اسحاق ڈارکی کنٹری ڈائریکٹر عالمی بینک سے ملاقات
قرض شرائط پرعمل کرینگے، ڈار،عالمی بینک کا دوسرے پروگرام کی شرائط کو نافذ کرنے پر زور
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بن ہساین کی سربراہی میں وفد سے ملاقات کی۔
گزشتہ روز وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بن ہساین کی سربراہی میں وفد سے ملاقات کی اور واشنگٹن میں اپنی آئندہ ملاقاتوں پر تبادلہ خیال کیا۔
وزیر خزانہ نے عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کے ساتھ ان اقتصادی چیلنجوں پر تبادلہ خیال کیا۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت ان مسائل سے بخوبی آگاہ ہے اور ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے۔
ناجی بین ہساین نے ڈار کو پاکستان کے ساتھ عالمی بینک کے مستقبل کے تعاون کے بارے میں آگاہ کیا۔انہوں نے وزیر خزانہ کو بتایا کہ عالمی بینک پاکستان کی مددکے لیے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہنگامی آپریشنز کیلیے اپنے موجودہ مالیاتی منصوبوں سے2 بلین ڈالر کے فنڈز مختص کر رہا ہے۔ ہنگامی صورتحال کی وجہ سے اس سال تقریباً 1.5 بلین ڈالر کے فنڈز جمع کیے جائیں گے۔
ناجی بین ہساین نے کہا کہ انھوں نے ہیڈ کوارٹرز سے درخواست کی ہے کہ وہ اضافی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے رعایتی قرضے میں پاکستان کے حصے کی تقسیم کو آگے بڑھائے۔
وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا، "وزیر خزانہ نے ناجی بین ہساین اور ان کی ٹیم کو پروگراموں کی بروقت تکمیل کے لیے پیشگی اقدامات کی یقین دہانی کرائی" ہے۔ اس سے عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس کیساتھ ملاقات میں مراعات حاصل کرنے میں مدد ملسکتی ہے لیکن IMF کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے ساتھ ڈار کی ملاقات ابھی تک شیڈول کے مسائل کی وجہ سے بے یقینی کا شکار ہے۔یہ یقین دہانی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے واشنگٹن روانگی سے دو روز قبل کرائی ہے جہاں اسحاق ڈار کی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاسوں کے موقع پر ایک اعلیٰ سطح کانفرنس میں شرکت متوقع ہے۔
ورلڈ بینک گروپ اور گروپ 7 کا ایک اہم رکن برطانیہ کانفرنس کی مشترکہ صدارت کریں گے، اعلیٰ سطح کانفرنس کا مقصد پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے دنیا سے مالی امداد حاصل کرنا ہے۔اس کانفرنس کا اہتمام پیرس میں ہونے والی بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس سے پہلے کیا گیا ہے اس کانفرنس میں میزبان فرانسیسی صدر پاکستان کے لیے امداد اکٹھا کریں گے۔
پاکستان اگلے سال جنوری تک 450 ملین ڈالر کے بجٹ سپورٹ قرض کی منظوری کا خواہاں ہے۔ 450 ملین ڈالر قرض اور 600 ملین ڈالر کے دوسرے پروگرام کیلیے عالمی بینک پیشگی شرائط کو بیک وقت نافذ کرنے پر زور دے رہا ہے، جو کہ سخت ہیں اور حکومت کے سیاسی مفادکو مزید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
قرض کی شرائط ملک کے مالیاتی اور میکرو اکنامک فریم ورک سے متعلق ہیں، جس میں صوبے بھی شامل ہیں۔ قرض کا مقصد بجلی کی پیداواری لاگت کو کم کرنے، تقسیم میں کارکردگی کو بہتر بنانے اور بجلی کی سبسڈی کو دوبارہ ہدف بنانے کے ذریعے گردشی قرض کو کم کرنا ہے۔
