ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
خودکش دھماکے کے وقت ہال میں 600طلبہ موجود تھے
دشت برجی کابل میں امتحانات کی تیاری کے لیے کلاس رومز میں اپنا سبق یاد کرنے والے نوجوانوں کا قصور کیا تھا ؟ خوف ناک سچائی یہ ہے کہ جنت کی تلاش میں ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، یوں اس تعلیمی مرکز کے کلاس رومز میں بیٹھے ہوئے 20 کے قریب نوجوان شہید ہوئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔
اس دھماکے سے کابل کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہوئی مگر ماہر ڈاکٹروں کی عدم موجودگی اور آپریشن تھیٹرز کی کمی کی بناء پر کئی زخمی تڑپ تڑپ کر دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ ان بدقسمت طالب علموں جن کی عمریں 20 سے 25 برسوں کے درمیان تھیں ، ان کا ہزارہ برادری سے تعلق تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ان خود کش حملہ آوروں نے پہلے دو سیکیورٹی گارڈز کو فائرنگ کر کے قتل کیا اور کلاس رومز میں داخل ہوئے۔
ایک طالب علم اکبر نے غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے نمایندوں کو بتایا کہ افغانستان میں یونیورسٹیوں میں طالبات آگے بیٹھتی ہیں اور آخری نشستوں پر طلباء ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حملہ آوروں کا نشانہ براہ راست طالبات بنیں۔ یوں مرنے اور زخمی ہونے والوں میں اکثریت طالبات کی ہے۔
ایک تشدد پسند گروہ Islami Militant نے اس کی ذمے داری قبول کی۔ اگرچہ افغانستان میں برسر اقتدار طالبان حکومت ان حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے مگر تعلیم خاص طور پر طالبات کی تعلیم کی مخالفت میں دونوں کا یکساں رویہ ہے۔ کابل میں کاج ہائر ایجوکیشن سینٹر Kaaj Higher Education Centre یونیورسٹی کے طلبہ کو امتحانات کی تیاری کے لیے کوچنگ کلاسوں کا اہتمام کرتا ہے۔
خودکش دھماکے کے وقت ہال میں 600طلبہ موجود تھے۔ 30 ستمبر کو ہونے والے اس خودکش دھماکے کی خبر عام ہوتے ہی والدین اسپتالوں کی طرف دوڑنے لگے۔ یوں اسپتالوں کے سامنے ایک ہجوم جمع ہوا۔
ایک عورت نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کی ہمشیرہ کا ٹیلی فون بج رہا ہے مگر کوئی اٹھاتا نہیں ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں جن میں خواتین طلبہ کی تعداد زیادہ ہے طالبان حکومت کے قیام کے بعد 300سے زیادہ حملے ہوچکے ہیں اور ان حملوں میں 85 کے قریب طالبات اور اساتذہ شہید ہوئے ہیں۔
طالبان کے افغانستان میں طاقتور ہونے کے ساتھ خواتین کے لیے مشکلات کھڑی ہوگئیں۔ 90ء کی دہائی میں طالبان نے کابل کے تخت پر قبضہ کے ساتھ خواتین کی تعلیم پر سختی سے پابندی لگادی تھی اور ان سے روزگارکا حق چھین لیا گیا تھا ۔ جب امریکا اور اتحاد ی افواج نے کابل پر قبضہ کیا تو ملا عمر کی خلافت کا خاتمہ ہوا۔ اتحادی افواج نے طالبان اور القاعدہ کے خلاف آپریشن شروع کیا تو القاعدہ کے جنگجوؤں اور طالبان نے قبائلی علاقوں کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ ا
لقاعدہ کے چھاپہ مار ان ہی علاقوں میں روپوش ہوئے۔ امریکا اور اتحادی افواج نے مہینوں ان علاقوں پر بمباری کی۔ طالبان اور القاعدہ والوں نے طالبات کے اسکول کو خوب نشانہ بنایا۔ طالبان کے ایک گروہ نے سوات تک اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا تو وہاں سب سے زیادہ نشانہ خواتین بنیں۔ ملالہ یوسف زئی نے سوات کا حال گل مکئی کے قلمی نام سے بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر تحریر کیا تو اس کی زندگی کے لالے پڑگئے۔
ملالہ کے خلاف جھوٹ پر مبنی فضاء قائم کی گئی۔ ملالہ کو خواتین کی تعلیم کے لیے آواز اٹھانے پر امن کا نوبل انعام ملا تو رجعت پسندوں نے اس کو امریکا اور یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیا اور نئی نسل کے ذہنوں میں زہر بھر دیا۔
طالبان کی مزاحمتی تحریک کا دنیا کی دوسری مزاحمت تحریکوں سے موازنہ کیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ صرف طالبان کی مزاحمتی تحریک میں خواتین کے اسکول مسمار ہوئے، طالبات اور اساتذہ کو قتل کیا گیا۔ گزشتہ برسوں میں جب طالبان کابل پر حملے کررہے تھے تو دائیں بازو کے رہنماؤں نے یہ مفروضہ عام کیا کہ اب طالبان کی قیادت باشعور ہوگئی ہے۔ مغربی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اب طالبان کی قیادت میں شامل ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف والے طالبان کے گن گاتے رہے۔
