معاشی مشکلات کا طویل مدتی حل
بجلی کے بحران ، طوفانی بارش ، سیلاب سمیت ان تمام نقصانات کا خمیازہ ہماری معیشت کو بھگتنا پڑتا ہے
ایکسپورٹ انڈسٹری کو بجلی 19روپے 99 پیسے فی یونٹ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ریٹ کا جو فرق ہوگا وزارت خزانہ برداشت کرے گی، حکومت کو ایک سال میں90 سے 100ارب روپے کی سبسڈی دینا پڑے گی۔
ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کیا ۔ انھوں نے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے وفد سے مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کے اس ریٹ میں تمام ٹیکس شامل ہیں، یہ سہولت صرف ٹیکسٹائل نہیں پانچوں برآمدی شعبوں کے لیے ہے، انھوں نے مزید کہا کہ اس وقت ایکسچینج ریٹ خود ہی ایڈجسٹ ہو رہا ہے ، ابھی ڈنڈا چلانے کی ضرورت نہیں پڑی ، ڈالر نیچے آرہا ہے۔
دریں اثناء وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے تمام متعلقہ وزارتوں اور حکام کو کسانوں کے لیے ایک ہفتہ کے اندر جامع زرعی پیکیج تیارکرنے کی ہدایت کی۔ وزیر خزانہ نے کہا حکومت کسانوں اور زرعی شعبہ کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا چاہتی ہے۔ تمام تجاویز اور سفارشات میں پیداوار میں اضافہ اور بہتری اور درآمدی بل کوکم کرنے پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ بجلی کے بحران ، طوفانی بارش ، سیلاب سمیت ان تمام نقصانات کا خمیازہ ہماری معیشت کو بھگتنا پڑتا ہے اور ہم مزید بیرونی قرضوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ان بنیادی مسائل پر خصوصی توجہ دے اور سب سے پہلے ملک میں پانی کے ذخائر میں اضافہ کرے تاکہ بجلی اور زراعت کا شعبہ مستحکم ہوسکے نیز ہر سال آنیوالے سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں سے بھی بچا جا سکے۔
اس وقت پاکستان کی برآمدات 25 ارب ڈالر جب کہ درآمدات 57 ارب ڈالر ہیں، ٹیکسٹائل کے شعبے کو سہولتیں فراہم کرنے سے ہماری ایکسپورٹ بڑھے گی اور ملک کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوگا جو کہ ملکی معیشت کو مستحکم بنیاد فراہم کرے گا۔
ملک کی آزاد معیشت سے مراد یہ ہے کہ ملک کو جس چیزکی ضرورت ہے ، اسے ملک کے اندر ہی تیار کیا جا سکتا ہو۔ ملک کے کارخانے سب کچھ تیار کریں اور ملک کا محنت کش طبقہ اسے اپنا قومی فریضہ تصور کرے ،کسی بھی حکومت کا عوام کی توقعات پر پورا اُترنا آسان نہیں ہوتا بالخصوص ایسے حالات میں جب کہ قرض حاصل کرنے کے لیے عالمی معاہدوں کے تحت حکومتی آمدنی کے ذرایع بصورت محصولات میں اضافے جیسی شرائط تسلیم کر لی گئی ہوں۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے معیشت مستحکم کرنے کے اپنے منصوبوں کی ایک جھلک دکھائی ہے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی ہے تاہم اِس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے کے لیے بھی کوششیں ہونی چاہیے۔ بیانات سے عیاں ہے کہ مضبوط شرح مبادلہ اسحاق ڈار کی اولین ترجیح ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ قیاس آرائی پر مبنی دباؤ کی وجہ سے روپے کی قدر ضرورت سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہے۔