پی ٹی آئی کی پچھلی حکومت نے بجلی کی خریداری کے معاہدوں (پی پی اے) کو دوبارہ سامنے لانیکا عہد کیا تھا، جن میں چین کے ساتھ دستخط کیے گئے تھے۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ عالمی بینک اس شرط پر عمل درآمد کے لیے کچھ وقت دے سکتا ہے، بشرطیکہ پاکستان بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی مالی حالت کو بہتر بنانے اور اس سال جون تک 2.3 ٹریلین(23 کھرب) روپے کے گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے دیگر اقدامات کرے۔پاکستان کو پاور سیکٹر میں کچھ اصلاحات کے لیے کم از کم ارادہ ظاہر کرنا ہوگا اور اشیا اور خدمات پر سیلز ٹیکس کے انضمام پر اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے یہ ایک ایسا کام جس کے لیے مرکز اور صوبائی حکومتوں کی رضامندی درکار تھی۔
ذرائع نے کہا کہ اگر حکومت جی ایس ٹی انضمام اور پاور سیکٹر کی چند اصلاحات کی شرائط کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو عالمی بینک قرضوں کی منظوری کو دوگنا کرنے پر راضی ہو سکتا ہے ۔
وزارت خزانہ طویل عرصے سے یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ RISE-II کا قرض آخری مراحل میں ہے لیکن پھر بھی کچھ کارروائیاں زیر التوا ہیں۔ اس قرض کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مرکز اور چاروں صوبائی حکومتوں کے درمیان ملک بھر میں اشیاء اور خدمات پر جی ایس ٹی کے ہم آہنگی پر اتفاق رائے کا فقدان ہے۔
توقع ہے کہ اسحق ڈار پیر کو نیشنل ٹیکس کونسل (این ٹی سی) کے اجلاس کی صدارت کریں گے ۔اس بار مسئلہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا ہے جو خدمات کی تعریف کو قبول نہیں کر رہا۔
علاوہ ازیں وزیرخزانہ اسحق ڈار نے کہاکہ موجودہ حکومت ملک میں برطانیہ سمیت غیرملکی سرمایہ کاری کے فروغ اور معیشت کی پائیداربنیادوں پرنموکیلیے اقدامات کررہی ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق ان خیالات کا اظہار انھوں نے گذشتہ روز یہاں ملاقات کیلیے آئے ہوئے پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنرکرسٹیان ٹرنر سے گفتگو کرتے ہوئے کیا،ملاقات میں دوطرفہ دلچسپی کے امورپرتبادلہ خیال کیاگیا۔
گزشتہ روز وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بن ہساین کی سربراہی میں وفد سے ملاقات کی اور واشنگٹن میں اپنی آئندہ ملاقاتوں پر تبادلہ خیال کیا۔
وزیر خزانہ نے عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کے ساتھ ان اقتصادی چیلنجوں پر تبادلہ خیال کیا۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت ان مسائل سے بخوبی آگاہ ہے اور ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے۔
ناجی بین ہساین نے ڈار کو پاکستان کے ساتھ عالمی بینک کے مستقبل کے تعاون کے بارے میں آگاہ کیا۔انہوں نے وزیر خزانہ کو بتایا کہ عالمی بینک پاکستان کی مددکے لیے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہنگامی آپریشنز کیلیے اپنے موجودہ مالیاتی منصوبوں سے2 بلین ڈالر کے فنڈز مختص کر رہا ہے۔ ہنگامی صورتحال کی وجہ سے اس سال تقریباً 1.5 بلین ڈالر کے فنڈز جمع کیے جائیں گے۔
ناجی بین ہساین نے کہا کہ انھوں نے ہیڈ کوارٹرز سے درخواست کی ہے کہ وہ اضافی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے رعایتی قرضے میں پاکستان کے حصے کی تقسیم کو آگے بڑھائے۔
وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا، "وزیر خزانہ نے ناجی بین ہساین اور ان کی ٹیم کو پروگراموں کی بروقت تکمیل کے لیے پیشگی اقدامات کی یقین دہانی کرائی" ہے۔ اس سے عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس کیساتھ ملاقات میں مراعات حاصل کرنے میں مدد ملسکتی ہے لیکن IMF کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے ساتھ ڈار کی ملاقات ابھی تک شیڈول کے مسائل کی وجہ سے بے یقینی کا شکار ہے۔یہ یقین دہانی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے واشنگٹن روانگی سے دو روز قبل کرائی ہے جہاں اسحاق ڈار کی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاسوں کے موقع پر ایک اعلیٰ سطح کانفرنس میں شرکت متوقع ہے۔
