پاکستانی نوجوانوں کی کارپوریٹ اہلیت

کیا پاکستانیوں کی اہلیت اتنی ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں خود کو منوا سکیں؟

پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی ایک موقع بھی ہے اور چیلنج بھی۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس میں نوجواںوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مگر اس کے باوجود پاکستان ان ملکوں سے بہت پیچھے ہے جو اس کے بعد آزاد ہوئے اور انہوں نے پاکستان سے ترقی کا منصوبہ حاصل کیا، اور وہ ترقی کی ریس میں پاکستان کو پیچھے چھوڑتے چلے گئے۔ مگر آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر آج بھی ہم اپنی ترقی کی راہیں تلاش کررہے ہیں۔

جب بھی پاکستان کے مستقبل کی بات ہوتی ہے تو اس میں پاکستان کی نوجوان آبادی کی بات ضرور ہوتی ہے۔ اور یہی آبادی ہے جس نے پاکستان کی مستقبل میں قیادت کرنی ہے۔ اس وقت پاکستان کی 60 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے۔

ملک کی اکثریت آبادی نوجوانوں کی ہونے کے باوجود تعلیم کی صورتحال بہت زیادہ اچھی نہیں ہے۔ اسی لیے وفاقی وزیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل نے لیڈرز اِن اسلام اباد سے خطاب میں کہا کہ دنیا میں ہر وہ 10 بچے جو اسکول سے باہر ہیں، اس میں سے ایک پاکستانی ہے۔ پاکستان میں سرکاری اور نجی شعبہ دونوں ہی بنیادی تعلیم دیننے میں ناکام رہے ہیں اور 50 فیصد پاکستانی بچے اسکول سے محروم ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اس کےلیے ایک موقع بھی ہے اور ایک چیلنج بھی۔ یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ اس کےلیے کیا اقدامات کرتا ہے۔ دنیا میں اس وقت بہت سے ممالک کو اپنی منفی شرح پیدائش کی وجہ سے آبادی کی قلت کا سامنا ہے اور انہیں اپنی معیشتوں کو رواں دواں رکھنے کےلیے افرادی قوت کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق آئندہ تیس سال کے اندر دنیا کے 20 ملکوں کی آبادی میں 22 فیصد سے لے کر 10 فیصد تک کمی واقع ہوگی، جس میں سرفہرست بلغاریہ، لیتھونیا، لیٹویا، یوکرین شامل ہیں، جن کی آبادی 20 فیصد سے زائد کم ہوگی۔ جبکہ پرتگال، کیوبا اور اٹلی کی آبادی 10 فیصد کی شرح سے کم ہوگی۔

دوسری طرف پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اور اندازے کے مطابق 2050 تک پاکستان کی آبادی 38 کروڑ ہوجائے گی۔ اس بڑھتی ہوئی آبادی کےلیے کیا ملازمت کے مواقع موجود ہیں یا ہم نے تیاری کی ہے؟ کیا پاکستانیوں کی اہلیت اتنی ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں خود کو منوا سکیں؟

لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ میں نوجوانوں کےلیے موجود مواقع، اہلیت اور درکار تعلیمی قابلیت پر مخلتف بڑی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز نے اظہار خیال کیا۔ اس تحریر میں ان کارپوریٹ لیڈرز کی سوچ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نوجوان جو تعلیم حاصل کررہے ہیں، کیا ان کےلیے صرف ڈگری ہی کافی ہے یا پھر انہیں ایک اچھا پروفیشنل بننے کےلیے اور کون کون سی صلاحیتوں کی ضرورت ہوگی۔

گزشتہ چالیس سال سے امریکا کی سلیکون ویلی میں خدمات فراہم کرنے والے پاکستانی نژاد امریکی زین جیونجی کا کہنا تھا کہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کیا لاہور یا پاکستان سلیکون ویلی بن سکتا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ پاکستان سلیکون ویلی سے بہتر ہوسکتا ہے، کیونکہ پاکستانی بہت بڑے جگاڑی ہیں۔ ایسے کام جو آسانی سے نہیں ہوپاتے، پاکستانی جگاڑ کے ذریعے کرسکتے ہیں۔ اس لفظ کا مطلب اتنا بڑا ہے کہ اس کے ذریعے ہم کچھ بھی تخلیق کرسکتے ہیں۔ جگاڑ کو انگریزی میں شارٹ کٹ کہہ سکتے ہیں۔ پاکستانیوں کو جگاڑ سے بڑھ کر درجہ کمال پر کام کو کرنا ہوگا اور یہی ان کی ترقی کا سبب بنے گا۔