وفاقی حکومت کی معاشی ترجیحات اور معاشی فیصلوں میں سرفہرست مہنگائی میں کمی اور معاشی بحالی ہے تاہم اِس سلسلے میں خودکفالت اور حکومتی اخراجات میں غیر معمولی کمی سمیت تمام حربے اور امکانی تدابیر بروئے کار لائی جا رہی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ معاشی اصلاحات آسان نہیں۔ سر دست مسئلہ یہ درپیش ہے کہ قومی خزانے میں اضافی ڈالر نہیں رہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے نئے قانون کی وجہ سے شرح مبادلہ کا تعین بھی مارکیٹ کرتی ہے تاہم اِسے مصنوعی طور پر بڑھنے سے روکنے کے لیے سخت اقدامات سے محدود کیا جاتا ہے۔
مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مسلسل مالیاتی سختی کی وجہ سے ڈالر اپنی بیس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے، جس کی وجہ سے بڑی کرنسیوں کو کم ترین سطح پر گرا دیا گیا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ زرمبادلہ کی کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی دباؤ کا شکار روپیہ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ کرنسی کی قدر معیشت کی طاقت یا کمزوری کی عکاس ہوتی ہے اور اسے اکیلے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔
ہم قدرتی وسائل کو اندھا دھند بغیر کسی منصوبہ بندی کے استعمال کر رہے ہیں۔ ہم نے کل کے لیے سوچنا اور محنت کرنا کم کر دیا ہے ، اس کے بجائے ہماری توجہ صرف آج سے وابستہ ہو کر رہ گئی ہے۔ تیل، پٹرولیم اور گیس کے ذخائر، قیمتی پتھر اور دھاتوں سے ہٹ کر اگر صرف قدرت کی طرف سے عطا کردہ وسائل کوہی اچھے طریقے سے بروئے کار لایا جائے تو پاکستان ترقی کرسکتا ہے۔
دریا ، پہاڑ جنگلات اور صحرا وغیرہ سیاحوں کے لیے خصوصی کشش رکھتے ہیں ، وہ خدا کی خدائی دیکھنے کے لیے ایسے مقامات کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں جس کا فائدہ نچلی سطح سے لے کر اوپر تک معیشت کو پہنچتا ہے۔ اس لیے ایسے مقامات کی حفاظت اور خوبصورتی میں اضافہ کیا جاتا ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں میں بدامنی اور دہشت گردی نے سیاحوں کو پاکستان سے خوفزدہ کردیا تھا لیکن اب جب کہ ہمارے ملک میں امن واپس آرہا ہے تو ہمیں سیاحت پر پوری توجہ دے کر پاکستان کو سیاحوں کی جنت بنا دینا چاہیے۔ اس سے معاشی حالات تو بہتر ہوں گے ہی ساتھ میں پاکستان اور پاکستانیوں کا اصل روشن اور مہمان نواز چہرہ بھی دنیا کے سامنے آئے گا۔ مناسب انتظامات اور بہتر منصوبہ بندی سے ہم مزید بہتری لا سکتے ہیں۔
پانی زندگی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تیل کے بعد پانی پر جنگیں شروع ہونے کے امکانات ہیں کیونکہ اس وقت ساری دنیا میں پانی کم ہورہا ہے۔ بیشتر ممالک نے اس بحران کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے اس کی منصوبہ بندی شروع کردی ہے۔ پانی کے ذخائر بڑھانے کے علاوہ وہاں کی حکومتوں نے پانی کے بے جا استعمال اور زیاں کی روک تھام کا بندوبست بھی شروع کردیا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں اس مسئلے کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہم نہ ڈیم بنارہے ہیں جو پانی ذخیرہ کرکے بجلی اور دیگر ضروریات کو پورا کریں اور نہ ہی ہماری توجہ استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کی طرف ہے۔ بارشوں کے بعد وہ تمام پانی جو ہماری بہت سی ضروریات پوری کرسکتا ہے، سیلاب کی نذر ہوجاتا ہے اور عوام بجلی اور پانی کو ترستے رہ جاتے ہیں۔