ورلڈ بینک گروپ اور گروپ 7 کا ایک اہم رکن برطانیہ کانفرنس کی مشترکہ صدارت کریں گے، اعلیٰ سطح کانفرنس کا مقصد پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے دنیا سے مالی امداد حاصل کرنا ہے۔اس کانفرنس کا اہتمام پیرس میں ہونے والی بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس سے پہلے کیا گیا ہے اس کانفرنس میں میزبان فرانسیسی صدر پاکستان کے لیے امداد اکٹھا کریں گے۔
پاکستان اگلے سال جنوری تک 450 ملین ڈالر کے بجٹ سپورٹ قرض کی منظوری کا خواہاں ہے۔ 450 ملین ڈالر قرض اور 600 ملین ڈالر کے دوسرے پروگرام کیلیے عالمی بینک پیشگی شرائط کو بیک وقت نافذ کرنے پر زور دے رہا ہے، جو کہ سخت ہیں اور حکومت کے سیاسی مفادکو مزید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
قرض کی شرائط ملک کے مالیاتی اور میکرو اکنامک فریم ورک سے متعلق ہیں، جس میں صوبے بھی شامل ہیں۔ قرض کا مقصد بجلی کی پیداواری لاگت کو کم کرنے، تقسیم میں کارکردگی کو بہتر بنانے اور بجلی کی سبسڈی کو دوبارہ ہدف بنانے کے ذریعے گردشی قرض کو کم کرنا ہے۔
پی ٹی آئی کی پچھلی حکومت نے بجلی کی خریداری کے معاہدوں (پی پی اے) کو دوبارہ سامنے لانیکا عہد کیا تھا، جن میں چین کے ساتھ دستخط کیے گئے تھے۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ عالمی بینک اس شرط پر عمل درآمد کے لیے کچھ وقت دے سکتا ہے، بشرطیکہ پاکستان بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی مالی حالت کو بہتر بنانے اور اس سال جون تک 2.3 ٹریلین(23 کھرب) روپے کے گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے دیگر اقدامات کرے۔پاکستان کو پاور سیکٹر میں کچھ اصلاحات کے لیے کم از کم ارادہ ظاہر کرنا ہوگا اور اشیا اور خدمات پر سیلز ٹیکس کے انضمام پر اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے یہ ایک ایسا کام جس کے لیے مرکز اور صوبائی حکومتوں کی رضامندی درکار تھی۔
ذرائع نے کہا کہ اگر حکومت جی ایس ٹی انضمام اور پاور سیکٹر کی چند اصلاحات کی شرائط کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو عالمی بینک قرضوں کی منظوری کو دوگنا کرنے پر راضی ہو سکتا ہے ۔
وزارت خزانہ طویل عرصے سے یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ RISE-II کا قرض آخری مراحل میں ہے لیکن پھر بھی کچھ کارروائیاں زیر التوا ہیں۔ اس قرض کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مرکز اور چاروں صوبائی حکومتوں کے درمیان ملک بھر میں اشیاء اور خدمات پر جی ایس ٹی کے ہم آہنگی پر اتفاق رائے کا فقدان ہے۔
توقع ہے کہ اسحق ڈار پیر کو نیشنل ٹیکس کونسل (این ٹی سی) کے اجلاس کی صدارت کریں گے ۔اس بار مسئلہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا ہے جو خدمات کی تعریف کو قبول نہیں کر رہا۔
علاوہ ازیں وزیرخزانہ اسحق ڈار نے کہاکہ موجودہ حکومت ملک میں برطانیہ سمیت غیرملکی سرمایہ کاری کے فروغ اور معیشت کی پائیداربنیادوں پرنموکیلیے اقدامات کررہی ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق ان خیالات کا اظہار انھوں نے گذشتہ روز یہاں ملاقات کیلیے آئے ہوئے پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنرکرسٹیان ٹرنر سے گفتگو کرتے ہوئے کیا،ملاقات میں دوطرفہ دلچسپی کے امورپرتبادلہ خیال کیاگیا۔