خلوت نشینی کے فوائد
اسلامی نقطہ نظر سے عزلت نشینی یا گوشہ نشینی کے بارے میں علما و مفکرین کی رائے میں اختلاف ہے
SALMON:
ارتکاز توجہ کا عمل بہت پرانا ہے۔ قدیم قومیں اس فن سے بخوبی واقف تھیں، یہ لوگ کسی ایک مشہود (Object) پر نظریں جما کر اپنے اوپر خود تنویمی (سیلف ہیپناسز) کی کیفیت طاری کر لیتے تھے اور خود تنویمی کی حالت میں ان کا ماورائی شعور حرکت میں آ جاتا تھا۔ بلور بینی Crystal Gazing کا طریقہ بہت قدیم ہے، قدیم مصری، بابلی، آشوری اور چینی اس طریقے سے بخوبی واقف تھے، پلک جھپکائے بغیر کسی ایک نقطہ کو تکتے رہنے سے دماغ کے غدۂ صنوبری (Pineal Gland) میں ایک پراسرار حرکت پیدا ہوتی ہے اور استغراق طاری ہو جاتا ہے۔ استغراق کا نتیجہ ''افتراق شعور'' کی شکل میں نکلتا ہے، یعنی پھٹ کر شعور کے دو حصے ہو جاتے ہیں اور اس کے اندر سے رفتہ رفتہ ایک لازمانی اور لامکانی شعور برآمد ہوتا ہے، اور تمام خارق العادات مظاہر کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے۔ اس عمل کی تکمیل کے لیے کسی حد تک عزلت نشینی اور خلوت نشینی ضروری ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے عزلت نشینی یا گوشہ نشینی کے بارے میں علما و مفکرین کی رائے میں اختلاف ہے۔ مفکرین کا ایک گروہ اس کی مخالفت کرتا ہے اور دوسرا اسے حد درجہ ضروری سمجھتا ہے۔ قبل اس کے کہ ہم مفکرین مغرب و مشرق کے خیالات پیش کریں، ضروری سمجھتے ہیں کہ شیخ الشیوخ شباب الدین سہروردی کے خیالات بیان کر دیں۔ شیخ الشیوخ تحریر فرماتے ہیں: ''تنہائی میں خیالات کی یکسائی کے سبب باطن صاف ہو جاتا ہے، اگر باطن کی صفائی مذہبی رہنمائی اور رسول اﷲ کی سچی پیروی کا نتیجہ ہے تو اس سے روشن ضمیری، دنیا سے بے تعلقی، ذکر الٰہی کی حلاوت اور مخلصانہ عبادت کا ظہور ہو گا، اور اگر مذہبی ہدایت اور رسول کریمؐ کا اتباع مقصود نہیں تو محض نفس کی صفائی ہو گی۔ صفائی نفس کے ذریعے علوم ریاضیہ حاصل کیے جا سکتے ہیں جس سے فلسفیوں کو دلچسپی ہے۔'' اس عبارت سے مترشح ہوتا ہے کہ صوفیائے کبار کو اس کا احساس تھا کہ خلوت نشینی کو علاوہ مسلمانوں کے دیگر مذاہب کے لوگوں نے اور فلسفیوں نے اپنا شعار بنایا ہے، کیونکہ یہ ہر صورت میں سود مند ہے اور تصفیہ نفس ہر حالت میں اس کا نتیجہ ہے۔ ہم اب مغرب کے ان لوگوں کے خیالات پیش کرتے ہیں جو غیر مسلم تھے، انھوں نے خلوت میں کیا کیا خوبیاں محسوس کیں۔
٭ میں نے کسی کو اتنا رفیق و مونس نہ پایا جتنا خلوت کو۔ (تھوریو) ٭ خلوت فکر و خیال کے لیے اتنی ہی فائدہ مند ہے جتنی معاشرے سے وابستگی کردار کے لیے مفید ہے۔ (جیمس رسل لاول) ٭ خلوت نشینی سے آدمی اپنے لیے زیادہ سخت گیر اور دوسروں کے لیے ملائم طبع ہو جاتا ہے، غرض دونوں صورتوں میں کردار کی اصلاح ہوتی ہے۔ (نطشے) ٭ سب سے زیادہ خوشگوار زندگی وہ ہے جو خلوت میں مصروفیت کے ساتھ گزرے۔ (والٹیئر) ٭ خلوت عزم کی دائی ہے اور عزم فطانت کا جزو اعظم ہے، عمر کے جس حصے میں بھی خلوت حاصل کی جائے وہ انسان کو بلندیوں پر لے جاتی ہے۔ (ڈزرئیلی) ٭ دماغ جتنا توانا اور جدت پسند ہو گا اتنا ہی وہ خلوت کے مسلک کی طرف مائل ہو گا۔ (ہکسلے) ٭ خلوت دانش وری کی دایہ ہے۔ (لارنس) ٭ انسان کی ناپختہ صلاحیتیں خلوت میں پختگی حاصل کرتی ہیں۔ (گوئٹے) ٭ محفل آرائی سے دانش و ادراک میں اضافہ ہوتا ہے لیکن خلوت کے مکتب سے صرف نابغۂ عصر (جینئس) ہی نکلتے ہیں۔ (گبن) ٭ میرا ایمان ہے کہ خلوت میں انسان کو حال و قال میں زیادہ صالح عزم حاصل ہوتا ہے، بمقابلہ اس علم و دانش کے جو کتابوں سے حاصل ہو۔ (ایمرسن) ٭ جائو اپنی روح کی پرورش کرو، ہم جنسوں سے دوری اختیار کرو، اور اپنی عادتوں کو خلوت کے سانچے میں ڈھال لو، اس وقت تمھارے قوائے باطنی کلی طور پر اپنے جلال و جمال کا مظاہرہ کریں گے۔ (ایمرسن) ٭ خلوت میں ایک گھنٹے کا تفکر قلب کو کئی روز تک آشوب روزگار سے معرکہ آرائی کا حوصلہ بخش دیتا ہے۔ (جیمس پرسیوں) ٭خلوت سے خداوند قدوس کے دربار میں بازیابی حاصل ہوتی ہے۔ (ڈبلیو، ایس، لینڈر)
ان تمام اقوال کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے ہر طبقہ فکر و نظر نے خواہ وہ فلسفی ہوں یا شاعر، خطیب ہوں یا عالم، خلوت میں بہت سی خوبیاں پائیں اور دینی و دنیاوی جملہ مقاصد کے لیے خلوت نشینی سے ان کے پروگرام کو زبردست تقویت پہنچی اور تکمیل مقاصد میں بڑی مدد ملی۔ تاریخ مذاہب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قبل از اسلام بھی ان مذاہب میں جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے، اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ دنیا کے عظیم ترین انسانوں نے خلوت کو اپنا شعار بنایا۔کسی بھی انسان کو یکسوئی اور ارتکاز خیال کی جب عادت پڑ جاتی ہے تو ہنگامے بھی اس یکسوئی میں حارج و مزاحم نہیں ہو سکتے اور دماغی اور روحانی قوتوں پر اس قدر تصرف ہو جاتا ہے کہ جب بھی چاہا ان قوتوں کو ایک نقطہ پر مرکوز کر دیا۔
علم نفسیات کی رو سے یہ عمل دماغی ہے اور دماغ کا یہ رجحان اور تحریک غیر معمولی Abnormal ہے، کیونکہ انسان اپنی فطرت سے میلان طبع ہے اور تنہائی سے گریزاں، لہٰذا اگر کوئی انسان تنہائی سے کدورت کے بجائے راحت و لطف حاصل کرتا ہے تو اس کا یہ عمل معمول اور اعتدال سے ہٹ کر ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ممکن نہیں کہ انسان اپنے دماغ کی ساری قوتوں کو بیک وقت ایک نقطہ پر مرکوز کر سکے کیونکہ انسانی دماغ کے اتنے شعبے ہیں جو ہر وقت اپنی جگہ کام کرتے رہتے ہیں کہ ان سب شعبوں کا ایک مرکز پر جمع ہونا محال ہے، لیکن اگر کسی انسان کو یہ قدرت حاصل ہو جائے کہ وہ اپنے دماغ کے تمام شعبوں کو معطل کر کے ایک نقطہ پر توجہ کو مرکوز کر دے تو وہ کوئی غیر معمولی انسان ہو گا اور اس کے افکار سے غیر معمولی نتائج برآمد ہوں گے، اس نے اپنی جس دماغی قوت کو مرکوز کیا ہے وہ بے پناہ اور قیامت خیز ہو جائے گی، مثلاً ایک بڑے عدسے کو دھوپ میں کسی چیز سے اتنے فاصلے پر رکھیں کہ اس عدسے کے پورے محیط کی شعاعیں سمٹ کر ایک نقطہ پر مرکوز ہو جائیں تو آگ لگ جائے گی اور شعلہ بھڑک اٹھے گا، اسی طرح دماغ یا روح کی تمام قوتوں کو جب ایک خیال کی طرف مرکوز کر دیا جاتا ہے تو انسان سے غیر معمولی اور محیر العقول افعال ظہور میں آتے ہیں۔
