انسداد کرپشن آگہی مہم

پچھلے دور حکومت میں پاکستان ریلوے کو عجائب گھر میں تبدیل کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔۔۔

apro_ku@yahoo.com

LONDON:
حال ہی میں قومی احتساب بیورو سندھ کے تحت جامعہ کراچی میں انسداد کرپشن آگہی مہم کے حوالے سے ایک پروگرام منعقد ہوا جس میں جامعہ کراچی کے اساتذہ اور ملازمین کو اس حوالے سے معلومات فراہم کی گئیں۔ اس پروگرام میں نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر سید احمد شعیب، انویسٹی گیشن آفیسر رابعہ عبدالرحمن اور رجسٹرار جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر معظم علی خان، مشیر امور طلبہ پروفیسر ڈاکٹر انصر رضوی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

یہ پروگرام اس لحاظ سے بہتر تھا کہ حاضرین کو اس بات کی یاد دہانی کرائی گئی کہ کرپشن صرف ناجائز ذرائع سے دولت حاصل کر لینے کا نام نہیں بلکہ کرپشن اخلاقی بھی ہوتی ہے، دیر سے انصاف فراہم کرنا بھی کرپشن ہی کی ایک قسم ہے اور دفتر یا کلاس میں دیر سے پہنچنا بھی کرپشن ہے۔ یہ بات بھی تسلیم کی گئی کہ ملک میں کرپشن کی صورتحال نے ہماری معیشت پر بھی منفی اثرات ڈالے ہیں اور عالمی سطح پر اعتماد اور ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے جس کے باعث بیرونی امداد اور سرمایہ کاری میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر معظم علی خان نے تو بہت واضح انداز میں یہاں تک کہہ دیا کہ ایئر پلوشن، واٹر پلوشن نیز اخلاقی اور سوشل پلوشن کے پیچھے بھی ایک سبب کرپشن شامل ہے، باشعور قومیں اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہیں۔ پروفیسر انصر رضوی نے تو سماجی کرپشن پر روشنی ڈال کر ہماری اخلاقیات کا پوسٹ مارٹم ہی کر دیا۔

بلاشبہ اس قسم کے پروگرام لوگوں میں شعور و آگہی پیدا کرتے ہیں جس کا یقیناً اثر ہمارے معاشرے پر بھی پڑتا ہے، تاہم ایک اصل سوال یہ ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں صرف مالی کرپشن ہی نہ ہو، سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی کرپشن بھی موجود ہو، وہاں ایک نیب کا ادارہ کیا کر سکتا ہے؟ کیا اس کی شعور و آگہی کی مہم کامیاب ہو گی؟ جب کہ موجودہ دور کے ذرائع ابلاغ خصوصاً ٹی وی شوز نے کرپشن کی کہانیوں کے ڈھیر لگا کر رکھ دیے ہیں۔ ایسے میں نیب کے ذمے داروں کی جانب سے یہ کہنا کہ جناب آپ ہمیں شکایت ارسال کیجیے ہم کرپشن کے خلاف سخت ایکشن لیں گے، کیوں؟ شکایت پر ہی نیب حرکت میں کیوں آئے؟ کیا ہمارے ذرائع ابلاغ آئے دن کہیں نہ کہیں ہونے والی کرپشن سے پردہ نہیں اٹھا رہے ہیں؟


اس اہم بات پر راقم نے مذکورہ پروگرام میں ڈپٹی ڈائریکٹر نیب سید احمد شعیب کو تجویز دی کہ آپ کے ادارے کو کسی شکایت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ مختلف اداروں کے سربراہوں اور اہم پوسٹوں پر بیٹھے ہوئے ان افسران کو ٹارگٹ کرنا چاہیے جن کی ناک کے نیچے کرپشن ہو رہی ہے۔ راقم کا موقف تھا کہ اگر ادارے کا سربراہ درست ہو تو ادارے میں کام کرنے والے دیگر اسٹاف بھی کرپشن میں ملوث نہیں ہوں گے، اگر کوئی ایس ایچ او رشوت نہیں لیتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سپاہی رشوت لے، اگر کوئی افسر خود دفتر وقت پر پہنچتا ہے تو اس کے ماتحت کبھی بھی دفتر دیر سے نہیں پہنچیں گے۔ اس سلسلے میں راقم نے جامعہ کراچی کے شعبہ امتحانات کے ناظم پروفیسر ارشد اعظمی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان کے چارج سنبھالنے کے بعد سے کم از کم شعبہ امتحانات کی عمارت میں باوجود مختلف دباؤ کے کوئی غلط کام نہیں ہوتا جس کے گواہ خود اس جامعہ کراچی کے ملازمین ہیں۔

