سیلاب گزرگیا لیکن اپنے نشان چھوڑ گیا
سیلاب کے بعد اب بدلتے موسم، بیماریوں اور پریشانیوں سے نیا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے
سیلاب کو گزرے اب ایک مہینے سے زیادہ ہوگیا لیکن اس کی تباہ کاریوں سے بلوچستان اب تک سنبھل نہیں سکا ہے۔ بلوچستان میں اس وقت بہت پریشانی کی صورتحال ہے، کیونکہ صاف پانی کی کمی ہے اور گندے پانی کی وجہ سے وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں۔ دوسری جانب صحت کا نظام بھی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔
اندازے کے مطابق بلوچستان کے 700 سے زائد بنیادی صحت کے مراکز سیلاب سے متاثر ہوئے، جبکہ 280 کے قریب بنیادی صحت کے مراکز کی عمارتوں کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ جس کے باعث یہ مراکز فنکشنل نہیں رہے۔ اسی وجہ سے سیلاب متاثرین کی صحت کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔
اس سیلاب نے عورتوں اور بچوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان کو نہ صرف موسم کی سختیوں کا سامنا ہے بلکہ مختلف وبائی امراض، غذائی قلت اور صحت کی ناکافی سہولیات کا بھی سامنا ہے۔
سیلاب متاثرین کو ملیریا، ڈائیریا، گیسٹرو اور مختلف جلدی بیماریوں نے نشانہ بنا ڈالا ہے۔ ملیریا اور ڈائیریا کی وجہ سے بچوں کی اموات رپورٹ ہورہی ہیں۔ اب تک 107 بچوں کی اموات رپورٹ ہوچکی ہیں، جبکہ 80 خواتین کی اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر نصیرآباد ڈویژن ہوا ہے۔ جس میں جھل مگسی، نصیرآباد، جعفرآباد، صحبت پور اور کچھی ڈسٹرکٹ ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ متاثر صحبت پور ہے جبکہ دوسرے نمبر پر نصیرآباد ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس وقت بھی اکثر علاقوں میں پانی ٹشہرا ہوا ہے۔ لوگ اب بھی کھلے آسمان تلے سڑکوں پر موجود ہیں، تاہم جہاں جہاں پانی اترا ہے تو وہاں سے لوگ گھروں میں گئے ہیں لیکن وہ بھی بہت کم تعداد ہے۔ کیونکہ پانی خشک ہونے کے بعد بھی اس کی نمی خشک ہونے میں بہت وقت لگے گا۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں موجود رضاکاروں کے مطابق صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ حکومتی سطح پر کیے جانے والے اقدامات تاحال موثر نہیں ہیں۔ امدادی کارروائیاں بہت سست ہیں۔ صحبت پور کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق صحبت پور کی کل آبادی دو لاکھ انیس ہزار ہے اور ایک لاکھ نوے ہزار (نوے فیصد) آبادی متاثر ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق ان کی جانب سے چھ ٹینٹ سٹی بنائے گئے ہیں، جبکہ مختلف این جی اوز، ایف سی وغیرہ کے ٹینٹ ملاکر یہ تعداد اٹھارہ ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق وہ متاثرین تک صاف پینے کا پانی پہنچارہے ہیں اور راشن بھی دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق میڈیکل کیپمس بھی کام کررہے ہیں، جبکہ ملیریا کی اسکریننگ بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ ان کے مطابق کیمپس میں خواتین کےلیے پردے کا انتظام ہے۔ تاہم اس کے برعکس متاثرین نے ضلعی اتنظامیہ کے دعوے کو یکسر مسترد کردیا ہے۔
عرفان لاشاری جن کا تعلق گاؤں سردار لاشاری ضلع صحبت پور سے ہے، کا بتانا ہے کہ ہماری چاولوں کی فصل تباہ ہوگئی، گھر بھی گرگئے،اس لیے ہم سڑک پر آگئے۔ جہاں ایف سی نے راشن دیا تھا مگر وہ بھی کسی کو ملا کسی کو نہیں۔ کوئی ایم پی اے نہیں آیا، نہ ہی کوئی ڈی سی وغیرہ، نہ ہی کمشنر پوچھنے آیا تو ہم مجبوری میں یہاں سڑک پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سردار خان لاشاری گوٹھ میں گندا پانی اب تک کھڑا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری عورتیں پردے کرتی تھیں مگر ہم سڑک پر ہیں، یہاں کیسے پردہ کریں۔