ہم دریاؤں اور سمندر کے باوجود لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی بھگت رہے ہیں اور پانی کی کمی کا رونا بھی رو رہے ہیں لیکن اس دہری مصیبت کے تدارک کی کوششیں سرکاری اور عوامی سطح پر آٹے میں نمک کے برابر ہیں ، اگر ایک طرف ہماری موجودہ اور سابقہ تمام حکومتیں پانی کے ذخائر بنانے میں سستی کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں تو دوسری طرف عوام بلا ضرورت گھروں کے صحن، کپڑے اور گاڑیاں دھو کر پانی ضایع کرنے میں اکثر اوقات چستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی نصف سے زیادہ آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے ، لیکن نااہلی اور ناقص حکمت عملی نے ہمارے ملک کے زرعی شعبے کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ کسانوں کی جدید خطوط پر تربیت نہ ہونے کے باعث کسان کاشتکاری کے نئے طریقوں سے واقف نہیں ہیں جس کی وجہ سے فصل کی کاشت کے لیے پرانے اور روایتی طریقے اپنائے جاتے ہیں، نتیجہ زرعی پیداوار میں کمی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
اس کی وجہ سے زراعت میں ہماری خود انحصاری کم ہورہی ہے اور ہم سبزیاں درآمد کرنا شروع کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پانی کی کمی اور زرعی اراضی کی سیرابی کے مروجہ طریقہ کار جو اکثر ملکوں میں متروکہ حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔
گزشتہ کچھ سالوں سے دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کی لپیٹ میں پاکستان بھی آیا ہوا ہے۔ اب پاکستان کا موسم بھی زیادہ گرم ہوتا جارہا ہے اور سیلاب سمیت دیگر قدرتی آفات جن میں خشک سالی، زلزلے اور طوفانی بارشیں شامل ہیں، پہلے کی نسبت زیادہ وقوع پذیر ہونے لگے ہیں۔ اس موسمیاتی تبدیلی نے زرعی پیداوار کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ بارش کی کمی، زیادتی یا شدید گرمی اور سردی فصلوں کو نقصان پہنچا رہی ہے اور چونکہ ہمارا کسان موسم کے ان تغیرات سے آگاہی نہیں رکھتا اس لیے وہ اپنی فصل کو موسمی تبدیلیوں سے بچا نہیں پاتا ، لہٰذا اس کی محنت اور کمائی ضایع ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ہم نے صنعتوں سے خارج ہونے والی گیس اور فضلے کو ٹھکانے لگانے کے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے جو فضا کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ پانی میں شامل ہوکر انسانی زندگی کے لیے خطرے کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ اکثر فیکٹریاں اپنا صنعتی فضلہ غیر محفوظ طریقے سے پھینک دیتی ہیں اور چونکہ سرکاری سطح پر یہاں بھی ناقص منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا دور دورہ ہے اس لیے اکثر یہ زہریلا مواد صنعتی علاقوں کے قرب و جوار کی آبادیوں میں متعدد بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا ایک سبب یہ زہریلی اور مضر صحت گیس اور مادہ بھی ہیں جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں ہے۔
کرنسی مارکیٹ کا اتار چڑھاؤ ختم کرنے کے لیے قیاس آرائیوں پر مبنی حملوں سے روپے کا دفاع کرنا بہت ضروری ہے لیکن شرح مبادلہ کی طویل مدتی پائیداری کا انحصار برآمدات ، ترسیلات زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری ہے ، اگر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کی حکومتی صلاحیت بہتر بنائی جاتی ہے تو اِس سے مردہ حال معیشت میں نئی روح پھونکی جا سکتی ہے۔
فی الوقت حکومت تباہ کن سیلاب کے بعد قرضوں اور سود کی واپسی میں ریلیف کی تلاش میں ہے جس کے ثمرات بالاخر عوام تک منتقل ہوں گے ، تاہم کرنسی کے انتظام میں کوئی بھی غلطی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ پاکستانی معیشت کئی بار اِس مقام تک آنے کے بعد نقصان اٹھا چکی ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ مارکیٹ کی اونچ نیچ سے دور رہا جائے اور قومی معاشی مشکلات کا طویل مدتی حل تلاش کیا جائے۔
ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کیا ۔ انھوں نے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے وفد سے مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کے اس ریٹ میں تمام ٹیکس شامل ہیں، یہ سہولت صرف ٹیکسٹائل نہیں پانچوں برآمدی شعبوں کے لیے ہے، انھوں نے مزید کہا کہ اس وقت ایکسچینج ریٹ خود ہی ایڈجسٹ ہو رہا ہے ، ابھی ڈنڈا چلانے کی ضرورت نہیں پڑی ، ڈالر نیچے آرہا ہے۔
دریں اثناء وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے تمام متعلقہ وزارتوں اور حکام کو کسانوں کے لیے ایک ہفتہ کے اندر جامع زرعی پیکیج تیارکرنے کی ہدایت کی۔ وزیر خزانہ نے کہا حکومت کسانوں اور زرعی شعبہ کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا چاہتی ہے۔ تمام تجاویز اور سفارشات میں پیداوار میں اضافہ اور بہتری اور درآمدی بل کوکم کرنے پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ بجلی کے بحران ، طوفانی بارش ، سیلاب سمیت ان تمام نقصانات کا خمیازہ ہماری معیشت کو بھگتنا پڑتا ہے اور ہم مزید بیرونی قرضوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ان بنیادی مسائل پر خصوصی توجہ دے اور سب سے پہلے ملک میں پانی کے ذخائر میں اضافہ کرے تاکہ بجلی اور زراعت کا شعبہ مستحکم ہوسکے نیز ہر سال آنیوالے سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں سے بھی بچا جا سکے۔
اس وقت پاکستان کی برآمدات 25 ارب ڈالر جب کہ درآمدات 57 ارب ڈالر ہیں، ٹیکسٹائل کے شعبے کو سہولتیں فراہم کرنے سے ہماری ایکسپورٹ بڑھے گی اور ملک کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوگا جو کہ ملکی معیشت کو مستحکم بنیاد فراہم کرے گا۔
ملک کی آزاد معیشت سے مراد یہ ہے کہ ملک کو جس چیزکی ضرورت ہے ، اسے ملک کے اندر ہی تیار کیا جا سکتا ہو۔ ملک کے کارخانے سب کچھ تیار کریں اور ملک کا محنت کش طبقہ اسے اپنا قومی فریضہ تصور کرے ،کسی بھی حکومت کا عوام کی توقعات پر پورا اُترنا آسان نہیں ہوتا بالخصوص ایسے حالات میں جب کہ قرض حاصل کرنے کے لیے عالمی معاہدوں کے تحت حکومتی آمدنی کے ذرایع بصورت محصولات میں اضافے جیسی شرائط تسلیم کر لی گئی ہوں۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے معیشت مستحکم کرنے کے اپنے منصوبوں کی ایک جھلک دکھائی ہے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی ہے تاہم اِس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے کے لیے بھی کوششیں ہونی چاہیے۔ بیانات سے عیاں ہے کہ مضبوط شرح مبادلہ اسحاق ڈار کی اولین ترجیح ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ قیاس آرائی پر مبنی دباؤ کی وجہ سے روپے کی قدر ضرورت سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہے۔
وفاقی حکومت کی معاشی ترجیحات اور معاشی فیصلوں میں سرفہرست مہنگائی میں کمی اور معاشی بحالی ہے تاہم اِس سلسلے میں خودکفالت اور حکومتی اخراجات میں غیر معمولی کمی سمیت تمام حربے اور امکانی تدابیر بروئے کار لائی جا رہی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ معاشی اصلاحات آسان نہیں۔ سر دست مسئلہ یہ درپیش ہے کہ قومی خزانے میں اضافی ڈالر نہیں رہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے نئے قانون کی وجہ سے شرح مبادلہ کا تعین بھی مارکیٹ کرتی ہے تاہم اِسے مصنوعی طور پر بڑھنے سے روکنے کے لیے سخت اقدامات سے محدود کیا جاتا ہے۔
مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مسلسل مالیاتی سختی کی وجہ سے ڈالر اپنی بیس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے، جس کی وجہ سے بڑی کرنسیوں کو کم ترین سطح پر گرا دیا گیا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ زرمبادلہ کی کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی دباؤ کا شکار روپیہ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ کرنسی کی قدر معیشت کی طاقت یا کمزوری کی عکاس ہوتی ہے اور اسے اکیلے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔
ہم قدرتی وسائل کو اندھا دھند بغیر کسی منصوبہ بندی کے استعمال کر رہے ہیں۔ ہم نے کل کے لیے سوچنا اور محنت کرنا کم کر دیا ہے ، اس کے بجائے ہماری توجہ صرف آج سے وابستہ ہو کر رہ گئی ہے۔ تیل، پٹرولیم اور گیس کے ذخائر، قیمتی پتھر اور دھاتوں سے ہٹ کر اگر صرف قدرت کی طرف سے عطا کردہ وسائل کوہی اچھے طریقے سے بروئے کار لایا جائے تو پاکستان ترقی کرسکتا ہے۔
دریا ، پہاڑ جنگلات اور صحرا وغیرہ سیاحوں کے لیے خصوصی کشش رکھتے ہیں ، وہ خدا کی خدائی دیکھنے کے لیے ایسے مقامات کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں جس کا فائدہ نچلی سطح سے لے کر اوپر تک معیشت کو پہنچتا ہے۔ اس لیے ایسے مقامات کی حفاظت اور خوبصورتی میں اضافہ کیا جاتا ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں میں بدامنی اور دہشت گردی نے سیاحوں کو پاکستان سے خوفزدہ کردیا تھا لیکن اب جب کہ ہمارے ملک میں امن واپس آرہا ہے تو ہمیں سیاحت پر پوری توجہ دے کر پاکستان کو سیاحوں کی جنت بنا دینا چاہیے۔ اس سے معاشی حالات تو بہتر ہوں گے ہی ساتھ میں پاکستان اور پاکستانیوں کا اصل روشن اور مہمان نواز چہرہ بھی دنیا کے سامنے آئے گا۔ مناسب انتظامات اور بہتر منصوبہ بندی سے ہم مزید بہتری لا سکتے ہیں۔
پانی زندگی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تیل کے بعد پانی پر جنگیں شروع ہونے کے امکانات ہیں کیونکہ اس وقت ساری دنیا میں پانی کم ہورہا ہے۔ بیشتر ممالک نے اس بحران کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے اس کی منصوبہ بندی شروع کردی ہے۔ پانی کے ذخائر بڑھانے کے علاوہ وہاں کی حکومتوں نے پانی کے بے جا استعمال اور زیاں کی روک تھام کا بندوبست بھی شروع کردیا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں اس مسئلے کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہم نہ ڈیم بنارہے ہیں جو پانی ذخیرہ کرکے بجلی اور دیگر ضروریات کو پورا کریں اور نہ ہی ہماری توجہ استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کی طرف ہے۔ بارشوں کے بعد وہ تمام پانی جو ہماری بہت سی ضروریات پوری کرسکتا ہے، سیلاب کی نذر ہوجاتا ہے اور عوام بجلی اور پانی کو ترستے رہ جاتے ہیں۔