ارتکاز توجہ کا عمل بہت پرانا ہے۔ قدیم قومیں اس فن سے بخوبی واقف تھیں، یہ لوگ کسی ایک مشہود (Object) پر نظریں جما کر اپنے اوپر خود تنویمی (سیلف ہیپناسز) کی کیفیت طاری کر لیتے تھے اور خود تنویمی کی حالت میں ان کا ماورائی شعور حرکت میں آ جاتا تھا۔ بلور بینی Crystal Gazing کا طریقہ بہت قدیم ہے، قدیم مصری، بابلی، آشوری اور چینی اس طریقے سے بخوبی واقف تھے، پلک جھپکائے بغیر کسی ایک نقطہ کو تکتے رہنے سے دماغ کے غدۂ صنوبری (Pineal Gland) میں ایک پراسرار حرکت پیدا ہوتی ہے اور استغراق طاری ہو جاتا ہے۔ استغراق کا نتیجہ ''افتراق شعور'' کی شکل میں نکلتا ہے، یعنی پھٹ کر شعور کے دو حصے ہو جاتے ہیں اور اس کے اندر سے رفتہ رفتہ ایک لازمانی اور لامکانی شعور برآمد ہوتا ہے، اور تمام خارق العادات مظاہر کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے۔ اس عمل کی تکمیل کے لیے کسی حد تک عزلت نشینی اور خلوت نشینی ضروری ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے عزلت نشینی یا گوشہ نشینی کے بارے میں علما و مفکرین کی رائے میں اختلاف ہے۔ مفکرین کا ایک گروہ اس کی مخالفت کرتا ہے اور دوسرا اسے حد درجہ ضروری سمجھتا ہے۔ قبل اس کے کہ ہم مفکرین مغرب و مشرق کے خیالات پیش کریں، ضروری سمجھتے ہیں کہ شیخ الشیوخ شباب الدین سہروردی کے خیالات بیان کر دیں۔ شیخ الشیوخ تحریر فرماتے ہیں: ''تنہائی میں خیالات کی یکسائی کے سبب باطن صاف ہو جاتا ہے، اگر باطن کی صفائی مذہبی رہنمائی اور رسول اﷲ کی سچی پیروی کا نتیجہ ہے تو اس سے روشن ضمیری، دنیا سے بے تعلقی، ذکر الٰہی کی حلاوت اور مخلصانہ عبادت کا ظہور ہو گا، اور اگر مذہبی ہدایت اور رسول کریمؐ کا اتباع مقصود نہیں تو محض نفس کی صفائی ہو گی۔ صفائی نفس کے ذریعے علوم ریاضیہ حاصل کیے جا سکتے ہیں جس سے فلسفیوں کو دلچسپی ہے۔'' اس عبارت سے مترشح ہوتا ہے کہ صوفیائے کبار کو اس کا احساس تھا کہ خلوت نشینی کو علاوہ مسلمانوں کے دیگر مذاہب کے لوگوں نے اور فلسفیوں نے اپنا شعار بنایا ہے، کیونکہ یہ ہر صورت میں سود مند ہے اور تصفیہ نفس ہر حالت میں اس کا نتیجہ ہے۔ ہم اب مغرب کے ان لوگوں کے خیالات پیش کرتے ہیں جو غیر مسلم تھے، انھوں نے خلوت میں کیا کیا خوبیاں محسوس کیں۔
٭ میں نے کسی کو اتنا رفیق و مونس نہ پایا جتنا خلوت کو۔ (تھوریو) ٭ خلوت فکر و خیال کے لیے اتنی ہی فائدہ مند ہے جتنی معاشرے سے وابستگی کردار کے لیے مفید ہے۔ (جیمس رسل لاول) ٭ خلوت نشینی سے آدمی اپنے لیے زیادہ سخت گیر اور دوسروں کے لیے ملائم طبع ہو جاتا ہے، غرض دونوں صورتوں میں کردار کی اصلاح ہوتی ہے۔ (نطشے) ٭ سب سے زیادہ خوشگوار زندگی وہ ہے جو خلوت میں مصروفیت کے ساتھ گزرے۔ (والٹیئر) ٭ خلوت عزم کی دائی ہے اور عزم فطانت کا جزو اعظم ہے، عمر کے جس حصے میں بھی خلوت حاصل کی جائے وہ انسان کو بلندیوں پر لے جاتی ہے۔ (ڈزرئیلی) ٭ دماغ جتنا توانا اور جدت پسند ہو گا اتنا ہی وہ خلوت کے مسلک کی طرف مائل ہو گا۔ (ہکسلے) ٭ خلوت دانش وری کی دایہ ہے۔ (لارنس) ٭ انسان کی ناپختہ صلاحیتیں خلوت میں پختگی حاصل کرتی ہیں۔ (گوئٹے) ٭ محفل آرائی سے دانش و ادراک میں اضافہ ہوتا ہے لیکن خلوت کے مکتب سے صرف نابغۂ عصر (جینئس) ہی نکلتے ہیں۔ (گبن) ٭ میرا ایمان ہے کہ خلوت میں انسان کو حال و قال میں زیادہ صالح عزم حاصل ہوتا ہے، بمقابلہ اس علم و دانش کے جو کتابوں سے حاصل ہو۔ (ایمرسن) ٭ جائو اپنی روح کی پرورش کرو، ہم جنسوں سے دوری اختیار کرو، اور اپنی عادتوں کو خلوت کے سانچے میں ڈھال لو، اس وقت تمھارے قوائے باطنی کلی طور پر اپنے جلال و جمال کا مظاہرہ کریں گے۔ (ایمرسن) ٭ خلوت میں ایک گھنٹے کا تفکر قلب کو کئی روز تک آشوب روزگار سے معرکہ آرائی کا حوصلہ بخش دیتا ہے۔ (جیمس پرسیوں) ٭خلوت سے خداوند قدوس کے دربار میں بازیابی حاصل ہوتی ہے۔ (ڈبلیو، ایس، لینڈر)
ان تمام اقوال کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے ہر طبقہ فکر و نظر نے خواہ وہ فلسفی ہوں یا شاعر، خطیب ہوں یا عالم، خلوت میں بہت سی خوبیاں پائیں اور دینی و دنیاوی جملہ مقاصد کے لیے خلوت نشینی سے ان کے پروگرام کو زبردست تقویت پہنچی اور تکمیل مقاصد میں بڑی مدد ملی۔ تاریخ مذاہب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قبل از اسلام بھی ان مذاہب میں جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے، اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ دنیا کے عظیم ترین انسانوں نے خلوت کو اپنا شعار بنایا۔کسی بھی انسان کو یکسوئی اور ارتکاز خیال کی جب عادت پڑ جاتی ہے تو ہنگامے بھی اس یکسوئی میں حارج و مزاحم نہیں ہو سکتے اور دماغی اور روحانی قوتوں پر اس قدر تصرف ہو جاتا ہے کہ جب بھی چاہا ان قوتوں کو ایک نقطہ پر مرکوز کر دیا۔
علم نفسیات کی رو سے یہ عمل دماغی ہے اور دماغ کا یہ رجحان اور تحریک غیر معمولی Abnormal ہے، کیونکہ انسان اپنی فطرت سے میلان طبع ہے اور تنہائی سے گریزاں، لہٰذا اگر کوئی انسان تنہائی سے کدورت کے بجائے راحت و لطف حاصل کرتا ہے تو اس کا یہ عمل معمول اور اعتدال سے ہٹ کر ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ممکن نہیں کہ انسان اپنے دماغ کی ساری قوتوں کو بیک وقت ایک نقطہ پر مرکوز کر سکے کیونکہ انسانی دماغ کے اتنے شعبے ہیں جو ہر وقت اپنی جگہ کام کرتے رہتے ہیں کہ ان سب شعبوں کا ایک مرکز پر جمع ہونا محال ہے، لیکن اگر کسی انسان کو یہ قدرت حاصل ہو جائے کہ وہ اپنے دماغ کے تمام شعبوں کو معطل کر کے ایک نقطہ پر توجہ کو مرکوز کر دے تو وہ کوئی غیر معمولی انسان ہو گا اور اس کے افکار سے غیر معمولی نتائج برآمد ہوں گے، اس نے اپنی جس دماغی قوت کو مرکوز کیا ہے وہ بے پناہ اور قیامت خیز ہو جائے گی، مثلاً ایک بڑے عدسے کو دھوپ میں کسی چیز سے اتنے فاصلے پر رکھیں کہ اس عدسے کے پورے محیط کی شعاعیں سمٹ کر ایک نقطہ پر مرکوز ہو جائیں تو آگ لگ جائے گی اور شعلہ بھڑک اٹھے گا، اسی طرح دماغ یا روح کی تمام قوتوں کو جب ایک خیال کی طرف مرکوز کر دیا جاتا ہے تو انسان سے غیر معمولی اور محیر العقول افعال ظہور میں آتے ہیں۔