ظہیر احمد اکبر خان کھوسہ گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا بتانا ہے کہ صاف پانی ہے ہی نہیں، گندے پانی سے برتن تک دھو رہے ہیں۔ ہمارے بچے ملیریا سے مررہے ہیں، جبکہ ہماری عورتیں شدید پریشان ہیں۔
سیلابی صورتحال سے متاثر جعفر آباد کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق جعفرآباد کی 513860 کی آبادی میں سے 3900000 کی آبادی سیلاب سے متاثر ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق متاثرین کےلیے جھٹ پٹ میں تین، اوستہ محمد میں تین اور گنداخہ میں دو ریلیف کیمپس کا انتظام کیا گیا ہے۔ جہاں کل 1200 خاندان موجود ہیں۔ جن کےلیے ضلعی حکومت کی جانب سے دو وقت کا کھانا، پینے کا پانی اور میڈیکل کیمپس کا انتظام کیا گیا ہے، جبکہ ملیریا آؤٹ بریک 55 فیصد سے بھی زیادہ ہے جبکہ 50000 مچھر دانیوں کی ضرورت ہے۔ گنداخہ جعفرآباد میں موجود خاتون رضاکار نے صورتحال کی سنگینی کے حوالے سے بتایا کہ خواتین جو اپنے بچوں کے ساتھ سڑکوں پر ہیں، ان کے پاس کوئی پرائیویسی نہیں ہے حتیٰ کہ ان کے پاس واش روم کی پرائیویسی تک نہیں ہے۔
کچھی بولان کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق کچھی بولان کی آبادی تین لاکھ نو ہزار ہے جبکہ 80 فیصد آبادی متاثر ہے۔ کچھی بولان کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق یہاں سات خیمہ بستیاں بنائی گئی ہیں جبکہ شہر مچھ کی پانچ سرکاری عمارتوں میں 1500 کے قریب سیلاب متاثرین موجود ہیں۔ کچھی بولان کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق یہاں ملیریا کے کیسز باقی سیلاب متاثرہ علاقوں سے کم ہیں۔ کچھی بولان کا زمینی راستہ بحال ہوگیا ہے، بجلی جہاں جہاں موجود نہیں تھی وہ بحال ہوگئی ہے۔ جبکہ این جی اوز بھی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کررہی ہیں۔ جلد ہی متاثرین کی بحالی کا کام بھی جلد شروع ہوگا۔
وبائی امراض میں اس وقت ملیریا سرفہرست ہے جس کی ویکسین بھی موجود نہیں ہے۔ صحبت پور میں اس وقت ملیریا متاثرین کی تعداد 80 فیصد تک ہے۔ جبکہ نصیر آباد، جعفر آباد میں 56 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ملیریا سے خواتین اور بچوں کی صحت شدید متاثر ہے۔ ملیریا کی وجہ سے اموات بھی مسلسل رپورٹ ہورہی ہیں۔ ملیریا بخار کی وجہ سے خواتین کی زچگی کے عمل کو پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ صحبت پور سول اسپتال میں زچگی کےلیے نہ ہی عملہ اور نہ ہی طبی امداد موجود ہے۔ یہی سنگین صورتحال جعفرآباد کی بھی ہے۔
خواتین کو سائیکو سوشل ایشوز کا بھی سامنا ہے، کیونکہ خواتین اپنے بچوں کو وبائی بیماریوں سے مرتے دیکھ رہی ہیں۔ کہیں ان کے بچے بھوک سے رو رہے ہیں تو کہیں جلدی بیماریوں نے ان کو اور بچوں کو پریشان کررکھا ہے۔ بلوچستان کی سیلاب متاثرہ خواتین کے سامنے جسمانی اور ذہنی مسائل کا انبار لگا ہوا ہے۔ اگر جسمانی طور پر ان کو غذائی قلت، وبائی امراض، ماہواری کے دنوں کی پریشانیاں، اسقاط حمل، حمل میں پیچیدگیاں اور علیحدہ اور مناسب واش رومز کے نہ ہونے کا سامنا ہے، تو دوسری جانب ذہنی طور پر غیر محفوظ ، احساس شرمندگی، بے گھری اور شدید جذباتی دباؤ کا سامنا ہے۔ بچوں کو غذائی قلت، ملیریا، گیسٹرو، مختلف وبائی امراض سمیت جلدی بیماریوں کا سامنا بھی ہے۔ ذہنی طور پر بچے بھی بہت زیادہ خوف زدہ ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچستان کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں بحالی اور آباد کاری کے کام میں تیزی لائی جائے۔ جبکہ خواتین اور بچوں کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کو اس وقت حکومت وقت اور ذمے داروں کی مزید خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، کیونکہ سیلاب کے بعد اب بدلتے موسم، بیماریوں اور پریشانیوں سے نیا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اندازے کے مطابق بلوچستان کے 700 سے زائد بنیادی صحت کے مراکز سیلاب سے متاثر ہوئے، جبکہ 280 کے قریب بنیادی صحت کے مراکز کی عمارتوں کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ جس کے باعث یہ مراکز فنکشنل نہیں رہے۔ اسی وجہ سے سیلاب متاثرین کی صحت کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔
اس سیلاب نے عورتوں اور بچوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان کو نہ صرف موسم کی سختیوں کا سامنا ہے بلکہ مختلف وبائی امراض، غذائی قلت اور صحت کی ناکافی سہولیات کا بھی سامنا ہے۔
سیلاب متاثرین کو ملیریا، ڈائیریا، گیسٹرو اور مختلف جلدی بیماریوں نے نشانہ بنا ڈالا ہے۔ ملیریا اور ڈائیریا کی وجہ سے بچوں کی اموات رپورٹ ہورہی ہیں۔ اب تک 107 بچوں کی اموات رپورٹ ہوچکی ہیں، جبکہ 80 خواتین کی اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر نصیرآباد ڈویژن ہوا ہے۔ جس میں جھل مگسی، نصیرآباد، جعفرآباد، صحبت پور اور کچھی ڈسٹرکٹ ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ متاثر صحبت پور ہے جبکہ دوسرے نمبر پر نصیرآباد ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس وقت بھی اکثر علاقوں میں پانی ٹشہرا ہوا ہے۔ لوگ اب بھی کھلے آسمان تلے سڑکوں پر موجود ہیں، تاہم جہاں جہاں پانی اترا ہے تو وہاں سے لوگ گھروں میں گئے ہیں لیکن وہ بھی بہت کم تعداد ہے۔ کیونکہ پانی خشک ہونے کے بعد بھی اس کی نمی خشک ہونے میں بہت وقت لگے گا۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں موجود رضاکاروں کے مطابق صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ حکومتی سطح پر کیے جانے والے اقدامات تاحال موثر نہیں ہیں۔ امدادی کارروائیاں بہت سست ہیں۔ صحبت پور کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق صحبت پور کی کل آبادی دو لاکھ انیس ہزار ہے اور ایک لاکھ نوے ہزار (نوے فیصد) آبادی متاثر ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق ان کی جانب سے چھ ٹینٹ سٹی بنائے گئے ہیں، جبکہ مختلف این جی اوز، ایف سی وغیرہ کے ٹینٹ ملاکر یہ تعداد اٹھارہ ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق وہ متاثرین تک صاف پینے کا پانی پہنچارہے ہیں اور راشن بھی دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق میڈیکل کیپمس بھی کام کررہے ہیں، جبکہ ملیریا کی اسکریننگ بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ ان کے مطابق کیمپس میں خواتین کےلیے پردے کا انتظام ہے۔ تاہم اس کے برعکس متاثرین نے ضلعی اتنظامیہ کے دعوے کو یکسر مسترد کردیا ہے۔
عرفان لاشاری جن کا تعلق گاؤں سردار لاشاری ضلع صحبت پور سے ہے، کا بتانا ہے کہ ہماری چاولوں کی فصل تباہ ہوگئی، گھر بھی گرگئے،اس لیے ہم سڑک پر آگئے۔ جہاں ایف سی نے راشن دیا تھا مگر وہ بھی کسی کو ملا کسی کو نہیں۔ کوئی ایم پی اے نہیں آیا، نہ ہی کوئی ڈی سی وغیرہ، نہ ہی کمشنر پوچھنے آیا تو ہم مجبوری میں یہاں سڑک پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سردار خان لاشاری گوٹھ میں گندا پانی اب تک کھڑا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری عورتیں پردے کرتی تھیں مگر ہم سڑک پر ہیں، یہاں کیسے پردہ کریں۔
ظہیر احمد اکبر خان کھوسہ گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا بتانا ہے کہ صاف پانی ہے ہی نہیں، گندے پانی سے برتن تک دھو رہے ہیں۔ ہمارے بچے ملیریا سے مررہے ہیں، جبکہ ہماری عورتیں شدید پریشان ہیں۔