مگر کیا پاکستان میں جو بچے اور نوجوان تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ بھی جگاڑی تعلیم تو حاصل نہیں کررہے یا وہ خود کو معیاری پروفیشنل میں تبدیل کررہے ہیں؟ کیا پاکستانی گریجویٹس اس قابل ہیں کہ وہ براہ راست کارپوریٹ سیکٹر میں ضم ہوسکیں؟ اس حوالے سے بزنس سمٹ میں مخلتف بڑے کارپوریٹ اداروں کے چیف ایگزیکٹوز کے درمیان مذاکرہ ہوا۔ اس میں ایس اینڈ پی گلوبل پاکستان کے سربراہ مجیب ظہیر کا کہنا تھا کہ دنیا میں ٹیلنٹ اور صلاحیت کا معیار تیزی سے تبدیل ہورہا ہے اور اس تبدیل ہوتے ماحول میں ادارے اور کارپوریشن خود کو ڈھالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کارپوریٹس کو ایسے لوگ درکار ہیں جو تیزی سے کام سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور جلد ازجلد ایک کام سے دوسری ذمے داری پر منتقل ہوسکیں، یعنی کثیرالجہت کام کرنے کےلیے تیار ہوں۔


ہنرمند افرادی قوت کی کمی صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے۔ مگر پاکستان نے کورونا وبا کے دوران کاروباری بحالی سے اپنے مقام کو بہتر بنایا ہے۔ کورونا میں جہاں دیگر ممالک میں لوگ ملازمت سے فارغ ہورہے تھے، وہیں پاکستان کی معیشت میں ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہورہے تھے۔ مگر اس کے باوجود جس قدر ہنرمند افراد کی ہمیں ضرورت ہے وہ دستیاب نہیں۔ ملازمت کے دستیاب مواقع کی مارکیٹ کو پُر کرنے کےلیے نوجوانوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تربیت دینے کی ضرورت ہے۔

موبی لنک بینک کے سربراہ غضنفر اعظم کا کہنا تھا کہ جنریشن زی (موجودہ صدی کے آغاز سے 2010 تک پیدا ہونے والے بچے) کی توقعات کے مطابق کام، خدمات، ملازمت اور تعلیم دینے میں ناکام رہے ہیں۔ نوجوان نسل کے ساتھ کیسا سلوک ہورہا ہے، یہ جاننے کےلیے سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات اور پاکستان کی مجموعی آبادی کی ایکسپورٹ پر نظر ڈال کر علم ہوجاتا ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کی تعداد 90 لاکھ سے 1 کروڑ ہے، جو کہ اپنی آمدنی کا ایک قلیل حصہ پاکستان بھیجتے ہیں جو 30 ارب ڈالر سے تجاوز کرجاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ملک کے اندر رہنے والے 22 کروڑ عوام کی ویلیو ایڈیشن (برآمدات) سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات کے تقریباً مساوی ہے۔ جبکہ آنے والی جنریشن زی کو ملازمت اور کام کے مواقع دینے کےلیے خصوصی تیاری کی ضرورت ہے۔

مذاکرے کے میزبان اور اے سی سی اے پاکستان کے سربراہ سجید اسلم نے اس بات کو ایک دوسرے انداز سے پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں افراد کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا ہوگا۔ پاکستان کی آبادی 2.4 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے مگر اس حوالے سے مقامی پیداوار (جی ڈی پی) میں فی کس تناسب میں اضافے کے بجائے کمی ہورہی ہے۔ یعنی پاکستانی افرادی قوت کی کارکردگی اور پیداواری صلاحیت میں اضافے کے بجائے کمی ہورہی ہے۔ پاکستان میں بچت کی شرح بہت کم ہے۔ اور بچت کو فروغ دینے کےلیے میوچل فنڈ انڈسٹری بہت اہم ہے۔ میزان میوچل فنڈ کے سربراہ محمد شعیب کا کہنا ہے کہ اداروں کے کام کرنے کا طریقہ تبدیل ہوگیا ہے۔ ایسے ادارے جو گزشتہ 10 سال سے کامیاب ہیں، وہ آئندہ دس سال تک کامیاب رہیں گے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ کیوںکہ کام کرنے کا ماحول اور ٹیکنالوجی تبدیل ہورہے ہیں۔ کوڈیک، نوکیا، بلیک بیری سمیت ایک لمبی فہرست ہے بڑے بڑے اداروں کی جو وقت کے ساتھ معدوم ہوگئے۔