راقم کی اس تجویز پر سید احمد شعیب نے کہا کہ یہ تجویز نوٹ کر لی ہے اور اس پر غور بھی کیا جائے گا، یہ ان کا ایک اچھا مثبت رویہ تھا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارے ہاں رشوت کا عروج اور اداروں کی تباہی اس وقت سے شروع ہوئی جب مختلف اداروں میں سربراہوں کا تقرر اور اہم پوسٹوں پر تقرری نہ صرف سیاسی بنیاد پر یا مفادات کی بنیاد پر ہونے لگی اور ایسے افراد کی ہونے لگی جو کہ اس عہدے کے لیے کسی طور اہل نہ تھے بلکہ ان کا مطمع نظر صرف اور صرف پیسہ کمانا تھا چنانچہ آج چند ایک ہی ادارے ایسے ہیں کہ جن کی کارکردگی غنیمت قرار دی جا سکتی ہے ورنہ تو ہر دوسرا ادارہ اس قدر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے کہ اس کی بحالی بھی مستقبل قریب میں نظر نہیں آتی۔ پاکستان اسٹیل کی تباہی سب کے سامنے ہے کہ ایک وقت تو کرپشن کی حد یہاں تک پہنچ گئی کہ بااثر ملازمین کی تنخواہوں سے زائد میڈیکل کے بلز اور اوور ٹائم ہوا کرتے تھے پھر کرپشن کے نتائج اس طرح ظاہر ہوئے کہ اب ملازمین کو تین تین ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں ہوتیں۔

یہی کچھ حال بجلی کے محکموں کا ہے۔ ایک ایسا ادارہ کہ جس پر ساری ملک کی معیشت کا دار و مدار ہے اس طرح تباہ کر دیا گیا ہے، گھر کے پنکھوں سے لے کر کارخانوں کے پہیے تک جام ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ جب بجلی ہی کارخانوں میں نہ ہو گی تو پیداوار کہاں ہو گی؟ نتیجہ بے روزگاری اور برآمدات میں کمی اور معیشت کمزور۔

پچھلے دور حکومت میں پاکستان ریلوے کو عجائب گھر میں تبدیل کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ اس قدر کرپشن کی گئی کہ لوگ خود ٹرین کے سفر سے خوف زدہ ہونے لگے اور ہوتے بھی کیوں نہیں کہ ذمے دار خود کہنے لگے ''حادثے سے بچنا ہے تو آیت الکرسی پڑھ کر سوار ہوں''۔

بہر کیف یہ حقیقت ہے کہ جب کسی ادارے کے سربراہ کو میرٹ کے بجائے سیاسی یا سفارشی یا پھر رشوت ادا کرنے کی بنیاد پر لا کر بٹھا دیا جائے تو پھر ادارے کی تباہی ہوتی ہے ادارے ترقی نہیں کرتے۔ اب بھی وقت ہے اگر اداروں کو مضبوط اور ملکی معیشت کو مستحکم کرنا ہے تو کم از کم اداروں کے سربراہوں کے انتخاب میں سیاست، رشوت کو الگ رکھ دیا جائے۔ اداروں کے سربراہوں کو میرٹ کے خلاف بھرتی کر کے یہ توقع کرنا کہ یہ ملک ترقی کرے گا بالکل ایسا ہی ہے کہ کانٹے دار درخت کا پودا لگا کر امید کی جائے کہ یہ کانٹے نہیں پھل پھول ہی دے گا۔
Load Next Story