سیلابی صورتحال سے متاثر جعفر آباد کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق جعفرآباد کی 513860 کی آبادی میں سے 3900000 کی آبادی سیلاب سے متاثر ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق متاثرین کےلیے جھٹ پٹ میں تین، اوستہ محمد میں تین اور گنداخہ میں دو ریلیف کیمپس کا انتظام کیا گیا ہے۔ جہاں کل 1200 خاندان موجود ہیں۔ جن کےلیے ضلعی حکومت کی جانب سے دو وقت کا کھانا، پینے کا پانی اور میڈیکل کیمپس کا انتظام کیا گیا ہے، جبکہ ملیریا آؤٹ بریک 55 فیصد سے بھی زیادہ ہے جبکہ 50000 مچھر دانیوں کی ضرورت ہے۔ گنداخہ جعفرآباد میں موجود خاتون رضاکار نے صورتحال کی سنگینی کے حوالے سے بتایا کہ خواتین جو اپنے بچوں کے ساتھ سڑکوں پر ہیں، ان کے پاس کوئی پرائیویسی نہیں ہے حتیٰ کہ ان کے پاس واش روم کی پرائیویسی تک نہیں ہے۔
کچھی بولان کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق کچھی بولان کی آبادی تین لاکھ نو ہزار ہے جبکہ 80 فیصد آبادی متاثر ہے۔ کچھی بولان کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق یہاں سات خیمہ بستیاں بنائی گئی ہیں جبکہ شہر مچھ کی پانچ سرکاری عمارتوں میں 1500 کے قریب سیلاب متاثرین موجود ہیں۔ کچھی بولان کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق یہاں ملیریا کے کیسز باقی سیلاب متاثرہ علاقوں سے کم ہیں۔ کچھی بولان کا زمینی راستہ بحال ہوگیا ہے، بجلی جہاں جہاں موجود نہیں تھی وہ بحال ہوگئی ہے۔ جبکہ این جی اوز بھی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کررہی ہیں۔ جلد ہی متاثرین کی بحالی کا کام بھی جلد شروع ہوگا۔
وبائی امراض میں اس وقت ملیریا سرفہرست ہے جس کی ویکسین بھی موجود نہیں ہے۔ صحبت پور میں اس وقت ملیریا متاثرین کی تعداد 80 فیصد تک ہے۔ جبکہ نصیر آباد، جعفر آباد میں 56 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ملیریا سے خواتین اور بچوں کی صحت شدید متاثر ہے۔ ملیریا کی وجہ سے اموات بھی مسلسل رپورٹ ہورہی ہیں۔ ملیریا بخار کی وجہ سے خواتین کی زچگی کے عمل کو پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ صحبت پور سول اسپتال میں زچگی کےلیے نہ ہی عملہ اور نہ ہی طبی امداد موجود ہے۔ یہی سنگین صورتحال جعفرآباد کی بھی ہے۔
خواتین کو سائیکو سوشل ایشوز کا بھی سامنا ہے، کیونکہ خواتین اپنے بچوں کو وبائی بیماریوں سے مرتے دیکھ رہی ہیں۔ کہیں ان کے بچے بھوک سے رو رہے ہیں تو کہیں جلدی بیماریوں نے ان کو اور بچوں کو پریشان کررکھا ہے۔ بلوچستان کی سیلاب متاثرہ خواتین کے سامنے جسمانی اور ذہنی مسائل کا انبار لگا ہوا ہے۔ اگر جسمانی طور پر ان کو غذائی قلت، وبائی امراض، ماہواری کے دنوں کی پریشانیاں، اسقاط حمل، حمل میں پیچیدگیاں اور علیحدہ اور مناسب واش رومز کے نہ ہونے کا سامنا ہے، تو دوسری جانب ذہنی طور پر غیر محفوظ ، احساس شرمندگی، بے گھری اور شدید جذباتی دباؤ کا سامنا ہے۔ بچوں کو غذائی قلت، ملیریا، گیسٹرو، مختلف وبائی امراض سمیت جلدی بیماریوں کا سامنا بھی ہے۔ ذہنی طور پر بچے بھی بہت زیادہ خوف زدہ ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچستان کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں بحالی اور آباد کاری کے کام میں تیزی لائی جائے۔ جبکہ خواتین اور بچوں کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کو اس وقت حکومت وقت اور ذمے داروں کی مزید خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، کیونکہ سیلاب کے بعد اب بدلتے موسم، بیماریوں اور پریشانیوں سے نیا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