ہم دریاؤں اور سمندر کے باوجود لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی بھگت رہے ہیں اور پانی کی کمی کا رونا بھی رو رہے ہیں لیکن اس دہری مصیبت کے تدارک کی کوششیں سرکاری اور عوامی سطح پر آٹے میں نمک کے برابر ہیں ، اگر ایک طرف ہماری موجودہ اور سابقہ تمام حکومتیں پانی کے ذخائر بنانے میں سستی کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں تو دوسری طرف عوام بلا ضرورت گھروں کے صحن، کپڑے اور گاڑیاں دھو کر پانی ضایع کرنے میں اکثر اوقات چستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی نصف سے زیادہ آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے ، لیکن نااہلی اور ناقص حکمت عملی نے ہمارے ملک کے زرعی شعبے کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ کسانوں کی جدید خطوط پر تربیت نہ ہونے کے باعث کسان کاشتکاری کے نئے طریقوں سے واقف نہیں ہیں جس کی وجہ سے فصل کی کاشت کے لیے پرانے اور روایتی طریقے اپنائے جاتے ہیں، نتیجہ زرعی پیداوار میں کمی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
اس کی وجہ سے زراعت میں ہماری خود انحصاری کم ہورہی ہے اور ہم سبزیاں درآمد کرنا شروع کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پانی کی کمی اور زرعی اراضی کی سیرابی کے مروجہ طریقہ کار جو اکثر ملکوں میں متروکہ حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔
گزشتہ کچھ سالوں سے دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کی لپیٹ میں پاکستان بھی آیا ہوا ہے۔ اب پاکستان کا موسم بھی زیادہ گرم ہوتا جارہا ہے اور سیلاب سمیت دیگر قدرتی آفات جن میں خشک سالی، زلزلے اور طوفانی بارشیں شامل ہیں، پہلے کی نسبت زیادہ وقوع پذیر ہونے لگے ہیں۔ اس موسمیاتی تبدیلی نے زرعی پیداوار کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ بارش کی کمی، زیادتی یا شدید گرمی اور سردی فصلوں کو نقصان پہنچا رہی ہے اور چونکہ ہمارا کسان موسم کے ان تغیرات سے آگاہی نہیں رکھتا اس لیے وہ اپنی فصل کو موسمی تبدیلیوں سے بچا نہیں پاتا ، لہٰذا اس کی محنت اور کمائی ضایع ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ہم نے صنعتوں سے خارج ہونے والی گیس اور فضلے کو ٹھکانے لگانے کے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے جو فضا کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ پانی میں شامل ہوکر انسانی زندگی کے لیے خطرے کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ اکثر فیکٹریاں اپنا صنعتی فضلہ غیر محفوظ طریقے سے پھینک دیتی ہیں اور چونکہ سرکاری سطح پر یہاں بھی ناقص منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا دور دورہ ہے اس لیے اکثر یہ زہریلا مواد صنعتی علاقوں کے قرب و جوار کی آبادیوں میں متعدد بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا ایک سبب یہ زہریلی اور مضر صحت گیس اور مادہ بھی ہیں جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں ہے۔
کرنسی مارکیٹ کا اتار چڑھاؤ ختم کرنے کے لیے قیاس آرائیوں پر مبنی حملوں سے روپے کا دفاع کرنا بہت ضروری ہے لیکن شرح مبادلہ کی طویل مدتی پائیداری کا انحصار برآمدات ، ترسیلات زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری ہے ، اگر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کی حکومتی صلاحیت بہتر بنائی جاتی ہے تو اِس سے مردہ حال معیشت میں نئی روح پھونکی جا سکتی ہے۔
فی الوقت حکومت تباہ کن سیلاب کے بعد قرضوں اور سود کی واپسی میں ریلیف کی تلاش میں ہے جس کے ثمرات بالاخر عوام تک منتقل ہوں گے ، تاہم کرنسی کے انتظام میں کوئی بھی غلطی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ پاکستانی معیشت کئی بار اِس مقام تک آنے کے بعد نقصان اٹھا چکی ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ مارکیٹ کی اونچ نیچ سے دور رہا جائے اور قومی معاشی مشکلات کا طویل مدتی حل تلاش کیا جائے۔