گزشتہ دنوں جب امریکا کے ایک ڈرون حملہ میں القاعدہ کے ایک اہم رہنما مارے گئے تو تحریک انصاف کے بعض رہنماایمن الزواہری کی موت کا ماتم کرتے رہے۔ حکومت پاکستان کی اس واضح تردید کے باوجود کہ ڈرون حملوں کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال نہیں ہوئی۔ فواد چوہدری کو تشویش رہی کہ ڈرون حملہ میں پاکستان کی فضائی حدود استعمال ہوئی ہے۔ طالبان کی حکومت کے قیام کو سال ہوچکا ہے۔
ملا ؤں کی مقتدرہ کی یہ حکومت خواتین کی تعلیم کے بارے میں کئی فیصلہ نہیں کرسکی۔ حکومت نے کبھی اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھول دیں اور پھر بند کردی گئیں۔ چند ماہ قبل پھرکابل کی حکومت نے طالبات کے اسکول بند کردیے ، اگر اب بھی طالبات اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کر پائیں گی تو پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے ان کے دروازے پھر بند ہوجائیں گے۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسیوںکے نمایندوں کی افغانستان سے ملنے والی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کی طالبات کی اکثریت تعلیم حاصل کرنے کی خواہاں ہے مگر ان کے لیے تعلیم کے حصول کے راستے بند ہیں۔
افغانستان میں امراء اور درمیانہ طبقہ کے جو والدین اپنی استطاعت رکھتے ہیں وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے لیے پاکستان اور یورپ بھیج رہے ہیں۔ غریب والدین کے لیے گھروں اور خفیہ کوچنگ سینٹروں میں تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ یہ نوجوان پولیس کے چھاپے اور خودکش حملہ آوروں کے خوف کے سایہ میں تعلیم گاہوں میں آتے ہیں۔ کچھ خودکش حملہ آوروں کے دھماکوں میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
امریکا اور یورپی ممالک نے طالبان کی حکومت کی امداد بند کی ہوئی ہے مگر چین اور روس وغیرہ امریکا دشمنی میں طالبان کی حکومت کی مدد کررہے ہیں۔ خواتین کو تعلیم کے حق سے محروم رکھنے کی مقصد صرف غربت کی شرح میں اضافہ کرنا ہے۔ غربت میں اضافہ سے افغانستان میں انسانی المیہ جنم لے گا۔ طالبان افغانستان کے معاشرے کو پتھر کے زمانہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، یوں پورا خطہ ان کی پالیسیوں سے متاثر ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے صرف افغانستان میں ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی یہ عناصر اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
اس دھماکے سے کابل کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہوئی مگر ماہر ڈاکٹروں کی عدم موجودگی اور آپریشن تھیٹرز کی کمی کی بناء پر کئی زخمی تڑپ تڑپ کر دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ ان بدقسمت طالب علموں جن کی عمریں 20 سے 25 برسوں کے درمیان تھیں ، ان کا ہزارہ برادری سے تعلق تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ان خود کش حملہ آوروں نے پہلے دو سیکیورٹی گارڈز کو فائرنگ کر کے قتل کیا اور کلاس رومز میں داخل ہوئے۔
ایک طالب علم اکبر نے غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے نمایندوں کو بتایا کہ افغانستان میں یونیورسٹیوں میں طالبات آگے بیٹھتی ہیں اور آخری نشستوں پر طلباء ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حملہ آوروں کا نشانہ براہ راست طالبات بنیں۔ یوں مرنے اور زخمی ہونے والوں میں اکثریت طالبات کی ہے۔
ایک تشدد پسند گروہ Islami Militant نے اس کی ذمے داری قبول کی۔ اگرچہ افغانستان میں برسر اقتدار طالبان حکومت ان حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے مگر تعلیم خاص طور پر طالبات کی تعلیم کی مخالفت میں دونوں کا یکساں رویہ ہے۔ کابل میں کاج ہائر ایجوکیشن سینٹر Kaaj Higher Education Centre یونیورسٹی کے طلبہ کو امتحانات کی تیاری کے لیے کوچنگ کلاسوں کا اہتمام کرتا ہے۔
خودکش دھماکے کے وقت ہال میں 600طلبہ موجود تھے۔ 30 ستمبر کو ہونے والے اس خودکش دھماکے کی خبر عام ہوتے ہی والدین اسپتالوں کی طرف دوڑنے لگے۔ یوں اسپتالوں کے سامنے ایک ہجوم جمع ہوا۔
ایک عورت نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کی ہمشیرہ کا ٹیلی فون بج رہا ہے مگر کوئی اٹھاتا نہیں ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں جن میں خواتین طلبہ کی تعداد زیادہ ہے طالبان حکومت کے قیام کے بعد 300سے زیادہ حملے ہوچکے ہیں اور ان حملوں میں 85 کے قریب طالبات اور اساتذہ شہید ہوئے ہیں۔
