو ترجمہ بھی حفظ کروایا تاکہ وہ قرآنی تعلیمات کی اصل روح کو سمجھے۔ یہ لفظی ترجمہ شہزادی نے صرف آٹھ سال کی عمر میں حفظ کرکے لفظ بہ لفظ دادی کو سنا دیا۔ریاست کی ولی عہد ہونے کے ناتے نواب سلطان جہاں بیگم نے انھیں ان تمام ڈسپلن کا سختی سے عادی بنا دیا جن کی ضرورت انتظامی امور کے حوالے سے نہایت ضروری تھی۔ شہزادی کی پرورش کے معاملے میں بیگم صاحبہ اس محاورے پر پوری طرح عمل پیرا تھیں کہ ۔۔۔۔کھلاؤ سونے کا نوالہ، لیکن دیکھو شیرکی نظر سے۔ لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ انھوں نے پوتی کے فطری شوق کو کبھی نہیں دبایا۔ شہزادی کھیلوں کی بے حد شوقین تھیں۔ پولو، اسکواش، کرکٹ اور ہاکی کی بہترین کھلاڑی تھیں۔
شکار کی ماہر تھیں، بہترین نشانہ باز تھیں اور 73 شیروں کا شکار کرچکی تھیں۔ انھیں ہوا بازی کا بھی شوق تھا اور ان کے پاس جہاز اڑانے کا باقاعدہ لائسنس بھی تھا۔ یوں کہیے کہ تمام مردانہ شوق یعنی گھڑ سواری سے لے کر بندوق چلانے تک میں انھیں پوری مہارت تھی۔ یہ تربیت اس لیے بھی ضروری تھی کہ وہ ریاست کی ولی عہد نامزد ہوچکی تھیں۔ بھوپال کی پانچویں خاتون حکمراں ہونا طے تھا۔ لیکن کاتب تقدیر نے کچھ اور ہی طے کر رکھا تھا۔ سترہ سال کی عمر میں ان کی شادی ریاست کوروائی کے حکمراں سے ہوگئی۔ لیکن بوجوہ یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ ایک بیٹے کی ماں بنیں۔ جنھیں وہ پیار سے ''میاں'' کہا کرتی تھیں۔ جن کا اصل نام ہے شہریار محمدخان جو اپنی اعلیٰ تعلیم، خاندانی پس منظر اور اعلیٰ نسبی کی بدولت پاکستان کے نام ور بیوروکریٹ ہیں، پاکستان کے امور خارجہ کے سیکریٹری رہے۔ انھوں نے اعلیٰ تعلیمی سند کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کی اور فارن سروس جوائن کرکے اپنی ماں کے خواب کو پورا کیا۔ آج کل شہریار محمد خان بھارت سے بیک ڈور ڈپلومیسی کے معاملات سے وابستہ ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد نواب حمید اللہ خاں تو بھوپال ہی میں رہے۔ لیکن عابدہ سلطان اپنی والدہ اور بیٹے کے ہمراہ اس خواب کی حقیقت پانے پاکستان آگئیں۔ جو ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ 2اکتوبر 1950 میں وہ B.O.A.C کے طیارے سے رات کو کراچی ایئرپورٹ پہنچیں تو انھیں یوں لگا کہ محمد علی جناح کہیں ان کے آس پاس ہی ہیں۔ قائد کی جنم بھومی میں انھیں ایک عجیب سی مانوسیت کا احساس ہوا۔ وہ ایک نڈر اور بہادر شہزادی تھیں۔ انھوں نے اپنے آنے کی کسی کو اطلاع نہ دی تھی کہ ''سرکار اماں'' کی پوتی کوئی چھوٹی موٹی نہیں تھی بلکہ ریاست کی مضبوط شہزادی تھی۔ کراچی میں ایک ٹیکسی لے کر رات بھر وہ نواب جونا گڑھ کی رہائش گاہ تلاش کرتی رہیں۔ لیکن انھیں وہاں کوئی نہیں جانتا تھا۔ نہ کسی کو ''دلاور منزل'' کا علم تھا۔ نہ ہی نواب جوناگڑھ مہابت خانجی (موجودہ نواب جوناگڑھ جہانگیر خانجی کے دادا) کو کوئی جانتا تھا۔ انھیں دلی صدمہ ہوا۔ پھر بھی انھوں نے تلاش جاری رکھی کیونکہ نواب صاحب کی پہلی بیگم منور جہاں بیگم کا تعلق بھوپال سے تھا اور وہ عابدہ سلطان کی جگری سہیلی تھیں۔
بہرحال رات بھر کی تلاش رنگ لائی اور ملیر کے نواحی علاقے میں ''دلاور منزل'' مل گئی۔ دونوں سہیلیاں ایک دوسرے کے گلے لگ گئیں۔ پاکستان آنے کے بعد حکومت نے ان کی صلاحیتوں کی قدر کی اور قطعاً میرٹ کی بنیاد پر انھیں اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمایندگی کا اعزاز ملا۔ اور پھر ''چلی'' اور ''برازیل'' میں پاکستان کی سفیر بھی متعین کیا گیا۔ 1956 میں جب چین سے تعلقات کا آغاز ہوا اور حسین شہید سہروردی وزیر اعظم کی حیثیت سے چین کے دورے پر گئے تو شہزادی عابدہ سلطان بھی ان کے ہمراہ تھیں جہاں بھاری رائفل سے انھوں نے ماہر نشانہ باز کی حیثیت سے جو مظاہرہ کیا وہ دیکھ کر چینی وزیر دفاع اور چو این لائی بہت زیادہ متاثر اور مرعوب ہوئے۔ فروری 1960 میں نواب حمید اللہ خاں کی وفات کے بعد عابدہ سلطان کو بھوپال کی حکمرانی کی دعوت دی گئی لیکن انھوں نے یہ پیشکش ٹھکرا دی اور اپنی چھوٹی بہن کے حق میں دستبردار ہوگئیں اور خود سماجی خدمات میں مصروف ہوگئیں۔
باوجود ایک ریاست کی شہزادی اور ولی عہد ہونے کے تکبر اور نخوت سے وہ کوسوں دور تھیں کیونکہ بھوپال کی حکمران بیگمات کی ہر دلعزیزی کی بڑی وجہ مزاج کی سادگی اور امور سلطنت چلانے کے لیے جس مدبرانہ مزاج کی ضرورت ہوتی ہے وہ شہزادی عابدہ سلطان کو ورثے میں ملا تھا۔ ان سے مل کر ایک سادہ مزاج شخصیت کا احساس ہوتا تھا۔ وہ اپنی گفتگو میں شاہانہ حوالوں کو زیر بحث نہیں لاتی تھیں جو اعلیٰ نسب خاندانی لوگوں کا شیوہ ہے ۔ ان کے دوستوں نے انھیں بھارت واپس چلے جانے کا مشورہ بھی دیا۔ مگر وہ اس وطن کی اور ملیر کی مٹی کی محبت میں ایسی گرفتار ہوئیں کہ اس مٹی میں دفن ہونا پسند کیا، جس میں انھوں نے جنم بھی نہیں لیا تھا۔ لیکن ''وفاداری بشرط استواری'' کیونکہ اصل ایماں ہے، اس حقیقت کو باغ ملیر کا قبرستان ہمیشہ یاد رکھے گا۔ ارض وطن کی محبتوں کا قرض نبھانے کے لیے اس خطہ خاک میں جنم لینا ضروری نہیں۔ اگر ایسا ہوتا فرزند زمیں ہونے کے دعویداروں سے تاریخ بھری نہ پڑی ہوتی، جنھوں نے بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں ذاتی مفاد کی خاطر دھرتی ماں کا سودا کیا۔