پاکستان میں 14 کروڑ افراد 30 سال سے کم اور 12 کروڑ 30 لاکھ افراد 23 سال سے کم عمر ہیں۔ اور یہی آبادی ہماری مستقبل کی صارف ہوگی۔ ہماری ٹیم نوجوان ہے، ہمارا 60 فیصد اسٹاف 23 سے 30 سال کی عمر کا ہے۔ نوجوانوں کو ادارے کے ساتھ ترقی اور آگے بڑھنے کے مواقع دینا ہوں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو وہ ادارے کو بہت جلد چھوڑ جائیں گے اور ادارے کی ترقی متاثر ہوگی۔

محمد شعیب کا کہنا تھا کہ ٹیلنٹ کو حاصل کرنے کا طریقہ کار تبدیل ہوگیا ہے۔ ہاورڈ بزنس اسکول نے ہیکنگ کے ماہرین کو کوڈرز میں تبدیل کیا ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اب ملازمت ڈگری پر نہیں اہلیت پر ملے گی۔

کارپوریٹ سیکٹر میں کام کرنے کےلیے انگریزی زبان کی بہت اہمیت ہے اور اب تو بڑے بڑے نجی تعلیمی ادارے ایسے گریجویٹس تیار کررہے ہیں جو اردو زبان سے نابلد ہیں۔ ان لوگوں کو ہاتھوں ہاتھ کارپوریٹس میں جگہ دی جاتی ہے۔ مگر کیا انگریزی زبان پر عبور کے بغیر بھی ذہین لوگ تلاش کیے جاسکتے ہیں؟ اس کا جواب اس مذاکرے میں پلینٹو کی بانی اور چیف ایگزیکٹو عائلہ مجید نے کچھ اس طرح دیا۔ ہماری کمپنی نے پاکستان کی دوسرے درجے کی جامعات کے انجینئرنگ گریجویٹس کے انٹرویو کیے اور ان لوگوں کو کمزور انگریزی کے باوجود اپنے مضمون پر دسترس اور بہترین صلاحیت کا حامل پایا۔ چھ ماہ کی انٹرن شپ کے بعد یہ نوجوان بہترین انجینئرز ہوگئے۔ اس لیے یہ ذمے داری بطور کارپوریٹ ہم پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ٹیلنٹ اور اہلیت کی تلاش کریں اور ایسا ماحول پیدا کریں جس میں ادارے کا کم ترین درجے پر کام کرنے والا ملازم اپنی رائے کا اظہار کرسکے۔

عائلہ مجید کا کہنا تھا کہ اب لوگ دس سال تک ایک ادارے میں ملازمت نہیں کریں گے بلکہ روزگار کےلیے ہمہ جہت طریقے اپنائیں گے۔ ملازمت دیتے وقت امیدواروں میں سوچ اور صلاحیتوں میں تنوع، اشتراک عمل اور ایک دوسرے سے تعاون کا جذبے کو اہمیت دی جاتی ہے۔

اس کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں پاکستانیوں کی جگاڑی صلاحیت کے حوالے سے وفاقی وزیر پٹرولیم مصدق ملک سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جگاڑ کا لفظ اس لیے استعمال کرتے ہیں کہ ہمیں مخلتف مضامین کی بنیادی تعلیم دستیاب نہیں ہے۔ فزکس کی بنیادی تعلیم نہ ہو تو میٹا فزکس کس طرح استعمال کرسکتے ہیں؟ ہمیں اپنے معاشرے میں تعلیم اور صلاحیت کو جذب کرنے کی گنجائش پیدا کرنا ہوگی۔ تعلیم پر خرچ کرنا ہوگا۔ مصدق ملک کا کہنا تھا کہ پاکستانی جو ٹھان لیں وہ کرکے رہتے ہیں۔ بھٹو نے کہا گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ اور دونوں کام ہوئے، گھاس بھی کھائی مگر ایٹم بم بھی بنایا۔

پاکستانیوں کی صلاحیت کیا ہے، دنیا اس حوالے سے اندھیرے میں ہے۔ اسی لیے دنیا اس وقت حیران رہ گئی جبکہ یورپی یونین نے 125 ملکوں کے افراد پر مشتمل ذہنی آزمائش کے مقابلے کا انعقاد کیا۔ اس مقابلے میں پاکستان کے مندوبین نے چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ اس تمام تر بحث کا خلاصہ ہے کہ پاکستانیوں کو تعلیم کے ساتھ کاروبار اور ملازمت کے مواقع فراہم کیے جائیں تو ان کی اہلیت دنیا میں کسی اور ملک کے باشندوں سے کم ثابت نہیں ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story