طالبان کے افغانستان میں طاقتور ہونے کے ساتھ خواتین کے لیے مشکلات کھڑی ہوگئیں۔ 90ء کی دہائی میں طالبان نے کابل کے تخت پر قبضہ کے ساتھ خواتین کی تعلیم پر سختی سے پابندی لگادی تھی اور ان سے روزگارکا حق چھین لیا گیا تھا ۔ جب امریکا اور اتحاد ی افواج نے کابل پر قبضہ کیا تو ملا عمر کی خلافت کا خاتمہ ہوا۔ اتحادی افواج نے طالبان اور القاعدہ کے خلاف آپریشن شروع کیا تو القاعدہ کے جنگجوؤں اور طالبان نے قبائلی علاقوں کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ ا
لقاعدہ کے چھاپہ مار ان ہی علاقوں میں روپوش ہوئے۔ امریکا اور اتحادی افواج نے مہینوں ان علاقوں پر بمباری کی۔ طالبان اور القاعدہ والوں نے طالبات کے اسکول کو خوب نشانہ بنایا۔ طالبان کے ایک گروہ نے سوات تک اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا تو وہاں سب سے زیادہ نشانہ خواتین بنیں۔ ملالہ یوسف زئی نے سوات کا حال گل مکئی کے قلمی نام سے بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر تحریر کیا تو اس کی زندگی کے لالے پڑگئے۔
ملالہ کے خلاف جھوٹ پر مبنی فضاء قائم کی گئی۔ ملالہ کو خواتین کی تعلیم کے لیے آواز اٹھانے پر امن کا نوبل انعام ملا تو رجعت پسندوں نے اس کو امریکا اور یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیا اور نئی نسل کے ذہنوں میں زہر بھر دیا۔
طالبان کی مزاحمتی تحریک کا دنیا کی دوسری مزاحمت تحریکوں سے موازنہ کیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ صرف طالبان کی مزاحمتی تحریک میں خواتین کے اسکول مسمار ہوئے، طالبات اور اساتذہ کو قتل کیا گیا۔ گزشتہ برسوں میں جب طالبان کابل پر حملے کررہے تھے تو دائیں بازو کے رہنماؤں نے یہ مفروضہ عام کیا کہ اب طالبان کی قیادت باشعور ہوگئی ہے۔ مغربی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اب طالبان کی قیادت میں شامل ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف والے طالبان کے گن گاتے رہے۔
گزشتہ دنوں جب امریکا کے ایک ڈرون حملہ میں القاعدہ کے ایک اہم رہنما مارے گئے تو تحریک انصاف کے بعض رہنماایمن الزواہری کی موت کا ماتم کرتے رہے۔ حکومت پاکستان کی اس واضح تردید کے باوجود کہ ڈرون حملوں کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال نہیں ہوئی۔ فواد چوہدری کو تشویش رہی کہ ڈرون حملہ میں پاکستان کی فضائی حدود استعمال ہوئی ہے۔ طالبان کی حکومت کے قیام کو سال ہوچکا ہے۔
ملا ؤں کی مقتدرہ کی یہ حکومت خواتین کی تعلیم کے بارے میں کئی فیصلہ نہیں کرسکی۔ حکومت نے کبھی اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھول دیں اور پھر بند کردی گئیں۔ چند ماہ قبل پھرکابل کی حکومت نے طالبات کے اسکول بند کردیے ، اگر اب بھی طالبات اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کر پائیں گی تو پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے ان کے دروازے پھر بند ہوجائیں گے۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسیوںکے نمایندوں کی افغانستان سے ملنے والی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کی طالبات کی اکثریت تعلیم حاصل کرنے کی خواہاں ہے مگر ان کے لیے تعلیم کے حصول کے راستے بند ہیں۔
افغانستان میں امراء اور درمیانہ طبقہ کے جو والدین اپنی استطاعت رکھتے ہیں وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے لیے پاکستان اور یورپ بھیج رہے ہیں۔ غریب والدین کے لیے گھروں اور خفیہ کوچنگ سینٹروں میں تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ یہ نوجوان پولیس کے چھاپے اور خودکش حملہ آوروں کے خوف کے سایہ میں تعلیم گاہوں میں آتے ہیں۔ کچھ خودکش حملہ آوروں کے دھماکوں میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
امریکا اور یورپی ممالک نے طالبان کی حکومت کی امداد بند کی ہوئی ہے مگر چین اور روس وغیرہ امریکا دشمنی میں طالبان کی حکومت کی مدد کررہے ہیں۔ خواتین کو تعلیم کے حق سے محروم رکھنے کی مقصد صرف غربت کی شرح میں اضافہ کرنا ہے۔ غربت میں اضافہ سے افغانستان میں انسانی المیہ جنم لے گا۔ طالبان افغانستان کے معاشرے کو پتھر کے زمانہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، یوں پورا خطہ ان کی پالیسیوں سے متاثر ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے صرف افغانستان میں ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی یہ عناصر اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